• 8 مئی, 2024

حضرت مولوی مبارک علی صاحب بی ۔اے بنگالی

مبلغین برطانیہ کا تعارف
حضرت مولوی مبارک علی صاحب بی ۔اے بنگالی
سابق مبلغ انگلستان ، جرمنی کے پہلے مبلغ اور امیر صوبہ بنگال

صوبہ بنگال میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی پیغام حق پہنچا اور وہاں کے کچھ خوش نصیب بزرگوں کو قادیان جاکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست ِمبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔اہل بنگال میں سے جو احمدیت کی نعمت عظمیٰ سے مالامال ہوئے وہ ہیں حضرت احمد کبیر نور محمد صاحبؓ (تعلق چٹاگانگ، بیعت 1905ء/1906ء)، حضرت رئیس الدین خان صاحبؓ (بنگال ضلع کشور گنج، بیعت 1905ء/1906ء)، مکرمہ النسآء صاحبہؓ اہلیہ حضرت رئیس الدین صاحبؓ (بیعت 1907ء)، مکرم عبدالخالق صاحبؓ (تعلق مغربی بنگال ضلع مرشد آباد بھرت پور گاؤں، بیعت مئی 1908ء کے مہینہ کے بعد)، حضرت مولوی خان صاحبؓ اورحضرت مبارک علی صاحب بنگالی۔ حضرت مبارک علی صاحب بنگالی کی تفصیل کچھ یوں ہے:

مختصر حالات زندگی

حضرت مولوی مبارک علی صا حب بنگال کے ضلع بوگرا کے دِگدایر (Digdair) گاؤں میں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام عرض الدین تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ’’پاٹھ سالہ‘‘ میں حاصل کی اس کے بعد بوگرا کے ضلع سکول میں داخل ہوگئے اور 1900ء میں انہوں نے بہت ہی اچھے نمبروں کے ساتھ ضلع سکول بوگرا سے Entrance کا امتحان پا س کیا اور سکالر شپ حاصل کی۔

انہوں نے کلکتہ کے مشہور معروف Presidency College سے اپنی تعلیم بی اے تک مکمل کی۔ بعض احباب کے مشورہ سے اس کے بعد قانون دان بننے کی نیت سے BLکی پڑ ھائی شروع کردی۔لیکن تھوڑے عرصہ میں ہی چھوڑ دی ۔ اس دوران ان کے ایک دوست کےذریعہ ان تک رسالہ ریویو اوف ریلیجنز کی ایک کاپی پہنچ گئی ۔ اس کو پڑھنے کے بعد سے حقیقی اسلام کی تلاش اور جستجو اور تیز ہوگئی۔ کالج کی لائبریری میں باقا عدہ ریویو آف ریلیجنز کے شمارے پہنچتے تھےاور یہ بزرگ بھی بڑے شوق اور لگن سے انہیں غور سے پڑھتے تھے بلآخر1909ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ نےقادیان آکر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ 1911ء میں آپ چٹاگانگ مسلم ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔ دسمبر 1913ء میں قا دیان میں آگئے ۔ قادیان سے جب گھر واپس آئے تو حسب معمول مخالفت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر طرف سے‘‘قادیانی ہوگیا کافر ہو گیا ’’کی چیخ و پکار سنتے رہے ۔آپ سے بد سلوکیاں ہوتی رہیں لیکن آپ نے ایمان لانے کےبعد پوری استقامت دکھائی اور نتیجہ مخالفت کی آندھی تھوڑے عرصہ میں ہی دھوئیں کی طرح غائب ہو گئی ۔

آپ کی بیعت کا تفصیلاً واقعہ یہ ہیں کہ دوران کالج ایک نوجوان استاد نے ان سے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام معجزات دکھا رہے ہیں حالانکہ یہ جھوٹے ہیں ۔ایک فریبی اور دھوکا باز انسان سے یہ تمام امور کس طرح صادرہوسکتے ہیں؟اس پر ایک ادھیڑ عمر استاد جو کہ ایک مشہور پیر کے مرید بھی تھے ،جوش میں آگئے اور جذباتی ہو کر کہا کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی کمال نہیں ۔وہ ایک جادو گر ہے اور اس نے کچھ جِن قابو میں کئے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ سے وہ سارے کام نکلوارہا ہے ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔اس پر ساری مجلس میں خوب قہقہہ لگا اور سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہنسنے لگے مگر یہ بات مولوی صاحب کے دل میں پھنس کر رہ گئی اور اس کے اس جواب سے آپ اور بھی زیادہ تحقیق کرنے لگ پڑے۔ چنانچہ انہوں نے بنگالی اور انگریزی میں مذہبی سیاسی اور فلسفی لٹریچر کا مطالعہ شروع کردیا۔ پس 1905ء سے 1906ء کے دوران آپ نے بائیبل، ہندوؤں کی کتب اور مسلم کتب پڑھ ڈالیں۔ اسی طرح مولوی صاحب گھرپر قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ایک دن جب آپ قرآن کریم کی کسی آیت پرغور کر رہے تھے اور آنکھیں موندے بیٹھے تھے تو ان کو ایک نظارہ نظر آیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کمرہ ہے جس میں ایک بزرگ پگڑی پہنے بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے کچھ اور لوگ ہیں جو ان کے عقیدت مند معلوم ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے کچھ لوگوں کے چہرے بہت خوبصورت سرخ و سفید ہیں۔ وہ بزرگ دور بیٹھے ہیں مگر آہستہ آہستہ وہ قریب آتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان کے بہت قریب آجا تے ہیں اور آخر کار وہ اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ان کے جسم میں سما جاتے ہیں۔ پھر یہ واقعہ مولوی صاحب کو کئی دفعہ نظر آیا۔ اس کے بعد آپ قانون گو کی ملازمت کے سلسلہ میں فرید پور تشریف لے گئے ۔ اِسی دور کی بات ہے کہ جب آپ انسان کی ہستی ا ور انجام کے بارہ میں سوچ و بچار میں مشغول تھے،کلکتہ میں سخت قحط پڑا اور آپ نے انسانی ہمدردی کی آرگنائزیشن خادم الاسلام کے جنرل سیکریٹری صاحب کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح کے لئے چندہ اکٹھا کیا۔ اس دوران آپ نے اس بات کو شدید محسوس کیا کہ انسان کس قدر گھاٹے میں ہے اور اس چیز نے آپ کی حقیقی سچائی کی تلاش میں بہت معاونت کی۔اسی نیکی کی تلاش میں آپ 1909ء میں قادیان جاپہنچے۔ جب آپ قادیان گئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک پگڑی والے بزرگ بیٹھے ہیں اور اس کے سامنے مختلف عمروں کے مختلف لوگ بیٹھے ہیں اور وہ بزرگ ان کو قرآن کریم پڑھا رہے ہیں۔ اس پر مولوی صاحب نے اس بزرگ کے پاؤں چھو کر سلام کر نا چاہا تو انہوں نے منع کیا کہ یہ اسلامی طریق نہیں ہے ۔آپ نے قادیان کے عرصہ میں انہیں جانچنا شروع کردیا کہ کیا یہ سیدھے راستے پر ہیں کہ نہیں۔ نیز انہو ں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کردار اور سیرت کے بارہ میں پوچھنا شروع کیا اور غور کرنا شروع کردیا۔ آپ نے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں سے پوچھنا شروع کردیا جیسے ہندو اور مسلمان اور سکھ شامل ہیں۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فوت ہوئے ایک ہی سال ہوا تھااس لئے بہت سے صحابہؓ ا ور بزرگان سے ملاقات بھی ہوگئی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی تربیت اورقوت قدسیہ تھی کہ وہ جو بھی سوال کرتے تو اس کا جواب خواہ وہ مسلمان ہو، ہند و ہو یا سکھ ہو،جواب ایک ہی سا ہوتا تھا۔ اور انہوں نے دیکھا کہ قادیان کی زندگی بہت سادہ اور قرآنی تعلیم کے عین مطابق تھی ۔ اور لوگو ں کا رہن سہن اسلام کے عین مطابق تھا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ ’’میں نے دنیا میں جنت دیکھ لی ہے۔‘‘ اب ان کو پتہ چلا کہ یہ وہی آدمی ہے جو میں نے خواب میں دیکھا اور آپ بیعت کے لئے تیا ر ہوگئے ۔ جب آپ بیعت کے لئے گئے تو حضرت مولوی نور الدینؓ صاحب خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا کہ ابھی تمہارا بیعت کا وقت نہیں آیا اس پر آپ بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور اور زیادہ تحقیق شروع کردی۔ آخر کار وہ ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس گئے اور کہا کہ حضور میں بہت دل گرفتہ ہوں اور آخر کار بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد وہ اپنی گزشتہ زندگی کے بارہ میں بے انتہاء روئے۔ اتنا روئے کہ زندگی میں اتنا نہ روئے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ ’’حضور اگر اجازت دیں تو میں اپنی جان اسلام کی راہ میں قربان کردینا چاہتا ہوں۔‘‘ آپ نے قادیان میں قیام کے دورانحضرت خلیفۃ المسیحؓ کی شاگردی سے بہت کچھ پایا۔

اہلیہ و اولاد

مکرم مبارک علی صاحب کی شادی اپنے رشتہ داروں میں مکرمہ واجدہ بیگم صاحبہ (وفات1980ء) سے ہوئی۔ آپ کو خداتعالیٰ نے تین بچوں سے نوازا ۔ان کے نام درج ذیل ہیں:
1)مکرمہ محسنہ خانم صاحبہ اہلیہ مکرم مصطفیٰ علی صاحب
2)مکرمہ رقیہ نذیر صاحبہ
3) مکرم رفیع احمد صاحب (ڈھاکہ میں رہائش پزیر ہیں۔)

نیک انسان کا واقعہ

مولوی مبارک علی صاحب نے بی اے پاس کیا تو انہوں نے تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وکالت بھی پڑھنا شروع کر دی۔ ان کے چچا عدالت میں مختا ر تھے اور ان کے خواہش تھی کہ آپ وکیل بنیں لیکن وکالت پڑھنے کے دوران مولوی صاحب نے مشاہدہ کیا کہ وکالت پڑھنے والے بعض طلباء بہت بے ایمانی سے کام لیتے ہیں اور کلاسز میں حاضر نہیں ہوتے اور دھوکا دہی سے ان کی حاضری لگ جاتی ہیں اور جب وکیل بن جاتے ہیں تو جھوٹے مقدمے لڑتے ہیں اس لئے ان کو اس پیشہ سے گھن آ نے لگی مگر وہ اپنے چچا کی خواہشات کی تکمیل کے لئے اس پیشہ سے منسلک رہے۔ جبکہ ان کا ارادہ علی گڑھ یونیورسٹی سے MA کرنے کا تھا مگر انہوں نے اپنی خواہشات کی قربانی کر دی کہ میرے چچا جان کو تکلیف ہوگی۔
اور جب انہوں نے وکالت مکمل نہ کی تو ان کے چچا نے کہا کہ میں تم کو ڈپٹی مجسٹریٹ لگوادیتا ہوں کیونکہ ان کے علاقہ میں کا فی جان پہچان تھی ۔انہوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جی این گپتا سے بات کی اور اس نے ان کو ڈپٹی مجسٹریٹ کا عہدہ دے دیا اور دار جیلنگ میں ان کو رپورٹ کر نے کو کہا، جہاں برائے نا م ان کا انٹرویو ہوااوران کو نوکری مل گئی ۔ان کی عمر اس وقت 24سال لکھی گئی جو کہ غلط تھی ۔ مولوی صاحب اپنی مقررہ جگہ پر چلے تو گئے مگر ان کے دل میں یہ خلش رہی کہ میں مجسٹریٹ ہو کر جارہاہوں جس نے دوسرے لوگوں کو جھوٹ بولنے پر سزائیں دینی ہیں جبکہ میں تو خود جھوٹ کےسہارے پر نوکری لے کر جارہا ہوں۔پس انہوں نے دار جلنگ ایک خط لکھا اور اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ مجھے بیلوں کے پیچھے ہل چلانا بہتر ہے اس سے کہ میں جھوٹ کے سہارے نوکری حاصل کروں۔اس پرجی این گپتا نے ان کو اپنے دفتر بلایا اور کافی سر زنش کی اور کہا کہ تم اس لائق نہیں کہ تم کو یہ نوکری ملے۔ تم شعبہ تعلیم میں ہی ٹھیک ہو تم وہاں چلے جاؤ۔ پس آپ شعبہ تعلیم سے ہی منسلک رہے ۔

خدمات

خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی جماعت کی خدمت کے لئے مختلف پیرایوں سے تیار کیا تھا۔ 1909ء کے ماہ دسمبر میں آپ نے شعبہ تعلیم میں ملازمت کی اور پہلی تقرری آ پ کی ضلع پابنا کے سَر کل دلائی میں بطور سکول سب انسپکٹر ہوئی۔ چھ ماہ بعدآپ ڈھاکہ میں واقع Teachers Training College میں بطور (Bachelor in Teachin داخل ہوئے اس وقت (Bachelor in Teaching کو کہا جاتا تھا۔ ٹریننگ کے بعد آپ کا تبادلہ چٹا گانگ کے مشہور معروف ادارہ چٹا گانگ مدرسہ ہائی سکول (اس وقت اس کانام گورنمنٹ مسلم ہائی سکول ہے) میں 1911ء میں ہوا۔ مارچ 1915ء میں آپ اسی ہائی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔1919ء تک اسی سکول میں آپ نے بطور ہیڈ ماسٹر پیش بہا خدمات سر انجام دیں۔ چٹا گانگ میں سرکاری نوکری کے سلسلہ میں قیام کے دوران آپ ایک طرف اس ادارہ کی توسیع اور ترقی کے کاموں میں مصروف رہے اور اس کے ساتھ ساتھ احمدیت کی تبلیغ میں مگن رہے۔اس دوران چٹا گانگ کے مقامی معززین اور دیگر سر کاری عما ل کو آپ نے دعوت حق پہنچائی۔اس کے نتیجہ میں آ پ کو بہت عمدہ پھل عطا ہوئے جنہوں نے آگے جماعت احمدیہ کی گراں قدر خدمت کی توفیق پائی۔ حضرت مولوی مبارک علی صاحب 1913ء کےدسمبر سے ایک سال کے لئے بلا اجرت سرکاری چھٹی لے کر قادیان پہنچے اور وہیں وقت گزارا۔ یہ چھٹی قادیان کی پاک سر زمین میں صحبت صالحین حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے ساتھ ترجمۃالقرآن کےکام میں حصہ لینے کے لئے لی تھی۔ نیز اس دوران آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کےہمراہ کئی ماہ تک بنگال کی مختلف جگہوں پر تبلیغ حق کا انتظام کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی بابرکت خلافت کےآخری چندماہ آپ کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل کی۔ 1915ء کے آغاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے قائم کردہ انگریزی ترجمہ کے بورڈ ممبر بنے اور پھر چند ماہ خدمت کرنے کے بعد سرکاری چھٹی ختم ہوجانے کی وجہ سے مجبوراً واپس تشریف لے آئے۔واپسی پر آپ اپنی سرکاری ڈیوٹیو ں کے ساتھ ساتھ تبلیغ حق کے کام میں مصروف ہوگئے ۔ آپ صوبہ بنگال (بنگلا دیش اور مغربی بنگال ملا کر) میں قائم شدہ پہلی انجمن احمدیہ کے ممبر بنے۔ 1919ء کے آخری ایام میں خلافت ثانیہ کی طرف سے آپ کو نائیجریا جانے کا ارشاد موصول ہوا۔

سفر انگلستان اور جرمنی

حضرت خلیفۃالمسیح کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے آپ جنوری 1920ء میں بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے۔ اس وقت نایئجیریا جانے کے لئے براستہ انگلستان جاناہوتا تھا اور جہاز کےلئے کئی کئی دن یا ہفتے انتظار کرناپڑتا تھا۔ اسی دوران 18ستمبر 1921ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو انگلستان کے مشنری انچارج صاحب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارشاد فرمایا ۔اور فروری 1921ء میں نایئجیریا کے لئے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیرؓروانہ ہوگئے۔ 1922ء میں حضور نے آپ کو جرمنی کے برلن شہر میں جانے کا ارشاد فرمایا۔ جہاں پر 1924ء تک آپ کا قیام رہا ۔جرمنی کی سر زمین میں پہلے احمدی مبلغ آپ ہی ہیں۔

آپ 1924ء میں حضور ؓکی اجازت اور ہدایت پر واپس اپنے ملک تشریف لے آئے ۔اسی طرح 1920ء تا 1924ء کا عرصہ آپ نے یورپ میں احمدیت کی تبلیغ کی توسیع کے کام میں صرف کیا۔ واپسی پر آپ کو پھر شعبہ تعلیم میں خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اس دفعہ آپ کی تقرری مغربی بنگال کے ’’مالدہ‘‘ ضلع میں واقع سکول میں بطور ہیڈماسٹر ہوئی۔ مالدہ اس وقت بھارتی بنگال کا حصہ ہے ۔اسی ثناء میں برطانوی حکومت نے آپ کی گراں قدر خدمات کوسر اہتے ہوئے آپ کو ’’خان صاحب‘‘ کے لقب سے نوازا۔ آپ 1935ء میں اپنا وطن بوگرا واپس آئے اور بو گرا ضلع کےایک سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔1938ء میں آپ نے ریٹائر منٹ حاصل کی اور اسی سال آپ صوبہ بنگال کے امیر جماعت مقرر ہوئے۔ 1949ء تک آپ نے صوبہ بنگال کے امیر جماعت کا فریضہ ادا کیا۔ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے سماجی بہود کا بھی بہت کام کیا ہے۔ بوگرا شہر میں ’’گونگوں اور بہروں کے لئے ایک الگ انسٹٹیوٹ‘‘ بنا یا ہے ۔ اس کے با نی آپ ہی ہیں ۔

آپ نے جماعت کے لئے بوگرا میں ایک مرکزی جگہ پر قطعہ زمین ہبہ فرمایا۔ بوگرا شہر کی مسجد و مشن اسی جگہ پر قائم ہے۔ علاوہ ازیں بوگرا شہر میں احمدیوں کے لئے ایک الگ قبر ستان کی زمین آپ ہی کی طرف سے ہبہ کردہ ہے ۔ انگریزی ترجمہ قرآن میں کام کے دوران آپ واپس بنگال چلے گئے تو بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو کشف میں دکھایا گیاکہ ’’مبارک کو کیوں جانے دیا۔‘‘

1947ء تا 1949ء بر صغیر کی تقسیم کے بعد آپ مشرقی پاکستان کے امیر بھی رہے۔

وفات

مکرم مولوی مبارک علی صاحب کی وفات یکم نومبر 1969ء کو اپنے شہر بوگرا (bogra) میں ہوئی۔ انااللہ واناالیہ راجعون

مولوی مبارک علی صاحب کا ذکرِخیر

آپ کے داماد مکرم محترم مصطفیٰ علی صاحب مرحوم و مغفور نے کئی مرتبہ بیان فرمایا ہے کہ ’’1944ء میں جب آپ کی پہلی تقرری بطور افسر شعبہ زراعت بوگڑا میں ہوئی توآپ کو اس وقت خان صاحب مبارک علی صاحب کو قریب سے دیکھنے کا خو ب موقع ملا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی نماز کاوقت ہوتاتو آپ اپنی بیٹھک میں تمام فرش پر جائے نماز بچھوا تے حالانکہ اس وقت اس شہر میں گنتی کے چند احمدی تھے اور سب ہر ایک نماز پر حاضر بھی نہیں ہوسکتے تھے، ایک دفعہ میں نے پوچھ ہی لیا کہ جناب! نماز میں ہم تو تین یا چارافراد حاضر ہوتے ہیں تو پھر کیا سارے کمرے میں جائے نماز بچھوانا ضروری ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا جب اذان دے کر نماز شروع کرتے ہیں تو دعا یہی ہوتی ہے کہ خدایا نمازیوں سے کمرہ بھر جائے ۔اور اگر اتنی تعداد میں بندگان خدا نہیں بھی آتے تو لازماً خدا کے فرشتے خالی جگہ میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں ۔ اس وجہ سے ساری جگہ پر جائے نماز بچھواتا ہوں۔‘‘

(مکرم مولوی مبارک علی صاحب پر مواد خاکسار کو شعبہ تاریخ جرمنی نے فراہم کیا)

٭…٭…٭

(مکرم ندیم احمد بٹ صاحب مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

ہر انسان کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں