• 19 مئی, 2024

اولاد کی خواہش

جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دین دار اور متقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہوکر اس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے۔ اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیئات رکھنا جائز ہو گا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہوگا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذاب ہے۔ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے۔ تب اس کی ایسی خواہش نتیجہ خیز خواہش ہو گی۔ اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ370-371 ایڈیشن 1984ء)

•بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہے دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ۔ نمازوں کی پابندی کرو، اور توبہ و استغفار میں مصروف رہو، نوعِ انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو، راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا۔ عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں۔ اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو۔ پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ۔ ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ434 ایڈیشن 1988ء)

• اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے۔ کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129)

ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہٴ بیعت میں ہیں جس کا دعوےٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے۔ ان تمام آفات سے نجات پاویں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ10 ایڈیشن 1984ء)

• تقوی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔ اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہوسکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں۔ لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلبِ صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ (المائدہ: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاوٴں کو قبول فرماتا ہے۔ … لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے۔ تاکہ قبولیتِ دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ109-108 ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2022