• 28 اپریل, 2024

سچائی اور راستبازی ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوے سے پہلے کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ خاندانی جائیداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اور جگہ بتائی کہ اس مکان کے چبوترے کے سامنے ایک تھڑا بنا ہوا تھا، جہاں خلافتِ ثانیہ میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہوا کرتے تھے، اب تو قادیان میں کچھ تبدیلیاں ہو گئی ہیں، دفاتر وہاں سے چلے گئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی، مگر اس پر دیرینہ قبضہ اُس گھر کے مالکوں کا تھا جن کا ساتھ ہی گھر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی نے اسے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کاطریق ہے، ایسے مقدموں میں جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں تا کہ جس کو وہ حق سمجھتے ہیں وہ اُنہیں مل جائے۔ آپ کے بڑے بھائی نے بھی ایسا ہی کیا اور گواہیاں بہت ساری لے کر آئے۔ گھر کے مالکوں نے کہا ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ان کے چھوٹے بھائی کو بلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں کہا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عدالت میں بلایا گیا اور آپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان لوگوں کو اس راستے سے آتے جاتے اور یہاں بیٹھے آپ عرصے سے دیکھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں دیکھ رہا ہوں۔ عدالت نے مخالف فریق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ آپ کے بھائی آپ پر سخت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کیسے انکار کروں۔ اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلا کہ آپ نے ڈاکخانے کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص کسی پیکٹ میں، پارسل میں کوئی خط ڈال دے، چِٹھی ڈال دے تو خیال کیا جاتا تھا کہ اُس نے ڈاکخانہ کو دھوکہ دیا ہے اور پیسے بچائے ہیں اور یہ ایک فوجداری جرم تھا جس کی سزا قید کی صورت میں دی جا سکتی تھی۔ آپ نے ایک پیکٹ میں یہ مضمون پریس کی اشاعت کے لئے بھیجا تھا اور اس میں ایک خط بھی ڈال دیا تھا جو اُس اشتہار یا مضمون کے متعلق ہی تھا، کچھ ہدایات تھیں اور اسے آپ اُس کا حصہ ہی سمجھتے تھے، نقصان پہنچانا مقصدنہیں تھا۔ پریس کے مالک نے جو غالباً عیسائی تھے، یہ رپورٹ کر دی۔ آپ پر مقدمہ چلایا گیا۔ وکیل نے کہا کہ مقدمہ کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اور گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ آپ انکار کر دیں کہ میں نے نہیں ڈالا تو کچھ نہیں ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ جو میں نے بات کی ہے، اُس کا انکار کیسے کر سکتا ہوں۔ چنانچہ جب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے پوچھا آپ نے کوئی ایسا مضمون ڈالا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ڈالا تھا لیکن کسی دھوکے کے لئے نہیں بلکہ خط کو مضمون کا حصہ ہی سمجھا تھا۔ اس سچائی کا عدالت پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے کہا کہ ایک اصطلاحی جرم کے لئے ایک سچے اور راستباز شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی اور بَری کر دیا۔

پھر آپ لکھتے ہیں کہ اسی طرح کئی واقعات، مقدمات میں آپ کو پیش آتے رہے جن کی وجہ سے اُن وکلاء کے دلوں میں جن کا ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا، آپ کی بہت عزت تھی۔ چنانچہ شیخ علی احمد صاحب ایک وکیل تھے۔ آپ نے ایک مقدمے میں شیخ علی احمد صاحب کو وکیل نہیں کیا توانہوں نے لکھاکہ مجھے افسوس ہے کہ اس مقدمے میں آپ نے مجھے وکیل نہیں کیا۔ اس لئے افسوس نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا، فیس لوں گا، بلکہ اس لئے کہ خدمت کا موقع نہیں مل سکا۔ سچائی اور راستبازی ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیر احمدی رہے۔ احمدی نہیں تھے اور انہوں نے بیعت نہیں کی، لیکن ظاہری رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اُن کا اخلاص کسی طرح بھی احمدیوں سے کم نہیں تھا۔

(خطبہ جمعہ 29؍نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2022