• 23 اپریل, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

• مکرم ومحترم ایڈیٹر صاحب روزنامہ الفضل آن لائن

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے باقاعدگی کے ساتھ الفضل کے مطالعہ کی توفیق مل رہی ہے۔ ایک شمارہ پڑھ لیں تو اگلے شمارے کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ جب تک جماعتی لٹریچر میں سے کچھ نہ کچھ پڑھ نہ لوں ایک طرح کی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے الفضل اور دیگر جماعتی لٹریچر پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے جس کا سب سے اہم محرک خاکسار کے دادا جان مرحوم چوہدری احمد دین صاحب چٹھہ ہیں۔ جب میں چھٹی کلاس کا طالب علم تھا آپ مجھے دن کے کسی حصہ میں اپنے پاس بلاکر فرماتے: ’’بیٹا الفضل آیا ہے اس کی شہ سرخیاں سنا دو۔‘‘ پھر فرماتے ’’اپنی پسند کا کوئی حصہ سنادو۔‘‘ میں تلاش کرکے کوئی چھوٹا سا حصہ سنا دیا کرتا۔ ان دنوں الفضل کے پہلے صفحے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی کی صحت یا مصروفیات کے بارے میں چھوٹی سی خبر شائع ہوتی تھی۔ اکثر وہی حصہ پڑھ دیتا۔ آپ بہت خوش ہوتے اور شاباش کے الفاظ کے ساتھ حوصلہ افزائی فرماتے۔ جب کوئی جماعتی رسالہ گھر آتا تو اس کے متعلق بھی یہ طریق اختیار کرتے۔ اس طرح ایک نام معلوم طریق پر میرا جماعتی لٹریچر کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوگیا۔ جس نے بعد کی زندگی میں مجھے بیحد فائدہ دیا۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک

اگرچہ دادا جان اور آپ کے چھوٹے بھائی چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب چٹھہ خود بھی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ بلکہ دونوں بھائی گھنٹوں جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے علاوہ علمی اور دینی باتیں کیا کرتے تھے لیکن بچوں کو اس روحانی مائدہ کے ساتھ وابستہ کرنے کے لیے ان کا یہ طریق بے حد سود مند ثابت ہوا۔ جب بھی الفضل یا دیگر اخبارات و رسائل کے مطالعہ کی توفیق ملتی ہے تو اپنے پیارے مرحومین یاد آجاتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اُن کی بلندی درجات کے لیے دعا کی توفیق ملتی ہے۔ جماعتی لٹریچر کے ساتھ وابستگی کے سلسلہ میں میرے والد محترم نذیر احمد خادم صاحب کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آپ اخبار یا کسی رسالے میں کوئی دلچسپ یا ایمان افروز واقعہ دیکھتے تو اپنے پاس بٹھا کر سناتے اور ایک مخصوص انداز میں اس کا حظ اٹھاتے اور بار بار اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے کہ جس نے ہمارے لیے یہ سب اسباب پیدا فرمائے ہیں۔ ابا جان کی کاغذ قلم کے ساتھ بہت گہری دوستی تھی۔ آپ اسکول کے زمانہ میں ہی مضامین لکھنے شروع کردیئے تھے جبکہ یہ سلسلہ تادم آخر جاری رہا۔ ڈائری بھی باقاعدگی سے لکھا کرتے۔ مطالعہ کے دوران پڑھتے پڑھتے نوٹس بھی لیتے رہتے۔ تلاوت قرآن کریم تو گویا آپ کی روح کی غذا تھی۔ بڑی محبت سے تلاوت قرآن کریم کیا کرتے۔ دن میں کم از کم پانچ سے دس بار تلاوت قرآن کریم آپ کا سالوں سے معمول تھا۔ قرآن کریم کی تفاسیر اور تراجم آپ کی سائیڈ ٹیبل پر ہروقت موجود رہتے۔ جن سے بھرپور استفادہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر اباجان سے دن میں دو چار بار بات کرنے کا موقع ملتا تھا۔ ہماری گفتگو کا نناوے فیصدی موضوع دین سے متعلق ہوتا۔ کبھی قرآن کریم سنانا شروع کر دیتے، کبھی کہتے میں نے چند آیات حفظ کی ہیں وہ سناتا ہوں۔ کبھی خلیفہ وقت کی باتیں شروع کردیتے ۔ خلافت کے اہمیت اور برکات بیان کرتے۔ خلیفہ وقت سے مضبوط تعلق کی اکثر نصیحت فرماتے۔ فرماتے کہ جب بھی حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھو تو میرا سلام بھی لکھ دینا ۔اکثر کہا کرتے کہ خلافت ہے تو ہم ہیں ورنہ ہماری کیا حیثت ہے۔خلافت کے بغیر ہمارا حال بھی غیروں کی طرح ہوتا۔ خلفاء کے ساتھ تعلق کے واقعات سناتے۔ حضور کا خطبہ سننے کے بعد ضرور فون کیا کرتے اور خطبہ کے پوائنٹ دہراتے، کبھی کسی اخبار یا رسالے میں سے کوئی پسند کی چیز سنا دیتے۔ بزرگوں کے ساتھ تعلق کے واقعات سناتے۔ گویا آپ کا اوڑھنا بچھونا ہی دین دین اور بس دین تھا۔ اللہ تعالیٰ میرے پیاروں کے درجات تا ابد بلند فرماتا چلا جائے اور انہیں اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

والسلام خاکسار
ظہیر احمد طاہر۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات