• 3 مئی, 2024

قرآن کا مقصد اور انسانی ذمہ داریاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا۔ انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو اور پھر باخدا انسان بنانا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ53 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ قرآنِ کریم میں عملی اور علمی تکمیل کی ہدایت ہے۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ (الفاتحہ: 6) میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ: 7) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہوجائیں۔ جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں۔ وہ ہدایت مردہ ہدایت ہے۔ جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے…‘‘ فرمایا کہ ’’قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اُس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کیے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جو قرآن شریف میں دی گئی ہے، بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ اُن میں پیدا ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ121-122 ایڈیشن 2003ء)

پس اگر قرآنِ کریم کا حق ادا کرتے ہوئے قرآنِ کریم کو پڑھا جائے اور پھر اُس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ ہو تو عملی طور پر بھی ایک نمایاں تبدیلی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ وحشیانہ حالت سے نکل کر ایسا شخص جس نے قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کیا ہو، مہذب اور باخدا انسان بنتا ہے اور باخدا انسان وہ ہوتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص اور سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں شجرہ طیبہ کی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ (ابراہیم: 25) کہ اُس کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہیں اور اُس کی شاخیں آسمان کی بلندی تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمائی ہے۔ فرمایا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا کہ وہ ایمان جو ہے وہ بطور تخم اور شجر کے ہے اور اعمال جو ہیں وہ آبپاشی کے بجائے ہیں۔ یعنی آبپاشی کی جگہ ہیں، اعمال ایسے ہیں جس طرح کہ پودے کو پانی دیا جائے۔ فرمایا: قرآنِ شریف میں کسان کی مثال ہے کہ جیسا وہ زمین میں تخم ریزی کرتا ہے، ویسا ہی یہ ایمان کی تخم ریزی ہے۔ وہاں آبپاشی ہے، یہاں اعمال۔ فرمایا: پس یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے۔ یعنی اُس میں پانی اور نہریں نہ ہوں، دریا نہ ہو۔ فرمایا: جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اُس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا۔ اسی طرح ایمان کا حال ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70)۔ یعنی تم ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلد5 صفحہ649 ایڈیشن 2003ء)

اس لئے آپ نے شروع میں فرمایا کہ قرآنِ شریف جوتمہیں بنانا چاہتا ہے، وہ تم اُس وقت بن سکتے ہو جب شرعی حدود جو لگائی ہیں، قرآنِ کریم نے جو احکامات دئیے ہیں، اُن کو مرحلہ وار اپنے اوپر لاگو کرو۔ اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آرام سے نہیں ہو جاتا ہے، اس کے لئے مجاہدات کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 26؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

بھائی عبد الرحیم دیانت مرحوم، درویش قادیان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جون 2022