• 10 اکتوبر, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍اگست 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں سلطنتِ روم کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ

یاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثرت فوج کی بنا پر ہمیں فتح و نصرت نہیں عطا کی۔ ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے۔ احد کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرماتا اور ہماری مدد کرتا تھا

أَشْھَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شام کی طرف بھیجے ہوئے لشکروں کا ذکر

ہو رہا تھا جو دشمن کو جارحیت سے روکنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ تین کا ذکر گذشتہ خطبہ میں ہو چکا ہے۔

چوتھا لشکر

حضرت عمرو بن عاصؓ کا تھا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک لشکر حضرت عمروبن عاصؓ کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کیا تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ شام جانے سے قبل قضاعہ کے ایک حصہ کے صدقات کی تحصیل کے لیے مقرر تھے۔جبکہ قضاعہ کے دوسرے نصف حصہ کی صدقات کی تحصیل کے لیے حضرت ولید بن عقبہ ؓمقرر کیے گئے تھے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب مختلف لشکر روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی خواہش تھی کہ حضرت عمرو بن عاصؓ کو شام کی طرف بھیجیں لیکن ان کے کارناموں کی وجہ سے، حضرت عمروؓ کے کارناموں کی وجہ سے جو انہوں نے فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کے لیے انجام دیے تھے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں یہ اختیار دیا کہ خواہ وہ قضاعہ میں ہی مقیم رہیں یا شام جا کر وہاں کے مسلمانوں کی تقویت کا باعث بنیں۔

(البدایۃ والنھایۃ جلد4 جزء7 صفحہ3 دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
(ماخوذ از حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ340 مطبوعہ بک کارنر شو روم جہلم)

چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا کہ

اے ابوعبداللہ! میں تم کو ایک ایسے کام میں مصروف کرنا چاہتا ہوں جو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہترین ہے سوائے اس کے کہ تمہیں وہ کام زیادہ پسند ہو جو تم انجام دے رہے ہو۔

اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو یہ لکھا کہ میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپؓ ہی ایک ایسے شخص ہیں جو ان تیروں کو چلانے اور جمع کرنے والے ہیں۔ آپؓ دیکھیں کہ ان میں سے جو تیر نہایت سخت، زیادہ خوفناک اور بہترین ہو اسے اس طرف چلا دیجیے جس طرف آپؓ کوکوئی خطرہ نظر آئے۔

(تاریخ الطبری جزء الثانی صفحہ 332دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء)

یعنی کہ میں تو ہر قسم کے خطرے میں جانے کے لیے ہر طرح تیار ہوں۔

جب حضرت عمرو بن عاصؓ مدینہ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں حکم دیا کہ مدینہ سے باہر جا کر خیمہ زن ہو جائیں تا کہ لوگ آپؓ کے ساتھ جمع ہوں۔ اشرافِ قریش میں سے بہت سے لوگ آپؓ کے ساتھ شامل ہوئے۔ جب فیصلہ ہو گیا کہ شام کی طرف جانا ہے تو پھر حضرت عمرو بن عاصؓ کو مدینہ بلایا گیا۔ آپ وہاں آئے اور پھر یہاں حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو اپنے ساتھ لشکر تیار کرنے کے لیے فرمایا کہ مدینہ کے باہر خیمہ زَن ہو جائیں تاکہ لوگ آپؓ کے پاس آئیں۔ جب آپؓ نے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ آپؓ کو رخصت کرنے نکلے۔ فرمایا: اے عمرو! تم رائے اور تجربہ کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو۔ تم اپنی قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء کے ساتھ جا رہے ہو اور اپنے بھائیوں سے ملوگے۔ لہٰذا ان کی خیر خواہی میں کوتاہی نہ کرنا اور ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا کیونکہ تمہاری رائے جنگ میں قابلِ تعریف اور انجام کار بابرکت ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی مشورہ دے تو ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا، اگر تمہارے پاس کوئی تجویز ہے تو اس کو بےشک استعمال کرنا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے عرض کیا کتنا بہتر ہے میرے لیے کہ میں آپؓ کے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپؓ کی رائے میرے بارے میں خطا نہ کرے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ آپؓ کی فوج چھ سات ہزار کے درمیان تھی اور ان کی منزلِ مقصود فلسطین تھی۔

حضرت عمروؓ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل دستہ تیار کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی قیادت میں روم کی جانب پیش قدمی کے لیے روانہ کیا۔ یہ دستہ رومیوں سے جا ٹکرایا اور دشمن کی قوت کو پارہ پارہ کر کے ان پر فتح حاصل کی اور بعض قیدیوں کے ساتھ واپس ہوا۔

حضرت عمرو بن عاصؓ نے ان قیدیوں سے پوچھ گچھ کی جس سے پتہ چلا کہ رومی فوج رُوَیْس کی قیادت میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے کی تیاری میں ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں حضرت عمروؓ نے اپنی فوج کو منظم کیا۔ جب رومی حملہ آور ہوئے تو مسلمان ان کا حملہ روکنے میں کامیاب ہو گئے اور رومی فوج کو واپس ہونے پر مجبور کر دیا اور اس کے بعد ان پر جوابی حملہ کر کے دشمن کی قوت کو تباہ کر دیا اور راہِ فرار اختیار کرنے اور میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسلامی فوج نے ان کا پیچھا کیا اور روم کے ہزاروں فوجی مارے گئے اور اسی پر یہ معرکہ ختم ہو گیا۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ448-449 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

ان لشکروں کو روانہ کر کے حضرت ابوبکرؓ نے اطمینان کا سانس لیا۔ انہیں کامل امید تھی کہ اللہ ان فوجوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو رومیوں پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ وجہ یہ تھی کہ ان میں ایک ہزار سے زیادہ مہاجر اور انصار صحابہ شامل تھے جنہوں نے ہر موقع پر انتہائی وفاداری کا ثبوت دیا تھا اور ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔ ان میں وہ اہل بدر بھی شامل تھے جن کے متعلق آپؐ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور یہ التجا کی تھی کہ

اے اللہ! اگر آج تو نے اس چھوٹی سی جماعت کو ہلاک کر دیا تو آئندہ پھر کبھی زمین پر تیری پرستش نہیں کی جائے گی۔

(حضرت ابوبکرصدیق اکبرؓ از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ322 علم و عرفان پبلشرز لاہور2004ء)

پھر لکھا ہے کہ شاہِ روم ہرقل ان دنوں فلسطین میں تھا۔ جب اسے مسلمانوں کی تیاریوں کی خبریں ملیں تو اس نے علاقے کے سرداروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے جوشیلی تقریریں کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ اس نے مسلمانوں کے متعلق کہا کہ یہ بھوکے ننگے، غیر مہذب لوگ صحرائے عرب سے نکل کر تم پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔ تم انہیں ایسا منہ توڑ جواب دو کہ پھر یہ کبھی تمہاری طرف دیکھنے کی بھی جرأت نہ کر سکیں۔ سامانِ حرب اور فوجیوں کے ذریعہ سے تمہاری پوری مدد کی جائے گی۔ جو امرا تم پر مقرر کیے گئے ہیں تم دل و جان سے ان کی اطاعت کرو۔ فتح تمہاری ہو گی۔ ہرقل نے وہاں کے لوگوں کو یہ تقریر کی عربوں کے خلاف ابھارنے میں،مسلمانوں کے خلاف ابھارنے میں۔ فلسطین کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ پیکار کر کے ہرقل دمشق آیا۔ وہاں سے حمص اور انطاکیہ پہنچا اور فلسطین کی طرح ان علاقوں میں بھی اس نے جوشیلی تقریریں کر کے وہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ خود انطاکیہ کو ہیڈ کوارٹر بنا کر مسلمانوں سے مقابلے کی تیاریاں کرنے لگا۔

(حضرت ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ347، ترجمہ شیخ محمد احمد پانی پتی، علم و عرفان پبلشرز لاہور2004ء)

روم کی شام میں دو افواج تھیں۔ ایک فلسطین میں اور دوسری انطاکیہ میں

اور ان دونوں افواج نے درج ذیل مقامات پر اپنے مراکز بنا رکھے تھے۔ نمبر ایک انطاکیہ: یہ رومی سلطنت کے دور میں شام کا دارالسلطنت تھا۔ دوسرا قِنَّسْرِین: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مغرب میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ تیسرا حِمْص: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مشرق میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ چوتھا۔ عمان: بَلْقَاء کا صدر مقام یہاں مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا۔ پانچواں اجنادین: یہ فلسطین کے جنوب میں روم کا عسکری مرکز تھا جو بلادِ عرب کی مشرقی اور مغربی سرحدوں اور حدود مصر سے ملتا تھا۔ چھٹا قَیْسَارِیَّہ: یہ فلسطین کے شمال میں حیفاسے تیرہ کلو میٹر پر واقع ہے اور اس کے کھنڈر ابھی تک باقی ہیں۔ رومی ہائی کمان کا مرکز انطاکیہ یا حمص تھا۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ450 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

ایک روایت میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ جب ہرقل کو اسلامی لشکروں کی آمد کی خبر ملی تو اس نے پہلے اپنی قوم کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ میری رائے ہے کہ تم مسلمانوں سے صلح کر لو۔ خدا کی قسم! اگر ان سے شام کی نصف پیداوار پر صلح کرو گے اور تمہارے پاس نصف پیداوار اور روم کا علاقہ رہا تو وہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شام کے تمام علاقے اور روم کے نصف علاقے پر قابض ہو جائیں مگر اہلِ روم اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اس لیے وہ انہیں اکٹھا کر کے حمص لے گیا اور وہاں اس نے فوجیوں اور لشکروں کو تیار کرنا شروع کیا۔ حمص کے بعد ہرقل انطاکیہ گیا۔ چونکہ اس کے پاس فوج بہت زیادہ تھی اس لیے اس نے یہ ارادہ کیا کہ مسلمانوں کے ہر لشکر کے مقابلے میں الگ الگ لشکر بھیجے تا کہ مسلمانوں کے لشکر کے ہر حصہ کو اپنے مدمقابل کے ذریعہ کمزور کردے۔ چنانچہ اس نے اپنے بھائی تَذَارِق کو نوّے ہزار فوج دے کر حضرت عمروؓ کے مقابلے میں بھیجا اور جَرَجَہْ بِن تُوْذَرْ کو حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ اسی طرح قَیْقَار بن نَسْطُوْس کو ساٹھ ہزار فوج دے کر حضرت ابوعُبیدہؓ کی طرف روانہ کیا اور حضرت شُرَحْبِیل بن حَسَنَہؓ کے مقابلے کے لیے دُرَاقِصْ کو بھیجا۔

(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ255دارالکتب العلمیۃ بیروت2006ء)
(حضرت ابوبکر صدیقؓ از ہیکل صفحہ347)

حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاح ؓجب جَابِیہ کے قریب تھے تو ان کے پاس ایک آدمی خبر لے کر آیا کہ

ہِرَقل انطاکیہ میں ہے اور اس نے تمہارے مقابلے کے لیے اتنا بڑا لشکر تیار کیا ہے کہ اس سے قبل ایسا لشکر اس کے آباؤ اجداد میں سے بھی کسی نے تم سے پہلی قوموں کے مقابلے کے لیے تیار نہیں کیا تھا۔

اس پر حضرت ابوعُبَیدہ ؓنے حضرت ابوبکرؓ کو خط لکھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ شاہ روم ہرقل شام کی ایک بستی جسے انطاکیہ کہتے ہیں وہاں آ کر قیام پذیر ہوا ہے اور اپنی سلطنت کے لوگوں کی طرف آدمی بھیجے کہ انہیں جمع کر کے لائیں۔ چنانچہ لوگ ہر مشکل اور آسان راستوں سے ہوتے ہوئے ہرقل کی طرف آئے۔ لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو اس کی اطلاع بھیج دوں تا کہ اس بارے میں آپ فیصلہ کرسکیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعُبَیدہؓ کی طرف جواباً لکھا کہ تمہارا خط مجھے ملا میں نے اس کو سمجھا جو تم نے شاہِ روم ہرقل کے متعلق تحریر کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ انطاکیہ میں اس کا قیام کرنا اس کی اور اس کے ساتھیوں کی شکست اور اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اور مسلمانوں کی فتح ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تم نے جو ہرقل کے اپنے مملکت کے لوگوں کو جمع کرنے اور کثیر تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے متعلق تحریر کیا ہے تو یہ ہم اور تم پہلے سے جانتے ہیں کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ کوئی قوم بغیر قتال کے اپنے بادشاہ کو نہ چھوڑ سکتی ہے اور نہ اپنی مملکت سے نکل سکتی ہے۔ پھر آپ نے لکھا کہ

الحمد للہ! مجھے یہ معلوم ہے کہ ان سے لڑنے والے بہت سے مسلمان
موت سے اسی قدر محبت رکھتے ہیں جس قدر دشمن زندگی سے محبت رکھتا ہے

اور اپنے قتال میں اللہ سے اجر عظیم کی امید رکھتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اس سے زیادہ محبت رکھتے ہیں جتنی انہیں کنواری عورتوں اور قیمتی مال سے ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک مسلمان جنگ کے وقت ہزار مشرکین سے بہتر ہے۔ تم اپنی فوج کے ساتھ ان سے ٹکراؤ اور جو مسلمان تم سے غائب ہیں اس کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ یقیناًً اللہ جس کا ذکر بہت بلند ہے وہ تمہارے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں تمہاری مدد کے لیے لوگوں کو بھیج رہا ہوں یعنی اَور فوج بھی بھیج رہا ہوں جو تمہارے لیے کافی ہو گی اور مزید کی ان شاء اللہ خواہش نہ رہے گی۔ والسلام

(تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ212تا 213 دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)

اسی طرح حضرت عمرو بن عاصؓ کا بھی خط حضرت ابوبکرؓ کو ملا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ تمہارا خط مجھے موصول ہوا جس میں تم نے رومیوں کے فوج اکٹھی کرنے کا ذکر کیا ہے تو

یاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثرت فوج کی بنا پر ہمیں فتح و نصرت نہیں عطا کی۔ ہماری تو حالت یہ تھی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے اور ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے اور اونٹ پر بھی باری باری سواری کرتے۔ احد کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرماتا اور ہماری مدد کرتا تھا۔

آپؓ نے فرمایا کہ عَمرو! یاد رکھو اللہ کا سب سے بڑا مطیع وہ ہے جو معصیت سے سب سے زیادہ بغض رکھے۔ خود بھی اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے ساتھیوں کو بھی اطاعتِ الٰہی کا حکم دو۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ452-453 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)

حضرت یزید بن ابو سفیانؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ کو خط میں وہاں کے حالات لکھتے ہوئے مدد طلب کی جس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے لکھا کہ جب ان سے تمہارا مقابلہ ہو تو اپنے ساتھیوں کو لے کر ان پر ٹوٹ پڑو اور ان سے قتال کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اللہ کے حکم سے چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر غالب آ جاتا ہے اور اس کے باوجود میں تمہاری مدد کے لیے مجاہدین پر مجاہدین بھیج رہا ہوں یہاں تک کہ تمہارے لیے کافی ہو جائیں گے اور مزید کی حاجت نہ محسوس کرو گے۔ ان شاء اللہ۔ والسلام۔ حضرت ابوبکرؓ نے دستخط فرمائے۔

حضرت ابوبکرؓ نے یہ خط حضرت عبداللہ بن قُرْطْ ؓکو حضرت یزیدؓ کی طرف لے جانے کے لیے دیا اور حضرت عبداللہؓ آپؓ کا خط لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ حضرت یزیدؓ کے پاس پہنچے اور یہ خط مسلمانوں کے سامنے پڑھا جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے۔

(ماخوذ از تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ213 دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)

حضرت ابوبکرؓ نے ہاشم بن عُتبہ کو بلایا اور ان سے فرمایا اے ہاشم! یقیناًً تمہاری سعادت مندی اور نیک بختی ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جس سے امت اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جہاد میں مدد حاصل کر رہی ہے اور جس کی خیر خواہی، صحت رائے، پاکدامنی اور جنگی صلاحیت پر حاکم کو اعتماد اور بھروسا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں یعنی ہاشم کو فرمایا کہ مسلمانوں نے مجھے خط لکھ کر اپنے دشمن کفار کے مقابلے میں مدد طلب کی ہے تو تم اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کے پاس جاؤ۔ میں لوگوں کو تمہارے ساتھ جانے پر تیار کر رہا ہوں۔ تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ یہاں تک کہ ابوعُبَیدہؓ سے جا ملو۔ حضرت ابوبکرؓ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور فرمایا۔ اما بعد! یقیناً تمہارے مسلمان بھائیوں میں سے کچھ خیرو عافیت سے ہیں۔ کچھ زخمی ہیں جن کا دفاع کیا جا رہا ہے اور ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دشمن کے دلوں میں ان کا رعب بٹھا دیا ہے۔
انہوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لے کر ان کے دروازے بند کر لیے ہیں۔

مسلمانوں کی طرف سے پیغام رساں یہ خبر لائے ہیں کہ شاہِ روم ہرقل نے ان کے سامنے سے بھاگ کر شام کے کنارے ایک بستی میں پناہ لے لی ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ خبر بھیجی ہے کہ ہرقل نے اس جگہ سے بہت بڑی فوج مسلمانوں سے مقابلے کے لیے روانہ کی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ تمہارے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے تمہاری فوج روانہ کروں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے ان کی پشت مضبوط کرے گا یعنی اس فوج کے ذریعہ سے مسلمانوں کی پشت مضبوط کرے گا اور دشمن کو ذلیل کرے گا اور ان کے دلوں میں اس کا رعب ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ ہَاشِم بن عُتبہ کے ساتھ تیار ہو جاؤ اور اللہ سے اجر و خیر کی امید رکھو۔

اگر تم کامیاب ہوئے تو فتح و غنیمت حاصل ہو گی
اور اگر ہلاک ہوئے تو شہادت و کرامت حاصل ہو گی۔

پھر حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر آئے اور لوگ ہاشم بن عتبہ کے پاس جمع ہونے لگے یہاں تک کہ ان کی تعداد بڑھ گئی۔ جب ایک ہزار ہو گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ ہاشم نے حضرت ابوبکرؓ کو سلام کیا اور الوداع کہا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے فرمایا اے ہاشم! ہم بڑے بوڑھے کی رائے، مشورہ اور حسن تدبیر سے استفادہ کیا کرتے تھے اور نوجوانوں کے صبر، قوت اور شجاعت پر بھروسا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر یہ سب خصائل جمع کر دیے ہیں۔ تم ابھی نوعمر اور خیر کی طرف بڑھنے والے ہو۔

جب دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو تو ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا اور یاد رکھو اللہ کی راہ میں جو قدم بھی تم اٹھاؤ گے، جو خرچ بھی کرو گے اور جو پیاس تھکاوٹ اور بھوک تمہیں لاحق ہو گی اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال میں عملِ صالح لکھے گا۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

ہاشم نے عرض کیا کہ اگر اللہ نے میرے ساتھ خیر خواہی چاہی تو مجھے ایسا ہی کرے گا اورمیں ایسا ہی کروں گا۔ قوت و طاقت اللہ ہی عطا کرنے والا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میں مارا نہ گیا تو میں ان سے لڑوں گا۔ پھر ان سے لڑوں گا پھر ان سے لڑوں گا۔ پھر کہا کہ مجھے امید ہے کہ اگر میں قتل نہ کیا گیا تو میں ان سے بار بار لڑائی کروں گا یا انہوں نے یہ کہا کہ میری خواہش ہو گی کہ میں قتل کیا جاؤں اور بار بار قتل کیا جاؤں۔ یہ دو روایتیں ہیں۔ پھر ان سے ان کے چچا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا کہ

اے بھتیجے! تم جو بھی نیزے چلاؤ اور جو ضرب بھی لگاؤ اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور جان لو کہ تم بہت جلد دنیا سے رخصت ہونے والے ہو اور عنقریب اللہ کی طرف لوٹنے والے ہو اور دنیا سے لے کر آخرت تک تمہارے ساتھ سچائی کا قدم ہو گا جو تم نے اٹھایا ہو گا یا عمل صالح ہو گا جو تم نے کیا ہے۔

ہاشم نے کہا: چچا جان! آپؓ میری طرف سے اس بارے میں بالکل بے خوف رہیں۔ اگر میرا قیام و سفر، صبح شام کی نقل و حرکت، کوشش کرنا اور لشکر کشی کرنا اور اپنے نیزے سے زخم لگانا اور اپنی تلوار سے ضرب لگانا لوگوں کو دکھانے کے لیے ہو تو پھر مَیں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔ یعنی کہ میرا ہر عمل تو اللہ کی خاطر ہو گا لوگوں کے لیے نہیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے پاس سے روانہ ہوئے اور حضرت ابوعُبَیدہؓ کا راستہ اختیار کیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ گئے۔ ان کے پہنچنے سے مسلمان خوش ہو گئے اور ایک دوسرے کوان کی آمد کی خوشخبری سناتے۔

حضرت سعید بن عَامِر بن حِذْیَمْ ؓکو یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکرؓ انہیں جہاد شام پر بھیجنا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ یہ ایک اَور لشکر تیار کر رہے تھے۔ حضرت سعید کا خیال تھا کہ یہ ان کی سرکردگی میں جائے گا۔ بہرحال ان کو یہ خبر پہنچی لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے کچھ تاخیر کر دی اور کچھ دن ان سے ذکر کرنے سے رُکے رہے تو حضرت سعیدؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکرؓ! اللہ کی قسم مجھے یہ خبر ملی تھی کہ آپؓ مجھے رومیوں کی جانب بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر پھرمَیں نے دیکھا کہ آپؓ نے خاموشی اختیار کر لی۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بارے میں آپؓ کے دل میں کیا خیال آیا ہے اگر آپؓ میرے علاوہ کسی اَور کو امیر بنا کر بھیجنا چاہتے ہیں تو مجھے اس کے ساتھ بھیج دیں۔ میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خوشی والی بات نہیں ہو گی۔ اور اگر آپ کسی کو بھی بھیجنا نہیں چاہتے تو میں جہاد کا شوق رکھتا ہوں آپؓ مجھے اجازت دیں کہ میں مسلمانوں سے جا ملوں۔ اللہ آپؓ پر رحم فرمائے۔ میرے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ رومیوں نے بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا

اے سعید بن عامر! تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا تم پر رحم کرے۔ جہاں تک میں تمہیں جانتا ہوں تمہارا شمار تواضع اختیار کرنے والوں، صلہ رحمی کرنے والوں، صبح کے وقت تہجد ادا کرنے والوں اور بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔

تو حضرت سعیدؓ نے آپؓ سے عرض کیا کہ اللہ آپؓ پر رحم کرے اللہ کے مجھ پر اس سے بڑھ کر احسانات ہیں۔ اسی کا فضل اور احسان ہے۔ بخدا جہاں تک میں آپ کو جانتا ہوں آپ حق کو کھل کر بیان کرنے والے، انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہونے والے، مومنوں کے ساتھ بہت رحم کرنے والے، کافروں کے مقابلے میں انتہائی سخت ہیں۔ آپؓ عدل کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور مال کی تقسیم کے وقت کسی کو ترجیح نہیں دیتے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں فرمایا: بس کرو اے سعید! بس کرو۔ اللہ آپ پر رحم کرے۔ جاؤ اور جنگ پر جانے کی تیاری کرو۔ میں شام میں موجود مسلمانوں کی طرف ایک لشکر بھیجنے والا ہوں اور اس پر تمہیں امیر مقرر کرتا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں۔ انہوں نے اعلان کیا۔ مسلمانو! حضرت سعید بن عامر بن حِذْیَمْ ؓکے ساتھ شام کی مہم کے لیے تیار ہو جاؤ۔ چند دن میں ان کے ساتھ سات سو افراد تیار ہو گئے اور جب حضرت سعیدؓ نے کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت بلالؓ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ

اے رسول اللہؐ کے خلیفہ! اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر آزاد کیا تھا تا کہ میں اپنے نفس کا مالک رہوں اور نفع بخش چیز کے سلسلہ میں نقل و حرکت کروں تو آپؓ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے رب کی راہ میں جہاد کروں۔ مجھے بیٹھے رہنے سے جہاد زیادہ محبوب ہے۔

حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں نے تمہیں اسی کی خاطر آزاد کیا تھا اور میں تم سے اس کے بدلہ کسی قسم کی جزا اور شکریہ کا طلبگار نہیں ہوں۔ یہ زمین بہت وسیع ہے پس جس رستے کو تم پسند کرو اس پر چلو۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا۔ اے صدیقؓ! شاید آپ نے میری اس بات کا بُرا منایا ہے اور آپؓ مجھ سے ناراض ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نہیں بخدا! میں اس بات سے ناراض نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری خواہش کی وجہ سے اپنی خواہش کو ترک مت کرو کیونکہ تمہاری خواہش تمہیں اللہ کی اطاعت کی طرف بلاتی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپؓ کے پاس رک جاتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اگر تمہاری خواہش جہاد کرنے کی ہے تو میں تمہیں ٹھہرنے کا حکم کبھی نہیں دوں گا۔ میں تمہیں صرف اذان کے لیے چاہتا ہوں اور اے بلالؓ! مجھے تمہاری جدائی سے وحشت محسوس ہوتی ہے لیکن ایسی جدائی ضروری ہے جس کے بعد قیامت تک ملاقات نہ ہو گی۔ اے بلالؓ! تم عملِ صالح کرتے رہنا۔ یہ دنیا سے تمہارا زادِ راہ ہو، عملِ صالح اور جب تک تم زندہ رہو گے اس کی وجہ سے اللہ تمہارا ذکر باقی رکھے گا اور جب وفات پاؤ گے تو اس کا بہترین ثواب عطا کرے گا۔ حضرت بلالؓ نے آپؓ سے عرض کیا:اللہ آپؓ کو اس دوست اور بھائی کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔

بخدا! آپؓ نے جو ہمیں اللہ کی اطاعت پر صبر اور حق اور عمل صالح پر مداومت کا حکم فرمایا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دینا چاہتا۔

پھر حضرت سعید بن عامرؓ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی روانہ ہو گئے۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہ… جلد2 جزء1 صفحہ130تا 132 عالم الکتب بیروت 1997ء)

یہ بھی درخواست کی کہ اگر صرف اذان کے لیے روکنا ہے تو میری خواہش یہی ہے کہ میں اذان نہ دوں کیونکہ دل نہیں مانتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان دوں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے پاس اَور لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے حضرت معاویہؓ کو ان پر امیر بنایا اور انہیں ان کے بھائی حضرت یزیدؓ سے مل جانے کا حکم دیا۔ حضرت معاویہؓ روانہ ہو کر حضرت یزیدؓ سے جا ملے۔ جب حضرت معاویہ ؓکا گزر حضرت خالد بن سعیدؓ کے پاس سے ہوا تو ان کی فوج کا بقیہ حصہ بھی حضرت معاویہؓ کے ساتھ ہو گیا۔

(تاریخ الطبری جزء الثانی صفحہ 333 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012)

پھر حمزہ بن مالک ہمذانی ایک لشکر لے کر حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

اس لشکر کی تعداد ایک ہزار کے قریب یا اس سے بھی زیادہ تھی۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے ان کی تعداد اور تیاری دیکھی تو آپؓ بہت خوش ہوئے اور فرمایا

مسلمانوں پر اللہ کے اس احسان پر تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔ اللہ ہمیشہ ان لوگوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کر کے ان کی راحت کے سامان مہیا کرتا رہتا ہے۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی پشت کو مضبوط کرتا ہے اور ان کے دشمن کی پشت کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔

پھر حمزہ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا: کیا آپؓ کے علاوہ مجھ پر کوئی اَور بھی امیر ہو گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ہاں ہم نے تین امیر مقرر کیے ہیں تم ان میں سے جس کے ساتھ چاہو جا ملو۔ پھر جب حمزہ مسلمانوں سے ملے اور ان سے دریافت کیا کہ ان امرا میں سے کون سا امیر سب سے افضل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لحاظ سے سب سے بہترین ہے تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت ابوعُبَیدہ بن جراحؓ۔ چنانچہ وہ ان سے جا ملے۔ یہ بھی ان لوگوں کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار تھا کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہا میں اس کے ساتھ رہوں۔

جہادی وفود کے آنے کا سلسلہ مدینہ میں جاری رہا اور حضرت ابوبکرؓ انہیں مہمات پر روانہ کرتے رہتے۔ دوسری طرف حضرت ابوعُبَیدہؓ برابر حضرت ابوبکرؓ کو لکھتے رہے۔ رومی اور ان کے حاشیہ نشین قبائل مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھاری تعداد میں اکٹھے ہو رہے ہیں اس لیے مجھے ارشاد فرمائیں کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہیے۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہ… جلد2 جزء1صفحہ 133تا136 عالم الکتب بیروت 1997ء)

حضرت ابوعُبَیدہؓ کے پے در پے خطوط کے نتیجہ میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اللہ کی قَسم! میں ضرور خالد بن ولیدؓ کے ذریعہ رومیوں کو ان کے شیطانی وسوسے بھلا دوں گا۔ حضرت خالدؓ اس وقت عراق میں تھے جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد ؓکو شام جانے اور وہاں اسلامی افواج کی امارت سنبھالنے کا حکم دیا تو حضرت ابوعُبَیدہؓ کو لکھا: اما بعد! میں نے شام میں دشمنوں سے جنگ کی قیادت خالد کو سونپ دی ہے۔ تم اس کی مخالفت نہ کرنا۔ ان کی بات سننا اور ان کے حکم کی تعمیل کرنا۔ میں نے ان کو تمہارے اوپر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ تم میرے نزدیک ان سے افضل نہیں ہو لیکن میرے خیال میں جو جنگی مہارت انہیں حاصل ہے تمہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے لیے خیر کا ہی ارادہ کرے۔ والسلام۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہ… جلد2 جزء1صفحہ 148 عالم الکتب بیروت 1997ء)
(تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ220)

حضرت خالدؓ کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے بارے میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کا خط حضرت خالدؓ کو ملا تو اس کی مختلف روایات ہیں کہ وہ آٹھ سو یا چھ سو یا پانچ سو یا ہزاروں میں بھی ہیں، نو ہزار تک بھی ہے یا چھ ہزار کی بھی۔ یہ جمعیت لے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ کچھ روایتوں میں سینکڑوں میں بات آتی ہے، کچھ میں ہزاروں میں۔ بہرحال وہ شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب حضرت خالد بن ولیدؓ قُرَاقِرْمقام پر پہنچے تو آپ نے وہاں کے لوگوں پر حملہ کیا اور پھر وہاں سے صحرا کو عبور کرتے ہوئے انتہائی پُرصعوبت سفر طے کرنے کے بعد اپنا

سیاہ رنگ کا جھنڈا لہراتے ہوئے دمشق کے قریب ثَنِیَّۃُ الْعُقَاب پہنچے۔

اس کے بارے میں، اس جھنڈے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تھا جس کا نام عُقَاب تھا۔ اس جھنڈے کی وجہ سے اس گھاٹی کا نام بھی ثَنِیَّةُ الْعُقَاب پڑ گیا۔

(ماخوذ الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ256-258 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)
(حضرت ابوبکر صدیقؓ اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ350 علم و عرفان پبلشرز لاہور2004ء)

اس کے بعد دمشق کے مشرقی دروازے سے ایک میل کے فاصلے پر حضرت خالدؓ نے ایک جگہ قیام فرمایا۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت ابوعُبَیدہؓ آپ کو یہیں ملے تھے اور دشمن کا محاصرہ اصل میں اسی روز شروع ہوا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت خالدؓ نے دمشق کے سامنے زیادہ دن تک قیام نہ کیا بلکہ آگے بڑھ کر قَنَاۃِ بُصْرٰی پہنچے۔ جب حضرت خالد بن ولید ؓمسلمانوں کے ساتھ بُصرٰی پہنچے تو تمام لشکر یہاں جمع ہو گئے اور سب نے یہاں کی جنگ میں انہیں اپنا امیر بنا لیا۔ انہوں نے شہر کا محاصرہ کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس جنگ کے قائد حضرت یزید بن ابوسفیانؓ تھے کیونکہ یہ دمشق کی عملداری میں تھا جس کے وہ والی اور قائد تھے۔ یہاں کے باشندوں نے اس پر صلح کی کہ مسلمانوں کو جزیہ دیں گے اور مسلمان ان کی جانوں اور ان کے اموال اور ان کی اولاد کو امان دیں گے۔

(فتوح البلدان للبلاذری صفحہ 174 مترجم ابوالخیر مودودی، نفیس اکیڈمی لاہور1986ء)
(حضرت ابوبکر صدیق اکبرؓ از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ351علم و عرفان پبلشرز لاہور2004ء)

پھر

معرکۂ اَجْنَادَیْن

یا اجنادِین ہے۔ دونوں لکھے ہیں۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ فلسطین کے نواحی علاقوں میں سے یہ ایک معروف بستی کا نام ہے۔

(معجم البلدان جلد1 صفحہ129 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بُصریٰ کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ، حضرت ابوعُبَیدہؓ، حضرت شرحبیلؓ اور حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو ساتھ لے کر حضرت عمرو بن عاصؓ کی مدد کے لیے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓو اس وقت فلسطین کے نشیبی علاقوں میں مقیم تھے۔ آپ اسلامی لشکروں سے آ کر ملنا چاہتے تھے مگر رومی لشکر ان کے تعاقب میں تھا اور اس کوشش میں تھا کہ انہیں جنگ پر مجبور کر دے۔ رومیوں نے جب مسلمانوں کی آمد کے متعلق سنا تو وہ اجنادین کی طرف ہٹ گئے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے جب اسلامی لشکروں کے متعلق سنا تو وہ وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ اسلامی لشکروں سے جا ملے اور پھر سب اجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے اور رومیوں کے سامنے صف آرا ہو گئے۔

(ماخوذ ازتاریخ الطبری جلد2 صفحہ346 – 347 دارالکتب العلمیۃ بیروت1987ء)
(ماخوذ ازالخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیقؓ شخصیتہ و عصرہ للصلابی صفحہ312 دار المعرفۃ)

دوسری روایت یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق اجنادین جانے سے قبل حضرت خالد بُصریٰ کی بجائے دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور حضرت ابوعُبَیدہؓ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس محاصرے کے دوران ہرقل نے اہلِ دمشق کی مدد کے لیے ایک لشکر بھی بھیجا تھا جس کے ساتھ مسلمانوں کی جھڑپ ہوئی تھی جو بعد میں دمشق کی فتح کے ذیل میں بیان ہو جائے گی۔

(ماخوذ از حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ379-380 بک کارنر شو روم جہلم)

بہرحال دمشق کے محاصر ے کے دوران حضرت خالدؓ اور حضرت ابوعُبَیدہؓ کو معلوم ہوا کہ حِمْص کے حاکم نے ایک لشکر اکٹھا کیا ہے تا کہ حضرت شرحبیل بن حسنہ ؓکا راستہ کاٹے جو کہ اس وقت بُصریٰ میں تھے اور یہ کہ رومیوں کا ایک بڑا لشکر اجنادین کے مقام پر اترا ہے۔

اس خبر نے حضرت خالدؓ اور حضرت ابوعُبَیدہؓ کو پریشان کر دیا کیونکہ آپؓ اس وقت اہل دمشق سے جنگ میں مصروف تھے۔ اس پر حضرت خالدؓ اور حضرت ابوعُبَیدہؓ نے باہم مشورہ کیا۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم یہاں سے چلیں اور حضرت شرحبیلؓ تک پہنچ جائیں اس سے قبل کہ دشمن ان تک پہنچ جائے۔ حضرت خالدؓ نے کہا کہ اگر ہم حضرت شرحبیل ؓکی طرف گئے تو اجنادین میں موجود رومی لشکر ہمارا پیچھا کرے گا اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ہم اسی بڑے لشکر کا قصد کریں جو کہ اجنادین میں موجود ہے اور حضرت شرحبیل ؓ کی طرف پیغام بھیج دیں اور انہیں دشمن کی ان کی طرف ہونے والی حرکت سے آگاہ کر دیں اور انہیں کہیں کہ وہ اجنادین میں ہمارے ساتھ آ ملیں۔ اسی طرح ہم حضرت یزید بن ابوسفیانؓ اور حضرت عمروؓ کو بھی کہلا بھیجیں کہ وہ ہم سے اجنادین میں آ کر مل جائیں پھر ہم اپنے دشمن سے مقابلہ کریں۔ اس پر حضرت ابوعُبَیدہؓ نے کہا کہ یہ رائے بہت عمدہ ہے اللہ اس میں برکت رکھے۔ اس پر عمل کریں۔

ایک روایت کے مطابق حضرت ابوعُبَیدہؓ نے حضرت خالد ؓکو یہ مشورہ دیا تھا کہ ہمارالشکر شام میں متفرق مقامات پر منتشر ہے۔ لہٰذا ان تمام کو خط لکھا جائے کہ وہ ہمیں اجنادین کے مقام پر آ کر ملیں

چنانچہ جب حضرت خالد ؓنے دمشق سے اجنادین کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو تمام امرا کو خط لکھ کر اجنادین میں جمع ہونے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت خالدؓ اور حضرت ابوعُبَیدہؓ بھی لوگوں کو لے کر دمشق کا محاصرہ چھوڑ کر اجنادین والوں کی طرف سرعت کے ساتھ نکل پڑے۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ لشکر کے پچھلے حصہ میں تھے۔ اہلِ دمشق نے تعاقب کر کے حضرت ابوعُبَیدہؓ کو جا لیا اور ان کا گھیراؤ کر لیا۔آپ دو سو آدمیوں کے ساتھ تھے۔ دراصل یہ عورتوں بچوں اور مال و اسباب پر مشتمل قافلہ تھا۔ ایک روایت کے مطابق ان کی نگرانی اور حفاظت کے لیے ایک ہزار سوار بھی موجود تھے۔ جبکہ اہلِ دمشق بہت بڑی تعداد میں تھے۔ بہرحال حضرت ابوعُبَیدہؓ نے ان سے شدید لڑائی کی۔ جب اس کی اطلاع حضرت خالدؓ تک پہنچی جو کہ سواروں کے ساتھ لشکر کے اگلے حصہ میں تھے تو آپؓ واپس لوٹے اور آپؓ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی لوٹے۔ پھر سواروں نے رومیوں پر حملہ کر دیا اور انہیں ایک دوسرے پر گراتے ہوئے تین میل تک پیچھے دھکیل دیا یہاں تک کہ وہ واپس دمشق میں داخل ہو گئے۔ دوسری طرف اجنادین میں مقیم رومی فوج نے اپنے دوسرے لشکر کی جانب خط روانہ کیا اور انہیں بھی اجنادین آنے کی ہدایت کی۔ رومیوں کا یہ لشکر حضرت شرحبیلؓ پر حملہ کی غرض سےبُصرٰی کی طرف جا رہا تھا چنانچہ وہ لشکر بھی اجنادین آگیا۔ اسی طرح حضرت خالد ؓکی ہدایت پر تمام اسلامی لشکر بھی اجنادین میں جمع ہو گئے۔

(ماخوذ از تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ228تا 230 دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)
(مردان عرب صفحہ216،214)

رومی سپہ سالار نے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر واپس بھیجنا چاہا کیونکہ ایرانیوں کی طرح اس کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ بھوکے ننگے لوگ ہیں۔ اپنے غریب ملک سے لوٹ مار کے لیے نکلے ہیں۔ وہ صدیوں کے غیر متمدن جاہل مفلس اور بے سروسامان صحرا نشین عربوں سے کسی اعلیٰ مقصد کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت خالدؓ کو ایک پیشکش کی کہ اگر وہ اور ان کی فوج واپس چلے جائیں تو ہر سپاہی کو ایک دستار ایک جوڑا کپڑا اور ایک طلائی دینار دیا جائے گا۔ سپہ سالار کو دس جوڑے کپڑے اور ایک سو طلائی دینار اور خلیفہ کو ایک سو جوڑے کپڑے اور ایک ہزار دینار۔ تو یہ انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکو لٹیرے ہیں۔ ان کو اتنا دو اور رخصت کر دو۔ حضرت خالدؓ نے یہ سنا تو یہ پیشکش بڑی حقارت سے ٹھکرا دی اور انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ

رومیو! ہم تمہاری خیرات کو حقارت سے ٹھکراتے ہیں کیونکہ جلد ہی ہم تمہارے مال و دولت، تمہارے کنبوں اور تمہاری ذاتوں کے مالک بن جائیں گے۔

(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ156-157 البدر پبلیکیشنز لاہور)

جب دونوں لشکر قریب ہو گئے تو رومیوں کے ایک سردار نے ایک عربی شخص کو بلا کر کہا کہ تم مسلمانوں میں داخل ہو جاؤ۔ وہ عربی مسلمان نہیں تھا اور ان میں ایک دن رات ٹھہرو۔ پھر میرے پاس ان کی خبریں لاؤ۔ وہ شخص لوگوں میں جا گھسا۔ عربی شخص ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کو اجنبی نہ سمجھا وہ مسلمانوں کے درمیان ایک دن اور ایک رات مقیم رہا۔ پھر جب رومی سردار کے پاس واپس آیا تو اس نے پوچھا: کیا خبر لائے ہو؟ اس نے کہا خبر کا پوچھتے ہو تو پھر

خبر یہ ہے کہ رات کو یہ عبادت گزار ہیں، رات کی عبادت کرنے والے ہیں اور دن کو شہسوار۔ اپنے درمیان انصاف کو قائم رکھنے کی خاطر اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں اور اگر زنا کرے تو اس کو سنگسار کر دیتے ہیں۔

رومی سردار نے اسے کہا کہ اگر تم مجھ سے سچ کہہ رہے ہو تو سطح زمین پر ان سے مقابلہ کرنے کی نسبت زمین کے اندر سما جانا بہتر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ پر بس اتنی عنایت کرے کہ مجھے اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دے نہ ان کے خلاف میری مدد کرے اور نہ ہی میرے خلاف ان کی۔ (تاریخ طبری جلد2 صفحہ347 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء) تاریخ طبری میں یہ لکھا ہے۔

بہرحال صبح کے وقت لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو حضرت خالدؓ نکلے اور لشکر کو ترتیب دیا۔ حضرت خالدؓ لوگوں کے درمیان انہیں جہاد کی ترغیب دلاتے ہوئے چلتے جاتے تھے اور ایک جگہ نہ رکتے تھے اور آپ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مضبوطی سے ڈٹی رہیں اور لوگوں کے پیچھے کھڑی ہو جائیں۔ اللہ کو پکاریں اور اسی سے فریاد کرتی رہیں اور جب کبھی مسلمانوں میں سے کوئی آدمی ان کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے بچوں کو ان کی طرف بلند کریں اور ان سے کہیں کہ اپنی اولاد اور عورتوں کو بچانے کے لیے جنگ کرو۔ حضرت خالدؓ ہر دستے کے پاس ٹھہرتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کے راستے میں اور ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے اللہ کا انکار کیا ہے اور اپنی ایڑیوں کے بل پھر نہ جانا اور تم اپنے دشمن سے مرعوب نہ ہونا بلکہ شیروں کی طرح پیش قدمی کرو یہاں تک کہ رعب چھٹ جائے اور تم آزاد معزز لوگ ہو۔ تمہیں دنیا بھی دی گئی ہے اور آخرت کا بدلہ بھی تمہارے لیے اللہ کے ذمہ واجب قرار دیا گیا ہے۔ دشمن کی کثرت جو تم دیکھ رہے ہو تمہیں خوف میں مبتلا نہ کرے۔ یقیناً اللہ اپنا عذاب اور سزا نازل کرنے والاہے۔ حضرت خالدؓ نے لوگوں سے فرمایا کہ جب میں حملہ کروں تو تم بھی حملہ کر دینا۔

(ماخوذ از تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ230-231 دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)

اس کے بعد دونوں لشکروں میں شدید لڑائی ہوئی۔ حضرت سعید بن زید نے مسلمانوں کو اس طرح نصیحت کرکے جوش دلایا کہ

اے لوگو! اللہ کے سامنے اپنی موت کو یاد رکھو اور جنگ سے بھاگ کر جہنم کےمستحق مت بنو۔ اے دین کی حفاظت کرنے والو! اور اے قرآن کی تلاوت کرنے والو! صبر سے کام لو، صبر سے!

جب جنگ ہوئی اور سخت جنگ ہوئی تو رومیوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ جب اپنے مقام پر پہنچ گئے تو وَرْدَان نے اپنی قوم کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ اگر یہی حالت رہی تو یہ ملک و دولت تم سے چلی جائے گی۔ بہتر ہے کہ اب بھی اپنے دلوں کے زنگ کو دھو ڈالو۔ ہمارے دلوں میں خیال تک نہیں گزرا تھا کہ یہ چرواہے اور یہ بھوکے ننگے غلام عرب ہم سے لڑیں گے۔ ان کو قحط و خشک سالی نے ہماری طرف روانہ کیا اور اب انہوں نے یہاں آ کر پھل کھائے، میوے کھائے، جَو کی جگہ گندم کی روٹی مل گئی۔ سرکہ کی جگہ شہد کھا رہے ہیں۔ انجیر، انگور اور عمدہ اشیاء سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ پھر اس نے کچھ سرداروں سے رائے طلب کی تو

ایک سردار نے یہ مشورہ دیا کہ اگر مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو ان کے امیر کو کسی حیلے اور بہانے سے دھوکے سے بلا کر قتل کر دو تو باقی سب لوگ بھاگ جائیں گے۔

تم پہلے قوم کے دس سپاہیوں کو بھیجو کہ وہ گھات لگا کر بیٹھ جائیں اور پھر مسلمانوں کے امیر کو اکیلے گفتگو اور مذاکرات کے لیے بلاؤ۔ جب وہ بات چیت کی غرض سے آئے تو گھات لگائے ہوئے سپاہی دھاوا بول کر اسے قتل کر دیں۔

چنانچہ رومیوں کے امیر نے ایک فصیح و بلیغ شخص کو حضرت خالدؓ کے پاس بھیجا۔ قاصد جب مسلمانوں کے پاس پہنچا تو زور سے آواز دی کہ اے عرب! کیا خونریزی اور اس قتل پر بس نہیں کرتے ہو۔ ہم نے صلح کی ایک تجویز سوچی ہے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ تمہارا سردار مجھ سے گفتگو کے لیے آگے آ جائے۔ حضرت خالدؓ آگے آئے اور اسے کہا کہ تُو جو پیغام لایا ہے اسے بیان کر مگر سچائی کو مدنظر رکھنا۔ اس نے کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ ہمارا امیر خونریزی کو پسند نہیں کرتا۔ اب تک جو لوگ قتل ہوئے ہیں ان کو اس پر غم ہے۔ اس لیے ان کی یہ رائے ہے کہ تم لوگوں کو کچھ مال دے کر ایک معاہدہ کریں تا کہ جنگ بندی ہو جائے۔ دورانِ گفتگو اللہ تعالیٰ نے جو قاصد آیا تھا اس کے دل میں ایسا رعب ڈالا کہ اس نے حضرت خالدؓ سے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے بدلے اپنے سردار کا پورا منصوبہ حضرت خالدؓ کے سامنے بیان کر دیا۔ سارا منصوبہ جو اس کو پتہ تھا کہ کس طرح چھپ کر حضرت خالدؓ پہ حملہ کرنا ہے۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے غداری نہیں کی تو میں تجھے اور تیرے اہل و عیال کو امان دیتا ہوں۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اپنے سردار کو جا کر بتایا کہ حضرت خالدؓ ان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ وہ بہت خوش ہوا اور جو جگہ بات چیت کے لیے معین کی گئی تھی وہاں اپنے دس سپاہیوں کو ایک ٹیلے کے پیچھے چھپا کر گھات لگانے کا حکم دیا۔ حضرت خالدؓ جیسا کہ اس نے بتا دیا تھا اس کے منصوبے کو جان چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے حضرت ضرار ؓسمیت دس مسلمانوں کو اس مقام کی طرف بھیجا جہاں دشمن گھات لگائے ہوئے تھا۔ مسلمانوں نے اس جگہ پہنچ کر رومی سپاہیوں کو جا لیا اور سب کو قتل کر کے خود ان کی جگہ بیٹھ گئے۔ حضرت خالدؓ رومیوں کے امیر سے بات چیت کے لیے چلے گئے۔ دونوں طرف کی فوجیں بالکل ایک دوسرے کے مقابل تیار کھڑی تھیں۔ رومی امیر بھی وہاں پہنچ گیا۔ حضرت خالدؓ نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔

اگر تم اسلام قبول کر لو تو تم ہمارے بھائی بن جاؤ گے
ورنہ جزیہ دو یا لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ۔

رومی امیر کو گھات لگائے ہوئے سپاہیوں پر بھروسا تھا۔ چنانچہ وہ ایک دم حضرت خالدؓ پر تلوار سے حملہ آور ہوا اور آپ کے دونوں بازوؤں کو پکڑ لیا۔ حضرت خالدؓ نے بھی اس پر حملہ کیا۔ رومی امیر نے اپنے آدمیوں کو آواز دی کہ جلدی دوڑو، مَیں نے مسلمانوں کے امیر کو پکڑ لیا ہے۔ ٹیلے کے پیچھے سے صحابہ کرامؓ نے یہ آوازسنی تو تلواریں سونت کر اس کی طرف لپکے۔ وَرْدَان پہلے تو یہ سمجھا کہ یہ میرے آدمی ہیں مگر جب حضرت ضِرارؓ پر نظر پڑی تو بدحواس ہو گیا اس کے بعد حضرت ضِرارؓ اور دوسرے سپاہیوں نے مل کر اس کا کام تمام کر دیا۔ جب رومیوں کو اپنے امیر کی موت کی خبر ہوئی تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔

(ماخوذ از فتوحات شام از مولانا فضل محمد یوسف زئی صفحہ97تا 104مکتبہ ایمان و یقین 2011ء)

اس کے بعد لوگ ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے اور لڑائی شروع ہو گئی۔ رومیوں کے ایک اَور سردار نے مسلمانوں کی لڑائی کا حال دیکھا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ میرے سر کو کپڑے سے باندھ دو۔ انہوں نے اس سے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا کہ آج کا دن بڑا منحوس ہے میں اس کو دیکھنا نہیں چاہتا۔میں نے دنیا میں آج تک ایسا سخت دن نہیں دیکھا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اس کا سر قلم کیا تو وہ کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ347 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

اس جنگ میں رومیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ (فتوح البلدان لامام ابی الحسن البلاذری صفحہ74 دارالکتب العلمیۃ بیروت2000ء) مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار۔(الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق شخصیتہ و عصرہ للدکتور علی محمد الصلابی صفحہ312 دارالمعرفۃ بیروت2006ء) اور ایک روایت کے مطابق پینتیس ہزار تھی۔ (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ805 البدر پبلیکیشنز لاہور 2000ء)

اس جنگ میں تین ہزار رومی مارے گئے اور ان کا شکست خوردہ لشکر دیگر کئی شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔

(تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ231 دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)

اَجْنَادَین کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو ایک خط کے ذریعہ یہ خوشخبری سنائی۔ اس کا متن اس طرح ہے کہ السلام علیکم۔ میں آپ کو خبر دے رہا ہوں کہ ہماری اور مشرکین کی جنگ ہوئی اور انہوں نے ہمارے مقابلے میں بڑے بڑے لشکر اجنادین میں جمع کر رکھے تھے۔ انہوں نے اپنی صلیبیں بلند کی ہوئی تھیں اور کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا رکھی تھی کہ وہ فرار اختیار نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہمیں فنا کر دیں یا ہمیں اپنے شہروں سے نکال باہر کریں اور

ہم بھی اللہ پر پختہ یقین اور اس پر توکّل کرتے ہوئے نکلے۔ پھر ہم نے کسی قدر ان پر نیزوں سے وار کیا پھر ہم نے تلواریں نکالیں اور ان کے ذریعہ دشمن پر اتنی دیر تک ضربیں لگائیں جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے تیار کیا جاتا ہے۔

پھر اللہ نے اپنی مدد نازل کی اور اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کافروں کو شکست دی اور ہم نے انہیں ہر کشادہ راستے، ہر گھاٹی اور ہر نشیبی جگہ پر موت کے گھاٹ اتارا۔ اپنے دین کو غلبہ عطا کرنے اور اپنے دشمن کو ذلیل کرنے اور اپنے دوستوں سے عمدہ سلوک کرنے پر تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ جب یہ خط حضرت ابوبکرؓ کے سامنے پڑھا گیا تو اس وقت آپ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ آپؓ کو اس فتح نے خوش کر دیا اور آپؓ نے فرمایا الحمد للہ! تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور اس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دیا۔

(تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ231-232 دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)

اَجْنَادَین کی جنگ کے بارے میں یہ بھی ابہام ہے کہ یہ کب ہوئی؟ بعض کے نزدیک تو یہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ اس بارے میں جو ایک وضاحت ہے یہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ جیساکہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کب ہوئی؟ تو مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ جنگ تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کی وفات سے چوبیس دن یا بیس دن یا چونتیس دن پہلے لڑی گئی۔

(تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ232 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)
(فتوح البلدان لامام ابی الحسن البلاذری صفحہ74 دارالکتب العلمیۃ بیروت2000ء)

اور بعض مؤرخین کے زمانے میں یہ جنگ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں پندرہ ہجری میں لڑی گئی۔

(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ266 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

بہرحال ہمارے جو تحقیق کرنے والے ہیں ان کی جو تحقیق ہے اور ان کا یہ خیال ہے اور یہ خیال صحیح لگتا ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ اجنادین کے مقام پر دو مرتبہ جنگ ہوئی ہو۔ پہلی بار حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں اور دوسری بار حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں،کیونکہ بعض کتب تاریخ میں دونوں مواقع پر اسلامی افواج الگ الگ بیان ہوئی ہیں۔ تیرہ ہجری میں ہونے والی جنگ کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ تھے اور پندرہ ہجری میں ہونے والی جنگ کے سپہ سالار حضرت عمرو بن عاصؓ تھے۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے، واللّٰہ اعلم۔

فتح دمشق کے بارے میں تفصیلات ہیں۔ وہ ان شاء اللہ آئندہ۔

(الفضل انٹرنیشنل 16؍ستمبر 2022ء صفحہ 5تا10)

پچھلا پڑھیں

ایضاً کا استعمال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 ستمبر 2022