• 19 مئی, 2024

درد سے دعا اس وقت نکلتی ہے

درد سے دعا اس وقت نکلتی ہے جب یہ علم ہو کہ انسان دعا کر کیا رہا ہے۔ صرف منہ سے الفاظ ادا کرنے سے نہ ہی الفاظ کی گہرائی اور مطلب کا علم ہو سکتا ہے نہ یہ دل پر اثر کر سکتے ہیں جو ہونا چاہئے۔ اور اگر دل پر اثر نہ ہو تو وہ جوش اور و ہ رقّت پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس دل پر اثر کے لیے انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ دعا کر کیا رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ لاکھوں کروڑوں لوگ منہ سے درود کے الفاظ دہرا دیتے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ درود پڑھنے کا ہمیں کیا فائدہ ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا۔ اس کا خلاصہ اس وقت مَیں کچھ حد تک پیش کر دیتا ہوں۔ درود میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ پہلے رکھا گیا ہے اور اَللّٰھُمَّ بَارِکْ بعد میں۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ صلوٰۃ کے معنےدعا کے ہیں اور اَللّٰھُمَّ صَلِّ کے معنے ہوئے کہ اے اللہ! تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کر۔ اب دعا کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ دوسرے سے مانگتا ہے۔ دوسرے اس کی دعا ہے جس کا اپنا اختیار ہے اور وہ خود عطا کرتا ہے۔ جب ہم خدا تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ دعا کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ اپنی مخلوق اور پیدا کی ہوئی چیزوں ہوا، پانی، زمین، پہاڑ باقی جو سب چیزیں ہیں ان سب کو کہتا ہے کہ میرے بندے کی تائید کرو۔ پس اَللّٰھُمَّ صَلِّ کے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ !تو ہر نیکی اور بھلائی اور دنیا وزمین و آسمان کی ہر چیز کی بھلائی اپنے رسول کے لیے چاہ اور ان کو عزت و عظمت عطا فرما، عزت و عظمت کو بڑھا اور پھر دیکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس سے بڑھ کر کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم تو اس بات کا احاطہ بھی نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے۔ پس یہ دعا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دی کہ وہ یہ چاہے کہ جو زیادہ سے زیادہ مقام ہو سکتا ہے اور جو اس کی نظر میں ہوتا ہے یا وہ کیا چاہتا ہے وہ عطا فرما۔ اور اَللّٰھُمَّ بَارِکْ کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ!تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی رحمتیں، فضل اور انعامات جو تُو نے ان پر کیے ہیں انہیں اتنا بڑھا کہ سارے جہان کی رحمتیں اور برکتیں آپؐ پر اکٹھی ہو جائیں۔ اب پہلے اللہ تعالیٰ جو چاہے گا وہ عطا کرے گا اور کیا چاہا اس کا بھی ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔ پھر اس میں اتنی برکتیں دے، ان کو بڑھاتا چلا جائے کہ وہ بالکل ہی ہمارے تصور اور احاطے سے باہر ہیں۔ پس جب آپؐ پر یہ سب باتیں، یہ دعائیں اکٹھی ہوں گی اور ان کے قائم رکھنے کے لیے ہم دعا ئیں کریں گے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں جو آپؐ کی امّت کے لیے ہیں ان سے ہم بھی حصہ لے رہے ہوں گے۔ جب ہم دل میں درد رکھتے ہوئے آپؐ کے دین کی سربلندی اور آپؐ کی تمام دنیا میں حاکمیت کے لیے دعا کریں گے تو خدا تعالیٰ ہمیں بھی ان دعاؤں میں حصہ دار بنا کر ہمیں بھی درود سے فیض یاب کرے گا کیونکہ امّت کے لیے بھی ساتھ ہی دعا ہے۔ جو بیج ہم لگائیں گے اس کے پھلوں سے ہم بھی فیض یاب ہوں گے کیونکہ صَلِّ ایک بیج کی صورت ہے اور بَارِکْ اس کے پھلوں کی صورت ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد7 صفحہ77-78)

لیکن شرط یہ ہے کہ خلوص دل سے، خلوص نیت سے یہ سب کچھ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو۔ حقیقی آل کا ہم حق ادا کرنے والے ہوں۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ظلم ہوں اور ساتھ درود پڑھ کر کہیں کہ ہم ان برکات کا مورد بھی بن جائیں جو درود پڑھنے والے کو ملتے ہیں۔ قانون توڑ کر لوگوں کو تکلیف میں ڈال کر پھر کہنا کہ ہم رسول کے عاشق ہیں اور آپؐ پر درود اور سلام بھیجنے والے ہیں اس لیے ہمیں کچھ نہ کہا جائے۔ سڑکیں بلاک کر دیں، مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں اس لیے کہ ہم اللہ اور رسول کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں ہم صحیح ہیں۔ تو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کی صریح نافرمانی ہیں، مکمل طور پر نافرمانی ہیں اور قطعاً اس کی نہ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے نہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہےاور نہ ایسے لوگوں کے درود پھر کوئی فائدہ دیتے ہیں اور یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بڑھانے کی بجائے اسے کم کرنے کی ایک گھناؤنی کوشش ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے نام پر جو ظلم ہوتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی سخت ہوتی ہے۔ یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔

پس درود کا حقیقی ادراک اگر کسی نے آج دنیا کو دینا ہے تو ہم احمدیوں نے دینا ہے۔

(خطبہ جمہ فرمودہ 30 اپریل 2021ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

آج کل بھی جو آفات آتی ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے