عبادت کے لفظی معنیٰ بندگی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا بندہ بنا کر پید ا کیا ہے اس لئے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معبود کی عبادت اور اطاعت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی گذارنے کے جو طریقے اپنے نبیوں،رسولوں کے ذریعہ اپنے بندوں کو بتائے ہیں ان پر عمل کر ے اسی کانام بندگی ہے۔
دین اسلام میں انسان کا ہر وہ عمل عبادت میں شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو ہمارا کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا جاگنا، پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنا، رشتہ داروں سے خیر خواہی کرنا ماں باپ کی فرماں برداری کرنا، غرض زندگی کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل عبادت میں شامل ہے اگر وہ رسول اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔ جو باتیں آپ ﷺ نے کہیں ان پر خود بھی عمل کر کے دکھا یا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ساری زندگی کے ہر عمل کو عبادت میں شامل کیا ہے تاکہ اس کا فائدہ ہمیں صرف اس دنیا تک محدود نہ رہے بلکہ آخرت میں بھی اس کا اجر ملے پھر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ ایک جامع ومانع نصاب رسول اکرم ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیا ہے جسے ہم قرآن مجید کہتے ہیں اگر ہم قرآن مجید اورسنت رسولﷺ کا دامن پکڑے رہیں گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ساری زندگی کو عبادت میں شامل کرنے کے لئے ٹریننگ کے طور پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں جن پر عمل کر نے سے انسان کی عملی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ اور اس میں وہ تمام خوبیاں پیداہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسندہیں جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے رضی اللہ عنہم کی سند ملتی ہے۔ توحید نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج یہ بنیادی ستون ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔
توحید
توحید کا ذکر تو ہرمذہب میں ملتا ہے۔ لیکن دین اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کے ماننے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں مخلوق اور غیر مخلوق کی پوجا پاٹ شروع کر دی جو سراسر شرک اور لفظ توحید کے متضاد ہے۔ دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس نے خالص توحید کا پیغام دیا ہے۔
توحید کا مفہوم اللہ کو ایک ماننا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور یہ یقین رکھنا کے سوائے اللہ کی ذات کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کا ہمسر اور ہم مرتبہ کوئی نہیں۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے ہر چیز پروہ قادرہے اسے کسی کے اچھے عمل اور برے عمل سے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا۔ وہ نہ تو کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ وہ ہر کام کو تکمیل تک پہچانے کیلئے اکیلا ہی کافی ہے اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تندرستی، بیماری، زندگی، موت، آرام اورسب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کائنات کی ہرچیز اس کی تابع ہے۔ خدا تعالیٰ کو ایک اور صرف ایک ماننے اور اس کی صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا نام توحید ہے اور یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہوں کو معاف کر سکتا ہے بشرطیکہ خلوصِ دل سے معافی مانگی جائے۔ لیکن مشرک کی معافی کسی حال میں بھی نہیں۔ شرک ایسا گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کسی بھی طرح معاف نہیں کرے گا اسی لئے شرک کو گناہ عظیم کہا گیا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق جو چیزیں اس کو ظاہری طور پر متاثر کر تی ہیں ان کے سامنے اپنا سرجھکا دیتا ہے اور ان کو اپنا معبود سمجھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی اس نے سورج اور چاند کو اپنا معبود بنالیا،کبھی سمندروں اور پہاڑوں کے سامنے سرجھکا دیا۔ کبھی ہاتھی اور سانپ کی پوجا کی۔ کبھی پتھروں کو تراش کر مورتیوں کی شکل دی اور انہیں اپنے گھروں اور اپنی عبادت گاہوں کی زینت بنالیااور ان سے اپنی ضرورتوں اور آرزؤں کو پورا کر نے کے لئے دعائیں مانگیں۔ اسطرح اللہ تعالیٰ کی صفات کو ان ہستیوں میں تسلیم کیا۔ قرآن کریم نے ان بے بس اورباطل معبودوں کا قلع قمع کیاہے۔ الغرض شرک تو حید کی ضد ہے جو کسی حال میں بھی صحیح نہیں۔
نماز
نماز سے انسان کی روح کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اخلاق درست ہوتے ہیں اور نیک اعمال بجالا نیکی ترغیب ملتی ہے۔ نماز سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر نماز پڑھنے سے اس پر اللہ تعالیٰ کا خوف غالب رہتا ہے۔ لہٰذا وہ ظلم اور زیادتی کامرتکب نہیں ہوتا۔ ہمدردی اور رحم دلی اس کی فطرت بن جاتی ہے۔ نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے بڑے چھوٹے کی تفریق مٹ جاتی ہے۔ بھائی چارگی اور محبت پیدا ہوتی ہے اگر کسی شخص پر یہ اثرات ظاہر نہیں ہوتے تو یہ نماز کا قصور نہیں نماز پڑھنے والے کا قصور ہے،خلوص دل سے نماز کی ادائیگی میں کمی ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کیا ہے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ
(العنکبوت: 46)
یقینا نماز انسان کو بے حیائی اور ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تمام عبادتوں میں نماز سب سے زیادہ پسند ہے رسول اکرم ﷺ نے بھی نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کیا ہے۔ نماز تمام عبادتوں کی جڑ ہے اور قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن مجید نے نماز پڑھتے رہنے کا بار بارحکم صادر فرمایا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے نما ز کو دین کا ستون بتایا ہے جس طرح ستون گر جانے سے عمارت زمین بوس ہوجاتی ے۔ اسی طرح نماز نہ پڑھنے سے دین رخصت ہوجاتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے جس نے ایک دن کی نماز بھی قصداً چھوڑی اس نے کفر کیا۔ نماز اللہ کی یاد کو دلوں میں تازہ کرتی ہے اس لئے نماز افضل عبادت ہے۔ نماز جنت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ نماز ایک طرح کی ورزش بھی ہے جس کے ذریعہ جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ روحانی قوت بھی حاصل ہوتی ہے۔
روزہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ
(البقرہ: 184)
تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی قوموں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار اور متقی بن جاؤ۔ اس آیت میں روزے کی اہمیت اور فضیلت دونوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے روزے صرف مسلمانوں پر ہی فرض نہیں کئے گئے ہیں بلکہ وہ قومیں جو مسلمانوں سے پہلے اس دنیا میں آچکی ہیں ان پر بھی روزوں کو فرض کیا گیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ ان روزوں کا فائدہ بتاتے ہوئے فرماتا ہے ان روزوں کی بدولت تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ انسان کے اندر تقویٰ پیدا کر تاہے اور گناہوں سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے اور نیک کاموں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ روزہ کاثواب بے حد و بے حساب ہے روزہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضاحاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکی جزاء ہوں۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار روزہ دار کو نصیب ہوگا اور یہ انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے دن بندوں کی شفاعت کریں گے روزہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے جو کوئی رمضان بھراخلاص، خوش دلی اور صبر و سکون کے ساتھ روزہ رکھے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔
روزہ انسان میں فرض کا احساس پیدا کرتا ہے۔ مصائب و آلام کو صبر کے ساتھ جھیلنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ خواہشات نفسانی کو روکتا ہے۔ رمضان کے مہینہ میں روزہ سے خوف خدا،عبات کا جذبہ، احکام کی پابندی، پاکیزگی اور اچھے اعمال کی ترغیب ہر مسلمان کے قلب و ذہن کاحصہ بن جا تا ہے اور مسلمان نیکیوں سے قریب ہو جاتا ہے اور برائیوں سے دور ہوتا ہے۔
زکوٰۃ
قرآن کریم میں ا س کا ذکر ہے۔ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ
(البقرہ: 44)
اور تم زکوٰۃ کو ادا کر و۔ زکوٰۃ محض اللہ تعالیٰ کی رضاء جوئی کے لئے ادا کی جاتی ہے۔ زکوٰۃ نفوس اور اموال کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ مسلمانوں میں خدا کی خاطر قربانی دینے کے جذبہ کو فروغ دیتی ہے۔ جو شخص خدا کی راہ میں اپنا مال بے دریغ خرچ کرتا ہے وہی سیدھے اور سچے راستہ پر ہے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو اس خوبصورت عمل کی مشق کراتی ہے جس سے اس کا مال پاک و صاف ہوتا ہے۔ حلال اور حرام میں تمیز ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے معاشرہ میں غربت اور ذلت دور ہوتی ہے۔ سماجی اعتبار سے یکسانیت پیدا ہوتی ہے اور احساس کمتری دور ہوتی ہے۔ حدیث میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے۔
حضرت عمر بن شعیب اپنے دادا کے واسطے سے روایت کر تے ہیں ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لیکر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس کی بیٹی نے سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے۔ حضور ؐنے پوچھا کیا ان کی زکوٰۃ بھی دیتی ہو اس نے جواب دیا نہیں آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے۔ یہ سن کر اس عورت نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے کنگن اتار لئے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر تے ہوئے عرض کیا یہ اللہ اور رسول کیلئے ہیں جہاں چاہیں آپ خرچ کریں۔
(ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ)
یہ وضاحت بھی یہاں بے محل نہ ہوگی کہ جماعتی چندہ جات علیحدہ ہیں اور زکوٰۃ علیحدہ ہے اس کو غلط ملط کر کے تاویل اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ قرون اولیٰ میں بھی آنحضرت ﷺ اور خلفائےراشدین نے زکوٰۃ سے ہٹ کر مالی قربانیوں کی تحریکات کی ہیں۔ صحابۂ کرام و صحابیاتؓ نے ان تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور زکوٰۃ کی بھی ادائیگی کی ہے۔
حج
حج بھی اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ اور ایسے مرد اور عورت پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے۔
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا
(آل عمران: 98)
حج بیت اللہ ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتے ہوں جب رسول اکرم ﷺ سے استطاعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔ اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس زادِ راہ ہو اور سواری موجود ہو۔ (یا سواری کا کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو)۔ (ابن ماجہ)
اگر کوئی شخص مالی طاقت تو رکھتا ہولیکن صحت ساتھ نہ دے جسمانی طور پر سفر ِحج کے قابل نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے جانب سے کسی ایسے شخص سے حج کرائے جو پہلے اپنی طرف سے فریضہ حج ادا کر چکا ہو اور جب بھی حج کرنے کی طاقت میسر آئے فوراً حج کر لینا چاہئے۔
حج کا عمل اللہ تعالیٰ سے بے انتہا محبت اور خلوص کا مظاہر ہ ہے چونکہ حج کے سفر میں انسان اپنے مال، صحت اور وقت کی قربانی دیتا ہے اس سے سراپا ایثار کا نمونہ بن جا تا ہے اس کے نزدیک دنیا، دولت، اولاد اور رشتہ داروں کی محبت کوئی معنی نہیں رکھتی یہی بات اور جذبہ اللہ کو بہت پسند ہے انسان اپنے سفر کے دوران حج ادا کر تے وقت اپنے گناہوں پر شرمسار اور پشیمان ہوتا ہے اس کے دل میں گناہوں اور بری عادتوں سے نفرت پیدا ہو تی ہے وہ صحتِ نیت سے زندگی بھر پاکیزہ زندگی گذارنے کا پابندِ عہد ہوتا ہے اور اس پر عمل بھی کر تا ہے جس سے اس کے اندر ایک انقلابی اور روحانی کیفیت پیدا ہوتی ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت اس کے اندر آتی ہے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے مختلف ملکوں سے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں جس سے آپس میں بھائی چارہ اور میل جول پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے کالے گورے کا فرق مٹ جا تا ہے حج دنیا کے مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کر نے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
(علامہ محمد عمر تماپوری۔ کوآرڈینیٹر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،انڈیا)