لجنہ اماء اللہ کا پس منظر اور سو سالہ ترقیات کا سفر
1922ء – 2022ء
قسط 3
حضرت مسیح موعودؓ کے زمانے میں خدمت قرآن کریم کا آغاز
صحابیات نے جو کچھ سیکھا اور حاصل کیا وہ سب فیض تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور تربیت تھی حضرت اُم المؤمنینؓ کی۔ ایک خاص تعداد مستورات کی ایسی تھیں جنہوں نے حضرت اقدسؑ کی کتب پڑھ کر تقریر سن کر اپنے دلوں میں علم و فضل کی شمعیں روشن کر لی تھیں۔
مکرمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ اہلیہ قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے اپنے گاؤں گولیکی میں چھوٹی بچوں کا اسکول کھول رکھا تھا جہاں وہ بچوں کو نماز کا قرآن اور دنیاوی تعلیم دیتی تھیں۔
’’حضرت عیسی ٰؑ فوت ہوچکے ہیں‘‘ یہ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے اور سمجھنے سے ہی علم آتا ہے۔ زینب بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے عیسائی عورت کوکھسک جانے پر مجبور کر دیا۔ واقعہ یوں ہے کہ جب آپ نے بیعت کی تو ان دنوں کھاریاں کا قصبہ عیسائی مشنریوں کا نشانہ تھا۔ عیسائی عورتیں آ آ کر مسلمان عورتوں سے پوچھتی تھیں کہ حضرت عیسی زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں۔ جاہل عورتیں جن کو کچھ قرآن کا پتہ نہیں تھا اور سن کر غلط عقیدہ قائم کر لیا تھا کہہ دیتیں کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں۔ اس پر عیسائی عورتیں ان کو کہتیں جو زندہ ہو وہی بڑا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ان کو عیسائیت کی تبلیغ کرتیں جس کا جواب جاہل عورتوں کے پاس کچھ نہ تھا۔ زینب بی بی صاحبہ نے جب بیعت کر لی تو چند روز بعد ایک عیسائی عورت تبلیغ کرنے کی خاطر آپ کے کے محلہ میں آئی اور سوال جواب شروع کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس کا ثبوت قرآن مجید پیش کرتا ہے۔آپ نے کچھ ایسے مؤثر رنگ میں یہ جواب دیا کہ اس عورت نے کھسک جانے میں ہی خیر سمجھی اور پھر بھولے سے بھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔
جب لجنہ کا قیام کھاریاں میں ہوا تو آپ ہی لجنہ کی پہلی صدر مقرر ہوئیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ7-12)
صحابیہ غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ میاں اللہ بخش صاحب امرتسری جو 313 صحابہ میں سے تھے۔ آپ کو دار المسیح ٹھہرنے کا موقع ملا۔ آپ اپنے خاوند کی وفات کے بعد اپنے داماد ملک مولا بخش صاحب کے پاس رہیں اور آخر تک بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتی تھیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ12-13)
کرم بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواری نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا مدرسہ کھول رکھا تھا۔گاؤں کے چھوٹے بچے اور مستورات بھی قرآن مجید پڑھنے کے لئے آتیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ13)
یہ سب صحابیات خدمت قرآن کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت سے انہیں زندہ خدا پر ایمان حاصل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پوری شان سے ان کے دلوں میں جلوہ گر ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت میں صحابیات نے قرون اولیٰ کی نظیر قائم کی۔ بیج بویا جا چکا تھا کونپلیں نکل چکی تھیں، پودے بڑھ رہے تھے۔ ضرورت تھی صرف آبیاری کی جس کے ذریعہ وہی پودے بڑھ کر تناور درخت بنیں۔ غنچے کھل کر پھول بنیں جن سے تمام گلشن احمد لہلہانے لگ جائے اور دنیا کی فضا ان پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو جائے۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ16)
خلفائے کرام کی خدمات قرآن
• حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا خاندان بہت علم دوست اور دیندار تھا۔ دن رات قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ آپؓ نے قرآن کریم اپنی ماں کی گود میں ہی پڑھا تھا۔ آپؓ شروع ہی سے بہت غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا زمانہ صحابہ کرام کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔ قرآن کریم اور دوسرے دینی علوم پڑھنے کا جماعت میں ایک زبردست ولولہ تھا۔ جو عشق آپ کے دل میں تھا وہی عشق آپؓ نے جماعت میں بھی پیدا کر دیا تھا۔
آپؓ نے آخری وصیت جو لکھوائی اس میں لکھوایا:
’’میرا جانشین متقی ہو۔ہردلعزیز عالم باعمل ہو۔حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی اور درگزر کو کام میں لاوے۔ میں سب کا خیرخواہ تھا وہ سب کا خیر خواہ رہے۔ قرآن و حدیث کا درس جاری رہے۔‘‘
(نظام خلافت اور خلافت احمدیہ کے سو سال صفحہ224)
• حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تعلیم القرآن کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہمیں قرآن کریم کے ترجمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے جسے قرآن نہ آتا ہو۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر ہم قرآن مجید کی تعلیم اور اس کے مطالب کو سمجھنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
(مشعل راہ صفحہ390-391)
• حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
’’لجنہ اماء اللہ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرےکہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ کی ممبران اور ناصرات الاحمدیہ ان لوگوں کی نگرانی میں جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کلام الٰہی پڑھ رہی ہیں یا نہیں۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تعلیم کلام الٰہی کے اس دوسرے دور میں داخل ہوں تو ساری دنیا کا معلم بننے کی تربیت آپ ہی کو حاصل کرنی چاہیے۔ خدا جانے آپ میں سے کس کو یہ توفیق ملے کہ وہ ساری دنیا میں تعلیم کلام الٰہی کی کلاس کھولنے کا کام کرے۔‘‘
(نور فرقان صفحہ74-89)
• حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم کس طرح اعلی درجہ کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں۔ کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور ان کی آواز میں ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے درست ادائیگی کرتے ہیں لیکن محض پرکشش آواز سے تلاوت میں جان نہیں پڑاکرتی۔ ایسے قاری اگر قرآن کریم کے معنی نہ جانتے ہوں تو وہ تلاوت کا بُت تو بنا دیتے ہیں تلاوت کے زندہ پیکر نہیں بنا سکتے۔ لیکن جو قاری سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں اور تلاوت کے اس مضمون کے نتیجہ میں ان کے دل پگھل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اٹھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تلاوت میں ایک ایسی بات پیدا ہوجاتی ہے جو اصل روح ہے تلاوت کی… تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہیے۔ خواہ تھوڑا پڑھا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ۔مطلب کہ بیان کے ساتھ پڑھا جائے اور بچے کو یہ عادت ڈالی جائے کہ جو کچھ بھی وہ تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 10؍فروری 1989ء بمقام مسجد فضل لندن)
• حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’احمدی ماؤں اور بچیوں کو میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جب آپ نمازوں کی طرف توجہ کریں تو قرآن کریم کے پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کریں۔اس سے آپ کو اللہ تعالی کے احکامات کا پتہ چلے گا اور اس سے آپ کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کے راستے ملیں گے۔ پس قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اس کا ترجمہ پڑھنا بھی اللہ تعالی کے حکموں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایک احمدی مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے یہ کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لیے اتاری تھی کہ آپؐ کے ماننے والے اس پر عمل کریں۔ اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالیں اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں۔ اس کا پیار حاصل کرنے والے ہوں۔
(الازہار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اول صفحہ354-355)
لجنہ اماء اللہ کے ابتدائی نصاب اور موجودہ نصاب کا موازنہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچ گئیں۔ کیسے اتنے بڑے بڑے پروگرام ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا کام مجلس مشاورت کا انعقاد ہے جو پورے ملک کی لجنہ شامل ہو کر اس سے مستفید ہوتی ہے۔ جلسے اور اجتماعات، اجلاسات، تربیتی تعلیمی کلاسز نمائش کا انتظام غرض کہ ماشاء اللّٰہ اتنے کام لجنہ کر رہی ہے۔
1923ء اور 1924ء میں لجنہ کو صرف کلمہ با ترجمہ، نماز سادہ، یسرنا القرآن اور با ترجمہ نماز کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی اور جن کو آتا تھا ان کو زیادہ تعلیم دی جاتی تھی۔ جو عورتیں بیعت کرنے آتی تھیں ان کو کلمہ تک نہیں آتا تھا۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ128)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عورتوں کے لیے پرائمری کی تعلیم لازمی قرار دی اور فرمایا:
’’اگلے سال کے لئے یہی تجویز رکھی جاتی ہے کہ ہر جماعت اس امر کی پابند ہو کہ اس کی تمام عورتوں کو نماز باقاعدہ آتی ہو۔ یعنی وضو کرنا نماز کی حرکات، نماز کے الفاظ پورے طور پر آتے ہوں۔ ابھی ہم ترجمہ کی شرط نہیں لگاتے ہاں جو پڑھ سکیں نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ہے۔ مگر نماز اور اس کے قواعد کلمہ اور اس کے معنی ضرور ہر احمدی عورت کو سکھا دیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ139)
یہ 1924 کی مجلس مشاورت کے وقت نصاب متعین کیا گیا تھا جبکہ آپ موجودہ دور میں نصاب کی تفصیل بیان کریں تو اپنی کارکردگی اور ترقی پر نازاں وفرحاں ہیں۔ یہ نصاب اب مکمل ترجمة القرآن تک پہنچ چکا ہے۔ مکمل با ترجمہ نماز، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام، احادیث اور مقالہ نویسی وغیرہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ہر سال کوئی نہ کوئی سورۃ حفظ کے لیے مقرر کر دی جاتی ہے۔ جس میں لجنہ اماء اللہ شوق سے حصہ لیتی ہیں اور یاد کر کے سناتی ہیں۔ اسے اجتماع کے موقع پر باقاعدہ مقابلہ میں شامل کیا جاتا ہے اور پوزیشن لینے والی ممبراتِ لجنہ کو انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ بھی لجنہ اماء اللہ کی ایک بہت بڑی خدمت قرآن ہے کہ اس نے لجنہ کو حفظ کرنے کی تحریک کی کہ وہ اپنے سینے اس نور سے روشن کریں تاکہ دین و دنیا میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
با قاعدہ ترجمۃ القرآن کا پروگرام
لجنہ اماء اللہ اپنی ممبرات کی تعلیم و تربیت کی طرف پوری توجہ رکھتی ہے اور ہر سال باقاعدہ ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ کس طرح ممبرات کو ترجمہ قرآن سکھایا جائے۔ ان ہدایات کا ایک خاکہ پیش خدمت ہے جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لجنہ اماء اللہ کس قدر خدمت قرآن میں مصروف ہے۔
سال 2009ء سے لے کر اب تک 2022ء میں بھی ہدایات جاری کی جارہی ہیں اور اس طرح لائحہ عمل بنا کر دیا جاتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا نہایت بابرکت کلام ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں رہنمائی موجود ہے۔ قرآن کریم کی برکات حاصل کرنے کے لئے، اس کے احکام پر سچے دل سے عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم قرآن کریم کی تعلیمات کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک قرآن کریم کا ترجمہ نہ سیکھ لیں۔
• بحیثیت ایک احمدی ہمارا فرض ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور اسے بار بار سمجھ کر پڑھیں لیکن گزشتہ کئی سال سے جائز ےسے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ کم ہے۔
• اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لجنہ اماء اللہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ سال بھی ترجمہ القرآن کا سال ہی منایا جائے۔
• واقفات عارضی اور موصیات جو ترجمہ قرآن سکھانے کی اہلیت رکھتی ہیں وہ تعاون کریں اور باقاعدہ پروگرام بنا کر کلاس لگائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ممبر استفادہ کر سکیں۔ ان کلاسز کی رپورٹ بھی لجنہ پاکستان میں بھجوا ئیں۔
• یہ تحریک ہر عمر کی ممبر کے لیے ہے۔ لیکن سب سے زیادہ پندرہ سے بیس سال اور بیس سے پچیس سال کی عمر کی بچیوں کی طرف توجہ دی جائے تاکہ بعد میں اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھنا بھی جاری رکھیں۔
• اسی طرح وہ ممبرات جو تعلیم کے بعد فارغ ہیں یا ملازمت کر رہی ہیں ان کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
• یہ تحریک صرف چند مجالس تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اس میں شہر، قصبہ، دیہات سب شامل ہیں۔
• قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق مسلسل بتایا جاتا رہے تاکہ ممبرات میں ترجمہ سیکھنے کا شوق پیدا ہو۔
• ترجمہ سکھانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے مثلاً ترجمة القرآن کی مستقل کی کلاسز، وقف عارضی، آڈیو کیسٹ،ممبرات از خود بھی با ترجمہ قرآن سیکھ سکتی ہیں۔ کوشش کریں کہ تلاوت کے بعد ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پڑھ لیا کریں۔ ایم ٹی اے ترجمہ القرآن کلاس سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
• ضلعی صدران سال کے آخر میں اطلاع دیں کہ انہوں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کتنی معلمات تیار کیں نیز معلمات نے آگے کتنی ممبرات کو پڑھانا شروع کیا ہے۔
مجلس شوریٰ میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کا ایجنڈا پہلی مرتبہ زیر بحث لایا گیا۔
31؍مارچ اور یکم اپریل 1923ء میں اس معاملے کو زیر بحث لایا گیا۔ مردوں کی اس شوریٰ میں لجنہ کے لیے پردہ دار جگہ بنا دی گئی تھی۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’ہمارے لئے احمدیت ایک قیمتی ورثہ ہے ہماری عورتیں اگر اپنی اولاد میں دین کو پختہ کر دیں تو وہ بڑا کام کریں گی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو دین میں پختہ کر دیں اور ہماری نسلیں ہم سے زیادہ دین کی پابند ہوں۔ علوم نے ترقی کی ہے۔مفید علوم سے ان کو واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ اولاد کو ان ابتدائی باتوں سے آگاہ کر یں۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ125-126)
چنانچہ کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں جس کی شق نمبر1 یہ تھی کہ ناظر صاحب تربیت کو خاص طور پر تعلیم نسواں کی طرف توجہ دلائی جائے اور شق نمبر4 تھی کہ قاعدہ یسّرنا القرآن اور ترجمہ نماز ہر عورت کو یاد کروایا جائے۔ اس کی آٹھ سفارشات پیش کی گئیں جن کا تعلق پہلی شق سے تھا۔ چنانچہ شوریٰ کے بعد لجنہ اماء اللہ نے اس کی طرف خاص توجہ دینی شروع کر دی۔ محترمہ امۃ الحئی ؓ صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تقریبا ًدس پندرہ شاگردوں کو صبح 6 بجے سے 10:30 تک ترجمة القرآن، حدیث شریف، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سبق پڑھاتی اور خوب ذہن نشین کرواتی تھیں۔
محترمہ صالحہ بیگم صاحبہ بھی اپنا بہت وقت تعلیم و تربیت کے لیے دیتیں۔
اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب حضرت سیدہ اُمّ ناصر احمد صاحبہ سے پڑھتی تھیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ125-126)
اور بھی لجنہ ترجمة القرآن کا کام باقاعدگی سے کرنے لگ گئیں۔
پہلی تعلیم القرآن کلاس کا آغاز
مارچ 1948ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ جس طرح ہر سال مردوں کے لئے تعلیم القرآن کلاس کا انتظام ہوتا ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی اس کا انتظام کیا جائے۔حضرت امیر الموٴمنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس تجویز پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’بہت اچھی بات ہے۔ کیا قرآن مجید صرف مردوں کے لئے نازل ہوا ہے۔ عورتوں کے لئے نہیں۔‘‘
چنانچہ اس دفعہ رمضان المبارک میں رتن باغ میں عورتوں کے لئے بھی تعلیم القرآن کلاس کا انتظام کیا گیا۔ جس میں بیرونی لجنات سے دس طالبات شامل ہوئیں۔ 12؍جولائی 1948ء بروز پیر صبح سات بجے کلاس کی پڑھائی شروع ہوئی۔ کلاس کا روزانہ وقت تین گھنٹے مقرر ہوا۔ روزانہ نصاب مندرجہ ذیل تھا۔
1۔ قرآن مجید کے ابتدائی تین پارے مع ترجمہ و تفسیر
2۔ سیرت و تاریخ
3۔ سلسلہ کے مخصوص عقائد اور اختلافی مسائل پر نوٹ
4۔ عربی بول چال ابتدائی گرائمر
5۔ فقہ کے تمام ضروری مسائل
6۔ ابتدائی طبی امداد
یہ کلاس جو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام پہلی تعلیم القرآن کلاس تھی رمضان المبارک میں جاری رہی۔ چونتیس طالبات میں سے چوبیس امتحان میں شریک ہوئیں۔ سب طالبات کامیاب ہوئیں۔ اس کا نتیجہ جب حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیاگیا تو آپؓ نے فرمایا:
’’مجھے تعلیم القران کی زنانہ کلاس کا نتیجہ دکھایا گیا ہے جو خدا کے فضل سے بہت خوش کن اور امید افزا ہے۔‘‘
ترجمۃ القرآن کلاس کا یہ آغاز لجنہ اماء اللہ کی تعلیم و تربیت میں روز بروز اضافہ کر رہا ہے اور جہاں علم میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں جماعت کی محبت اور خلافت سے وفا اور خلوص بھی پیدا ہورہا ہے۔ 1948ء کا یہ آغاز آج بھی اللہ کے فضل سے جاری و ساری ہے اور اس نے حد درجہ ترقی کرلی ہے اور کئی طریقوں سے اس کی پلاننگ کی جاتی ہے۔
(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ81-82)
حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگمؓ
ام الموٴمنینؓ کی لجنہ کے لئے خدمات
تاریخ لجنہ جلد اول کے صفحہ81 پر تحریر ہے کہ مکرمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ مرحومہ، استانی مریم صاحبہ اہلیہ حافظ روشن علی صاحب اور عزیزہ رضیہ صاحبہ مرحومہ کی روایت کے مطابق لجنہ اماءاللہ کا مذکورہ بالا پہلا اجلاس زیر صدارت ام الموٴ منین رضی اللہ عنہا ہوا تھا اور صدر لجنہ کے انتخاب کے بعد ام الموٴمنین رضی اللہ عنہا نے حضرت سیّدہ اُم ناصر احمد صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسی صدارت پر بٹھا دیا تھا۔ حضرت اُمّ ناصر احمد صاحبہ کو یہ فخر اور خصوصیت حاصل ہے کہ آپ نے 1922ء سے 1958ء تک سوائے دو سال کہ جب آپ نے بیماری کی وجہ سے رخصت لے لی لجنہ اماء اللہ کی صدر رہیں اور مستورات کی تعلیم و تربیت کی نگرانی فرماتی رہیں۔
لجنہ اماء اللہ کا قیام تو 1922ء میں ہوا لیکن حضرت اماں جانؓ عورتوں کی تربیت کے لیے روز اوّل سے ہی کوشاں رہیں۔
آپؓ لجنہ اماء اللہ کی مربی تھیں اور 14 ممبران میں سب سے پہلا نام آپ کا تھا۔ لجنہ اماء اللہ کے بنیادی مقاصد ’’ابتدائی تحریک‘‘ پر سب سے پہلے آپ ہی کے دستخط ہیں۔ وقتاً فوقتاً آپؓ لجنہ اماء اللہ کے اجلاسوں میں شرکت فرماتیں اور مناسب ہدایات سے نواز تیں۔ آپؓ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ خدا تعالی نے اپنے مسیح پاک کو مخاطب کرکے فرمایا تھا ’’تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی۔خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے تو عزت کے ساتھ قائم رکھے گا۔‘‘
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (اُمّ متین)
حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت قرآن
آپؓ کی خدمت قرآن سے کون واقف نہیں۔ آپ نے حضور کے ساتھ مل کر تفسیر کبیر کا کام مکمل کروایا۔ آپ خود اپنی اس کاوش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
’’قرآن مجید سے آپؓ کو عشق تھا اور جس طرح آپؓ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے۔ خدا تعالیٰ کی آپؓ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی اور لکھتے چلے گئے۔ تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کے پہلے حملے کے بعد یعنی 1956ء میں۔
طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں۔ فکر نہ کریں۔ زیادہ محنت نہ کریں۔ لیکن آپؓ کو ایک دھن تھی کہ قرآن کے ترجمے کا کام ختم ہو جائے۔ بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املاء کرواتے۔ مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہے۔ آخری سورتیں لکھوا رہے تھے غالباً انتیسواں سپارہ تھا یا آخری شروع ہوچکا تھا۔ (ہم لوگ نخلہ میں تھے وہیں تفسیر مکمل ہوئی تھی) کہ مجھے تیز بخار ہو گیا۔میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دنوں سے مجھے ہی ترجمہ لکھوا رہے ہیں میرے ہی ہاتھوں یہ مقدس کام ختم ہو۔ میں بخار سے مجبور تھی۔ ان سے کہا کہ میں نے دوائی کھا لی ہے آج یا کل بخار اتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کر لیں۔ آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کر سکوں نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارا بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو؟ سارا دن ترجمہ لکھا تے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کا کام ختم ہوگیا۔‘‘
(ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعودؓ نمبر صد سالہ خلافت احمدیہ جوبلی صفحہ110-111)
معروف لجنہ کی خدمت قرآن
- اہلیہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ ؓ
حضرت اُم طاہر کے والد ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میرے گھر والوں (یعنی اہلیہ صاحبہ) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں ہم پر کچھ رحمت ہونی چاہیے کیونکہ اس غرض کے لیے آئے ہیں کہ فیض حاصل کریں۔ حضورؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’جو سچے طلبگار ہیں ان کی خدمت کے لیے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں۔ہمارا کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں۔‘‘
اس سے پہلے حضور نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرما دی۔ جو بطور درس تھی۔ پھر چند دن کے بعد حضورؑ نے حکم فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب درس کے لیے بیٹھے اور سب عورتیں جمع ہوئیں۔‘‘
(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ45-46)
یہ ان کی خدمت قرآن ہی تھی جس کے ذریعے دوسری مستورات کا بھی فائدہ ہو گیا اور انہوں نے مسیح پاک کے درس سے مستفید ہونے کا شرف پایا اور مسیح موعودؑ کی خوشنودی بھی حاصل کی۔
- محترمہ ہاجرہ بیگم بنت محترم حکیم فضل الرحمن صاحب
آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حکیم نور الدینؓ صاحب کی نواسی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کا درس قرآن کا سلسلہ خلافت اولیٰ میں بھی جاری رہا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے درس دیتے ہوئے ان کے بارے میں فرمایا:
’’میری یہ بچی ایسی ہے کہ مجھے اطمینان ہے کہ قرآن کریم پڑھانے کا میرا کام عورتوں میں جاری رکھے گی۔‘‘
آپؓ کی نواسی صاحبہ نے اپنے نانا جان کی اس بات پر عمل کرکے دکھایا۔ سینکڑوں عورتوں نے آپ سے قرآن پاک سیکھا۔
(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ46)
- حضرت سیّدہ امۃالحئی ؓ بنت حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ
آپ کو حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ آپ تقویٰ، طہارت اور زُہد میں نمایاں مقام پر کھڑی نظر آتی ہیں۔ کیوں نہ ہوتیں۔ کس عاشق قرآن باپ کی لخت جگر تھیں اور کس ماحول کی پروردہ؟ گویا رگ و ریشہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت قرآن پاک سے عشق رچا ہوا تھا۔ آپ کی عمر 13برس کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ عاشق قرآن کی عاشق قرآن بیٹی نے یہ صدمہ بڑے حوصلے سے برداشت کیا اور وفات کے تیسرے روز اس کمسن محسنہ نے اپنے جلیل القدر باپ کے جلیل القدر جانشین کو خط لکھا کہ
’’گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے دو دن پہلے مجھے فرمایا کہ ہم تمہیں چند نصیحتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا فرمائیں۔ میں ان شاء اللّٰہ عمل کروں گی۔ تو فرمایا بہت کوشش کرنا کہ قرآن آ جائے اور لوگوں کو بھی پہنچے۔ اور میرے بعد اگر میاں صاحب خلیفہ ہوں تو ان کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے اور میں امیدوار ہوں آپ قبول فرمائیں گے۔ میری بھی خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہےکہ میاں صاحب درس کروائیں۔ آپ برائے مہربانی اگر صبح ہی شروع کرا دیں۔ میں آپ کی نہایت مشکور ہوں گی۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ کا اس وقت عورتوں میں درس دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اپنے استاد اور آقا کی وصیت کے مطابق عورتوں میں درس قرآن شروع کیا۔ اور اس تڑپ سے تحریک کرنے والے کی دینی تعلیم و تربیت کرکے جماعت کی خواتین کے لیے نمونہ بنانے کے لئے آپ نے محترمہ امۃ الحئی صاحبہ سے شادی کرلی۔ جو آپ کی توقعات پر پوری اتریں۔آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’میں نے ارادہ کیا کہ فوراً ان کو تعلیم دوں مگر وہ اس شوق میں مجھ سے بھی آگے بڑھی ہوئی تھیں۔‘‘
(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ46تا 48)
- حضرت اُمّ ناصر سیّدہ محمودہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ
آپ کا گھر بھی ایک درسگاہ تھا۔ قرآن مجید اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس دیتیں۔ سینکڑوں لڑکیوں نے آپ سے قرآن مجید پڑھا۔ آپ ’’احمدی خاتون‘‘ کے لیے مضامین بھی لکھتی تھیں۔ آپ وہ مبارک ہستی تھیں جن کو حضرت مسیح موعودؑ سے فیض تربیت حاصل ہوا۔ جسے حضرت مصلح موعودؓ نے مزید صیقل کیا۔ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت فرمائی کہ ایک سے ایک روشن چاند ستاروں کی طرح چمکے ہیں۔
(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ48)
- محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ
آپ بھی عاشق قرآن تھیں بہت پرسوز آواز پائی تھی۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر خوش الحانی سے تلاوت کرتیں۔ سینکڑوں لڑکیوں نے آپ سے قرآن پڑھا۔
- محترمہ سارا درد اہلیہ مولانا عبدالرحیم درد صاحب
آپ کاصحن بھی ہر وقت قرآن مجید سیکھنے والے بچوں اور لڑکیوں سے بھرا رہتا تھا۔ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ اردو لکھنا پڑھنا اور تربیتی امور میں رہنمائی کرنا بھی آپ کا شعار تھا۔
(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ49-50)
- مسز ناصرہ زومان
آپ ایک ڈچ خاتون تھیں۔ خود قرآن مجید کی برکت سے احمدیت میں داخل ہوئیں۔
1945ء میں لندن میں ایک Translatio Bureall نے قرآن مجید کے آخری 300صفحات کے ترجمہ کے لیے آپ کی خدمات حاصل کیں جو کہ آپ کے لئے ایک عیسائی خاتون ہونے کی وجہ سے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہی تھا۔ کیونکہ نظریات کا فرق بہت تھا۔ لیکن بعد میں آپ کو صرف تین سو صفحات ہی نہیں بلکہ پورے قرآن مجید کے ترجمہ کی سعادت مل گئی۔
- اہلیہ صاحبہ محمد حسین بٹ صاحب کی خدمت قرآن
ان کے متعلق پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ نیروبی لکھتے ہیں کہ
’’خاتون محترمہ نے قادیان شریف میں رہ کر اس قدر تبلیغی جوش اور دینی فوائد حاصل کیے ہیں کہ آتے ہی البلاغ میں تعلیم نسواں پر لطیف مضمون لکھا اور دینی تعلیم کی ضرورت قوم کے سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی درسگاہوں کی طرف ذمہ دار احباب کی توجہ دلائی اور اپنی خدمات کو لڑکیوں کے لیے مفت پیش کیا۔ ایک صاحب نے بچی کی آمین کی تقریب پیدا کر کے احمدی اور غیر احمدی خواتین کو بلایا جس میں اہلیہ صاحبہ محمد حسین صاحب بٹ نے پون گھنٹہ تک قرآن شریف کی تفسیر بیان کی۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ186)
- حضرت ام داؤد محترمہ سیدہ صالحہ بیگم اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق ؓ
حضرت صوفی احمد جان صاحب کی پوتی اور حضرت پیر منظور محمد صاحب کی بیٹی تھیں۔
آپ قرآن مجید میں حضرت مسیح موعودؑ کی شاگرد تھیں۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ قرآن مجید پڑھا پھر آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت میر صاحب کے علم ِ قرآن مجید سے فائدہ اٹھایا۔ آپ ہی کے لیے آپ کے والد صاحب نے قاعدہ یسرنا القرآن ایجاد کیا جو ان گنت بچوں کی تعلیم القرآن کا ذریعہ بنا۔ آپ نے بڑی تعداد میں عورتوں اور بچیوں کو ترجمۃ القرآن پڑھایا۔ قادیان کے محلہ دالانوار اور دیگر دیہات کے سینکڑوں بچے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے آتے۔
(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ48-49)
- محترمہ استانی مریم بیگم اہلیہ حضرت حافظ روشن علیؓ
ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تھیں۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں قائم ہونے والے مدرسۃ البنات کی طالبہ تھیں۔ ابتدائی چار درسگاہوں میں سے ایک آ پ کے گھر پر قائم تھی۔ آپ قرآن مجید کی تعلیم میں خاص دلچسپی لیتی تھیں۔
- محترمہ قانتہ خان
ایک جرمن احمدی خاتون محترمہ قانتہ خان کا ایک عظیم الشان کارنامہ سوئیڈش زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہے جو رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رکھے گا اور ان کے لیے قیامت تک ثواب کا موجب بھی ہو گا۔
(محسنات صفحہ52)
انگلستان کی ملکہ الز بیتھ کی شادی کے موقعہ پر
قرآن کریم انگریزی ترجمہ کی پہلی جلد بطور تحفہ دینا
لجنہ اماء اللہ کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور بہت بڑی خدمت قرآن ہے کہ کفر کے گڑھ میں اللہ کا پاک کلام اتارا جائے اور شہزادی موصوفہ نے اپنے دستخطوں سے شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ وہ خواتین جماعت احمدیہ کے اس تحفہ کے انتخاب کو سراہتی ہیں۔
(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ134)
یہ تحفہ محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری مشتاق احمد باجوہ نے لجنہ کی طرف سے بھجوایا۔
تراجم قرآن
جماعت احمدیہ عالمگیر خدا کے فضل سے دنیا کی ساٹھ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے کی سعادت پا چکی ہے۔ مزید18زبانوں میں تراجم قرآن کریم زیر طبع ہیں اور 12زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کا کام جاری ہے اور پروگرام یہ ہے کہ سو زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم تفسیر نوٹس کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیے جائیں۔
(نظام خلافت اور خلافت احمدیہ کے سو سال صفحہ368)
ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہالینڈ کی محترمہ ناصرہ زومان نے کیا اور انہیں یہ سعادت احمدیت کی طرف کھینچ لائی۔ الحمدللّٰہ
جرمن ترجمہ: 1944ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لجنہ کو جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور ایک کتاب کا ترجمہ چھپوانے کے لیے اٹھائیس ہزار روپے کی تحریک کی۔ احمدی مستورات نے چونتیس ہزار روپے کی خطیر رقم جمع کر کے پیارے آقا کے حضور پیش کی۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ596-597)
1954ء جرمن ترجمہ کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔
(محسنات صفحہ205)
ترجمۃ القرآن کے لیے تین ہزار خریداروں کی
تحریک میں لجنہ اماءاللہ کی مساعی
28؍جولائی 1925ء کو الفضل میں ایک مکتوب کے ذریعہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ میرے دل میں تحریک ہوئی ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن کریم کا ترجمہ اور مختصر نوٹ شائع کر دیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی لیکن اس وقت آپؓ کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا۔ آپ نے جماعت کو تحریک کی کہ کم از کم تین ہزار خریدار مہیا کئے جائیں۔ جماعت کے مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ ایک مخلص خاتون امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر گوہر دین صاحب مانڈے نے لجنہ اللہ کو زیادہ سے زیادہ خریدار بننے کی تحریک کی تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم جمع ہو سکے اور جتنی بھی رقم پیشگی بھجوا دیں تاکہ ترجمۃ القرآن جلد سے جلد شائع ہو سکے۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ186)
میٹرک کلاس کی طالبات کی مرکزی کلاس
ہر سال لجنہ پاکستان میٹرک کی طالبات کے لیے تربیتی کلاس لگاتی ہے۔ بچیوں کو پانچ پارے با ترجمہ، سورۃ البقرہ کی ابتدائی سترہ آیات با ترجمہ، قصیدہ یاد کرنے کی سندات سال کے آخر میں دی جاتی ہیں۔
لجنہ اماء اللہ ناصرات کی عمر سے ہی اس کلاس کی تیاری کروانی شروع کروا دیتی ہے تاکہ جب بچی میٹرک تک پہنچے تو وہ پانچ پارے با ترجمہ مکمل کر چکی ہو اور لجنہ میں جا کر باقی قرآن مکمل کر لیں۔ یہ کلاس اب تک جاری ہے اور ان شاء اللّٰہ تا ابد جاری رہے گی۔
فضل عمر درس القرآن کلاس
فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا انعقاد یکم جولائی1964ء کو نظارت اصلاح و ارشاد کے تحت ربوہ میں ہوا۔ اس میں ربوہ کے علاوہ پشاور، مردان، لاہور، جہلم، کھاریاں اور گو جرانوالہ سے 21طالبات نے شرکت کی۔ لجنہ کے زیر انتظام مستورات نے بھی شرکت کی۔
یہ کلاس لجنہ کی تعلیمی استعداوں کو بڑھانے میں ممدو معاون ثابت ہوئی اور قرآنی علوم شہر شہر گاؤں گاؤں مستند اساتذہ سے فیض حاصل کرتے ہوئے پھیل گئے۔ ان کلاسز سے جن طالبات نے اکتساب علم کیا اب وہ دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔ علم قرآن کی مزید مشعلیں فروزاں کر رہی ہیں۔
مختلف امتحانات کے ذریعہ قرآن کریم سکھانے کی کوشش
- امتحان وظیفہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ
یہ امتحان ہر سال لیا جاتا ہے جس میں B.A پاس اور اس سے زائد تعلیم والی لجنہ ممبرات شرکت کر سکتی ہیں۔ اس کا نصاب قرآن کریم کی کوئی سورۃ ترجمہ و تفسیر از تفسیر کبیر، احادیث، روحانی خزائن سے کوئی ایک کتاب، قصیدہ عربی از حضرت مسیح موعودؑ ، عربی قواعد اور نظم درثمین سے شامل ہوتی ہیں۔ کامیاب ہونے والی ممبرات کو اسناد اور 80%نمبر حاصل کرنے والی کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔
- امتحان وظیفہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگمؓ
اس میں بجائے تفسیر کبیر کے تفسیر صغیر سے نصاب دیا جاتا ہے۔
- امتحان وظیفہ فاطمۃ الزہرہؓ
اس امتحان میں ایم اے پاس یا اس سے زیادہ تعلیم والی ممبرات شامل ہو سکتی ہیں۔ ان کا نصاب تھوڑا زیادہ ہے۔ مثلاًحصہ قرآن کریم میں تفسیر حضرت مسیح موعودؑ ، حدیث، روحانی خزائن کی کوئی ایک کتاب، تاریخ لجنہ، اختلافی مسائل، عربی گرائمر اور تحقیقی مقالہ شامل ہے۔ ہر امتحان کا نصاب قرآن کریم کے بغیر نا مکمل ہے۔ لجنہ کا مقصد یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح احمدی ممبرات اپنے پیارے خدا کا خط اچھی طرح پڑھ لیں تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے جو ان کو نہ پتہ ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ کی وقفِ عارضی کی تحریک کے تحت تعلیم قرآن مجید
اس تحریک کے تحت ہزاروں احمدی انصار، خدام اور لجنہ اپنے خرچ پر وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کو قرآن کریم پڑھایا جاتا ہے۔ لجنہ اماء اللہ بھی اس تحریک میں باقاعدہ حصہ لیتی ہے اور خدمت قرآن کریم بجا لا رہی ہے۔
قرآن کریم حفظ کرنے کی تحریک
- مدرسہ حفظ قرآن
مرکز سلسلہ ربوہ میں مدرسۃ الحفظ لمبے عرصہ سے قائم ہے جس میں مارچ1957ء سے مارچ 2002ء تک 223 بچے قرآن کریم حفظ کر چکے ہیں۔ بچیوں کے لیے عائشہ دینیات اکیڈمی قائم کی گئی ہے جس سے 92 طالبات قرآن حفظ کر چکی ہیں۔ عائشہ دینیات اکیڈمی لجنہ اماء اللہ کی ممبرات چلا رہی ہیں اور اس خدمت قرآن سے خود بھی فیض یاب ہوتی ہیں اور ناصرات الاحمدیہ کو بھی اس ثواب میں شامل کرتی ہیں تاکہ جب یہ لجنہ اماء اللہ کی عمر کو پہنچیں تو ایک مکمل حافظہ بن چکی ہوں اور آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت بھی اسی انداز میں کر سکیں۔
- تنظیم موصیات کے تحت خدمتِ قرآن
5؍اگست 1966ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے موصیات کی تنظیم قائم کرنے کا ارشاد فرمایا۔
حضورؒ نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے موصی صاحبان کا پہلا کام ہے کہ اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کریں۔ دوسرا یہ کہ واقفین عارضی (جن کے سپرد قرآن کریم پڑھانے کا کام کیا جاتا ہے) کی تعداد کو پانچ ہزار تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
تیسرے یہ کہ وہ اپنی جماعت کی نگرانی کریں کہ نہ صرف ان کے گھر میں بلکہ ان کی جماعت میں کوئی مرد اور کوئی عورت ایسی نہ ہو جو قرآن کریم نہ جانتی ہو۔ہر ایک عورت قرآن کریم پڑھ سکتی ہو۔ ترجمہ جانتی ہو۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ358-359)
حضورؒ نے بہت لمبی تقریر ارشاد فرمائی خلاصہ کلام یہی نکلا کہ ہر موصی کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ اس ارشاد کے بعد باقاعدہ موصیان اور موصیات کی منظوری ہوئی جو منتخب ہو کر آئے تھے اور آج تک یہ نظام جاری ہے اور جاری رہے گا ان شاء اللّٰہ۔ ہزاروں بچے، بچیاں اور لجنات اس سے مستفید ہو چکے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
لجنہ اماء اللہ کا پچاس سالہ جشن اور خدمت قرآن
اس موقع پر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے دو لاکھ روپے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں اشاعت قرآن کے لیے پیش کیے۔
(تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ753)
لجنہ اماء اللہ کا جشن صد سالہ اور خدمت قرآن
2018ء کی لجنہ ماء اللہ کی شوریٰ کے موقع پر تجویز نمبر2 از طرف لجنہ اماء اللہ پاکستان نے پیش کی جس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔
’’لجنہ اماء اللہ صد سالہ جوبلی2022ء تک ترجمۃ القرآن سکھانے کے سلسلہ میں منظم پروگرام بنایا جائے اور کوشش کی جائے کہ 100% ممبرات ترجمہ سیکھ لیں۔‘‘ اس تجویز پر باقاعدہ پروگرام بنا کر دیا گیا جس پر اس وقت سے اب تک عمل ہو رہا ہے۔ ان شاء اللّٰہ 2022ء تک لجنہ اماء اللہ اس پر 100% ترجمہ جاننے والی لجنہ کا ٹارگٹ پورا کر لے گی۔ ان شاء اللّٰہ
(باقی کل ان شاءاللّٰہ)
(راشدہ مصطفٰے)