• 26 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعود ؓ کے تربیت کے متعلق چند پہلو

حضرت مصلح موعودؓ نے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کے یہ 26طریق بیان فرمائے ہیں:

’’1۔ بچہ کے پیدا ہونے پر سب سے پہلے تربیت اذان ہے۔

2۔ یہ کہ بچہ کو صاف رکھا جائے۔ پیشاب پاخانہ فوراً صاف کر دیا جائے۔ شاید بعض لوگ یہ کہیں یہ کام عورتوں کا ہے۔ یہ صحیح ہے مگر پہلے مردوں میں یہ خیال پیدا ہوگا تو پھر عورتوں میں ہوگا پس مردوں کا کام ہے کہ عورتوں کو یہ باتیں سمجھائیں کہ جو بچہ صاف نہ رہے اس میں صاف خیالات کہاں سے آئیں گے…….. جب بچہ کی ظاہری صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا تو باطنی صفائی کس طرح ہو گی۔‘‘

3۔ غذا بچہ کو وقت مقررہ پر دینی چاہیے اس سے بچہ میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ خواہشات کو دبا سکتا ہے اور اس طرح سے بہت سے گناہوں سے بچ سکتا ہے ……… جب بچہ رویا ماں نے اُسی وقت دودھ دے دیا ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ مقررہ وقت پر دودھ دینا چاہیے اور بڑی عمر کے بچوں میں یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وقت پر کھانا دیا جائے۔ اس سے یہ صفات پیدا ہوتی ہیں 1۔پابندی وقت کا احساس۔ 2۔ خواہش کو دبانا۔3۔ صحت۔4۔ مل کر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے۔5۔اسراف کی عادت نہ ہو گی۔ 6۔ لالچ کا مقابلہ کرنے کی عادت ہو گی۔

4۔ بچہ کو مقررہ وقت پر پاخانہ کی عادت ڈالنی چاہیے۔ یہ اس کی صحت کے لئے بھی مفید ہے لیکن اس سے بڑا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس کے اعضاء میں وقت کی پابندی کی حِس پیدا ہو جاتی ہے۔

5۔غذا اندازہ کے مطابق دی جائے۔ اس سے قناعت پیدا ہوتا ہے اور حرص دور ہو تی ہے۔

6۔ قِسم قِسم کی خوارک دی جائے۔ گوشت، ترکاریاں اور پھل دیئے جائیں کیونکہ غذاؤں سے بھی مختلف اقسام کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔

7۔ جب بچہ ذرا بڑا ہو تو کھیل کود کے طور پر اس سے کام لینا چاہیے۔ مثلاً فلاں برتن اُٹھا لاؤ۔ یہ چیزیں ادھر رکھ دو۔

8۔ بچہ کو عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ اپنے نفس پر اعتبار پیدا کرے۔ مثلاً چیز سامنے ہو اور اُسے کہا جائے ابھی نہیں ملے گی۔ فلاں وقت ملے گی۔ یہ نہیں کہ چھپا دی جائے۔

9۔بچہ سے زیادہ پیار بھی نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ چومنے چاٹنے کی عادت سے بہت سی بُرائیاں بچہ میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ جس مجلس میں وہ جاتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ پیار کریں۔ اس سے اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوا جاتی ہیں۔

10۔ ماں باپ کو چاہیے کہ ایثار سے کام لیں۔ مثلاً اگر بچہ بیمار ہے اور کوئی چیز اُس نے نہیں کھانی تو وہ بھی نہ کھائیں اور نہ گھر میں لائیں بلکہ اُسے کہیں کہ تم نے نہیں کھانی اس لئے ہم بھی نہیں کھاتے۔ اس سے بچہ میں بھی ایثار کی صفت پیدا ہو گی۔

11۔ بیماری میں بچہ کے متعلق بہت احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ بُزدلی، خود غرضی، چڑچڑاہٹ جذبات پر قابو نہ ہونا اس قسم کی بُرائیاں اکثر لمبی بیماری کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں۔

12۔بچوں کو ڈراؤنی کہانیا ں نہیں سُنانی چاہیں۔ اس سے اُن میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے ……… اگر بچہ میں بزدلی پیدا ہوجائے تو اُسے بہادری کی کہانیاں سنانی چاہیں اور بہادر لڑکوں کے ساتھ کھلانا چاہیے۔

13۔ بچہ کو اپنے دوست خود نہ چُننے دئیے جائیں بلکہ ماں باپ چنیں اور دیکھیں کہ کن بچوں کے اخلاق اعلیٰ ہیں۔

14۔بچہ کو اس کی عمر کے مطابق بعض ذمہ داری کے کام دئیے جائیں تاکہ اس میں ذمہ داری کا احساس ہو۔

15۔بچہ کے دل میں یہ بات ڈالنی چاہیے کہ وہ نیک ہے اور اچھا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے کیا نکتہ فرمایا ہے کہ بچہ کو گالیاں نہ دو کیوں کہ گالیاں دینے پر فرشتے کہتے ہی ایسا ہی ہو جائے اور وہ ہو جاتا ہے۔

16۔ بچہ میں ضد کی عادت نہیں پیدا ہونی دینی چاہیے۔

17۔بچہ سے ادب سے کلام کر نا چاہیے۔

18۔ بچہ کے سامنے جھوٹ، تکبر اور ترش روئی وغیرہ نہ کرنی چاہیے کیوں کہ وہ بھی یہ باتیں سیکھ لے گا۔

19۔بچہ کو ہر قسم کے نشہ سے بچایا جائے۔

20۔بچہ کو علیحدہ بیٹھ کر کھیلنے سے روکنا چاہیے۔

21۔ننگا ہونے سے روکنا چاہیے۔

22۔بچوں کو عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی غلطی کا اقرار کریں اور اس کے طریق یہ ہیں۔1۔اُن کے سامنے اپنے قصوروں پر پردہ نہ ڈالا جائے۔2۔ اگر بچہ سے غلطی ہو جائے تو اُ س سے اِس طرح ہمدردی کریں کہ بچہ کو محسوس ہو کہ میرا کوئی سخت نقصان ہو گیا ہو۔ 3۔ آئندہ غلطی سے بچانے کے لئے بچہ سے اس طرح گفتگو کی جائے کہ بچہ کو محسوس ہو کہ میری غلطی کی وجہ سے ماں باپ کوتکلیف اُٹھانی پڑی ہے۔ 4۔ بچہ کو سرزنش الگ لے جا کر کرنی چاہیے۔

23۔ بچہ کو کچھ مال کا مالک بنانا چاہیے اس سے بچہ میں یہ صفات پیدا ہوتی ہیں۔1۔صدقہ دینے کی عادت۔
2۔ کفایت شُعاری۔ 3۔رشتہ داروں کی امداد کرنا۔

24۔ اسی طرح بچوں کا مشترکہ مال ہو مثلاً کوئی کھلونا دیا جائے تو کہا جائے کہ یہ تم سب بچوں کا ہے۔ سب اس کے ساتھ کھیلو اور کو ئی خراب نہ کرے اس طرح قومی مال کی حفاظت پیدا ہوتی ہے۔

25۔بچہ کو آداب وقواعد تہذیب سکھاتے رہنا چاہیے۔

26۔ بچہ کی ورزش کا بھی اور اُسے جفاکش بنانے کا خیال بھی رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ بات دنیوی ترقی اور اصلاح نفس دونوں میں یکساں طور پر مفید ہے۔‘‘

یہ وہ چند تربیت کے امور ہیں جو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس لیکچر جو منہاج الطالبین کے نام سے شائع ہے۔ بیان فرمائے ہیں۔ یہ کتاب 102صفحات کی ہے۔ اور بڑی تفصیل کے ساتھ تربیت کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اور اُن باتوں کا ذکر ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص برائیاں کر تا ہے یا بد اعمالیوں میں مبتلا ہے یا قوی نقصان اُٹھاتا ہے۔ تفصیل جاننے کے لئے اس کتاب کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس لیکچر میں اِن تربیتی امور کو بیان کرنے کے بعد آخر میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ایک دعا بھی بیان فرمائی ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ (یعنی جماعت احمدیہ) کے دلوں پر کارگر ہوں۔ خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو اِن کے دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے اُن کی زہر کو دور کردیں۔ میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کرلیا کہ وہ ہر ایک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے۔ اور تکبر سے جو تمام شراتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑینگے۔ اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے …… دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دمِ زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اُٹھا دے اور باہم سچی محبت عطا کر دےاور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دُعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرےگا۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ398)

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعا قبول ہو گی اور خدا تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرے گا مگر تم سوچ لو تم اس کے مصداق بنو گے یا بعد میں آنے والے؟ ……. اس لئے میں کہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کو مد نظر رکھ کر کوشش کر و کہ ہم ہی اس کے مصداق ہوں اور اس نظارہ سے ہمیں بھی ٹھنڈک پہنچے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے کھینچاہے۔‘‘

(منہاج الطالبین، انوارالعلوم جلد9 صفحہ254-255)

(از سید شمشاد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2021

اگلا پڑھیں

پیشگوئی مصلح موعودؓ اور سبز اشتہار