• 4 مئی, 2024

ایک سبق آموزبات

عیادت

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک اس کی عیادت اور تیمارداری کرنا بھی ہے۔ گو کہ اسلام نے ہمیں ہر طرح کے آداب سکھلائے ہیں۔ لیکن اسلام کے ان وضع کردہ اصولوں کے باوجود ہمارے عمومی رویے بعض اوقات کہیں نہ کہیں تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔

عیادت کو جائیں تو مریض کا حوصلہ بڑھانے والی گفتگو کرنی چاہیے۔ایسی مثالیں نہیں بیان کرنی چاہئیں کہ فلاں کو بھی یہ مرض تھا وہ تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ یا یہ کہ اس طرح کے مرض سے فلاں کا بہت برا حال ہوا۔ بلکہ حوصلہ افزا اور زندگی کی طرف کھینچنے والی مثالیں بیان کرنی چاہئیں۔

دوسری عمومی غلطی جو ایسے موقع پر کی جاتی وہ یہ ہےکہ مریض کی محبت یا ہمدردی میں ایسے الفاظ بولے جاتے کہ جن سے یہ ثابت ہوتا گویا خدا تعالیٰ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) بہت ظالم ہے۔

کہیں اس کے متضاد یہ رویہ اختیار کیا جاتا کہ مریض کی تکلیف کو اس کے ساتھ خدا تعالی کی ناراضگی کا سبب یا ابتلاء کا نام دے دیا جاتاہے۔ بیان کردہ ہر دو رویوں کو اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور مریض کو خدا تعالیٰ کا پیارا، رحیم چہرہ دکھلاتے ہوئے اس شخص کے ساتھ ایسی مثبت گفتگو کرنی چاہیے کہ جو زندگی کی رمق پیدا کرنے والی، زخم پر مرہم کا کام دینے والی، دُکھوں کو مندمل کرنے والی ہو۔ ناکہ افسردگی اوردل آزادی کا باعث۔

(مرسلہ: ثمرہ خالد جرمنی)

پچھلا پڑھیں

بھائی عبد الرحیم دیانت مرحوم، درویش قادیان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جون 2022