• 20 اپریل, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

اپنے عملی نمونہ کے ساتھ مثال پیش کرنے کی اہمیت

اس دن شام کو نیشنل سیکرٹری جائیداد صاحب نے حضور انور کو بتایا کہ جب جاپان میں رہنے والے احمدی بچے سکول جاتے ہیں تو وہ اپنے جوتے کلاس میں داخل ہونے سے پہلے نہایت ترتیب کے ساتھ ریکس میں رکھتے ہیں، تاہم جب وہ مسجد آتے ہیں تو وہ نہایت لاپرواہی اور بے ترتیبی سے اپنے جوتے اتار کر پھینکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس حوالے سے بچوں سے پوچھا ہے تو انہوں نے بتایا ہے کہ سکول میں ہر کوئی نہایت تمیز سے جوتے اتار کر رکھتا ہے لیکن ہماری مساجد میں ہم اپنے بڑوں کے نمونے دیکھتے ہیں جو اپنے جوتے ترتیب سے نہیں رکھتے۔

یہ سننے پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح کسی شخص کا عملی نمونہ اور برتاؤ اگلی نسلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ پس جملہ ممبرانِ عاملہ اور بڑوں کو اپنا بہترین نمونہ اپنے بچوں اور آئندہ نسلوں کے لیے پیش کرنا چاہیے۔

یہ ملاقات تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی اور اس (بابرکت) مجلس میں شرکت کی وجہ سے خاکسار نے حضور انور کی راہنمائی اور ہدایات سے بہت کچھ سیکھا۔

Tokyo تک ٹرین کا ایک یادگار سفر

22؍ نومبر کی شام کو حضور انور اور قافلہ Nagoya سے روانہ ہوئے اور ٹوکیو واپسی ہوئی۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر بلٹ ٹرین کے ذریعے سفر کیا اور یہ سفر شام چار بج کر بتیس منٹ پر Nagoya سے ٹرین پر شروع ہوا۔ خاکسار، حضور انور اور خالہ سبوحی کی بالکل پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ نصف سفر کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ حضور انور اپنی نشست سے کھڑے ہوئے تو میں بھی احتراماً کھڑا ہو گیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ شاید حضور انور کیبن میں چہل قدمی فرمانا چاہتے ہیں۔ تاہم آپ تشریف لائے اور میرے ساتھ والی سیٹ پر تشریف فرما ہو گئے۔ الحمدللّٰہ، اگلے چند منٹوں کے لیے مجھے حضور انور کے ساتھ بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور ہم نے گزشتہ روز Nagoya میں ہونے والی استقبالیہ تقریب کے بارے میں گفتگو کی۔ جب آپ کو خلیفہ وقت کے ساتھ ایسی قربت میں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو آپ حضور انور کی خوبصورتی اور شخصیت سے اور زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ لمحات انمول ہوتے ہیں اور جس دوران میں حضور انور سے محو گفتگو تھا اس وقت بھی یہ سوچ رہا تھا کہ میں اس سفر کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ ان شاءاللّٰہ

میں نے حضور انور کو چند احباب کے بارے میں بتایا جن سے میں گزشتہ شام ملا تھا اور حضور انور نے بعض مہمانان جن سے آپ نے ملاقات فرمائی تھی ان کا ذکر فرمایا۔ مثال کے طور پر حضور انور نے ذکر فرمایا کہ کس طرح ایک جاپانی ڈاکٹر نے آپ کو بتایا کہ حضور انور کی تقریر سننے کے بعد وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ جس اسلام کا حضور انور نے پرچار فرمایا ہے اسے جاپان میں خوب پذیرائی حاصل ہو گی۔

جس دوران ہم بیٹھے ہوئے تھےحضور انور نے اپنی اچکن سے ایک رومال نکالا۔ یہ ایک handwipe تھا۔جو حضور انور اکثر استعمال فرماتے ہیں جسے جرمن cologne کمپنی 4771تیار کرتی ہے۔ حضور انور نےاس کی پیکنگ کھولی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صاف کیا جس کے بعد اس wipeکو اپنی اگلی سیٹ کے magazine sleeve میں رکھ دیا۔ جونہی حضور انور اپنی سیٹ پر واپس جانے کے لیے کھڑے ہوئے، میں نے وہ استعمال شدہ wipe اٹھایا اور اس سے اپنے ہاتھ( تبرکاً )صاف کیے اور اس سارے دن کے لیے اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھا۔ کیونکہ میں نے اس کو اپنے چہرے پر بھی پھیرا تھا اور اس سے نا صرف Colonge 4771 کی خوشبو آ رہی تھی بلکہ حضور انور کی شاندار خوشبوسے بھی جو اس کا حصہ بن چکی تھی سے میں خوب لطف اندوز ہوا۔

حضور انور کے غیر لرزاں دست مبارک

ہم اسی ٹوکیو Hilton ہوٹل میں شام چھ بج کر پینتیس منٹ پر پہنچے جہاں ہم اس دورہ میں قبل ازیں قیام پذیر رہے تھے۔ درحقیقت ہم سب انہی کمروں میں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں اس دورہ کے ابتدا میں قیام پذیر تھے۔ یہاں پہنچتے ہی حضور انور نے ازراہ شفقت خاکسار کو فرمایا ’’ٹوکیو میں خوش آمدید‘‘ اور مجھے ایک ویڈیو دکھائی جو آپ نے دوران سفر اپنے فون پر بنائی تھی۔ میں واقعتا ًحیران ہوا جب میں نے وہ ویڈیو دیکھی کیونکہ عام طور پر جب کوئی اپنے فون سے ویڈیو بناتا ہے تو اس ویڈیو میں ہلنے اور لرزنے کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب آپ مستقل اپنے گردونواح کی ویڈیو بنا رہے ہوں۔ تاہم حضور انور نے جو ویڈیو بنائی تھی وہ بالکل غیر لرزاں تھی گویا وہ کسی ایسے کیمرے سے بنائی گئی ہو جو کسی tripod پر fix کیا گیا ہو۔

نماز کے لیے تاخیر کا شکار ہونا

اس شام نماز کا وقت آٹھ بجے مقرر تھا اس لیے اس دورانیہ میں احمد بھائی اور میں کچھ دیر کے لیے اپنے بستروں میں لیٹ کر ٹی وی دیکھنے لگے۔ شام سات بج کر چالیس منٹ پر احمد بھائی بستر سے اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے۔ میری آنکھ لگے ہوئے ابھی پانچ سے چھ منٹ ہی ہوئے ہوں گےکیونکہ کچھ منٹوں کے بعد ہی مجھے ایک آواز سنائی دی جس نے مجھے بیدار کر دیا۔ مجھے لگا کہ احمد بھائی ہمارے کمرے میں واپس آئے ہیں لیکن جب میں نے آنکھیں کھولی تو میں حیران رہ گیا کیونکہ حضور انور میرے بیڈ کے قریب کھڑے تھے اور دروازہ پر دستک دینے کے بعد اندر تشریف لا چکے تھے اور آپ نے سلام بھی کہا تھا۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے۔ یہ نہایت موزوں سوال تھا کیونکہ نماز میں چند منٹ رہتے تھے اور میں سو رہا تھا۔ میں نے حضور انور کو بتایا کہ میں نے سات بج کر پچاس منٹ کا الارم لگایا ہوا ہے اور اسی دوران میرے فون پر الارم بجنے لگا۔

حضور انور نے ہمارے کمرے کا جائزہ لیا لیکن مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ میں آدھا نیند میں تھا اور طبیعت میں کچھ سستی بھی تھی۔ ایک دم اچانک سے میں نے حضور انور سے پوچھا کہ کیا ہمارے ٹوکیو میں قیام کے دوران آپ کچھ سیاحتی مقامات پر تشریف لے جائیں گے۔ بعد میں مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے یہ کیوں پوچھا تھا۔ بہرحال حضور انور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’میری شہر کو دیکھنے کی غرض سے باہر جانے کی ضرورت نہ ہے،میں پہلے ٹوکیو آ چکا ہوں اور وہ کافی ہے۔‘‘

پھر حضور انور نے فرمایا کہ آپ نماز کے لیے نیچے تشریف لے جا رہے ہیں اور یہ کہ میں وضو کر کے (بر وقت) نماز کے لیے پہنچ جاؤں۔ جونہی حضور انور کمرے سے باہر تشریف لے گئے میں نے وضو کیا اور اگرچہ نماز کے پہلے حصہ میں کچھ تاخیر سے پہنچا تاہم پہلی رکعت میں نماز میں شامل ہو گیا۔

(حضور انور کا دورہ جاپان نومبر 2015ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال و اعلانِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2023