• 5 مئی, 2024

ڈاکٹر(ہومیو)حمیداحمدشہید

حمیداحمدشہیدخاکسارکےپھوپھی زادتھے۔گو میرےسےایک سال بڑے تھےمگرایک سال بڑےہونےکی وجہ سےدوستی اورمذاق کا سلسلہ بھی جاری رہتاتھا۔لیکن جب میں مربی بن گیابالخصوص جب حضور نے نائب ناظر مقرر فرمایا توپھرہمیشہ ادب سےپیش آئے۔واقفینِ زندگی، مربیان کی عزت کرتے،مرکزی نمائندگان جودورہ پر اٹک جاتے ان سے احترام سےپیش آتے۔ایک مربی صاحب نے بتایا کہ شہادت سے چندروزقبل میں دورہ پرتھا۔ دعوت الی اللہ کا پروگرام تھا۔ آپ نےکھانےکا انتظام کیااورمجھے کہاکہ یہ سالن میں نےخودتیار کیا ہے۔خاکسارنےبھی 5سال قبل جب اٹک کا دورہ کیا تھا تو بہت پیار سےپیش آئےاورمجھے اصرار کرکےاپنےاہلِخانہ سےملوانےاوران کے لئے دعاکروانےکےلئےاپنےگھرلےگئے۔

مجھے کئی بار واہ کینٹ جلسوں میں بطور مرکزی نمائندہ شمولیت کی تو فیق ملتی رہی ہے۔ میں ان کو اکثر فیملی کے ساتھ وہاں موجود پاتا۔ میں نے کئی دفعہ کہا کہ آپ کا تو یہ حلقہ نہیں ۔ بڑی ہمت کر کے آپ اٹک سے آتے ہیں تو جواب دیتے کہ چونکہ جلسوں پر پابندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع میسر کیا ہے،الله اوررسول کی باتیں سننے کے لئے یہاں آ گئے ہیں۔

مرحوم فعّال اور پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ آپ نے اپنی ملازمت میں فیکٹری میں ہی 9پھل حاصل کئے ۔ جس کی وجہ سے مخالفت ہوئی اور آپ کو فیکٹری کی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا مگر آپ نے دعوت الی الله نہ چھوڑی۔ بلکہ اس میدان میں آگے بڑھتے گئے ۔شہادت سے ایک روز قبل جمعہ کی مناسبت سے 2میسج بھیجے تو انہوں نے ایک میسج forward کیا تو میں نے دوسرے کی بھی درخواست کی تو فوراً کر کے لکھا ’’حسبِ ارشاد دوسرا بھی بھجوادیا ہے۔’’

خاکسار نے حالات کے پیش نظر دو تین دفعہ ربوہ منتقل ہونے کی درخواست کی تو یہی جواب دیتے کہ ربوہ جا کر فارغ ہو جاؤں گا ۔ دعوت الی الله کا موقع نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت کے مقام کی خاطر اٹک میں ہی رکھا۔ ہمارے خاندان کے پہلے شہید ہیں۔جس سے ہمارا مقام بھی بلند ہوا ہے۔

خاندان میں میل ملاقات رکھتے تھے۔ جب کسی شہر بالخصوص ربوہ آتے تو ضرور افراد خاندان کے گھروں میں مل کر جاتے ۔ خاندان کی شادیوں میں خصوصی طور پر پہنچتے اور اگر کوئی روک ہوتی تو وہاں یااس کےاردگرد اگر بچے مقیم ہیں تو ان کو ہدایت کرتے کہ آپ میری نمائندگی میں شادی میں شامل ہوں۔

ذراسخت طبیعت کے تھے اور کسی کی غلط بات برداشت نہ کرتے اور ٹوکتے اور اصلاح کرتے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ان کے اندرشہادت سےقبل چند مہینوں سے نمایاں تبدیلی تھی ۔ طبیعت میں بھی نرمی تھی اور نظموں کے ذریعہ لقائے باری تعالیٰ کا اظہار کرتے رہے ۔

آپ شاعر بھی تھے۔ آپ کی کچھ نظمیں تو خاکسار نے آپ کی زندگی میں پڑھیں لیکن ان کی وفات کے بعد نیٹ کے ذریعہ نظموں کا ایک خزانہ ہے، جو ملا ہے۔ جس میں خلافت سے عقیدت،خلیفہ سے پیار ، خلیفہ کی اطاعت اور خطبات کے سننے جیسے اہم امور نمایاں طور پر چھلکتے ہیں ۔ اور شہادت اور خدا تعالیٰ سے ملنے کا ذکر بھی ہے۔ جیسے شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا۔

کسی مومن کی جب شہادت ہوتی ہے
اک دائمی زندگی کی ولادت ہوتی ہے
کبھی ملتی نہیں عام لوگوں کو وہ
شہید کونصیب جو سعادت ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ سے ملاپ کے حوالے سے لکھا۔

ازل سے ابد تجھی کو جانا
تیرے سوا کسی کو نہ مانا
اور کہیں آؤں نہ آؤں میں
تیرے پاس ہے مجھ کو آنا
اور کہیں سے ملے نہ ملے
تجھ سے ہے سب کچھ پانا
اورکسی سے کہوں نہ کہوں
ہر بات تجھی سے ہے کہنا

حضور انور کی تحریک روزہ کے حوالے سے لکھا۔

رکھیں گے روزہ ہم سب جمعرات کا
عہد جو کیا ہے خلافت کی اطاعت کا

جنازہ کےساتھ آنےوالےاکثرلوگوں نےبتایا کہ خدمتِ دین کرنے والا ہم سے روٹھ گیا ہے۔ مکرم امیر صاحب اٹک نےتعزیت کرتے ہوئے اپنے خیالات کا یوں اظہار فرمایا کہ “خدمت گزار ،مسجد کی رونق، جماعت کا وفادار اور خلیفۃ المسیح اور اپنے سے بالا افسران کی مکمل اطاعت کا مجسّمہ تھے۔ آپ کی موجودگی میں مجھے کام کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ خدمتِ دین میں بشاشت محسوس کرتے تھے اور کچھ مہینوں سے آپ میں نمایاں تبدیلی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ الله تعالیٰ آپ کو شہادت کے لئے تیار کر رہا تھا۔”

شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ کا انتقال 4 سال قبل ہوا تھا۔ آپ کے لواحقین میں 3 بیٹیاں اور2 بیٹے ہیں ۔ جو سب الحمدللّٰہ کینیڈا آبادہیں۔

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیماروں اورمریضوں سےحُسنِ سلوک