• 4 مئی, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً (كتاب العلم حصہ5) (قسط 10)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب العلم حصہ5
قسط 10

سوال: خضرؑ سے ملاقات کرنے والے موسیؑ کی شخصیت کے تعین کا اختلاف کیاہے؟

سعید بن جبیرؓ نے نوف بکالی کے خیال کہ خضرؑ سے ملاقت کرنے والے موسیٰ بنی اسرائیلی نبی نہ تھے کوئی اور موسیٰ تھے کی وضاحت ابن عباسؓ سے دریافت کی ابن عباسؓ نے فرمایا کہ بکالی کاذب ہے (نوف بکالی علیؓ کا دربان ہوا کرتا تھا)۔ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ ابی ابن کعبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ایک روز موسیٰؑ نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا۔ ان سے سوال ہوا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟

انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ ناراض ہوا کہ تجھے واللّٰہ اعلم کہنا چاہیئے تھا۔ اور اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے۔

موسیٰؑ نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟

حکم ہوا کہ ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں وہاں ملے گا۔ تب موسیٰؑ چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا۔

ٹوکری میں مچھلی رکھ کر چل پڑے اور ٹوکری ایک پتھر پہ رکھ کر دونوں سو گئے اور مچھلی نے ٹوکری سے نکل کر دریا میں اپنا رستہ لیا اور یہ بات موسیٰؑ اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں جتنا وقت تھا چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیؑ نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر نے ہمیں تھکا دیا ہے۔جب وہ اپنی مقررہ جگہ سے آگے نکل گئے تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا۔ موسیٰؑ نے کہا وہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے ہے۔ موسیٰؑ نے انہیں سلام کیا، خضرؑ نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟

پھر موسیٰؑ نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہاں!

پھر موسیؑ نے کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں سکھائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔

خضرؑ نے جواب دیا تم میرے ساتھ صبر نہیں رکھ سکو گے۔ کیونکہ مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔

موسیٰ نے جواب دیا اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضرؑ کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں تو خضرؑ نے کہا اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر کے پانی سے۔ پھر خضرؑ نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰؑ نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضرؑ نے کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟

تو موسیٰؑ نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔

پھر دونوں چلے اور ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضرؑ نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسیٰؑ بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا ہےخضرؑ نے کہا کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکو گے۔ پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰؑ پھر بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضرؑ نے کہا کہ اب ہمارے درمیان جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایاکہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، کاش موسیؑ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے۔

سوال: کون سی لڑائی اللہ کی خاطر ہوتی ہے؟

جواب: ایک شخص رسول اللہؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟

کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے۔

تو آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا
جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتاہے۔

سوال: اللہ نے روح کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟

جواب: عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ مدنیہ کے کھنڈرات کی طرف تھے اور میں آپؐ کے ہمراہ تھا وہاں یہود کا ایک گروہ ملا ان میں سے ایک شخص نے حضورؐ پوچھا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟

آپؐ نے خاموشی اختیار فرمائی، مجھے گمان ہوا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپؐ سے وہ کیفیت دور ہو گئی تو آپؐ نے قرآن کی یہ آیت:‏‏‏‏
وَیَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۶﴾ (بنی اسراعیل: 85) کی تلاوت فرمائی؛ تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔

یعنی تم روح کی حقیقت کو نہیں پاسکتے ہو۔ یہ خدا کنہ میں سے ہے۔ اس سے متعلق سوچ بچار مت کرو۔

سوال: کعبہ کے متعلق آپؐ نے عائشہؓ سے کس خواہش کا اظہار کیا؟

جواب: رسول اللہؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ!

اگر تیری قوم اسلام میں راسخ ہوچکی ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے۔

بعد ازاں عبداللہ بن زبیرؓ نے یہ کام کردیا تھا۔

سوال: لوگوں سے کس درجہ کی باتیں کرنی چاہیئں؟

جواب: علیؓ کا ارشاد ہے کہ لوگوں سے وہ باتیں کرو جنہیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟ یعنی عوام میں پچیدہ باتیں نہ کرو۔

سوال: کیا زبانی اقرار ایمان کے ساتھ عمل بجا لانا ضروری ہے؟

جواب: معاذ بن جبلؓ نے اپنی آخری عمر میں بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ حضورؐ کے پیچھے سوار تھا اور آپؐ نے مجھے تین بار پکارا اور میں نے تینوں بار ہی لبّیک کہا۔

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پہ دوزخ کی آگ کو حرام کر دیتا ہے۔

میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟

آپؐ نے فرمایا اگر تم لوگوں کو یہ نوید سناؤ گے تو عمل چھوڑکر اسی بات پہ تکیہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔

سوال: کیا متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل کر سکتا ہے؟

جواب: حضرت عائشہؓ کا فرمان ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انہیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔

سوال: کیا عورتوں کے طہارت کے مسائل بھی مردوں کی طرح ہیں؟

جواب: اُمّ ِسلیمؓ نے آپؐ سے پوچھا کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟

آپؐ نے فرمایا کہ ہاں جب عورت پانی دیکھ لے۔ یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو۔ تو یہ سن کر ام سلمہؓ نے حیاء کی وجہ سے اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟

آپؐ نے فرمایا، ہاں! بچے کی شکل و مشابہت اس بات کا کافی ثبوت ہے۔

یعنی کہ عورت کا پانی بھی مرد کی طرح ہی نکلتا ہے۔ جس کو آجکل کے لوگ انڈا کہتے ہیں۔

سوال: مذی کے مریض کی طہارت کے بارے حضورؐ کا کیا حکم ہے؟

جواب: علیؓ سے روایت ہیں کہ میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے مقداد کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہؐ سے دریافت کریں۔ تو انہوں نے آپؐ سے اس بارے میں پوچھا۔

آپؐ نے فرمایا کہ مذی کے مرض میں غسل نہیں وضو فرض ہے۔

سوال: احرام باندھنے کے مقامات کون سے ہیں؟

جواب: (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟

تو رسول اللہؐ نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ اور یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔

سوال: احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟

جواب: آپؐ نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں اس طرح کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2022