• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیماروں اورمریضوں سےحُسنِ سلوک

اللہ تعالیٰ کے مامورین اور مرسلین کے دل جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے عشق ومحبت سے غیر معمولی طور پر معمور ہوتے ہیں وہیں اَلْخَلْقُ عیَالُ اللّٰہ کی وجہ سے ان کے سینے خلق خدا کی ہمدردی اور غمخواری سے سرشار ہوتے ہیں۔مخلوقِ خدا سے شفقت اور ان سے ہمدردی کا ایسا سمندر ان کے دلوں میں موجزن ہوتا ہے کہ کسی دنیاوی اور جسمانی تعلق میں یہاں تک کہ حقیقی والدین میں بھی اس کی مثال ملنا ناممکن ہے ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
‘‘ کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا یعنی ان کی فطرت میں حضرتِ احدیت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے پس وہی عشق کی آگ ان سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر ان کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواریٔ خلق اللہ نہ کرو تو تمھارے اجر میں کچھ قصور نہیں تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور ان کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو اس جان کنی سے کیا اجر ملے گا کیونکہ ان کے جوشوں کی بناء کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّکَ باخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُونُوا مُؤمِنِینَ خدا اپنے نبی کوسمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کو تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اٹھاتا ہے اس سے تیری جان جاتی رہے گی سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرتﷺ نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی پس حقیقی پیری مریدی کا یہی احوال ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غمخوار بننے کے لائق ٹھہریں جیسے والدین اپنے بچے کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتے ہیں توان کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے اسی طرح جوشخص صاحبِ قوتِ عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکمِ والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے کیونکہ قوتِ عشقیہ اس کو نہیں چھوڑتی ’’

(مکتوب بنام مولوی عبدالقادر صاحب ،الحکم مؤرخہ 20/27 اگست 1898ء)

ہمدردی اور شفقت علی الناس کا یہ طبعی اور فطرتی جذبہ تمام انبیاء سے بڑھ کر ہمارے سید ومولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو عطا ہوا تھا اور خود اللہ تعالیٰ نے اپنے عرش سے اس کی سند آپ ﷺ کو عطا فرمائی چنانچہ قرآن کریم میں ایک مقام پر فرمایا

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ

(آل عمران: 159 )

کہ یہ سراسر خدا کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ آپﷺ لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئے ہیں

ایک دوسرے مقام پر یہ سند آسمانی یوں گویا ہوتی ہے ۔

لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُم

(التوبۃ: 128 )

کہ تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے ۔
پھر ایک مقام پر آپﷺ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاگیا ہے۔

دَنیٰ فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوسَینِ اَوْ اَدْنیٰ

( النجم:10,9 )

کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس کے قریب ہوئے اور پھر مخلوق کی محبت میں نیچے اترے اور گویا آپﷺ نے خدا اور مخلوق کی دو کمانوں کے متحدہ وتر کی صورت اختیار کرلی بلکہ اس اتحاد میں اس سے بھی قریب تر ہوگئے۔

چونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت آنحضورﷺ کی ہی بعثت ثانیہ ہے اور آپؑ کا وجودآنحضور ﷺ کے وجود میں مکمل طور پر محو ہو کر آپﷺ ہی کے رنگ میں رنگین ہوگیا تھا اور آپ ؑکے وجود نے آنحضرت ﷺ کی اقتداء میں آپﷺ ہی کے ظل اور بروز کے طور پر آپﷺ ہی کے اخلاق اور صفات کو اپنے وجود میں سمولیا تھا اس وجہ سے اس زمانہ میں چشم دنیا نے پھر سے آنحضرت ﷺ کی روشن اور درخشندہ صفات کو ایک مرتبہ پھر بڑی شان کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑکے وجود باجود میں بڑی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتے دیکھا۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے دل میں شفقت علیٰ خلق اللہ کا ایسا سمندر موجزن تھا کہ بجز آنحضرت ﷺ کے وجود کے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔

آپ ؑ فرماتے ہیں.
‘‘میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندؤوں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والد ہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔’’

( اربعین،روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 344 )

مضمون ہٰذا میں حضرت مسیح موعودؑ کی بنی نوع انسان کے لئے ہمدردی اور شفقت علی الناس کے ایک پہلو جو بیماروں کی خبرگیری، ان کی عیادت ، ان کی تکلیف دیکھ کر آپؑ کی بے چینی و بےقراری ،ان کے لئے ادویات وغیرہ کا اہتمام،ان کی خدمت گزاری کے لئے فطری جذبہ محبت سے کوشاں رہنا اور سب سے بڑھ کر اپنے شافی خدا کی بارگاہ میں ان کی شفایابی کے لئے مضطربانہ دعاؤں سے تعلق رکھتا ہے اس کے متعلق چند واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔

حضرت مفتی محمد صادق ؓؓ بیان کرتے ہیں۔
‘‘ایک دفعہ جب کہ میں بہت بیمار ہو گیا 1904ء کا واقعہ ہے اور میری والدہ مرحومہ بھی یہاں تشریف لائی ہوئی تھیں انہوں نے حضرت صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر میری صحت کے لئے دعا کے واسطے تحریک کی۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ہم توان کے لئے دعا کرتے ہی رہتے ہیں۔آپ کو خیال ہوگا کہ صادق آپ کا بیٹا ہے اور آپ کو بہت پیارا ہے لیکن میرا دعویٰ ہے کہ وہ مجھے آپ سے زیادہ پیارا ہے ’’

( ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ صفحہ 325 )

‘‘ایک یتیم بچہ جس کا نام فجّا تھا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچیرے بھائی مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں رہا کرتا تھا وہاں بعض سختیوں کو ناقابل برداشت پاکر حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر آگیا لیکن بچپن میں مناسب سرپرستی اور تربیت نہ ہونے کی بناء پر اس کے اطوار وحشیانہ اور غیر مہذبانہ تھے ایک مرتبہ وہ اپنی شوخیٔ طبع کی وجہ سے جل گیا اور کھولتا ہوا پانی اس کے سارے بدن پر گرگیا۔حضرت کو اس سے شدید صدمہ پہنچا اور آپؑ ہمہ تن اس کے علاج معالجہ میں مصروف ہوگئے روزانہ اس کے بدن پر تازہ روئی رکھی جاتی اور بڑی احتیاط کی جاتی اس یتیم بچہ کے علاج میں نہ آپؑ نے اپنے وقت کا خیال کیا نہ روپے پیسے کی کچھ پروا کی نہ ہی اس کی غذا اور دیکھ بھال میں کوئی کمی روا رکھی خود اپنے سامنے ہر چیز کا انتظام فرماتے اور اسے تسلی دیتے ۔ اس یتیم بچہ کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تیمارداری اور حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولوی یعقوب علی عرفانی ؓ فرماتے ہیں۔

‘‘اس وقت وہ ایک میلی کچیلی شکل کا بچہ تھا اور کسمپرسی کی حالت میں اس نے زندگی کے ابتدائی دن کاٹے تھے عُرفِ عام کے لحاظ سے کسی بڑی قوم اور خاندان سے تعلق نہ رکھتا تھا ایسی مصیبت کے وقت میں جبکہ انسان اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی علالت سے بھی اکتاجاتا ہے آپؑ ایک لمبے عرصہ تک اس کی تیمارداری میں مصروف رہے اور نہ صرف خود بلکہ سب گھر والوں کو اس کے متعلق خاص طور پر ہدایات تھیں اس کے آرام اور علاج میں کوئی کمی نہ کی جاوے یتیم پروری اور تیمارداری کی یہ بہترین مثال ہے’’

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ 288۔289)

بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور ان کی خیر خواہی کے جذبات سے جس طرح آپؑ کا دل معمور تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ۔
‘‘ان کی خیر خواہی اور ہمدردی ہمارے دل میں اس قدر بھری ہوئی ہے کہ نہ زبان کو طاقت ہے کہ بیان کرے اور نہ قلم کو قوت ہے کہ تحریر میں لاوے ’’

( براہینِ احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد اول صفحہ 73)

حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ اپنا ایک چشم دید واقعہ یوں بیان کرتے ہیں ۔
‘‘ایک دفعہ بہت سی گنوارعورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربتِ شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آنکلیں اور آپؑ کو دینی ضرورت کے لئے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا میں بھی اتفاقاً جا نکلا کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کمربستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیاوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگارہا ۔فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے ۔ اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے یہ مسکین لوگ ہیں۔یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑے ثواب کا کام ہے مومن کوان کاموں میں سست اوربےپرواہ نہ ہوناچاہئے۔’’

(سیرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ )

حضرت مسیح موعود ؑ نےکیا ہی خوب فرمایا ہے۔

دل و جانم چناں مستغرق اندر فکر اُو شان ست
کہ نے از دل خبر دارم نہ از جان خود آگاہم
بدیں شادم کہ غم از بہر مخلوق خدا دارم
ازیں در لذتم کز درد مے خیزد زدل آہم
مرا مقصود ومطلوب و تمنا خدمت خلق ست
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
غم خلق خدا صرف از زبان خوردن چہ کارست ایں
گرش صد جاں بہ پاریزم ہنوزش عذر می خواہم

ترجمہ: میری جان اور میرادل ان لوگوں کی فکر میں اس قدر مستغرق ہے کہ نہ تو مجھے اپنے دل کی خبر ہے اور نہ اپنی جان کا کچھ ہوش ہے میری خوشی تو اسی بات میں ہے کہ اپنے دل میں مخلوق خدا کے لئے غم رکھتا ہوں اور اس غم کی وجہ سے میرے دل سے جو آہ نکلتی ہے فقط اسی میں گم ہوں میرا مقصود اور میری خواہش وتمنا تو بس یہ خدمت خلق ہی ہے یہی میرا کام ،یہی میری ذمہ داری اور یہی میرا فریضہ ہے۔

آپؑ کے ایک بہت ہی مخلص ،آپؑ کے عاشق اور فدائی صحابی جنہیں الہام الٰہی نے مسلمانوں کا لیڈ ر قرار دیا یعنی حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ جب کاربنکل کے نتیجہ میں سخت بیمار ہوئے تو حضرت اقدس ؑ بے چین ہوگئے دن رات مولوی صاحب ؓکے لئے خدا تعالیٰ سے دعاؤں میں صرف کردئیے ایک روز فرمایا ‘‘میں نے بہت دعا کی ہے اس قدر دعا کی ہے اگر تقدیر مبرم نہیں تو انشاء اللہ بہت مفید ہوگی۔’’


پھر فرمایا:۔

‘‘میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ کبھی اس قسم کا اضطراب اور فکر میں نے اپنی اولاد کے لئے بھی نہیں کیا۔’’

ایک روز فرمایا کہ ‘‘میں نے ہرچند چاہا کہ دوچار منٹ کے لئے ہی سوجاؤں مگر میں نہیں جانتا کہ نیند کہاں چلی گئی۔’’بعض خدام نے عرض کیا حضور اس وقت جاکر آرام کرلیں تو فرمایا۔

‘‘اپنے اختیار میں تو نہیں ۔ میں کیونکر آرام کرسکتا ہوں جبکہ میرے دروازہ پر ہائے ہائے کی آواز آتی ہے میں تو اس قلق اور کرب کو جو مولوی صاحب کو ہے دیکھ بھی نہیں سکتا ۔’’

حضرت مسیح موعود ؑ نے حضرت مولوی صاحبؓ کی بیماری میں ان کے لئے ہمہ وقت دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان کے علاج معالجہ اور خوراک و غذا کا بہترین انتظام فرمایا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ اور دو دیگر ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود رہتے اور بوقتِ ضرورت دیگر ڈاکٹرز بیرون قادیان سے بھی مشورہ کے لئے بلائے جاتے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اپنے ایک مضمون میں جو الحکم 10فروری 1906میں شائع ہوا بیان کرتے ہیں ۔

‘‘حضرت اقدس مرزا صاحبؑ نے اس عزیز بیمار کی تیمارداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا مولوی صاحبؓ جس چیز کے کھانے کی خواہش ظاہر کرتے حضرت اقدسؑ فوراً آدمی بھیج کر لاہور یا امرتسر سے منگوادیتے یا اگر یہ خاکسار یا خلیفہ صاحب یا مولوی نورالدین صاحبؓ کسی دوائی یا خاص غذا کے لئے عرض کرتے یا حضرت اقدسؑ ان کے لئے کوئی چیز تجویز کرتے تو فوراً امرتسر یا لاہور سے منگوالیتے۔’’

‘‘حضرت اقدسؑ نے مولوی صاحبؓ کے علاج میں کثرت سے روپیہ خرچ کیا اور کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ گئی تھی کہ جس کی نسبت خیال بھی ہوسکے کہ مولوی صاحبؓ کے علاج کے لئے مفید ہوگی اور ان کے لئے بہم نہ پہنچائی گئی ہو اور مولوی صاحبؓ کی یہ کیسی خوش قسمتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہرایک سامان بہم پہنچایا اور ان کے لئے جو کوشش کی گئی کسی راجہ یا نواب کے نصیب ہو تو ہو ورنہ عام امراء کے لئے بھی اس قدر کوشش ہونی محالات سے ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود کی برکت سے تھا ورنہ مجھے خوب یاد ہے کہ ان کے والد صاحب فرماتے تھے “اگر ہم اپنی تمام جائداد بھی نیلام کردیتے اور چاہتے کہ ہمارے بیٹے کا اس قدر ڈاکٹر اور حکیم علاج کرتے رہیں تو بالکل ناممکن تھا بلکہ اتنے لمبے عرصہ کے لئے ایک دفعہ دن میں بھی کسی لائق ڈاکٹر کو دکھانا مشکل تھا۔’’

(ملخص صفحہ 192تا200)

حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک اور مخلص صحابی حضرت مفتی فضل الرحمان ؓ 1897ءمیں ٹائیفائیڈ سے سخت بیمار ہوگئے حضرت اقدس ؑ ہر روز انہیں دیکھنے ان کے گھر تشریف لے جاتے خود بھی علاج فرماتے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ کو بھی تاکید فرمائی ایک روز مفتی صاحبؓ کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی حضرت مولوی صاحبؓ دیکھنے کے لئے تشریف لائے دیکھ کر وہاں موجود مولوی قطب الدین صاحبؓ سے فرمایاکہ “ آج حالت نازک ہے امید نہیں کہ صبح تک جانبر ہو۔” حضرت مفتی صاحبؓ کی خوش دامن نے بھی یہ الفاظ سن لئے وہ پریشانی کے عالم میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوگئیں اور مفتی صاحبؓ کی حالت بیان کی۔آپؓ نے فرمایا میں ایک ضروری مضمون لکھ رہا ہوں آپ مولوی صاحبؓ کے پاس جا کر میری طرف سے تاکید کریں انہوں نے عرض کیا کہ مولوی صاحبؓ تو حالت نازک کا فرما گئے ہیں۔ اس پر فرمایا “ہیں؟ میں نے تو ابھی اس سے بہت کام لینا ہے۔”مضمون کو وہیں چھوڑ دیا اور دیکھنے تشریف لے گئے دیکھ کر فرمایا “بہت اچھامیں چل کر دعا کرتا ہوں۔”
رات بارہ بجے کے قریب حضرت مفتی صاحبؓ کو لگاتار تین مرتبہ اجابت ہوئی اور آپؓ کی آنکھیں کھل گئیں اور طبیعت سنبھل گئی۔ جب فجر کی نماز کے لئے حضرت اقدس ؑ تشریف لائے تو مولوی عبدالکریم صاحب ؓ سے فرمایا کہ بارہ بجے کے قریب میرے دل میں ڈالا گیا کہ اب آرام ہوگیا ہے چنانچہ آپؑ نے ایک دوست کو بھیجا کہ معلوم کرکے آئے کہ آرام کے کیا معنی ہیں جب وہ واپس آئے اور بتایا کہ اب طبیعت بہتر ہے تو اس کے بعد نماز فجر ادا کی۔

( سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی ؓ )

حضرت منشی ظفر احمد ؓ بیان کرتے ہیں کہ
‘‘ایک دن مسجد اقصیٰ میں آپ( حضرت مسیح موعود ؑ۔ناقل) تقریر فرمارہے تھے کہ میرے دردِ گردہ شروع ہوگیا اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میں برداشت نہ کرسکا اور چلا آیا میں اس کوٹھے پر جس میں پیر سراج الحق ؓ مرحوم رہتے تھے ٹھہرا ہوا تھا حضرت صاحبؑ نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نورالدینؓ کو بھیجا انہوں نے درد گردہ معلوم کرکے دوا بھیجی مگر اس کا کچھ اثر نہ ہوا تکلیف بڑھتی گئی پھر حضورؑ جلدی تقریر ختم کرکے میرے پاس آگئے اور مولوی عبداللہ سنوریؓ سے جو ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں منشی صاحب کے پاس ہروقت رہیں اور حضورؑ پھر گھر سے دوالے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا کہ زینے پر چڑھنے اترنے میں دقت ہے ۔آپ میرے پاس ہی آجائیں۔ آپ تشریف لے گئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ مجھے سہارا دے کر حضرت صاحبؑ کے پاس لے گئے راستہ میں دودفعہ میں نے دعا مانگی مولوی صاحبؓ پہچان گئے اور کہنے لگے تم یہ دعا مانگتے ہوگے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہو تاکہ دیر تک حضرت صاحبؑ کے پاس ٹھہرا رہوں۔میں نے کہا ہاں یہی بات ہے جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا کھارہے تھے دال ، مولیاں ،سرکہ اس قسم کی چیزیں تھیں جب آپؑ کھانا کھاچکے تو آپ ؑکے سامنے کا کھانا ہم دونوں نے اٹھالیا اور باوجودیکہ مجھے مسہل آور دوائیں دی ہوئی تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہیں آیا تھا میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضورؑ نے منع نہیں فرمایا۔ چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی ۔ہم دونوں مسجد میں آپؑ کے ساتھ نماز پڑھنے آگئے فرضوں کا سلام پھیر کر حضورؑ نے میری نبض دیکھ کر فرمایا آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا میرا بخار بھی اتر گیا تھا ۔میں نے کہا حضوربخار اندر ہے اس پر ہنس کر فرمانے لگے اچھا آپ اندر ہی آجائیے ۔عصر کے وقت تک میں اندر رہا بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرأت نہ کی ۔میں بالکل تندرست ہوچکاتھا۔’’

(اصحابِ احمد جلد چہارم صفحہ167 )

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں
‘‘ہر ایک اپنے لئے کوشش کرتا ہے مگر انبیاء علیھم السلام دوسروں کے لئے کوشش کرتے ہیں لوگ سوتے ہیں اور وہ ان کے لئے جاگتے ہیں اور لوگ ہنستے ہیں اور وہ ان کے لئے روتے ہیں اور دنیا کی رہائی کے لئے ہر ایک مصیبت کو بخوشی اپنے پر وارد کرلیتے ہیں۔’’

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 117۔118 )

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ، آپؑ کی سیرت کا ایک ایک حرف اور آپؑ کے وجود کا ایک ایک ذرہ ببانگ دہل اعلان کررہا ہے کہ انبیاء ؑ کا یہ وصف بڑے کمال کے ساتھ آپؑ میں موجود تھا اور ہمدردی بنی نوع انسان کا ایک بےکنار سمندر آپؑ کے سینہ میں موجزن تھا ۔کوئی ضرورت مند دن کو آپؑ کی خدمت میں حاضر ہو یا عین نصف شب کی تاریکی میں،کسی کی حاجت روائی کا معاملہ حالت سفر میں آپؑ کے سامنے پیش ہوایا وقتِ قیام کسی کی عقدہ کشائی کا موقعہ ملا ،آپؑ کے نہایت شفیق دل نے اس وقت تک چین نہ لیا جب تک دعا اور تدبیر کے ساتھ اس کی حاجت براری کا سامان نہ ہوگیا۔

شیخ یوسف علی نعمانی ضلع حصار کے رہنے والے اور ریاست جیند میں ملازم تھے۔ حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ کی تبلیغ سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی اور حضرت اقدسؑ کے عاشق و فدائی بن گئے ۔وہ بیمار ہو کر قادیان آگئے تاکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی دعائیں حاصل ہوں اور تا حضرت مولوی نورالدین ؓ سے علاج کا موقع میسّر آجائے۔ حضرت پیر صاحبؓ نے مہمان خانہ میں ان کی رہائش کا انتظام کردیا۔ اگلے روز بوقت صبح پیر صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ سے عر ض کیا کہ یوسف علی سخت بیمار ہو کر آئے ہیں اور چل پھر نہیں سکتے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرے کہاں ٹھہرایا ہے ؟ عرض کیا گیا مہمان خانہ میں فرمایا ٹھہرو ہم بھی ان سے ملنے کے لئے چلتے ہیں وہ بیمار ہیں، عیادت بھی ہوجائے گی چنانچہ آپؑ عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ سلام ودعا اور احوال پوچھنے کے بعد پیر صاحب کو ہدایت فرمائی “ہمارے پاس کے مکان میں لے جاؤ تاکہ ہم انہیں ہرروز دیکھتے رہیں یہ جگہ دور ہے۔”اور فرمایا “کھانے کے واسطے اطلاع دیتے رہو جیسا کھانا چاہیں وہ تیار ہوجایاکرے اور کسی چیز کی تکلیف نہ ہو۔”تعمیلِ ارشاد ہوئی اور پھر ہرروز باقاعدگی کے ساتھ یہ مامورزمانہ اور بارگاہ الٰہی کی طرف سے مقرر کردہ یہ شہنشاہ اپنے مرید کی عیادت کو جاتا رہا ۔

پیر صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔
‘‘ایک روز بارہ بجے رات کے مرحوم کا اتفاقاً تنگ حال ہوگیا اور قضاء وقدر کے ماتحت موت کے آثار ہو کر جان کندن شروع ہوگئی…….. میں مرحوم کے پاس گیا دیکھا تو حالت غیر ہے اور جان کندن شروع ہے ……میں سیدھا حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر گیا۔اب ساڑھے بارہ بجے ہیں ادھر مریض کا تنگ حال ادھر دروازے بند اور سب سوتے ہیں۔ میں ادھر حصہ مکان کی طرف گیا جس طرف حضرت اقدس علیہ السلام سویاکرتے یا لکھا کرتے ہیں میں نے ایک آواز بڑے زور سے گھبراہٹ میں دی تو پہلے جو بولے تو حضرت بولے کہ صاحبزادہ صاحب ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور سراج الحق ہے فرمایا اس وقت کیسے آئے ؟سراج نے عرض کیا کہ یوسف علی کی حالت غیر ہے اور قریب الموت ہے اور جان کندن شروع ہے تمام جسم سرد اور نبض غیر منظم کوئی صورت اچھی نہیں زندگی سے قطعی مایوسی ہے فرمایا شام تک تو ہم نے خبر منگائی اچھے تھے اندر آؤ اور اندر ایک خادمہ سے فرمایا کہ جلدی دروازہ کھول دو ثواب ہوگا…. جب میں حسب الحکم اندر مکان میں گیا حضرت اقدس ؑنے تمام کیفیت دریافت فرمائی اور دو تین دوائیاں قیمتی جلدی جلدی لاکر اور ایک گلاس میں ڈال کر عنایت فرمائیں جس میں عنبر اشہب خالص بھی تھا اور فرمایا کہ جلدی جاؤ اور پلاؤ ۔اللہ تعالیٰ شفاءدے اور جلد ہمیں اطلاع دینا اِدھر ہم دعا کرتے ہیں…..میں دوا حضرت سے لے کر چلا یوسف مرحوم کو اس حالت نزع میں پلائی اور پلاتے ہی اس مرحوم نے آنکھیں کھول دیں اور چھ ہوش و حواس درست ہوئے تو میں نے سارا قصہ سنایا۔مرحوم بہت خوش ہوا پھر میں اپنے مکان پر چلاگیا صبح کو قبل از نماز صبح حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھ کو مکان پر بلوایا اور فرمایا یوسف علی کا کیا حال ہے صاحبزادہ صاحب تم نے ہمیں اطلاع نہ دی۔پیر صاحب نے عرض کیا حضور اطلاع کیا دیتا ادھر آپؑ نے دوادی اور ادھر دعا شروع کی دوا کا پلانا تھا اور شفاءکا ہونا تھا ۔اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے پوری تندرستی عود کر آئی ۔ فرمایا ۔’’صاحبزادہ صاحب جب وہ دوا لے کر تم روانہ ہوئے تو ہم کو نیند نہ آئی دعاؤں میں لگ گئے اور تمہارا خیال رہا کہ اب خبر لاتے ہوگے اور ہمارے کان آدمیوں کی طرف لگے رہے کہ کون خبر لاتا ہے۔ ’’

( تذکرۃ المہدی از سراج الحق نعمانی ؓ صفحہ 91 تا 96)

حضرت مفتی فضل الرحمٰن ؓ کی اہلیہ بچی کی پیدائش پر مرض کزاز( tetnus) سے بیمار ہوئیں ان دنوں بہت سے عورتیں اس مرض میں مبتلا ہو کر اگلے جہان سدھار گئی تھیں۔ مفتی صاحبؓ نے نماز مغرب کے بعد حاضر ہو کر حضورؑ سے عرض کیا کہ ان کی اہلیہ کی گردن میں درد اور کھنچاؤ ہے تو فرمایا یہ تو کزاز کا ابتدا ہے مولوی صاحب کو بتلاؤ۔عرض کیا گیا کہ مولوی صاحب ؓنے دوا حب شفا تجویز کی ہے یہ سن کر حضورؑ خود مفتی صاحبؓ کے گھر تشریف لے گئے ۔مریضہ کو دیکھا اور فرمایا‘‘ دس رتی ہینگ دے دواور ایک گھنٹہ کے بعد اطلاع دو ۔’’مفتی صاحبؓ نے حسب ِارشاد جاکر اطلاع دی اور عرض کیا کہ کچھ افاقہ نہیں ہوا تو فرمایا ‘‘دس رتی کونین دیدو اور ایک گھنٹہ بعد اطلاع دو۔’’ مفتی صاحب ؓنے پھر آکر عرض کیا کہ کوئی افاقہ نہیں ہوا تو فرمایا‘‘ دس رتی مشک دے دو ۔’’چونکہ یہ ایک بہت قیمت دوا تھی اس لئے یہ مشک اپنے پاس سے دیا اور فرمایا ’’ایک گھنٹہ بعد اطلاع دیں۔‘‘ ایک گھنٹہ کے بعد پھر عرض کیا گیا کہ مرض بڑھ رہا ہے تو ارشاد فرمایا’’ دس تولہ کسٹرآئل دے دو۔‘‘ کیسٹرائل دینے کے بعد مریضہ کو سخت قے ہوئی سانس اکھڑ گئی اور حالت نازک ہوگئی ۔مفتی صاحبؓ بھاگے ہوئے گئے۔ حضرت اقدسؑ نے پاؤں کی آہٹ سنتے ہی دروازہ کھول دیا مفتی صاحب ؓنے حالت بیان کی تو فرمایا’’ دنیا کے اسباب کے جتنے ہتھیار تھے وہ ہم چلاچکے ہیں اس وقت کیا وقت ہے۔‘‘عرض کیا گیا بارہ بج چکے ہیں بڑی شان اور توکل علی اللہ کرتے ہوئے فرمایا ’’تم جاؤ میرے پاس صرف ایک دعا کا ہتھیار باقی ہے میں اس وقت سر اٹھاؤں گا جب وہ اچھی ہوجاوے گی۔‘‘عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں’’چنانچہ مفتی صاحبؓ کا ایمان دیکھو کہ گھر میں آکر الگ کمرہ میں چارپائی ڈال کر سورہے کہ وہ جانے اور اس کا خدا ۔مجھے اب کیا فکر ہے ۔مفتی صاحب ؓ کہتے ہیں کہ جب صبح میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ برتنوں کو درست کررہی ہے میں نے پوچھا کیا حال ہے کہا کہ کوئی دو گھنٹہ کے بعد آرام ہو گیا تھا ۔’’

( سیرت مسیح موعود ؑ صفحہ 204 )

اللہ اللہ کیا عشق ہے خدا کی مخلوق کے ساتھ ،کیا شفقت ہے بنی نوع انسان پر کیا جذبات ہیں ہمدردی و غمخواری کے خدا کے بندوں کے لئے کہ ضرورتمند آتے ہیں اپنی حاجت بیان کرتے ہیں اور خدا کا مسیح ان کے لئے ہرممکن دنیاوی اسباب کو اختیار کرکے خدا کے حضور سجدہ میں گرجاتا ہے حاجت مندوں کی حاجت پوری ہوجاتی ہے تکلیف میں مبتلا درد سے نجات پالیتے ہیں ملول دلوں کا غم راحت میں بدل جاتا ہے۔اور وہ تکلیف دور ہوتے ہی آرام سے سوجاتے ہیں لیکن ان کا شفیق روحانی باپ ان کے لئے بے چین اور بیقرار ہو کر ان کے لئے دعا کرتا رہتا ہے جب تک کہ ان کے آرام کی اسے خبر نہیں مل جاتی۔

حضرت مسیح موعود ؑ کی ہمدرد ی اور شفقت صرف اپنوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ یہ تو فیوض کا وہ سیل رواں تھا کہ جو بھی اس کی راہ میں آیا بلا تفریقِ مذہب وملت اور بلا امتیاز امیروغریب اس کی برکتوں سے سیراب و فیض یاب ہوا ۔

قادیان کے ایک آریہ لالہ شرمپت تھے جو ایک مدت سے حضرت ؑکے پاس آیا کرتے تھے اور جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کے کئی نشان ملاحظہ کئے تھے لیکن برا ہو تعصب اور عناد کا کہ جب بھی گواہی کاوقت آیا اسلام سے عناد اور دشمنی کی وجہ سے انہوں نے شہادت سے پہلوتہی کی۔ وہ ایک مرتبہ سخت بیمار ہو گئے پیٹ پر ایک پھوڑا نکل آیا جس نے نہایت تکلیف دہ صورت اختیار کرلی حضرت مسیح موعودؑ کو معلوم ہوا تو آپؑ چند دوستوں کے ہمراہ ان کے مکان پر جو نہایت تنگ و تاریک تھا ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے لالہ جی سخت گھبرائے ہوئے تھے اور انہیں اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا حضرت صاحبؑ نے انہیں بہت تسلی دی اور فرمایا ‘‘گھبراؤ نہیں میں ڈاکٹر عبداللہ کو مقرر کردیتا ہوں ۔وہ اچھی طرح آپ کا علاج کریں گے دوسرے روز حضرت اقدسؑ پھران کے گھر تشریف لے گئے اور اپنے ساتھ ڈاکٹر صاحب موصوف کو بھی لے گئے اور انہیں خاص طور پر لالہ صاحب کے علاج پر مامور کردیا اور علاج کے اخراجات کا بوجھ بھی ان پر نہیں پڑنے دیا۔آپؑ روزانہ بلاناغہ ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لے جاتے، بہت تسلی دیتے اور فرماتے فکر نہ کرو میں دعا کرتا ہوں تم اچھے ہوجاؤ گے روزانہ عیادت کے لئے ان کے گھر جانے کا یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا اور جب زخم مندمل ہونے لگا اور حالت کافی بہتر ہوگئی تب آپ وقفہ سے جانے لگے تاہم یہ سلسلہ عیادت اس وقت تک جاری رہا جب تک لالہ صاحب مکمل صحت یاب نہیں ہوگئے ۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 169۔170)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
‘‘ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جبتک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے…..بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے …..شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دوتین مرتبہ دعانہ کی ہو ایک بھی ایسا نہیں۔’’

( ملفوظات جلد دوم صفحہ 68)

جن دنوں میں ہندوستان بالخصوص پنجاب میں طاعون اپنے زوروں پر تھی اور آپؑ کے مخالفوں پر موت کے سامان لے کر اتر رہی تھی خدا کا یہ بندہ اور اس کی مخلوق کا اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ ہمدرد وجود رات کی تاریکیوں میں ان کی عافیت کے لئے دعائیں کرتا ہوا خدا کے حضور سربسجود رہتا ۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ نے ایک رات جب حضرت اقدس ؑ کو اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کرتے سنا تو وہ بیان کرتے ہیں کہ

‘‘اس دعا میں آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا اور آپ اس طرح آستانہء الٰہی پر گریہ وزاری کررہے تھے کہ جیسے کوئی عورت درد زہ سے بے قرار ہو۔میں نے غور سے سنا تو آپؑ مخلوق خدا کے واسطے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا فرمارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ الٰہی ! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہوگئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا ’’

( بحوالہ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اےؓ صفحہ 51 )

مرزا نظام الدین حضرت اقدسؑ کے چچازاد بھائی تھےمگر آپؑ کے اور سلسلہ کے شدید معاند تھے۔ایذارسانی کا سلسلہ بھی ان کی طرف سے ہمیشہ جاری رہتا وہ ایک مرتبہ سخت بیمار ہوگئے۔ حضورؑ کو علم ہوا تو فوراً ان کی تیمارداری کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے لئے مناسب علاج تجویز فرمایا۔’’

( سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت 511)

حضرت مولوی یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ
‘‘حضرت مسیح موعود ؑ کے خادموں میں ایک شخص پیرا پہاڑیا تھا جو ضلع کانگڑہ کا باشندہ تھا ۔وہ آپؑ کی بعثت اور ماموریت سے پہلے قادیان میں آیا اور حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں بحیثیت ایک خادم کے رہنے لگا۔اس کی حالت ایک نیم وحشی کی سی تھی وہ ہر ایک قسم کے آداب اور انسانیت کے معمولی لوازم سے بھی ناواقف تھا…..بیمار ہوگیا اور اسے طاعون ہوا اس کو حسب دستورsegregation camp میں پہنچا دیا گیا ۔ حضرت اقدسؑ نے خان صاحب اکبر خانؓ کو خصوصیت سے اس کی تیمارداری اور ضروری انتظام متعلق علاج کے لئے مقرر کیا۔ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں ڈاکٹر قاضی محبوب عالم ؓجے پور سے نہایت اعلیٰ درجہ کا عرق کیوڑہ بھیجا کرتے تھے….یہ عرق نہایت قیمتی ہوتا تھا آپؑ نے اس کی بوتلیں خان صاحب کے سپرد کیں اور چند ہدایات دیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس کی گلٹی پر جونکیں لگوادیں اس کے علاج میں کسی خرچ کا مضائقہ نہ کیا جاوے باربار اس کی خیریت کی خبر دریافت کرتے تھے ۔ خان صاحب نے جونکوں والے کو تلاش کیا مگر وہ جونکیں مہیا نہ کرسکا ۔اس طرح پر اس حکم کی تعمیل نہ ہوئی ۔ خان صاحب نے خیال کیا کہ دوسرے وقت میں انتظام ہوجائے گا مگر نہ ہوا، غفلت ہوگئی ۔ پیرا کی موت مقدر تھی اور تقدیر مبرم تھی وہ فوت ہوگیا ۔ حضرت کو جب یہ معلوم ہوا کہ خان صاحبؓ جونکیں نہیں لگواسکے اور قادیان سے باہر سے جونکیں منگوانے میں انہوں نے غفلت کی ہے تو آپؑ بہت ناراض ہوئے۔ آپؑ کا چہرہ سرخ ہوگیا کہ اگر یہاں سے نہ ملی تھیں تو کیوں نہ بٹالہ یا کسی دوسری جگہ سے منگوا لی گئیں خواہ کچھ بھی خرچ ہوجاتا۔”

( سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 180۔181)

حضرت اقدس علیہ السلام اگرچہ کسی کی بیماری کی خبر سن کر بنفس نفیس اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے لیکن چونکہ آپ علیہ السلام کو نہایت ہی رقیق قلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا اور وہ دل محبت اور احساس کے لئے اتنارقیق تھا کہ آپؑ اپنے مخلص احباب کی تکلیف کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ سکتے تھے۔ اور ان کی تکلیف کا منظر آپؑ کے لئے سراسر ناقابل برداشت ہوتا تھا اس لئے بعض اوقات عیادت کے لئے خود نہ جاسکتے تو مختلف ذرائع سے عیادت کرلیتے مثلاً رشتہ داروں ،عزیزوں،اطباء اور ڈاکٹرز کے ذریعہ حال احوال معلوم کرتے رہتے مریض کو تسلی وتشفی کے پیغام بھیجتے رہتے اور خود اس مریض کے لئے خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے رہتے اور اس مریض کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعاؤں کا ذخیرہ جمع کرتے رہتے چنانچہ جب آپؑ کے ایک بہت ہی مخلص مرید نوجوان مرز ا ایوب بیگ بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو اس نوجوان سے اس کے اخلاص ووفا کی وجہ سے بہت محبت تھی تو انہوں نے دوران بیماری ‘‘ فاضلکا ’’ کے مقام سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں ایک خط لکھا اور اسی مضمون کا پھر تار بھی بھجوایا کہ ان کا دل بہت چاہتا ہے کہ وہ حضورؑ کی زیارت کریں ۔حضور مجھے فاضلکا میں آکر مل جائیں ان دنوں خود حضورؑ سردرد اور موسمی بخار کی وجہ سے شدید بیمار تھے آپؑ نے انہیں جواباً جو خط بھجوایا وہ حضور کی اس رقت قلبی کا بہترین عکاس ہے آپؑ نے تحریر فرمایا:۔’’میں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن میں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا ۔ میرادل جلد صدمہ قبول کرتا ہے یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں …..مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں ۔نہ دور ۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں اس درد کو بیان کروں….اس علالت کے وقت جو تار مجھ کو ملی میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے چلی جاتی ہے …. میری حالت تحریر کے لائق نہ تھی لیکن تار کے درد انگیز اثر نے مجھے اس وقت اٹھا کر بٹھادیا ہے۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 187)

یہی حال آپؑ کا مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ کی آخری بیماری کے وقت تھا کہ باوجودیکہ آپ ؑنے مولوی صاحبؓ کے علاج معالجہ کا بہترین انتظام کردیا تھا ان کی خوراک وغذا کا خیال خود رکھتے تھے لمحہ لمحہ کی خبر منگواتے اور مسلسل گریہ وزاری اور خدا کے حضور دعائیں کرتے تھے یہانتک کہ کئی کئی راتیں اس طرح دعاؤں میں گزار دیں کہ ایک منٹ کے لئے بھی آپ ؑسو نہ سکے لیکن رقت قلب کا یہ حال تھا کہ آپؑ کو خود جاکر مولوی صاحبؓ کو دیکھنے کا حوصلہ نہ تھا۔چنانچہ مولوی عبدالکریمؓ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں۔

‘‘ جب مولوی عبد الکریم صاحب بیمار ہوئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدت تکلیف کے وقت نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحبؑ سے ملنے کے لئے جاؤں گا ۔ گویا وہ سمجھتے تھے کہ میں کہیں باہر ہوں اور حضرت صاحب ؑقادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زاروقطار روپڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت ؑکا چہرہ نہیں دیکھا۔ تم مجھے حضرت صاحبؑ کے پاس کیوں نہیں لے جاتے ابھی سواری منگواؤ اور مجھے لے چلو ایک دن جب ہوش تھی کہنے لگے جاؤ حضرت صاحبؑ سے کہوکہ میں مرچلا ہوں۔ مجھے صرف دور سے کھڑے ہوکر زیارت کراجائیں اور بڑے روئے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جاؤ میں نیچے حضرت صاحبؑ کے پاس آئی کہ مولوی صاحبؓ اس طرح کہتے ہیں حضرت صاحبؑ فرمانے لگے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا میرادل مولوی صاحب کو ملنے کو نہیں چاہتا ؟ مگر بات یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا حضرت ام المومنین ؓنے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں ۔حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ‘‘ اچھا میں جاتا ہوں مگر تم دیکھ لینا کہ ان کی تکلیف کو دیکھ کر مجھے دورہ ہوجائے گا ۔’’خیر حضرت صاحبؑ نے پگڑی منگا کر سر پر رکھی اور ادھر جانے لگے میں جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کر آگے چلی گئی تاکہ مولوی صاحبؓ کو اطلاع دوں کہ حضرت صاحبؑ تشریف لاتے ہیں ۔جب میں نے مولوی صاحب ؓ کو جاکر اطلاع دی تو انہوں نے الٹا مجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب ؑ کو کیوں تکلیف دی ؟ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے ؟ میں نے کہا آپ نے خود تو کہا تھا ۔ انہوں نے کہا وہ تو میں نے دل کا دکھڑا رویا تھا تم فوراً جاؤ اور حضرت صاحبؑ سے عرض کرو کہ تکلیف نہ فرمائیں ۔ میں بھاگی گئی تو حضرت صاحبؑ سیڑھیوں کے نیچے کھڑے اوپرآنے کی تیاری کررہے تھے ۔ میں نے عرض کردیا کہ حضور آپ تکلیف نہ فرمائیں۔’’

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ 404 )

آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا میں پیاسا تھا اور تونے مجھے پانی نہ دیا میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی جن لوگوں سے یہ سوال ہوگا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا تو کب پیاسا تھا جوپانی نہ دیا اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی پھر خداتعالیٰ فرمائے گا میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہیں کی اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی ایسا ہی ایک اور جماعت کو کہے گا کہ شاباش تم نے میری ہمدردی کی میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی ۔دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خداتعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کاکہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا ؟ کبھی نہیں ۔حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی ۔مگر نہیں اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے ۔خداتعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے ۔پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے’’

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 215۔216)

(محمد عثمان شاہد)

پچھلا پڑھیں

ڈاکٹر(ہومیو)حمیداحمدشہید

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2020