گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا تھا۔ یعنی مغربی ممالک سے کہ ایک زیر تبلیغ دوست ہیں وہ کہتے ہیں باقی تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن رَفع کے مسئلے پر ابھی تسلی نہیں ہوئی یہ جو تم لوگ دلیلیں دیتے ہو مجھے سمجھ نہیں آتیں۔ برصغیر اور اکثر مسلمان ممالک جو ہیں ان کا ایک بہت بڑا طبقہ جس کو مذہب سے دلچسپی ہے بشمول بعض عرب ممالک کے وہ مسلمان جو عربی بھی جانتے ہیں، عربی کے الفاظ کا فہم بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے بہت سی اکثریت یہی کہتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا پاکستان سے ہمارے ایک دوست یہاں آئے تھے، غیر از جماعت۔ اکثر مختلف غیر از جماعت دوست ملنے آتے رہتے ہیں جن کے کچھ تعلقات ہیں، تعلق ہے یا کسی ذریعہ سے رابطہ ہوتا ہے۔ تو انہوں نے یہ کہا کہ قرآن کریم سے حضرت عیسیٰؑ کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ تو بہرحال جب مَیں نے ان کو آیات کا حوالہ دیا تو پھر وقت بھی تھوڑا تھا۔ یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے کہ ان شاء اللہ پھر آؤں گا تو بات کریں گے۔ لیکن بہرحال کئی ماہ گزر چکے ہیں ابھی تک تو وہ نہیں آئے۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لوگوں میں، مسلمانوں میں علماء نے یا غلط مفسرین نے اتنا زیادہ گھوٹ کر یہ پلا دیا ہے اور دلوں میں ڈال دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے بعد زیادہ شدت سے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام آسمان پر زندہ ہیں اور انہی کی بعثت ثانی ان کے اپنے وجود میں ہونی ہے۔ لیکن جو سعید فطرت ہیں وہ کسی مذہب کے بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی فرماتا ہے۔
(خطبہ جمعہ 3؍جولائی 2009ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)