• 20 اپریل, 2024

اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال

اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال
از ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریرات ایک ایسی مالا کی طرح ہیں جس کا ہر موتی انتہائی قیمتی اور انمول ہے۔ ادارہ الفضل آن لائن نے 12 ربیع الاوّل کے موقع پر بعنوان ’’اسلامی اصطلاحات کا برمحل استعمال‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ کے اجراء کا ارادہ کیا ہے۔ تو اس سلسلہ میں خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات میں سے کچھ ایسے انمول موتی چُن کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ اسلامی اصطلاحات ہمارے لئے راہ ہدایت ہیں اور خدا تعالیٰ ہمیں ان ارشادات کو اپنی روز مرہ زندگی میں لاگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسم اعظم اللہ

فرمایا: خدا تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے جو تمام صفات ِ کاملہ کا متجمع ہے۔ کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ101 ایڈیشن 1984ء)

*ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ قرآن شریف میں اسم اعظم کون سا لفظ ہے؟

فرمایا: اسم اعظم اللہ ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ250 ایڈیشن 1984ء)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ

فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپؐ نے آکر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کہہ اٹھتا ہے۔ پوری کامیابی، پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلایا صلی اللہ علیہ وسلم۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ59 ایڈیشن 2016ء)

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ

فرمایا :اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں مختلف طبقات کے انسان پائے جاتے ہیں مگر مسلمان تو انسان اسی صورت میں رہ سکتا ہے جب سچے دل سے کلمہ طیّبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر ایمان لاوے اور پورے طور پر اس پر کاربند ہو جاوے۔

(ملفوظات جلد10صفحہ10 ایڈیشن 1984ء)

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

فرمایا: نرا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہی کہہ دینا کافی نہیں۔ یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے۔ جب تک عملی طور پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو کچھ نہیں۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ114 ایڈیشن 1984ء)

اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

فرمایا: اِنْ شَآءَ اللّٰہُ کہنا نہایت ضروری ہے کیونکہ انسان کے تمام معاملات اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ وہ طرح طرح کے مصائب اور مکارہ و مواقع میں گھرا ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ جو کچھ ارادہ اس نے کیا ہے وہ پُورا نہ ہو۔ پس اِنْ شَآءَ اللّٰہُ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے مدد طلب کی جاتی ہے۔آجکل کے نا عاقبت اندیش و نادان لوگ اس پر ہنسی اڑاتے ہیں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ370 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا: لفظ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تعالیٰ کہنے میں انسان اپنی کمزوری کا اظہار کرتا ہے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کام کروں لیکن خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو امید ہے کہ کر سکوں گا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ378 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا: آج کل کے تعلیم یافتوں کا یہ حال ہے کہ اپنی گفتگو میں لفظ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بھی بولنا خلاف تہذیب سمجھتے ہیں۔ کتابوں کی کتابیں پڑھ جاؤ کہیں خدا تعالی کا نام تک نہیں آتا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالی اپنی ہستی کو منوانا چاہتا ہے

(ملفوظات جلد صفحہ95 ایڈیشن 1984ء)

رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ

فرمایا : صحابہ ٔکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ میں حواریوں کو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے۔حواریوں کی تعریف میں ساری انجیل میں ایک بھی ایسا فقرہ نظر نہ آئیگا۔ کہ انہوں نے میری راہ میں جان دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں وہ صدق دکھلایا کہ انہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ کی آواز آ گئی۔ یہ اعلیٰ درجے کا مقام ہے جو صحابہؓ کو حاصل ہوا۔ یعنی اللہ تعالی ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہوگئے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ139 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا: اگر مسلمانوں کا نمونہ دیکھنا چاہو تو صحابہ ٔ کرام ؓ کی جماعت کو دیکھو۔ جنہوں نے اپنے جان و مال کے کسی قسم کے نقصان کی پرواہ نہیں کی۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ کی رضا کو مقدم کر لیا۔ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جانا ہی ایک فعل تھا جو سارا قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہو اہے اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ کا تمغہ ان کو مل گیا۔ پس جب تک تم اپنے اندر وہ جوش حمیّت اسلام کے لئے محسوس نہ کر لو۔ ہر گز اپنے آپ کو کامل نہ سمجھو۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ218 ایڈیشن1984ء)

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

فرمایا: سلام تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو۔ خدا تعالیٰ کا سلام وہ ہے جس نے ابراہیمؑ کو آگ سے سلامت رکھا۔ جس کو خدا کی طرف سے سلام نہ ہو بندے اس پر ہزار سلام کریں اس کے واسطے کسی کام نہیں آ سکتے۔ قرآن شریف میں آیا ہے سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ (یٰسین: 59)۔ ایک دفعہ ہم کو کثرت پیشاب کے باعث بہت تکلیف تھی۔ ہم نے دعا کی۔ الہام ہوا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اسی وقت تمام بیماری جاتی رہی۔ سلام وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو۔ باقی سب رسمی سلام ہیں۔

(ملفوظات جلد نمبر9 صفحہ318 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا :میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی آدمیوں کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کی خصوصیت سے وصیت فرمائی ہے۔ یا اویسؓ کو یا مسیح ؑ کو۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ270 ایڈیشن 2016ء)

مخالفوں کو سلام کہنا

ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور مخالفوں سے جو ہمیں اور حضور کو گلی گلوچ نکالتے ہیں اور سخت سست کہتے ہیں السلام علیکم جائز ہے یا نہیں۔

فرمایا : مومن بڑا غیرت مند ہوتا ہے کیا غیرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تو گالیاں دیں اور تم ان سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کرو؟ ہاں البتہ خرید و فروخت جائز ہے۔اس میں حرج نہیں کیونکہ قیمت دینی اور مال لینا کسی کا اس میں احسان نہیں۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ291 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا: بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خُلِقَ الْاِ نْسَانُ ضَعِیْفًا۔ انسان چند روز کے لئے زندہ ہے۔ ذرہ ذرہ کا وہی مالک ہے جو حّی و قیّوم ہے۔ جب وقت موعود آتا ہے تو ہر ایک چیز اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتی ہے اور سارے قویٰ رخصت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ331 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا: حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسیح موعود کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ باوجود لوگوں کی سخت مخالفتوں کے اور ان کے طرح طرح کے بد اور جانستاں منصوبوں کے وہ سلامتی میں رہے گا اور کامیاب ہوگا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ172 ایڈیشن 2016ء)

جَزَا کَ اللّٰہُ فِی الدَّ ارَیْنِ خَیْراً

فرمایا: دنیا کی دولت اور سلطنت رشک کا مقام نہیں۔ مگر رشک کا مقام دعا ہے۔ میں نے اپنے احباب اور غیر حاضرین میں سے جن کے نام یا د آئے یا شکل یاد آئی۔ آج بہت دعا کی اور اتنی دعا کی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی تو سر سبز ہو جاتی۔ ہمارے احباب کے لئے یہ بڑی نشانی ہے۔ جَزَاکَ اللّٰہُ فِی الدَّ ارَیْنِ خَیْراً۔

(ملفوظات جلد1صفحہ220 ایڈیشن 2016ء)

ھُوَ الشَّافِیْ

فرمایا: بعض ادویہ کو بعض طبائع کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے۔ اسی بیماری میں ایک کے وسطے ایک دوا مفید پڑتی ہے اور دوسرے کے واسطے ضرر رساں ہوتی ہے۔جب بُرے دن ہوں تو مرض سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر مرض سمجھ میں آجائے تو پھر علاج نہیں سُوجھتا۔ اسی واسطے مسلمان جب ان علوم کے وارث ہوئے تو انہوں نے ہر امر میں ایک بات بڑھائی۔ نبض دیکھنے کے وقت سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا کہنا شروع کیا اور نسخہ لکھنے کے وقت ھُوَ الشَّا فِیْ لکھنا شروع کیا

(ملفوظات جلد7 صفحہ383 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا: علم طب یونیانیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا مگر مسلمان چونکہ مؤحد اور خدا پرست قوم تھی۔انہوں نے اسی واسطے اپنے نسخوں پر ھُوَ الشَّافِیْ لکھنا شروع کر دیا۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ345 ایڈیشن 1984ء)

استغفار

فرمایا: بعض گناہ محسوس ہوتے ہیں بعض نہیں۔ اس لئے ہر وقت استغفار کرنا چاہئے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ326 ایڈیشن 1984ء)

فرمایا: استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویذ و حزر اور کوئی احتیاط و دوا نہیں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ305 ایڈیشن 1984ء)

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ

فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ولی اللہ اور صاحب برکات وہی شخص ہے جس کو یہ جوش حاصل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔ نماز میں جو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہا جاتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے جلال کے ظاہر ہونے کی تمنّا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عظمت ہو۔ جس کی نظیر نہ ہو۔ نماز میں تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے کہ طبعاً جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھاوے کہ اس کی عظمت کے خلاف کوئی شے مجھ پر غالب نہیں آسکتی۔ یہ بڑی عبادت ہے۔ جو لوگ اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں۔ وہی مؤیّد کہلاتے ہیں۔

(ملفوظات جلد1، صفحہ395 ایڈیشن 1984ء)

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

فرمایا: غرض مختلف قسم کے ابتلاء اور عوارض انسان پر آتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی آزمائش ہے۔ ایسی صورت میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور اس کی تقدیر کے لئے سر تسلیمِ خم کر تے ہیں۔ وہ بڑی شرح صدر سے کہتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ: 157) کسی قسم کا شکوہ اور شکایت یہ لوگ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ۔ الخ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو مشکلات میں راہ دکھا دیتا ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بڑا ہی کریم و رحیم اور با مروّت ہے۔ جب کوئی اس کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اُس کی مرضی پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ اُس کا بدلہ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ غرض یہ تو وہ مقام اور مرحلہ ہے جہاں وہ اپنی بات منوانی چاہتا ہے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ349-348 ایڈیشن 2016ء)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

فرمایا : مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر ایک امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔اس واسطے مسلمان خوشی کے وقت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور غمی اور ماتم کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہہ کر ثابت کرتا ہے کہ واقع میں اس کا ہر کام میں مرجع صرف خدا ہی ہے جو لوگ خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر زندگی کا کوئی حظ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی زندگی بہت ہی تلخ ہے کیونکہ حقیقی تسلی اور اطمینان بجز خدا میں محو ہونے اور خدا کو ہی ہر کام کا مرجع ہونے کے حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ345 ایڈیشن 1984ء)

یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْتَغِیْثُ بِرَحْمَتِکَ

ایک شخص نے اپنی مشکلات کے لئے عرض کی۔ فرمایا: استغفار کثرت سے پڑھا کرو۔ اور نمازوں میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْتَغِیْثُ بِرَحْمَتِکَ یَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ پڑھو۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ327-326 ایڈیشن 1984ء)

اسم اعظم۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِی وَارْحَمْنِیْ

فرمایا: ہیضہ کے لئے ہم نہ تو کوئی دوا بتلاتے ہیں نہ نسخہ۔ صرف یہ بتلاتے ہیں کہ راتوں کو اٹھ کر دُعا کریں اور اسم ِ اعظم رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَا حْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِی وَارْحَمْنِیْ کی تکرار نماز کے رکوع سجود وغیرہ میں اور دوسرے وقتوں میں کریں۔ یہ خدا نے اسم ِ اعظم بتایا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ135-134 ایڈیشن 1984ء)

یَا حَفِیْظُ۔یَا عَزِیْزُ۔ یَا رَفِیْقُ

فرمایا: مجھے الہام ہوا ہے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ۔ پھر چونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا۔ اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ناموں کا ورد کیا جاوے۔

یَا حَفِیْظُ۔یَا عَزِیْزُ۔ یَا رَفِیْقُ۔ رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے بیشتر اسماء باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ135 ایڈیشن 1984ء)

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ

فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو اخلاص اور توجہ عطا کی ہے یہ اُس کا فضل ہے شکر کرو اور بڑھا دے گا۔ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کا تکرار کرو۔ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کا خدا کے فضل اور گمشدہ متاع کو واپس لاتا ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ148-147 ایڈیشن 1984ء)

اُمُّ الْمُؤْمِنِیْن

فرمایا: اعتراض کرنے والے بہت ہی کم غور کرتے ہیں اور اس قسم کے اعتراض صاف بتاتے ہیں کہ وہ محض کینہ اور حسد کی بنا پر کئے جاتے ہیں۔ ورنہ نبیوں یا ان کے اظلال کی بیویاں اگر اُمّہات المؤمنِین نہیں ہوتی ہیں تو کیا ہوتی ہیں؟ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور قانون قدرت کے اس تعامل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی ۔۔۔۔ مُسلم میں تو مسیح موعود کو نبی ہی کہا گگیا ہے۔ اور قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کی بیویوں کو مومنوں کی مائیں قرار دیا ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ363 ایڈیشن 1984ء)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

جناب مولانا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی طبیعت 31جولائی 1898ء سے بعارضہ دردِ شکم علیل تھی۔ تو حضرت اقدس ؑ نے آدمی بھیج کر خبر منگوائی۔ اور افاقہ کی خبر سُن کر فرمایا اَلحَمْدُ لِلّٰہِ۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ270 ایڈیشن 1984ء)

کلمہ طیبہ شجاعت پیدا کرتا ہے

فرمایا: لوگ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے قائل نہیں ہوتے اور سچے دل سے اس کلمہ کو زبان سے نکالنے والے نہیں ہوتے۔ فرمایا : جب زید و بکر کا خوف درمیان میں ہے تب تک لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا نقش دل میں نہیں جم سکتا۔

فرمایا: یہ جو دن رات مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کہنے کے واسطے تائید اور تاکید ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ بغیر اس کے کوئی شجاعت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب آدمی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو تمام انسانوں اور چیزوں اور حاکموں اور افسروں اور دشمنوں اور دوستوں کی قوت اور طاقت ہیچ ہو کر انسان صرف اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کے سوائے سب اُس کی نظروں میں ہیچ پوجاتے ہیں۔ پس وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ کام کرتا ہے اور کوئی ڈرانے والا اس کو ڈرا نہیں سکتا۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ354-353 ایڈیشن 2016ء)

کلمہ کے معنیٰ

فرمایا: کلمہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں۔ اِلٰہٌ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کے لئے آتا ہے۔ یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے۔ چونکہ ایک بڑی اور مبسوط کتاب کا یاد کرنا آسان نہیں۔ اس لئے یہ کلمہ سکھا دیا گیا تاکہ ہر وقت انسان اسلامی تعلیم کے مغز کو مد نظر رکھے اور جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہ ہو جاوے۔ سچ یہی ہے کہ نجات نہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ قَالَ لَآ اِ لٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ یعنی جس نے صدق دل سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کو مان لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ103 ایڈیشن 1984ء)

لڑکے کی بِسْمِ اللّٰہِ

ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بِسْمِ اللّٰہِ کروائی جاوے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دی جاتی ہے۔ اگرچہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بِسْمِ اللّٰہِ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں۔

حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا :
تختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہئے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قدر اسراف اختیا ر کرنا سخت گناہ ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ346 ایڈیشن 1984ء)

مسجد

فرمایا: جہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لائے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت باخلاص ہو۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ119 ایڈیشن 1984ء)

توکُّل

فرمایا: جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق و سرور اللہ تعالیٰ پر توکّل کا اُس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اُس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا

(ملفوظات جلد1 صفحہ325 ایڈیشن 1984ء)

صَلوٰۃ

فرمایا : نماز ہی دعا ہے۔ نماز عبادت کا مغز ہے۔ جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صَلوٰۃ نہیں۔ لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب انکسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ تب وہ صَلوٰۃ میں ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ367 ایڈیشن 1984ء)

*فرمایا صَلوٰۃ اصل میں محبت الہٰی اور خوف الہٰی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ما سوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے۔

(ملفوظات جلد10صفحہ314 ایڈیشن 1984ء)

(عائشہ چودھری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2021