• 25 اپریل, 2024

’’آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
’’ہمیں دلوں کی عمارتیں بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ ہمیں اینٹ پتھر کی عمارتوں سے کیا غرض؟ …… آئندہ لوگ آئیں گے جو سنگ مرمر کی عمارتیں بنائیں گے۔ ان میں سونے کا کام کریں گے۔ یہ کام ان کے لئے رہنے دو۔آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں۔‘‘

(رپورٹ مشاورت 1927ء صفحہ 186)

اس عنوان پر کچھ لکھنے سے قبل اس میں موجود دو الفاظ دل اور عمارت کے لغوی معنوں کو جاننا ضروری ہے۔ دل جس کو قلب بھی کہتے ہیں انسانی جسم میں ایک بیضوی شکل کا اہم ترین عضو (Organ) جس پر سارے جسم کا انحصار ہوتا ہے۔ جس کا کام انسانی رگوں میں صاف خون پہنچانا ہے۔ جب تک یہ دھڑکتا ہے انسان زندہ رہتا ہے۔ اس کی حرکت بند ہونے سے انسان مرجاتا ہے۔ نیز اس کے معنوں میں حوصلہ، جرات، دلیری، ہمت، رغبت،مرکز، سخاوت اور فیاضی بھی آتے ہیں۔

جہاں تک عِمارت (ع کی زیر کے ساتھ) کا تعلق ہے ۔ فیروز اللغات کے مطابق اس کے معنی آبادی، بستی، مکان، محل، مسکن یا گھر کے ہیں۔ اس کے معنوں میں ایسی چیز جو تعمیر کی جائے بھی آتا ہے اور بیان اللسان میں ع پر زبر یعنی عَمارت کے معنی ہیں پگڑی، ٹوپی، تاج اور عُمَّارُ البیت سے مراد اہل خانہ یا گھر میں بود وباش رکھنے والے کے ہیں۔

درج بالا معنوں کے حوالہ سے اگر آج کے اداریہ کے عنوان کا احاطہ کیا جائے تو معنی یوں بنتے ہیں کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دلی خواہش تھی کہ ہماری جماعت ظاہرۃً اینٹوں ، پتھروں اور سیمنٹ سے بنی ہوئی محض ایک عمارت نہ ہو جس کے اندر احباب جماعت آرام وسکون حاصل کریں بلکہ میری جماعت ایسے دلوں سے تعمیر ہوئی ایک ایسی عمارت ہو جس میں دل ایک دوسرے کے لئے دھڑکیں۔ ایک دوسرے کو صاف ستھرا مصفّٰی خون مہیا کریں ، ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث بنیں، ایک دوسرے کو حوصلہ دیں، ان کی ہمت بڑھائیں۔ ایک دوسرے کے لئے مرکزیت قائم کریں اور مالی سخاوت یا فیاضی سے ہی مالی مدد نہ کریں بلکہ عقلی، علمی، روحانی، اخلاقی و سماجی سخاوت بھی کرتے رہیں۔ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کام کریں اور جس طرح دل جسم کے دوسرے اعضاء کی کوتاہیوں، غلطیوں کو برداشت بھی کرتا ہے۔ اسی طرح ہم میں ہر ایک کو اپنے ماحول اور معاشرہ میں برداشت بھی کرنا ہے۔

یہ وہ عمارت یا آبادی تعمیر ہوگی ۔ جس کے اندر ہم خلافت کے سایہ میں رہ کر پُرسکون ، پُر فضا ماحول میں زندگیاں بسر کریں گے۔ یہ عمارت اتنی خوبصورت، دلکش اور پُرکشش ہوگی کہ غیروں کو دیکھ کر بھلی لگے گی جیسا کہ ہمارے مخالفین ہماری خوبیوں کا ذکر کرکے ہمیں سراہتے اور اپنی محفلوں میں اس کا ذکر کرتے ہیں اور آئے روز سوشل میڈیا پر ایسے clips سننے کو ملتے رہتے ہیں اور یہی عمارت ہماری پگڑی، ٹوپی اورتاج ہے جس پر ہم فخر بھی کرتے ہیں اور ہماری شان بلند کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ (بانی ذیلی تناظیم) نے لجنہ، انصار اورخدام کی تنظیموں کے قیام کے بعد جب مجلس اطفال الاحمدیہ کی بنیاد رکھی تو آپؓ نے فرمایا کہ آج میں جماعت احمدیہ کی عمارت کی چوتھی دیوار مکمل کررہا ہوں۔ جماعت احمدیہ کی عمارت اینٹوں، گارے اور سیمنٹ سے تو نہیں بنی۔ یہاں بھی دلوں کے ملنے کی عمارت مراد ہے مخلصین اور متقیوں کے پاکیزہ گروہ کی عمارت ہے۔ جو روز بروز بڑھتے ہوئے اخلاص، نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔

’’آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں‘‘ کے الفاظ کے دھارے مختلف جہت کو نکلتے ہیں اور ایک سے زائد مضامین یہ فقرہ اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اس آرٹیکل میں دل کے لفظ پر اس کے معانی اوردلکش اسباق کا ذکر اختصار سے کیا جائے گا۔ یہ معانی و تفسیر خود ’’دلوں کی عمارت‘‘ کی طرف توجہ دلاتی جائے گی۔

آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے وہ اگر اچھا ہے تو تمام جسم اچھا ہے اور اگر وہ خراب ہے تو تمام جسم بیمار (روحانی، مادی) ہوجاتا ہے اور وہ دل ہے

(بخاری کتاب الایمان)

گویا ہر فرد جماعت کو جماعت میں مرکزی کردار کا حامل ہونا چاہیے اور اسے روحانی طور پر اس قدر صحت مند اور مضبوط ہونا چاہیے کہ تمام جماعت صحت مند رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قلب انسان بھی حجر اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 120)

اسی طرح آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ إنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ (صحیح مسلم) کہ تمام بنی آدم کے دل رحمٰن خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جو اسے الٹاتا ہے جیسا چاہتا ہے۔ اس ناطے ہر فرد جماعت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ رحمٰن خدا کی صفت کے تابع رہ کر جماعت احمدیہ میں رہے جس کے انگنت احسانات ہیں جو بغیر مانگے اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی پر کئے ہیں۔

آنحضور ﷺ نے ایمان کی تصدیق دل سے کروائی ہے (کنزالعمال) بلکہ ابن ماجہ باب فی الایمان میں ایمان کی تشریح یوں کی کہ مَعْرِفَۃٌ بِالْقَلْبِ وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْاَرْکَانِ کہ ایمان یہ ہے کہ دل سے خدا کی شناخت ہو۔ زبان سے اقرار ہو اور اس کے احکام پر عمل ہو۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کی طرف دیکھتا ہے

(مسلم)

اس حوالہ سے ہر احمدی کو اپنے اعمال حسنہ کی روشنی سے جماعت احمدیہ کے دل کو روشن رکھنا ہے اور دلوں کی ایسی عمارت تعمیر کرنی ہے۔ جس میں ایسا ایمان راسخ ہو۔ جو ذرا سی مخالفت یا کمزوری کی وجہ سے لرزا نہ جائے، وہ نہ ڈولے بلکہ فولادی میخ کی طرح مضبوط ہو۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہورہی ہو۔

جب مختلف طبائع کے انسان ایک معاشرے میں، ماحول میں اکٹھے رہ رہے ہوں تو اختلاف ہو ہی جاتے ہیں اچھائیاں تو دکھلائی دیتی ہی ہیں ایک دوسرے کی کمزوریاں بھی دکھلائی دینے لگتی ہیں۔ ان حالات میں داعی الی اللہ بن کر معاملہ فہمی ضروری ہے اور سمجھانے کے سلسلہ کا آغاز ہے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دل ہی میں بُرا منائے اور اس کمزوری کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اسے ایمان کا کمزور ترین درجہ کہا گیا ہے۔ اِسے دل کے ذریعہ جہاد کرنا کہا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الایمان) نیز ایک دوسرے کے لئے درد دل، ایثار، اخوت، برداشت، صبر، ضبط نفس، تحمل اور بردباری وغیرہ صفات سے متصف ہونا بھی ضروری ہے۔ ان تمام صفات کا تعلق انسانی دل ہی سے تو ہے۔ ان کے مقابل پر دل سے تعلق رکھنے والی نیکیاں بھی تو ہیں جن کو معاشرہ میں اپنائے رکھنا ضروری ہے تا دلوں کی عمارت قائم ہو۔

آنحضورﷺ نے التقویٰ ھٰھُنا کہہ کر تقویٰ کی آماجگاہ کو دل ہی قرار دیا ہے۔ (مسند احمد حدیث 11933) لہذا جماعتی ماحول میں دلوں کی عمارت بنانے کے لئے ہمارے دل تقویٰ سے مزین ہوں۔ تاجس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے۔ اس کا حصول آسان ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں تو بہت دُعا کرتا ہوں کہ میری جماعت ان لوگوں میں ہوجائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اُٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں۔ لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے۔ میں اور میرا خدا ان سے بیزار ہیں۔ میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کرلیں کیونکہ خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں۔ جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو۔ لیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا پھر وہ اپنے گھروں میں جاکر ایسے مفاسد میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ صرف دنیا ہی دنیا ان کے دلوں میں ہوتی ہے ۔ نہ ان کی نظر پاک ہے نہ ان کا دل پاک ہے اور نہ ان کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پیر کسی نیک کام کے لئے حرکت کرتے ہیں اور وہ اس چوہے کی طرح ہیں جو اس تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اسی میں مرتا ہے وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں۔ وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیوں کہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد 10صفحہ 61-62)

دل کا ذکر الہٰی اور شکر الہٰی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ آنحضورﷺ نے ذکر الہٰی کرنے والوں کو زندہ قرار دیا ہے۔ (بخاری کتاب الدعوات) اور آنحضورﷺ نے ایک مومن کو ایسی دُعا سکھلائی ہے جس میں ذکر، شکر اور اس کے نتائج کے طورپر حسن عبادت کا ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ) کہ اے اللہ! اپنے ذکر اور شکر کے لئے میری مدد فرما، اپنی خوبصورت عبادت کی مجھے توفیق دے۔

لہذا ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے ہمیشہ لبریز رہنے چاہیں کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا سلام کہہ کر قبول کرنے کی توفیق دی اور ان کے تابع خلافت جیسی نعمت عظمٰی سے نوازا۔ جن کی فرمانبرداری اور اطاعت بشاشت قلب سے کرنی ضروری ہے۔

پس دلوں کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے ہم تمام ممبران جماعت پر لازم ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے دلوں میں اُتاریں۔ بلکہ اس کی خوشبو سے ماحول کو معطر رکھیں۔ جس طرح مادی عمارت میں اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ پیوست ہوتی ہے اور سیمنٹ یا گارے کے ساتھ آپس میں جڑتی چلی جاتی ہے اور دیواریں، چھت بنتی چلی جاتی ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ دنیاوی عمارت کی گاہے بگاہے مرمت بھی کروائی جاتی ہے۔ رنگ و روغن اور white wash بھی کروایا جاتا ہے تاعمارت پہلے سے بڑھ کر خوبصورت لگتی رہے۔ اسی طرح روحانی عمارت، دلوں کی عمارت کے لئے روحانی سیمنٹ و گارا یعنی تقویٰ سے تمام اینٹوں یعنی اخلاق حسنہ کو جوڑتے چلے جائیں۔ اور گاہے بگاہے ان کی مرمت اور رنگ و روغن استغفار، ندامت، اللہ کے حضور جھک کر کرتے چلے جائیں اور سورۃ الحجرات آیت8 میں بیان صحابہؓ رسول ﷺ کی یہ علامت اور خوبی ہر فرد جماعت میں نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُم (الحجرات:8) کہ اللہ نے تمہارے (صحابہ) لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے سب سے پہلے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات اور ارادوں کی اصلاح کریں۔ بہت لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ سب سے ضروری یہی بات ہے کہ انسان کو اپنے قلب پر قبضہ حاصل ہو۔ جس کو دل پر قبضہ اور اختیار حاصل ہوگیا اسے سب کچھ حاصل ہوگیا۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا کہ ابو بکر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی وجہ سے فضیلت نہیں رکھتا۔ بلکہ اس چیز کی وجہ سے فضیلت رکھتا ہے۔ جو اس کے قلب میں ہے۔(نزہت الجالس مصنفہ شیخ عبدالرحمان الصفوری جلد 2 صفحہ 153 مطبوعہ مصر)۔ تو درحقیقت قلب میں پیداہونے والی چیز ہی ایسی ہے جو ظاہری اعمال پر بہت بڑی فضیلت رکھتی ہے۔ بہت لوگ نمازیں پڑھتے، روزہ رکھتے، زکوٰۃ دیتے، حج کرتے ہیں۔ لیکن انہیں کچھ نہیں حاصل ہوتا اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی نیت درست اور ارادہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک انسان ہوتا ہے جو ساری عمر جنتیوں والے کام کرتا رہتا ہے لیکن اس کے دل میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ مرتے وقت اسے ایسا دھکا لگتا ہے کہ دوزخ میں جاکر گرتا ہے۔اسی طرح ایک انسان ساری عمر ایسے کام کرتا رہتا ہے۔ جو بظاہر دوزخیوں والے ہوتے ہیں اوروہ دوزخ کےقریب پہنچ جاتا ہےلیکن اس کے قلب میں ایسی بات ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے دوزخ میں گرنے سے کھینچ لیتا اور جنت میں داخل کردیتا ہے۔ (ترمذی ابواب القدر باب ماجاء ان الاعمال بالخواتیم) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ظاہری اعمال کامیابی کے لئے کافی نہیں ہوتے۔ ظاہری اعمال خواہ انسان کتنے ہی کرے۔ اگر اس کے قلب میں نور، ایمان اور اخلاص نہ ہو تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے اور کہیں سے کہیں جا پڑتا ہے۔ اور چونکہ اس کے اعمال بہت ہی محدود اور سطحی ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا بہت کم نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں روحانی لہریں بہت گہری اور پائیدار ہوتی ہیں اور وہ قلب سے نکلتی ہیں۔ اس لئے قلب کی اصلاح سب سے ضروری اور اہم ہے۔ ایسا انسان جو ظاہری طور پر اسلام کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ مگر اس کے قلب میں کوئی ایسی لہر پیدا ہوتی ہے جو اسلام کی اشاعت میں روک ہے تو وہ اسلام کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کو ہوشیار رہنا چاہیے اس کے جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ وہ خراب ہوجائے تو اس کا سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ اور وہ اچھا ہو تو سارا جسم اچھا ہوتا ہے۔ اور وہ دل ہے (ابن ماجہ کتاب الفتن باب الوقوف عند الشبھات) ۔ پس جب کسی کے دل میں بدخیال آتے ہیں تو اس کا سارا جسم بُرا ہوجاتا ہے۔ اور جب نیک خیال آتے ہیں تو اس کا سارا جسم اچھا ہوتا ہے۔ اس لئے قلب کا صیقل کرنا اور اس میں پاکیزگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے ………… پس میں آپ لوگوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ اپنے قلوب کی اصلاح کرو تاکہ تمہارے ذریعہ اشاعت اسلام میں آسانیاں پیدا ہوں اگر ہماری جماعت کے لوگ قلب کی پوری پوری اصلاح نہ کریں گے۔ تو نہ صرف خود ایمان کے اعلیٰ درجہ کو حاصل نہ کر سکیں گے بلکہ دوسروں کے ایمان لانے میں بھی روک بنیں گے۔ آج کل کئی لوگوں نے اصلاح چندہ دینا سمجھ رکھی ہے اور وہ اپنی ہمت کے مطابق چندہ دیتے ہیں وصیتیں کرتے ہیں اور بھی کئی قسم کی قربانیاں کرتے ہیں۔ مگر بعض اوقات چھوٹی سی بات سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو ان کے ظاہری اعمال اچھے تھے لیکن ان کے دل میں ایمان مضبوطی کے ساتھ گڑا ہوا نہیں تھا۔ اور انہیں قلب کی پوری صفائی حاصل نہ تھی………… پس سب سے ضروری بات یہی ہے کہ قلب کو صاف کیا جائے اور اسے ہر قسم کی آلایشوں اور پلیدیوں سے پاک رکھا جائے۔ آپ لوگوں کو اس طرف خاص توجہ کرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ صرف ظاہری اعمال سے کام نہیں چلتا۔ اس وقت تک نمازیں، نمازیں نہیں کہلا سکتیں۔ روزہ، روزہ نہیں کہا جاسکتا، اور حج، حج نہیں ہوسکتا،زکوٰۃ، زکوٰۃ نہیں کہی جاسکتی۔ جب تک قلب صاف نہ ہو، اور قلب میں پاکیزگی پیدا نہ ہوجائے۔ اور جب قلب صاف ہوجائے تو پھر سب باتیں خود بخود صاف ہوجاتی ہیں………… اگر آج ہماری ساری جماعت اپنے قلوب کو صاف کرے اور ایسا بنالے کہ کوئی ٹھوکر، کوئی تکلیف، کوئی مشکل اور کوئی مصیبت اسے صراط مستقیم سے ہٹا نہ سکے اور دشمن تو الگ رہے اگر اپنوں سے بھی کوئی رنج اور تکلیف پہنچے تو بھی عقائد سے متزلزل نہ ہو۔ کیونکہ اس نے کسی کے لئے حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے مانا ہے۔ پس اگر ہماری جماعت کے تمام افراد کو یہ بات حاصل ہوجائے۔ تو موجودہ صورت سے کئی گنا بڑھ کر ہماری ترقی کی رفتار تیز ہوجائے گی۔ اور جس طرح سیلاب کے سامنے بڑی بڑی عمارتیں اور دیواریں گرتی اور مٹتی جاتی ہیں اسی طرح اس روحانیت کے دریا کے سامنے کفر کی عمارتیں دھڑا دھڑ گرتی چلی جائیں گی۔ پھر قلب کی صفائی کے ساتھ ظاہری صفائی کی بھی ضرورت ہے اس لئے اس سے بھی غافل نہ رہنا چاہیے اور اپنے فرائض کی اہمیت اور موقع کی نزاکت کو خوب اچھی طرح محسوس کرنا چاہئے۔‘‘

(اصلاح اعمال کی تلقین، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 175-179)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

ہر انسان کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں