• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 49)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 49

خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے

یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (النمل: 63)

(ملفوظات جلد10 صفحہ137 ایڈیشن 1984ء)

ایک ولی اللہ کی دعا

خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہیئے اور اس میں غور کرنا چاہیئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہےانسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔ ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے۔ سمندر میں طوفان آگیا۔ قریب تھا کہ جہاز غرق ہوجاتا۔ اس کی دعا سے بچا لیا گیا اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچالیا۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ139 ایڈیشن1984ء)

صبر سے کام لینا چاہیئے

بات دراصل یہ ہےکہ صبر سے کام لینا چاہیئے۔ ترقی ہورہی ہے۔قبولیت دلوں میں پیدا ہوتی جاتی ہے اور دنیا کے کناروں تک اب یہ سلسلہ پہنچ چلا ہے۔ہمارے پاس بعض ایسے لوگوں کے بھی خط آتے ہیں جن میں سے بعض رؤسائے ریاست بھی ہوتے ہیں اور انہوں نے بیعت بھی نہیں کی ہوتی وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے فلاں امر میں دعا کی جاوے۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے دل مان گئے ہیں اور اب دیکھو متواتر 26 یا 27 برس سے ہمارا دعویٰ چلا آرہا ہے اور خدا تعالیٰ اس میں روز بروز ترقی دے رہا ہے۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس بات کی نظیر نہیں ملتی کہ کسی مفتری علی اللہ کو اس قدر مہلت دی گئی ہو اور ایسی قبولیت اور ترقی عطا کی گئی ہو۔ آسمانی اور زمینی نشان اس کے واسطے بطور شاہد پیدا کئے گئے ہوں۔ آخر ان باتوں کا بھی تو دلوں پر اثر ہوتا ہے۔ گھبرانا نہیں چاہیئے۔ صبر، استقامت اور دعا سے کام لینا چاہیئے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ159-160 ایڈیشن1984ء)

یاد رکھو کہ کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں ہوتا جبتک کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو۔

ہر ایک کا فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے پوری کوشش کرے۔ نور اور روشنی لوگوں کو دکھائے۔ خداتعالیٰ کے نزدیک ولی اللہ اور صاحب برکات وہی ہے جس کو یہ جوش حاصل ہوجائے۔ خدا تعالےٰ چاہتا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔ نماز میں جو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا جاتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے جلال کے ظاہر ہونے کی تمنا ہے خدا تعالےٰ کی ایسی عظمت ہو کہ اس کی نظیر نہ ہو۔ نماز میں تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ترغیب دی ہے کہ طبعًا جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھاوے کہ اس کی عظمت کے برخلاف کوئی شئی مجھ پر غالب نہیں آسکتی۔ یہ بڑی عبادت ہے۔ جو اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں وہی مؤید کہلاتے ہیں اور وہی برکتیں پاتے ہیں۔ جو خدا تعالےٰ کی عظمت اور جلال اور تقدیس کے واسطے جوش نہیں رکھتے ان کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بیکار ہیں۔ جب تک خدا تعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو یہ سجدے صرف جنتر منتر ٹھہریں گے جن کے ذریعہ یہ بہشت کو لینا چاہتا ہے۔

یاد رکھو کوئی جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو فائدہ مند نہیں ہوسکتی جیسا کہ خدا تعالیٰ کو قربانی کے گوشت نہیں پہنچتے ایسے ہی تمہارے رکوع اور سجود بھی نہیں پہنچتے جبتک ان کے ساتھ کیفیت نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کیفیت کو چاہتا ہے۔ خدا ان سے محبت کرتا ہے جو اس کی عزت اور عظمت کیلئے جوش رکھتے ہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ایک باریک راہ سے جاتے ہیں اور کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ جب تک کیفیت نہ ہو انسان ترقی نہیں کرسکتا۔

گویا خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اس کے لئے جوش نہ ہو کوئی لذت نہیں دے گا۔

…یاد رکھو کہ کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں ہوتا جبتک کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو۔ ذاتی جوش نہ ہو۔ جس کے ساتھ کوئی ملونی ذاتی فوائد اور منافع کی نہ ہو۔ ایسا ہو کہ خود بھی نہ جانے کہ یہ جوش میرے میں کیوں ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ178 179 ایڈیشن1984ء)

قبولیتِ دعا کا راز

دعا کی قبولیت کا بھی یہی راز ہے۔ انسان جب تک اپنی خواہشات، ارادوں اور علموں کو ترک کرکے خدا میں فنا نہ ہوجاوے اور خدا کی قدرت کاملہ اور قادر مطلق ہونے اور سننے اور قبول کرنے والا ہونے پر یقین کامل اور پورا وثوق نہ رکھتا ہو تب تک دعا بھی ایک بے حقیقت چیز ہے۔ فلسفیوں کو کیوں قبولیت دعا پر ایمان نہیں ہوتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو خدا کی وسیع قدرت اور باریک در باریک سامانوں کے پیدا کردینے والا ہونے پر ایمان نہیں ہوتا… اور وہ خدا کی قدرت کو محدود جانتے ہیں اور اپنے تجارب اور علوم پر بھی بھروسہ کر بیٹھتے ہیں۔ ان کو اپنے تجارب کے مقابلہ میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ خدا بھی ہے اور وہ بھی کچھ کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بعض سخت مہلک امراض میں وہ لوگ یقینی اور قطعی حکم لگا دیتے ہیں کہ یہ شخص بچ نہیں سکتا یا اتنے عرصے میں مرجاویگا۔ یا اس طرز سے مرے گا۔ مگر بیسیوں مثالیں ایسی خود ہماری چشم دید ہیں اور بعض کو ہم جانتے ہیں جن میں باوجود ان کے یقینی اور قطعی حکم لگادینے کے خدا تعالیٰ نے ان بیماروں کے واسطے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ آخر کار بچ گئے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض وہ بیمار جن کے حق میں یہ لوگ موت کا قطعی اور اٹل فتویٰ دے چکے تھے زندہ سلامت ہوگئے اورکسی دوسرے موقع پر ان کو مل کر شرمندہ کیا اور ان کے علم و دعویٰ کو بھی شرمندہ کیا ہے…پس قطعی حکم ہر گز نہ لگانا چاہیئے بلکہ اگر رائے ظاہر بھی کرنی ہو تو یوں کہدو کہ ہمیں ایسا شک پڑتا ہے مگر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسے سامان پیدا کردے کہ جن سے یہ روک اٹھ جاوے اور بیمار اچھا ہوجاوے۔ دعا ایک ایسا ہتھیار خدا تعالیٰ نے بنایا ہے کہ انہونے کام بھی جن کو انسان ناممکن خیال کرتا ہے ہوجاتے ہیں کیونکہ خدا کے لئے کوئی بات بھی انہونی نہیں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ198-195 ایڈیشن1984ء)

تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں

تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنا ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ203 ایڈیشن1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2022