• 29 اپریل, 2024

1944ء میں روٴیا کی بناء پر اعلان کہ میں ہی مصلح موعود ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج میں اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے الفاظ میں بیان کردہ کچھ اقتباسات پیش کروں گا جو روحِ حق سے مشرف ہونے کے حوالے سے آپ کی ذات میں پیشگوئی پورے ہونے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو 1914ء میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے منصب پر فائز فرمایا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں پیشگوئی مصلح موعود کی تمام باتیں اس وقت بھی لوگوں کو پوری ہوتی نظر آتی تھیں اور علمائے جماعت اور افراد جماعت کی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں۔ لیکن حضرت مصلح موعود نے خود اس بات کا اعلان نہ کیا یہاں تک کہ 1944ء کا سال آیا۔ یعنی آپ کے خلافت کے تیس سال پورے ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنی ایک رؤیا کی بناء پر اعلان کیا کہ مَیں ہی مصلح موعود ہوں۔ یہ بھی فرمایا کہ میری طبیعت کے لحاظ سے یہ مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے، بڑا بوجھ ہے کہ یہ اعلان کروں اور رؤیا کا سارا حوالہ بھی تفصیل سے بیان کروں۔ بلکہ آپ نے یہ بھی کئی جگہ فرمایا ہے کہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے مَیں اپنی رؤیا اور الہامات بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں لیکن بعض حالات کی وجہ سے بعض بتانے بھی پڑتے ہیں۔ بہرحال آپ کو پہلے بھی جماعت کے افراد کی طرف سے، علماء کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ آپ اعلان کریں کہ آپ مصلح موعود ہیں لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ اعلان کی ضرورت نہیں۔ اگر مَیں مصلح موعود ہوں اور پیشگوئی مجھ پر پوری ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے کسی دعوے کی کیا ضرورت ہے۔ لوگوں کو جواب دیتے ہوئے آپ نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا کہ اُمّت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اور نگ زیب بھی اپنے زمانے کا مجدد نظر آتا ہے مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا ہے؟ عمر بن عبدالعزیز کو مجدد کہا جاتا ہے۔ کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ پس غیر مامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں۔ دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے۔ غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کام پورا ہوتا نظر آ جائے تو پھر اس کے دعویٰ کی کیا ضرورت ہے۔ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اگر عمر بن عبدالعزیز مجدد ہونے سے انکار بھی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعوے کی ضرورت نہیں۔ دعویٰ صرف اُن مجددین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں۔ ہاں جو غیر مامور اپنے زمانے میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کرے، دشمن کے حملوں کو توڑ دے، اسے چاہے پتا بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے۔ ہاں مامور مجدد وہی ہو سکتا ہے جو دعویٰ کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا۔

آپ فرماتے ہیں: پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے ہمیں گھبراہٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی ہتک کی بات نہیں۔ اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے راستے پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے پھر اپنے غلط دعوے کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کر لے تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کرسکتا اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں ہے وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے، حاصل نہیں کیا اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہو کر رہے گا۔

(خطبہ جمعہ 17؍فروری 2017ء بحوالہ الاسلام وئب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال و اعلانِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2023