• 19 اپریل, 2024

قرآن کریم میں استعمال ہونے والی اسلامی اصطلاحات

ہم اپنی روز مرہ زندگی میں جن اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال کرتے ہیں ان کی تفصیل اور قرآن کریم میں ان کا کہاں ذکر ہے اور ان کے مطالب کیا ہیں اس بارے میں افادہ عام کے لئے ان تمام اصطلاحات کو ایک جگہ مضمون کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

تَعَوُّذ

قرآن کریم کی تما م سورتوں کے آغاز میں تعوّذ آیا ہے۔ ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ‘‘ یعنی ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں تب پڑھنے کا حکم ہے جب کسی ناپسندیدہ بات کا سامنا ہو۔ اس کے علاوہ جن آیات کریمہ میں یہ پڑھنے کا حکم ہے ان میں سے چند آیات نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں :

فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ۔

(النحل: 99)

پس جب توُ قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پنا ہ مانگ۔

وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ۔

(الاعراف: 201)

اور اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی وَسوَسہ پہنچے تو اللہ کی پناہ مانگ۔ یقیناً وہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

وَ اَعُوۡذُ بِکَ رَبِّ اَنۡ یَّحۡضُرُوۡنِ۔

(المؤمنون :99)

اور (اس بات سے) میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے ربّ! کہ وہ میرے قریب پھٹکیں۔

وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔

(حٰم ٓالسجدہ: 37)

اور اگر تُجھے شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچے تو اللہ کی پناہ مانگ۔ یقیناً وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ

قرآن کریم میں لفظ ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ سورتوں کے آغاز کے علاوہ سورہ النمل کی آیت 31میں آیا ہے ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ بمعنیٰ اللہ کے نام سے اور اسے ہرکام کے شروع کرتے وقت پڑھا جاتا ہے۔

اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔

(النمل :31)

یقیناً وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے:

اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دینے والا (ا ور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

قرآن کریم میں لفظ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بمعنیٰ اگر اللہ نے چاہا پایا جاتا ہے اور اِسے ہر کام کے ارادہ کرنے پر پڑھا جاتا ہے۔ جن آیات میں آیا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :

قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ۔

(البقرہ: 71)

انہوں نے کہا اپنے ربّ سے ہماری خاطر دعا کر کہ وہ ہم پر (مزید) واضح کرے کہ وہ کیا ہے؟ یقیناً سب گائیاں ہم پر مشتبہ ہوگئی ہیں۔ اور ہم یقیناً اِنْ شَآءَ اللّٰہُ ضرور ہدایت پانے والے ہیں۔

قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا۔

(الکہف: 70)

اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو مجھے تُو صبر کرنے والا پائے گا اور میں کسی امر میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔

(الصافات: 103)

پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمرکو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتاہے۔ یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔

قَالَ اِنَّمَا یَاۡتِیۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ اِنۡ شَآءَ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ۔

(ہود :34)

اس نے کہا یقیناً اللہ ہی اُسے لئے ہوئے تمہارے پاس آئے گا اگر وہ چاہے گا۔ اور تم کبھی (اُسے) عاجز کرنے والے نہیں ہوسکتے۔

قَالَ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُنۡکِحَکَ اِحۡدَی ابۡنَتَیَّ ہٰتَیۡنِ عَلٰۤی اَنۡ تَاۡجُرَنِیۡ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِکَ ۚ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔

(القصص: 28)

اس نے (موسیٰ سے) کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی اِن دونوں بیٹیوں میں سے ایک تجھ سے بیاہ دوں اس شرط پر کہ تُو آٹھ سال میری خدمت کرے۔ پس اگر تُو دس پورے کر دے تو یہ تیری طرف سے (طوعی طور پر) ہوگا اور میں تجھ پر کسی قسم کی سختی نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ چاہے تو تُو مجھے نیک لوگوں میں سے پائے گا۔

فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَبَوَیۡہِ وَ قَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ۔

(یوسف: 100)

پس جب وہ یوسف کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے قریب جگہ دی اور کہا کہ اگر اللہ چاہے تو مصر میں امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۔

(التوبہ: 28)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مشرکین تو ناپاک ہیں۔ پس وہ اپنے اِس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکیں۔ اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہو تو اللہ تمہیں اپنے فضل کے ساتھ مالدار کر دے گا اگر وہ چاہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا۔

(الفتح: 28)

یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کی) رؤیا حق کے ساتھ پوری کر دکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجدِ حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے، ایسی حالت میں کہ تم خوف نہیں کروگے۔ پس وہ اس کا علم رکھتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے۔ پس اس نے اس کے علاوہ قریب ہی ایک اَور فتح مقدر کردی ہے۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ

بمعنیٰ اللہ پاک ہے۔ اِسے اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی کی تعریف کی جائے۔ سبحان اللّٰہ والی آیات یہ ہیں:

ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ۔

(الحشر: 24)

وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے (اور) کبر یائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اُس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ۔

(یوسف: 109)

تُو کہہ دے کہ یہ میرا راستہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں بصیرت پر ہوں اور وہ بھی جس نے میری پیروی کی۔ اور پاک ہے اللہ اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔

فَلَمَّا جَآءَہَا نُوۡدِیَ اَنۡۢ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔

(النمل: 9)

پس جب وہ اس کے پاس آیا تو نِدا دی گئی کہ برکت دیا گیا ہے جو اس آگ میں ہے اور وہ بھی جو اس کے اردگرد ہے۔ اور پاک ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ۔

اَمۡ لَہُمۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ۔

(الطور: 22)

کیا ان کے لئے اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے؟ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔

وَ رَبُّکَ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخۡتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ۔

(القصص: 69)

اور تیرا ربّ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (اُس میں سے) اختیار کرتا ہے۔ اور اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ پاک ہے اللہ اور بہت بلند ہے اُس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔

(المؤمنون: 92)

اللہ نے کوئی بیٹا نہیں اپنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے۔ ایسا ہوتا تو یقیناً ہر معبود اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور ضرور ان میں سے بعض بعض دوسروں پر چڑھائی کرتے۔ پاک ہے اللہ اُس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔

(الانبیاء: 23)

اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی معبود ہوتے تو دونوں تباہ ہو جاتے۔ پس پاک ہے اللہ، عرش کا ربّ اُس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَ حِیۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ۔

(الروم: 18)

پس اللہ (ہر حال میں) پاک ہے اُس وقت بھی جب تم شام میں داخل ہوتے ہو اور اس وقت بھی جب تم صبح کرتے ہو۔

سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔

(الصّٰفات: 160)

پاک ہے اللہ اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

مَاشَآءَ اللّٰہ

بمعنیٰ جو اللہ چاہے۔ اس کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی کے اچھے کام کی تعریف ہو رہی ہو۔ماشاء اللہ والی آیات یہ ہیں :

وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۚ اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا۔

(الکہف: 40)

اور جب تُو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں تُو نے ماشاءاللہ نہ کہا اور یہ کہ اللہ کے سوا کسی کو کوئی قوّت حاصل نہیں۔ اگر تو مجھے مال اور اولاد کے اعتبار سے اپنے سے کم تر دیکھ رہا ہے۔

اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّہٗ یَعۡلَمُ الۡجَہۡرَ وَ مَا یَخۡفٰی۔

(الاعلیٰ: 8)

سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔ یقیناً وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور اسے بھی جو مخفی ہے۔

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ۔

(یونس: 50)

تُو کہہ دے کہ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نہ کسی نقصان کا کوئی اختیار رکھتا ہوں اور نہ نفع کا مگر (اتنا ہی) جو اللہ چاہے۔ ہر قوم کے لئے ایک اَجل مقرر ہے۔ جب ان کی اَجل آجائے تو نہ وہ ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ۚ یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَکۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ ۚ وَ قَالَ اَوۡلِیٰٓؤُہُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا ؕ قَالَ النَّارُ مَثۡوٰکُمۡ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ۔

(الانعام: 129)

اور (یاد رکھ) وہ دن جب وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا (اور کہے گا) اے جنوں کے گروہ ! تم نے عوام الناس کا استحصال کیا۔ اور عوام النّاس میں سے ان کے دوست کہیں گے۔ اے ہمارے ربّ! ہم میں سے بعض نے بعض دوسروں سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنی اس مقررہ گھڑی تک آپہنچے جو تُو نے ہمارے لئے مقرر کی تھی۔ وہ کہے گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے (تم) اُس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہوگے سوائے اُس کے جو اللہ چاہے۔ یقیناً تیرا ربّ صاحبِ حکمت (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ۔

(الاعراف: 189)

تُو کہہ دے کہ میں اللہ کی مرضی کے سوا اپنے نفس کے لئے (ایک ذرّہ بھر بھی) نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اور اگر میں غیب جاننے والا ہوتا تو یقیناً میں بہت دولت اکٹھی کر سکتا تھا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ لیکن میں تو محض ایک ڈرانے والا اور ایک خوشخبری دینے والا ہوں اُس قوم کے لئے جو ایمان لاتی ہے۔

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ سُعِدُوۡا فَفِی الۡجَنَّۃِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ۔

(ہود: 109)

اور وہ لوگ جو خوش نصیب بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے۔ وہ اس میں رہنے والے ہیں جب تک کہ آسمان اور زمین باقی ہیں سوائے اس کے جو تیرا ربّ چاہے۔ یہ ایک نہ کاٹی جانے والی جزا کے طور پر ہوگا۔

تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ

بمعنی میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور جب طبیعت کے بر عکس کوئی Feeling محسوس ہو تب یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ والی آیات یہ ہیں :

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ۔

(التوبہ: 129)

پس اگر وہ پیٹھ پھیرلیں تو کہہ دے میرے لئے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں توکل کرتا ہوں اور وہی عرشِ عظیم کا ربّ ہے۔

وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍؕ وَ مَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ۔

(یوسف: 68)

اور اس نے کہا اے میرے بیٹو! ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور میں تمہیں اللہ (کی تقدیر) سے کچھ بھی بچا نہیں سکتا۔ حکم اللہ ہی کا چلتا ہے۔ اسی پر میں توکل کرتا ہوں اور پھر چاہئے کہ اسی پر سب توکل کرنے والے توکل کریں۔

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍ ۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکُمۡ مَّقَامِیۡ وَ تَذۡکِیۡرِیۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَکُمۡ وَ شُرَکَآءَکُمۡ ثُمَّ لَا یَکُنۡ اَمۡرُکُمۡ عَلَیۡکُمۡ غُمَّۃً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ۔

(یونس: 72)

اور تُو ان پر نوح کی خبر پڑھ جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر تم پر میرا مؤقف اور اللہ کے نشانات کے ذریعہ نصیحت کرنا شاق گزرتا ہے تو میں تو اللہ ہی پر توکل کرتا ہوں۔ پس تم اپنی تمام طاقت اکٹھی کر لو اور اپنے شرکا کو بھی۔ پھر اپنی طاقت پر تمہیں کوئی اشتباہ نہ رہے پھر کر گزرو جو مجھ سے کرنا ہے اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔

وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیۡ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ٭ۖ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ۔

(الشوریٰ: 11)

اور جس چیز میں بھی تم اختلاف کرو تو اُس کا فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہے اللہ جو میرا ربّ ہے۔ اُسی پر میں توکل کرتا ہوں اور اُسی کی طرف میں جھکتا ہوں۔

اِنِّیۡ تَوَکَّلۡتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ ؕ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَاؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔

(ہود: 57)

یقیناً میں اللہ ہی پر توکّل کرتا ہوں جو میرا ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر وہ (اسے) اُس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑے ہوئے ہے۔ یقیناً میرا ربّ صراطِ مستقیم پر (ملتا) ہے۔

قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ رَزَقَنِیۡ مِنۡہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُخَالِفَکُمۡ اِلٰی مَاۤ اَنۡہٰکُمۡ عَنۡہُ ؕ اِنۡ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ ؕ وَ مَا تَوۡفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللّٰہِ ؕعَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ۔

(ہود: 89)

اس نے کہا اے میری قوم! مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشن حجت پر قائم ہوں اور وہ مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ رزق عطا کرتا ہے (پھر بھی کیا میں وہی کروں جو تم چاہتے ہو)۔ جبکہ میں کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ جن باتوں سے تمہیں منع کرتا ہوں خود میں وہی کرنے لگ جاؤں۔ میں تو صرف حسبِ توفیق اصلاح چاہتا ہوں۔ اور اللہ کی تائید کے سوا مجھے کوئی مدد حاصل نہیں۔ اسی پر میں توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف جھکتا ہوں۔

کَذٰلِکَ اَرۡسَلۡنٰکَ فِیۡۤ اُمَّۃٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہَاۤ اُمَمٌ لِّتَتۡلُوَا۠ عَلَیۡہِمُ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ بِالرَّحۡمٰنِ ؕ قُلۡ ہُوَ رَبِّیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ مَتَابِ۔

(الرعد: 31)

اسی طرح ہم نے تجھے ایک ایسی اُمّت میں بھیجا جس سے پہلے کئی اُمتیں گزر چکی تھیں تاکہ تُو اُن پر وہ تلاوت کرے جو ہم نے تیری طرف وحی کیا حالانکہ وہ رحمان کا انکار کر رہے ہیں۔ تو کہہ دے وہ میرا ربّ ہے۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں۔ اُسی پر میں توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے۔

إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ

بمعنی ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ الفاظ فوتیدگی یا گمشدگی پر یا کسی نقصان پر بولے جاتے ہیں۔ اسکے بارے میں آیت یہ ہے:

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

(البقرہ: 157)

اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

بمعنیٰ تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے۔ (یہ اللہ کی تعریف ہے اسے ہر نیکی، خوبی، انعام ملنے پر بھی بولا جاتا ہے) جن آیات میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ آیا ہے وہ یہ ہیں :

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔

(الفاتحہ :2)

تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کاربّ ہے

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ۔

(العنکبوت: 64)

اور اگر تُو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس کے ذریعہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔ تُو کہہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے لیکن اکثر اُن میں سے عقل نہیں رکھتے۔

دَعۡوٰہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰٮہُمْ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔

(یونس: 11)

وہاں ان کا اعلان یہ ہوگا کہ اے (ہمارے) اللہ! تو پاک ہے اور وہاں ان کا خیرسگالی کا کلمہ سلام ہوگا اور اُن کا آخری اعلان یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰٮنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰٮنَا اللّٰہُ ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ نُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡکُمُ الۡجَنَّۃُ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ۔

(الاعراف: 44)

اور ہم اُن کے سینوں سے کینےکھینچ نکالیں گے۔ اُن کے زیرتصرف نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ کہیں گے کہ تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں یہاں پہنچنے کی راہ دکھائی جبکہ ہم کبھی ہدایت نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا۔ یقیناً ہمارے پاس ہمارے ربّ کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے۔ اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہ وہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث ٹھہرایا گیا ہے بسبب اُس کے جو تم عمل کرتے تھے

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔

(لقمان: 26)

اور اگر تُو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔ تُو کہہ دے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہےلیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا۔

(بنی اسرائیل: 112)

اور کہہ کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے کبھی کوئی بیٹا اختیار نہیں کیا اور جس کی بادشاہت میں کبھی کوئی شریک نہیں ہوا اور کبھی اُسے ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں پڑی جو (گویا) کمزوری کی حالت میں اُس کا مددگار بنتا۔ اور تُو بڑے زور سے اُس کی بڑائی بیان کیا کر۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ عِلۡمًا ۚ وَ قَالَا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّنۡ عِبَادِہِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔

(النمل :16)

اور ہم نے یقیناً دا ؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا کیاتھا۔ اور دونوں نے کہا تمام تعریف اللہ ہی کی ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے۔

قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی ؕ آٰللّٰہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ۔

(النمل: 60)

کہہ دے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور سلام ہو اس کے بندوں پر جنہیں اس نے چن لیا۔ کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں؟

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ سَیُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ فَتَعۡرِفُوۡنَہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ۔

(النمل: 94)

اور کہہ دے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ عنقریب تمہیں اپنے نشانات دکھائے گا۔ پس تم انہیں پہچان لو گے اور تیرا ربّ ہرگز اس سے غافل نہیں جو تم لوگ کرتے ہو۔

فَاِذَا اسۡتَوَیۡتَ اَنۡتَ وَ مَنۡ مَّعَکَ عَلَی الۡفُلۡکِ فَقُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ نَجّٰنَا مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ۔

(المؤمنون: 29)

پس جب تُو اور وہ جو تیرے ساتھ ہیں کشتی پر قرار پکڑ جائیں تو یہ کہہ کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات بخشی۔

وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَذۡہَبَ عَنَّا الۡحَزَنَ ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوۡرٌ شَکُوۡرُ۔

(فاطر: 35)

اور وہ کہیں گے کہ تمام تر تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہم سے غم دور کیا۔ یقیناً ہمارا ربّ بہت ہی بخشنے والا (اور) قدردان ہے۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ۔

(ابراہیم: 40)

سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق عطا کئے۔ یقیناً میرا ربّ دعا کو بہت سننے والا ہے۔

وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ صَدَقَنَا وَعۡدَہٗ وَ اَوۡرَثَنَا الۡاَرۡضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الۡجَنَّۃِ حَیۡثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ۔

(الزمر: 75)

اور وہ کہیں گے تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اپنا وعدہ ہم سے پورا کر دکھایا اور ہمیں (اس موعودہ) ارض کا وارث بنا دیا۔ جنت میں جہاں چاہیں ہم جگہ بناسکتے ہیں۔ پس عمل کرنے والوں کا اجر کتنا عمدہ ہے۔

وَ تَرَی الۡمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیۡنَ مِنۡ حَوۡلِ الۡعَرۡشِ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ ۚ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ قِیۡلَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔

(الزمر: 76)

اور تُو فرشتوں کو دیکھے گا کہ عرش کے ماحول کو گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گے۔ وہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہوں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا۔

(الکہف: 2)

سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اُتاری اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔

ہُوَ الۡحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔

(المؤمن: 66)

وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس اُسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اُسے پکارو۔ کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

بمعنیٰ تم پر سلامتی ہو۔ اسکے بارے میں بیان ہوتا ہے:

وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ۔

(الزمر: 74)

اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کیا وہ بھی گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے حتیٰ کہ جب وہ اس تک پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے تب اس کے داروغے ان سے کہیں گے تم پر سلامتی ہو۔ تم بہت عمدہ حالت کو پہنچے۔ پس اس میں ہمیشہ رہنے والے بن کر داخل ہو جاؤ۔

قرآن کریم کی وہ آیات جن میں ’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ‘ یا ’مُحَمَّدٌ‘ (ﷺ) کا نام مبارک آیا ہے

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ۔

(آل عمران: 145)

اور محمد نہیں ہے مگر ایک رسول۔ یقیناً اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا۔ اور اللہ یقینا شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا۔

(الاحزاب: 41)

محمد تمہارے (جیسے) مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتَم ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ۔

(محمد: 3)

اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا، اور وہی ان کے رب کی طرف سے کامل سچائی ہے، اُن کے عیوب کو وہ دور کردے گا اور ان کا حال درست کر دے گا۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰۃِ ۚ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔

(الفتح: 30)

محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کفار کے مقابل پر بہت سخت ہیں (اور) آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں۔ سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کی نشانی ہے۔ یہ اُن کی مثال ہے جو تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال ایک کھیتی کی طرح ہے جو اپنی کونپل نکالے پھر اُسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی ہوجائے اور اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہوجائے، کاشتکاروں کو خوش کردے تاکہ ان کی وجہ سے کفار کو غیظ دلائے۔ اللہ نے ان میں سے اُن سے، جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے، مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ کیا ہواہے۔

ﷺیا دورد شریف پڑھنےکا حکم

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔

(الاحزاب: 57)

یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ

بمعنیٰ میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں۔یہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہیں جب ہم میں سے کوئی گناہ سے بچنا چاہے۔

(نیشنل سلیبس سٹیج III صفحہ97۔100)

اسلامی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ہے جس کو استغفار اور توبہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعددبار مومنوں کو اپنی سابقہ غلطیوں پر توبہ واستغفار کرنے اور آئندہ ایسی غلطیوں کو دہرانے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ جیسے

ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔

(البقرہ: 200)

پھر تم (بھی) وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لَوٹتے ہیں۔ اور اللہ سے بخشش مانگو۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ۔

(آل عمران: 160)

پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔ پس ان سے دَرگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکل کر۔یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔

فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَ مَثۡوٰکُمۡ۔

(محمد: 20)

پس جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی لغزش کی بخشش طلب کر، نیز مومنوں اور مومنات کے لئے بھی۔ اور اللہ تمہارے سفری ٹھکانوں کو بھی خوب جانتا ہے اور مستقل ٹھکانوں کو بھی۔

وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔

(الذّاریات: 19)

اور صبحوں کے وقت بھی وہ استغفار میں لگے رہتے تھے۔

اَللّٰہُ اَکْبَرُ

بمعنیٰ اللہ سب سے بڑا ہے۔ ارشاد نبویؐ کے مطابق جب آپ پہاڑی یا اونچائی (Stairs) چڑھ رہے ہوں تو پڑھنا چاہیے۔

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ۔

(العنکبوت: 46)

تُو کتاب میں سے، جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے، پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر۔ یقیناً نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر یقیناً سب (ذکروں) سے بڑا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ

بمعنیٰ اللہ پاک ہے۔ جب پہاڑی یا اونچائی (Stairs) سے اُتر رہے ہوں تو پڑھا جاتا ہے۔

(نیشنل سلیبس صفحہ 113۔114)

لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤاللّٰہ ُ

بمعنیٰ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’توحید تبھی پوری ہوتی ہے کہ کُل مرادوں کا مُعطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذاتِ واحد ہو۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنیٰ یہی ہیں۔ صوفیوں نے اِلٰہٌ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے۔ بے شک اصل اور سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل طور پر کار بند نہیں ہوتا۔ اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ32 ایڈیشن2003ء)

توحید باری تعالیٰ کا اظہار قرآن کریم کی متعدد آیات میں ہوا ہے جن میں سے چند ایک نمونے کے طور پر پیش کی جارہیں ہیں :

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ۔

(الانبیاء: 26)

اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اُس کی طرف وحی کرتے تھے کہ یقیناً میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی عبادت کرو۔

اِنَّہُمۡ کَانُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۙ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ۔

(الصافات: 36)

یقیناً وہ ایسے تھے کہ جب انہیں کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ استکبار کرتے تھے۔

فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَ مَثۡوٰکُمۡ۔

(محمد: 20)

پس جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی لغزش کی بخشش طلب کر، نیز مومنوں اور مومنات کے لئے بھی۔ اور اللہ تمہارے سفری ٹھکانوں کو بھی خوب جانتا ہے اور مستقل ٹھکانوں کو بھی۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2021