• 24 اپریل, 2024

سیرت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ

دنیا میں بعض انسان ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدلنے کیلئے آتے ہیں۔جن کواللہ تعالیٰ دنیا میں نمونہ بنا کر بھیجتا ہے تا کہ اس کی تقلید سے قوم میں بھی وہی اعلیٰ عادات وفضائل پیدا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی ایسے وجودوں میں سے ایک تھے۔ جن کی زندگی کا ہر لمحہ بے نفسی کے ساتھ یادِ خداتعالیٰ اور خداتعالیٰ کی مخلوق کی خدمت میں گزرا۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ مؤرخہ 12جنوری 1889ء بروز ہفتہ قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حرم ثانی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بطن سے حضور کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔آپ کی ولادت باسعادت الٰہی بشارتوں کے مطابق ہوئی جو ہستی باری تعالیٰ ،آنحضرتﷺاور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آپ 12مارچ 1944ء کو بمقام لاہور تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پانچ اور چھ جنوری کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ بتایا کہ میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کا حضرت مسیح موعودؑ کی پیش گوئی میں ذکر کیا گیا تھا اور میرے ذریعہ ہی دور دراز ملکوں میں خدائے واحد کی آواز پہنچے گی۔ میرے ذر یعہ ہی محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔‘‘

ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفصیل کے ساتھ نہیں کھولا۔ مسئلہ ختم نبوت، مسئلہ کفر، مسئلہ تقدیر قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرے وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون نہیں تھا۔ مجھے خدا نے اس خدمت کی توفیق دی۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓتعلیم کی عمر کو پہنچے تو مقامی سکول میں آپ کو داخل کرایا گیا مگر طالب علمی کے زمانہ میں چونکہ آپ کی صحت خراب رہتی تھی اس لئے آپ کو دنیاوی تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ آپ کے استاد حضرت مسیح موعود ؑسے آپ کی تعلیمی حالت کا ذکر کرتے تو حضور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی صحت اچھی نہیں ہے۔ جتنا یہ شوق سے پڑھے اسے پڑھنے دو، زیادہ زور نہ دو۔ خدا تعالیٰ نے پیش گوئی کے مطابق خود آپ کو ظاہر ی و باطنی تعلیم دی۔ جس کو دنیا نے دیکھا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہی آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنی خاص تربیت میں لے لیا۔ آپ نے ان کی صحبت اور فیض سے بہت فائدہ اٹھایا۔ قرآن شریف، حدیثوں کی بعض کتابیں آپ نے حضرت مولوی صاحب سےہی پڑھیں۔ 26مئی 1908ء کو جب حضرت مسیح موعودؑ وفات پا گئے۔ آپ 19 برس کے تھے۔ اس وقت آپ نے یہ عظیم الشان عہد کیا کہ الٰہی اگر سارے لوگ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کو چھوڑ جائیں گے تو پھر بھی میں اپنے عہد پر قائم رہوں گا اور حضرت مسیح موعودؑ جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک دن اس امر کا گواہ ہے جو آپ نے عہد کیا وہ پورا کر دکھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو خدا تعالیٰ سے بے انتہا محبت تھی۔ آپ کی تمام زندگی قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق گزری ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُکِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔

ترجمہ : توکہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میر امرنا الله ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

(الانعام:163)

آپ کے 52 سالہ دور خلافت کا ایک ایک دن شاہد ہے کہ مخالفتوں کی آندھیاں چلیں، فتنے اٹھے جماعت کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر آپ کو اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رہا۔ اورالله تعالیٰ کا سایہ بھی ہر آن آپ پر رہا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’تو خدا تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے اس کے سامنے سب کچھ ہیچ ہو جاتا ہے۔ تم اس کے لئے کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرے تا کہ اس کی مدد اور نصرت تم کو مل جائے۔ اور جب اس کی نصرت تمہارے ساتھ شامل ہو جائے تو پھر ساری دنیا ہے کیا چیز ! وہ تو ایک کیڑے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔‘‘

آپ کو آنحضرت ﷺسے بے انتہا عشق تھا۔ جب آپ آنحضورﷺ کا نام لیتے تو آپ کی آواز میں لرزش اور آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ آپ کے اشعار اس مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔

مجھے اس بات پر ہے فخرِ محمود
مرا معشوق محبوب خدا ہے
اسی سے میرادل پاتا ہے تسکین
وہی آرام میری روح کا ہے
ہوا اس کے نام پر قربان سب کچھ
کہ وہ شاہنشہہ ہر دو سرا ہے

اسی طرح قرآن مجید سے آپ کو بے نظیر عشق تھا ۔ آپ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا روشن باب ہے ۔ جن دنوں آپ نے تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا۔ بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہو جائے رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہو گئی اور لکھتے چلے گئے۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ آرام کریں زیادہ محنت نہ کریں مگر آپ کو ایک دھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے۔

افراد جماعت سے آپ کو غیر معمولی محبت تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت کے افراد آپ کو اپنی بیویوں، اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں سے بہت زیادہ پیارے تھے ان کی خوشی سے آپ کو خوشی پہنچتی تھی اور ان کے دکھ سے آپ کرب میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو اسی سال جلسہ سالانہ پر خطاب کرتے فر مایا:
’’کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں۔لیکن نہیںایک بہت بڑا فرق بھی ہےاوروہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ، تمہاری محبت رکھنے والا ، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننےوالا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگر ان کے لئے نہیںہے تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کااگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیکار ہوں۔‘‘

(برکات خلافت انوار العلوم جلد2 صفحہ158)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے طبقہ نسواں پر عظیم الشان احسانات ہیں۔ آپ کے دور خلافت میں احمدی عورت نے علم میں، عمل میں، قربانی میں، نیکی و طہارت میں آپ کے زیر سایہ جس قدر ترقی کی اس کی مثال کسی قوم میں نہیں مل سکتی۔ 1922ءمیں آپ نے لجنہ ا ماء اللہ کا قیام فرما کر مستورات میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ بنی نوع انسان کا ایک جزولاینفک ہیں۔ اور قوموں کی ترقی میں ان کا بھی ہاتھ ہے آپ فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماًفرمایا ہے کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو۔ تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔ گویا خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ جب تک تم اپنی اصلاح نہ کر لو ہمارے مبلغ خواہ کچھ کریں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

(الازهار لذوات الخمار صفحہ641)

خلافت ثانیہ کا مبارک دور 14مارچ 1914ء کو شروع ہوا اور 8 نومبر 1965ء کو ختم ہوا۔ یہ ایک تاریخ ساز دور تھا حضرت مصلح موعودؓ نے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے جس نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ جماعت کا میابی و کامرانی کے ساتھ فتح و نصرت کی نئی منزلوں کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ آپ حضرت مسیح موعودؑکی مقبول دعاؤں کا عظیم ثمرہ تھے۔ آپ کا وجود قبولیت دعا کا ایک زندہ اور مجسم معجزه تھا۔ دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک عجیب نسبت تھی اپنی جماعت کے نام ایک پیغام میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے۔ سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو۔ اسلام کی آواز پست نہ ہو، خدا کا نام ماند نہ پڑے، قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کرواؤ۔ زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میںسے ہوتے رہیں ۔۔۔ خلافت زندہ ہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو۔ صداقت تمہارا زیور، امانت تمہارا حسن اور تقویٰ تمہارا لباس ہو۔ خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اس کے ہو۔ آمین‘‘

(الفضل 11 نومبر 1965ء)

اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنےاپنےدائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلادیں۔ اصلاح نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاح اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاح معاشرہ کی طرف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھر پور کوشش کریں۔ جس کا منبع الله تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یوم مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔‘‘

(خطبات مسردر جلد 9صفحہ91)

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2021

اگلا پڑھیں

پیشگوئی مصلح موعودؓ اور سبز اشتہار