• 18 مئی, 2024

اے ملکہ برطانیہ! پلاٹینم جوبلی مبارک ہو

اے ملکہ برطانیہ! پلاٹینم جوبلی مبارک ہو
خوش رہو اور صحت و سلامتی سے کئی سال جیو

آج کل پورے برطانیہ میں جشن کا سا سماں ہے۔ ملکہ معظمہ الز بتھ الیگزینڈرا میری کو اپنے شاہی تخت پر بیٹھے ہوئے 70سال ہورہے ہیں۔ جس خوشی میں پوری برطانوی قوم پلاٹینم جوبلی منا رہی ہے۔ ہر سطح پر سرکاری و نجی تقاریب منعقد کر کے ملکہ معظمہ کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر پروگرامز نشر کر کے ملکہ کے سنہری حروف سے لکھے جانے والے اہم اورتاریخی کارہائے نمایاں کا ذکر ہو رہا ہے۔ نیشنل اور قومی اخبارات، رسائل اور میگزینز ملکہ معظمہ کی زندگی پرکالم، آرٹیکلز، فیچرز اور مضامین شائع کر رہے ہیں، اور یہ جملہ اخبارات و رسائل کے سرورق ملکہ کی فوٹوز سے سجے نظر آرہے ہیں۔

گھر اور گلی کوچے رنگ برنگی لائٹوں، جھنڈیوں اور ملکہ کی تصویروں اور قومی پرچموں سے سج گئے ہیں۔ یو کےکے ساتھ ساتھ اس سلطنت سے منسلکہ دیگر ممالک وریاستوں یعنی انگلینڈ،اسکاٹ لینڈ، ویلز اور ناردرن آئر لینڈ کے پرچموں کی بھی تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ بعض گھروں پر Lighting سے بھی ماحول میں رنگینیاں بکھررہی ہیں۔ بکنگھم پیلس اور ملکہ معظمہ کی دیگر رہائش گاہوں کے ارد گرد عوام کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اوروہ بادشاہت کے دیوانے ملکہ سے عقیدت، محبت اور پیار کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

وطن سے محبت کو جزو ایمان سمجھتے ہوئے آج برطانیہ میں بسنے والے احمدیوں، دنیا بھر کے لاکھوں قارئین الفضل، کارکنان، نمائندگان اور معاونین بالخصوص ممبران ٹیم الفضل کی طرف سے ملکہ معظمہ کو نہایت ادب کے ساتھ پلاٹینم جوبلی پر نہ صرف مبارکباد پیش کرتے ہیں بلکہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ملکہ برطانیہ کی صحت، عمر اور اس کی سلطنت دراز کر کہ اس کے سایہ عافیت میں ہم اسی طرح مذہبی اور اظہار رائے کی آزادی رکھتے ہیں جس طرح ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک دور میں1897ء میں کوئین وکٹوریہ ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے ذریعہ حاصل تھی۔ حضرت اقدس ؑ نے خاص طور پر مورخہ 25 مئی 1897ء کو ایک رسالہ تحفہ قیصریہ شائع فرمایا اور 19 جون 1897ء کو ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر قادیان میں ایک جلسہ منعقد فرمایا جس میں ملکہ معظمہ کے لیے دعا بھی کی۔

ہم احمدی برطانیہ میں کسی بھی جگہ پر قوانین کے پابند رہتے ہوئے اپنے مذہب کا پرچار کر سکتے ہیں۔ لٹریچر تقسیم کر سکتے ہیں۔ بک اسٹالز لگا کر اپنی کتب کی تشہیر کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ جلسے منعقد ہوتے ہیں، مساجد تعمیر ہوتی ہیں اور نماز کے لئے اذان دیتے ہیں۔ ایم ٹی اے اور دیگر ٹی وی چینلز پر مذہبی رواداری کے لیکچرز دئیے جاتے ہیں۔ فلائیرز، فولڈرز، لیف لیٹس اور بک لیٹس پر مشتمل لٹریچر تقسیم کر سکتے ہیں۔ پانچ وقت نمازیں اور فرض عبادات ادا کرنے کے پورے پورے حقوق ملے ہوئے ہیں۔ خاکسار نے کئی بار اپنے اور اپنی بچیوں کے گھروں سے منسلک چلڈرن و سماجی پارکس میں نمازیں با جماعت ادا کی ہیں۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ ہم پارکوں میں نماز با جماعت ادا کرتے ہیں میں نے اپنے گھر کے سبزہ زار میں اہل خانہ کے ساتھ با جماعت نماز ادا کی ہے اور پڑوسی ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر مجال کسی پڑوسی نے دخل اندازی بھی کی ہو یا عبادت کرنے سے روکا ہو۔ انگریز، ہر ایک احمدی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ احمدی لوگ امن کا پیغام پھیلانے والے ہیں اور Love for all, Hatred for none پر یقین رکھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہم اپنے ہی ملک میں نہ تو آزادانہ عبادت کر سکتے ہیں اور نہ تبلیغ۔ ہماری سر زمین ہم پر تنگ کی جا رہی ہے۔ زندہ احمدی تو درکار اب تو مردے بھی امن میں نہیں۔ پاکستان میں کوئی احمدی تو درکنار کوئی دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والا بھی پارک یا پبلک پلیس پر ڈرتے ڈرتے ہی نماز ادا کرے گا کہ کسی الزام کا ہی مورد ہی نہ ٹھہر جائے۔

میں موقع کی مناسبت سے ایک مثال دے کرآگے بڑھوں گا۔ جماعت احمدیہ کا ترجمان اخبار روزنامہ الفضل کی اشاعت پر پاکستان میں پابندی لگا دی گئی۔ پریس سیل کر دیے گئے۔ دیگر کتب و رسائل پر بھی پابندی کا سامنا ہے۔ وہی اخبارالفضل آج ملکہ معظمہ برطانیہ کے سایہ شفقت میں برطانیہ کی فضاؤں پر حکومت کرتا نظر آتا ہے۔ اور بڑی آن بان اور شان کے ساتھ روزانہ برطانیہ کے افق پر نمودار ہو کر لاکھوں کی تعداد میں متعدد ملکوں میں اپنی کرنیں بکھیرتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان سے تکالیف و مشکلات کی زندگی گزار کر جب اپنوں نے برطانیہ کا رخ کیا تو سلطنت برطانیہ نے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور تمام مراعات سے نوازا۔

پاکستان میں جب سے مسلمان کہنے اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال پر احمدیوں پر پابندی لگی ہے تب سے خلافت احمدیہ کا مرکز بھی لندن ہے۔ اور ہمارے خلیفہ آزادانہ ماحول میں تبلیغ و تربیت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ملکہ معظمہ شکریہ کی مستحق ہیں۔

الزبتھ دوم، برطانیہ کی ملکہ کے طور پر، چرچ آف انگلینڈ کی ’’سپریم گورنر‘‘ ہیں۔

جیسا کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ملکہ معظمہ الزبتھ گہری مذہبی فطرت رکھتی ہیں اور مذہب پر ایمان ان کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ملکہ معظمہ نے 2000ء میں اپنی کرسمس کی تقریر میں کہا کہ
ہم میں سے اکثر لوگوں کے لئے ہمارے بنیادی عقائد بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ میرے لیے، مسیح کی تعلیمات، اور خدا کے سامنے میری اپنی ذاتی جوابدہی مجھے ایک ایسا فریم ورک فراہم کرتی ہے جس میں، میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں نے، آپ میں سے بہت سے لوگوں کی طرح، مسیح کے الفاظ اور مثالوں سے مشکل وقت میں بہت تسلی حاصل کی ہے۔

ہندوستان میں مذہبی آزادی کو یقینی بنانا برطانوی راج کا خاصہ رہا اوراس کو مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے ماننے والوں کو بارہا خدا تعالیٰ کے بعد ملکہ برطانیہ کی طرف سے ملنے والی اس نعمت کا دل سے مشکور ہونے کی نصیحت فرمائی۔

آپ ؑ فرماتے ہیں:۔
’’یہ دعا گو کہ جو دنیا میں عیسیٰ مسیح کے نام سے آیا ہے اسی طرح وجود ملکہ معظمہ قیصرہ ہند اور اس کے زمانہ سے فخر کرتا ہے جیسا کہ سیّد الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوشیروان عادل کے زمانہ سے فخر کیا تھا۔ سو اگرچہ جلسۂ جوبلی کی مبارک تقریب پر ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ ملکہ معظمہ کے احسانات کو یاد کر کے مخلصانہ دعاؤں کے ساتھ مبارکباد دے اور حضور قیصرۂ ہند و انگلستان میں شکر گزاری کا ہدیہ گزارے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے۔ میرے لیے خدا نے پسند کیا کہ میں آسمانی کاروائی کے لیے ملکہ معظمہ کی پر امن حکومت کی پناہ لوں۔ سو خدا نے مجھے ایسے وقت میں اور ایسے ملک میں مامور کیا جس جگہ انسانوں کی آبرو اور مال اور جان کی حفاظت کے لیے حضرت قیصرہ مبارکہ کا عہد سلطنت ایک فولادی قلعہ کی تاثیر رکھتا ہے۔ جس امن کے ساتھ میں نے اس ملک میں بودو باش کر کے سچائی کو پھیلایا اس کا شکر کرنا میرے پر سب سے زیادہ واجب ہے۔ اور اگرچہ میں نے اس شکر گزاری کے لیے بہت سی کتابیں اردو اور عربی اور فارسی میں تا لیف کر کے اور ان میں جناب ملکہ معظمہ کے تمام احسانات کو جو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے شامل حال ہیں اسلامی دنیا میں پھیلائی ہیں اور ہر ایک مسلمان کو سچی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دی ہے لیکن میرے لیے ضروری تھا کہ یہ تمام کارنامہ اپنا ملکہ معظمہ کے حضور میں بھی پہنچاؤں۔ سو اسی بناء پر آج مجھے جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی جوبلی کے مبارک موقعہ پر جو سچی وفادار رعایا کے لیے بے شمار شکر اور خوشی کا محل ہے اس دلی مدعا کے پورا کرنے کی جرات ہوئی۔‘‘

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ255-256)

• آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں
’’اے قیصرہ مبارکہ !خدا تجھے سلامت رکھے اور تیری عمر اور اقبال اور کامرانی سے ہمارے دلوں کو خوشی پہنچاوے۔ اس وقت تیرے عہد سلطنت میں جو نیک نیتی کے نور سے بھرا ہوا ہے مسیح موعود کا آنا خدا کی طرف سے یہ گواہی ہے کہ تمام سلاطین میں سے تیرا وجود امن پسندی اور حسن انتظام اور ہمدردی رعایا اور عدل اور داد گستری میں بڑھ کر ہے۔ مسلمان اور عیسائی دونوں فریق اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح موعود آنے والا ہے مگر اسی زمانہ اور عہد میں جبکہ بھیڑیا اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پئیں گے اور سانپوں سے بچے کھیلیں گے۔ سو اے ملکہ مبارکہ معظمہ قیصرہ ہند !وہ تیرا ہی عہد اور تیرا ہی زمانہ ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جو تعصب سے خالی ہو وہ سمجھ لے۔ اے ملکہ معظمہ! یہ تیرا ہی عہد سلطنت ہے جس نے درندوں اور غریب چرندوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ راستباز جو بچوں کی طرح ہیں وہ شریر سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور تیرے پُر امن سایہ کے نیچے کچھ بھی ان کو خوف نہیں۔ اب تیرے عہد سلطنت سے زیادہ پر امن اب کونسا عہد سلطنت ہوگا جس میں مسیح موعود آئے گا؟ اے ملکہ معظمہ !تیرے وہ پاک ارادے ہیں جو آسمانی مدد کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔‘‘

(ستارۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد15 صفحہ117-116)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوستان پر حکومت کرنے والی ملکہ کے دل سے معترف تھے کہ انہوں نے اس ملک میں ہر ایک مذہب کے ماننے والوں کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری کو کیا خوب نبھایا۔ آپ اس حکومتِ برطانیہ کے خلاف کسی بھی قسم کی شر پسندی اور بغاوت کو گناہِ عظیم سمجھتے تھے اور ملکہ کے اس فعل کو کہ وہ خود بھی اپنے دین پر قائم ہیں اور دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی بھی تعظیم اپنا فرض سمجھتیں ہیں۔ حضور نے ایک نہایت درجہ گہرا مضمون خدا تعالیٰ سے سمجھ کر ملکہ کے مذہب کی دل سے توقیر کی۔

آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’اور میں اس کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایہء رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیر سایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت اور وعظ کا ادا کر رہا ہوں۔ اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہندکی حکومت کے سایہ کے نیچے انجام پذیر ہو رہے ہیں ہرگز ممکن نہ تھا کہ وہ کسی اور گورنمنٹ کے زیر سایہ انجام پذیر ہو سکتے۔ اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔

اب میں حضور ملکہ معظمہ میں زیادہ مصدع اوقات نہیں ہونا چاہتا۔ اور اس دعا پر یہ عریضہ ختم کرتا ہوں کہ
اے قادر و کریم! اپنے فضل و کرم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم س کے سایہء عاطفت کے نیچے خوش ہیں اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور ان معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے کے لیے اس کے دل میں آپ الہام کر کہ ہر قدرت اور طاقت تجھی کو ہے۔

آمین ثم آمین

الملتمس

خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 283-284)

ساتھ ہی آپ علیہ السلام اور آپ ؑ کے ماننے والے ہندوستان میں برٹش راج کے خلاف اٹھنے والے فسادات سے کوسوں دور رہے اور برملایہ اظہار فرمایا کہ ایسی سوچ اور اقدامات جو حکومت کے خلاف ہوں ہم ناجائز سمجھتے ہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’اے نادانو! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لیے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کی رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے۔ کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ75 حاشیہ صفحہ69)

ملکہ معظمہ الزبتھ دوئم کی مذہبی رواداری تب بھی دیکھنے کو ملی جب آپ نے 1979 میں متحدہ عرب امارات کے چار روزہ دورہ میں شیخ زید مسجد کے دورہ میں اپنے سر کو ڈھانپ رکھا تھا ور ننگے پاؤں مسجد کا وزٹ بھی کیا۔

قارئین الفضل کی دلچسپی اور ریکارڈ کے لیے ملکہ الزبتھ دوم کے حالات زندگی بھی شئیر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

آزاد دائرۃ المعارف و ویکی پیڈیا کے مطابق، الزبتھ دوم الزبتھ الیگزینڈرا میری 21 اپریل 1926ء کو 17 برٹن سٹریٹ، مے فیئر، لندن میں اپنے دادا دادی کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پرنس البرٹ، ڈیوک آف یارک تھے، جو بعد میں جارج ششم بن گئے۔

ان کے والد نے 1936ء میں اپنے بھائی کنگ ایڈورڈ ہشتم کے دستبردار ہونے پر تخت سنبھالا، جس سے ملکہ الزبتھ کو وارث بنایا گیا۔

الزبتھ کی عمر 13 سال کی تھی جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔

شہزادی الزبتھ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران معاون علاقائی سروس میں خدمات انجام دیتے ہوئے اپنے پہلے عوامی فرائض کی انجام دہی کاکام سنبھالا۔ شہزادی الزبتھ نے 1945ء میں برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 1947ء میں، انہوں نے برطانیہ سے باہر اپنا پہلا سرکاری دورہ کیا۔

نومبر 1947ء میں، انہوں نے یونان اور ڈنمارک کے سابق شہزادے فلپ ماؤنٹ بیٹن سے شادی کی، اور ان کی شادی 2021ءمیں فلپ کی وفات تک 73 سال جاری رہی۔

ان کے چار بچے ہیں چارلس پرنس آف ویلز،این شہزادی رائل،پرنس اینڈریو ڈیوک آف یارک اور پرنس ایڈورڈ ارل آف ویسیکس۔

جب فروری 1952ء میں ان کے والد کا انتقال ہواتو ملکہ الزبتھ اس وقت 25 سال کی تھیں۔

ان کی تاجپوشی 1953ء میں ہوئی اور یہ اپنی طرز کی پہلی ایسی تاج پوشی تھی جو ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ ہوئی۔ اس تاجپوشی کے ساتھ ہی ملکہ الزبتھ دوئم سات آزاد دولت مشترکہ ممالک کی ملکہ بن گئیں۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان، اور سیلون کے ساتھ ساتھ دولت مشترکہ کی سربراہی بھی سنبھالی۔

اہم واقعات میں 1953ء میں الزبتھ کی تاجپوشی اور بالترتیب 1977ء، 2002ء اور 2022ء میں ان کی سلور، گولڈن اور پلاٹینم جوبلی کی تقریبات شامل ہیں۔

9 ستمبر 2015ء کو انہوں نے ملکہ وِکٹوریا کے سب سے لمبے دورِ حکومت کے رِیکارڈ کو توڑ دیا۔ ملکہ الزبتھ سب سے طویل عرصے تک رہنے والی اور سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی برطانوی بادشاہ، ریاست کی سب سے طویل مدت تک خدمات انجام دینے والی خاتون سربراہ، سب سے لمبی عمر پانے والی سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی زندہ موجودہ ملکہ اور سب سے پرانی اور سب سے طویل مدت تک حکومت کرنے والی سربراہ مملکت ہیں۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

بھائی عبد الرحیم دیانت مرحوم، درویش قادیان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جون 2022