• 28 اپریل, 2024

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 37)

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 37

لا علاج امراض کا علاج دعا

میں بہت دعا کرتا ہوں دعا ایسی شئے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لا علاج کہہ دیتے ہیں ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ345 ایڈیشن 1984ء)

بدر کے موقع پر آنحضورؐ کی دعا کی
آج بھی ضرورت ہے

…اب اگر خدا تعالیٰ چُپ رہے تو پھر دہریہ پن کے سوا کوئی اَور مذہب نہ ہوگا۔ اگر اس وقت اس کی چہرہ نمائی کی ضرورت نہیں ہے تو پھر کب ہوگی۔ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں دعا کی تھی کہ اے اللہ! اگر تو نے آج اس گروہ کو ہلاک کردیا توپھر تیری کبھی عبادت نہ ہوگی۔ یہی دعا آج ہمارے دل سے بھی نکلتی ہے۔ پس یقیناً یاد رکھو کہ اب اگر خدا تعالیٰ دستگیری نہ کرے تو سب ہلاک ہوجائیں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اگر نہ ہو تو قطع یقین ہوجاتا ہے۔ بچہ اگر دودھ نہ ملے تو وہ کب تک جئے گا۔ آخر سسک سسک کر مر جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے انقطاعِ امداد ہو تو انسان چونکہ کمزور اور ضعیف ہے جیسا کہ فرمایا خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا (النساء: 29) پس وہ بھی آخر روحانی طورپر مر جائے گا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ361-362 ایڈیشن 1984ء)

دعا کے ذریعہ سے شفا

میرا مذہب بیماریوں کے دعا کے ذریعہ سے شفا کے متعلق ایسا ہے کہ جتنا میرے دل میں ہے اتنا میں ظاہر نہیں کرسکتا۔ طبیب ایک حد تک چل کر ٹھہر جاتا ہے اور مایوس ہو جاتا ہے مگر اس کے آگے خداتعالیٰ دعا کے ذریعہ سے راہ کھول دیتا ہے۔ خداشناسی اور خدا تعالیٰ پر توکل اسی کا نام ہے کہ جو حدیں لوگوں نے مقرر کی ہوئی ہیں ان سے آگے بڑھ کر رجا پیدا ہو ورنہ اس میں توآدمی زندہ ہی مر جاتا ہے۔ اس جگہ سے اللہ تعالیٰ کی شناخت شروع ہو جاتی ہے۔ مجھے ایسے معاملات میں مولوی رومی کا یہ شعر بہت پسند آیا ہے

اے کہ خواندی حکمتِ یونانیاں
حکمت ایمانیاں را ہم بخواں

(حاشیہ صفحہ 386:۔ ہمارا تو اصل مذہب یہی ہے کہ اگر تمام دنیا کے طبیب نا امید ہوجائیں اور موت کا فتویٰ لگائیں پھر بھی روحانی اسباب کے میسر آنے پر اور کافی توجہ کے پیدا ہونے پر دعا قبول ہو کر شفا ہوجاتی ہے۔)

عام لوگوں کے نزدیک جب کوئی معاملہ یاس کی حالت تک پہنچ جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اندر ہی اندر تصرفات شروع کرتا ہے اور معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔

دعا کے واسطے بہت لوگوں کے خطوط آتے ہیں۔ ہر ایک کے لئے جو دعا کے واسطے لکھتا ہے دعا کرتا ہوں۔ لیکن اکثر لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانہ پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے۔ دراصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے۔

(حاشیہ387: مگر ہم اس معاملہ میں لاچار ہیں کہ ایسی توجہ پیدا ہوجائے یہ اللہ تعالےٰ کی عطا کردہ توفیق سے ہوسکتا ہے۔ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ لیکن اصحاب میں سے ایک نوجوان تازہ شادی کردہ جب سانپ سے ڈسا جا کر مرگیا اور دوسروں نے عرض بھی کی کہ اس کے واسطے دعا کی جائے تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ۔ اپنے بھائی کو دفن کردو۔ لوگ دعا کے اصل راز کو نہیں سمجھتے۔(بحوالہ بدر))

(ملفوظات جلد7 صفحہ386-387 ایڈیشن 1984ء)

دعا اور امیدمیں کبھی نہ تھکو

خدا تعالےٰ کا معاملہ انسان کے ساتھ اس کے گمان اور تبدیلی کے اندازہ پر ہوتا ہے سو خدا تعالیٰ پر نیک گمان رکھو اور دعا اور امیدمیں کبھی نہ تھکو اورنہ مایوس ہو…

دعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے
جس کو طبعی لوگ نہیں سمجھ سکتے

دعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے جس کو طبعی لوگ جو صرف مادی نظر رکھنے والے ہیں نہیں سمجھ سکتے۔ سنت اللہ میں دقیق در دقیق اسباب کا ذخیرہ ہے جو دعا کے بعد اپنا کام کرتا ہے۔ نیند کے واسطے طبعی اسباب رطوبات کے بیان کئے جاتے ہیں مگر بہت دفعہ آزمائش کی گئی ہے کہ بغیر رطوبات کے اسباب کے ایک نیند سی آجاتی ہے اور ایک حالت طاری ہوتی ہے جس میں سلسلہ الہامات کا وارد ہوتا ہے اور وہ بعض اوقات ایسا لمبا سلسلہ ہوتا ہے کہ انسان بار بار اپنے رب سے سوال کرتا ہے اور رب جواب دیتا ہے۔ ایسا ہی بعض مادی لوگوں نے چند ظاہر اسباب کو دیکھ کر فتویٰ لگایا گیا ہے کہ اب زلازل کا خاتمہ ہے اور دوسو سال تک یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔ لیکن یہ لوگ دراصل اللہ تعالیٰ کے باریک رازوں اور اسباب سے بے خبرہیں۔ وہ ظاہر عالم اسباب کو جانتے ہیں لیکن ا س کا ایک باطنی عالم اسباب بھی ہے

فلسفی کو منکرِ حنانہ است
از حواس اولیاء بیگانہ است

اس جہان کے لوگ جب فتنہ فساد کی کثرت دیکھ کر اس کی اصلاح سے عاجز آجاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایسے قویٰ عطا کرتے ہیں جن کی توجہ سے سب کام درست ہوجاتے ہیں یہانتک کہ دعا کے ذریعہ سے عمریں بڑھ جاتی ہیں۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ394-395 ایڈیشن 1984ء)

رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا کی دعا میں ایک سِرّ

قوت ذوق شوق علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جب تک علم اور معرفت نہ ہو کیا ہوسکتا ہے۔ رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا (طٰہٰ: 115) کی دعا میں یہ بھی ایک سِرّ ہے کیونکہ جس قدر آپ کا علم وسیع ہوتا گیا اسی قدر آپ کی معرفت اور آپ کا ذوق شوق ترقی کرتا گیا۔ پس اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں اسے ذوق شوق پیدا ہوتو اس کو اللہ تعالیٰ کی نسبت صحیح علم حاصل کرنا چاہیئے اور یہ علم کبھی حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان صادق کی صحبت میں نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ تجلیات کا ظہور مشاہدہ نہ کرے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ400-401 ایڈیشن 1984ء)

آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا

خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اپنی عبودیت کا اعتراف کرتے رہتے ہیں اور دعاؤں میں لگے رہتے ہیں۔ احمق ان باتوں کو عیب سمجھتے ہیں۔ اگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو دیکھا جاوے تو پھر ایسے احمق اعتراض کرنے والے تو خدا جانے کیا کیا کہیں۔ جیسے اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعِدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ

(حاشیہ) ترجمہ: اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اسی طرح بُعد اور دُوری پیدا فرمادے جس طرح مشرق اور مغرب کے درمیان تو نے بُعد پیدا فرمایا ہے۔ (مرتب)

(ملفوظات جلد7 صفحہ406 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2022