• 4 مئی, 2024

اشانٹی ریجن گھانا کا ایک مصروف ترین دورہ

اشانٹی ریجن گھانا کا ایک مصروف ترین دورہ
مکرم امیر و مشنری انچارج جماعت احمدیہ گھانا کا
25؍ستمبر تا یکم اکتوبر 2021ء دورہ کماسی، اشانٹی ریجن

1۔ انکاویہ Nkawie

گولڈ کوسٹ گھانا میں احمدیت کا آغاز آج سے ایک صدی قبل 1؍مارچ 1921ء کو سالٹ پانڈ سینٹرل ریجن گھانا سے ہوا جب گولڈگوسٹ جماعت کے بانی مبانی مبلغ احمدیت حضرت مولانا ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر رضی اللہ عنہ مورخہ 28 فروری 1921ء کو انگلستان، فرانس، سیرالیون اور نائیجیریا کے ممالک میں مختصر قیام کرتے ہوئے گھانا کے ساحلی شہر سالٹ پانڈ پر اکابا سٹیمر (بحری جہاز) سے لنگرانداز ہوئے۔ آج ٹھیک سو سال بعد گھانا میں احمدیت کی دوسری صدی کا طلوع ہوچکا ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ اس مختصر تعارف کے بعد رپورٹ پیش خدمت ہے۔

انکاویہ سرکٹ کی مسجد کا افتتاح
27 ستمبر 2021ء

آج مکرم امیر مشنری و انچارج گھانا الحاج نور محمد بن صالح ہمراہ قافلہ جن میں ریجنل پریذیڈنٹ کماسی، زونل قائد خدام الاحمدیہ کماسی، چار خدام پر مشتمل عملہ ایم ٹی اے گھانا، ریجنل مبلغ مکرم مولوی عبدالحمید طاہر صاحب (جوعرصہ بائیس سال سے گھانا میں بطور مبلغ سلسلہ خدمات بجا لا رہے ہیں) اور خاکسار بطور مرتب تاریخ احمدیت گھانا و رپورٹنگ شامل تھے۔ مکرم امیر صاحب گھانا کی معیت میں قافلہ 9:40 پر احمدیہ مشن ہاؤس کماسی سے روانہ ہوا اور11:20 یہ قافلہ Nkawie انکاویہ پہنچ گیا۔ جہاں اس سرکٹ کی نو تعمیر شدہ مسجد کی افتتاحی تقریب منعقد ہونی تھی۔

انکاویہ جماعت احمدیہ مشن ہاؤس کماسی سے 46 کلومیٹر کے فاصلہ پر ضلع اچیما Atwima میں واقع ہے۔ Nkawie ایک زرعی قصبہ ہے اور اشانٹی ریجن کے ایک ضلع Atwima Nwabiagya Municipality کا دارالحکومت ہے۔یہ خوشحال کاروباری افراد کا قصبہ ہے۔ انکاویہ جماعت کی تعداد 183 ہے۔ یہ سرکٹ چھ جماعتوں (Abuakwa/Sepaase, Nkawie, Gyankobaa, Mpasatia, Anyinmaso) پر مشتمل ہے۔ اس سرکٹ میں دیگرمساجد بھی ہیں۔ پہلی مسجد 1958ء میں Mpasatia جماعت نے تعمیر کی تھی۔

اس تقریب میں 65 سے زائد حاضرین شامل ہوئے استقبالیہ کے بعد 11:25 پر تلاوت قرآن کریم (التوبہ:19-20) سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا جو مکرم محمد کوجو (لوکل امام Mpasatia جماعت) نے کی۔ بعدہ معلم شریف اپوکو Opoku نے اردو نظم کے چند اشعار پیش کئے۔

11:40 پر انکاویہ سرکٹ کے پریذیڈنٹ جناب نوح افوکوا ضیا نے استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے اس علاقہ کا مختصر تعارف اور مقامی جماعت کے احباب و خواتین کی تعلیمی و روزگاری سرگرمیوں کا ذکر کیا۔ نیز ریجنل مبلغ مولوی عبد الحمید طاہر صاحب کی انکاویہ سرکٹ کے طلباء کے لئے تربیتی و تعلیمی میدان میں کاوشوں کوخصوصاً سراہا۔ آپ نے بتایا کہ اس علاقہ میں پہلی احمدیہ مسجد 1958ء میں تعمیر کی گئی جو Mpasatia میں مرحوم Opanin Ofori Musah کی کاشوں سے تعمیر ہوئی۔ موجودہ مسجد کی تعمیر میں مرحوم یوسف احمد ایڈوسئی کی کاوشیں شامل ہیں۔

12:00 بجے انکاویہ سرکٹ قائد اسماعیل عبداللہ نے اس مسجد کی تعمیر کی مختصر تاریخ بیان کی۔ کہ 1994ء میں اس علاقہ میں بکثرت بیعتیں ہوئیں اور مکرم الحاج یوسف احمد ایڈوسئی مرحوم (جن کی تاریخ احمدیت گھانا میں مساجد کی تعمیرات میں نمایاں مالی خدمات ہیں) نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ یہاں مسجد کی تعمیر ضروری ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔

12:30 پر مہمانوں نے اپنے تاثرات پیش کئے۔ اس موقع پر ریجنل ایجوکیشنل ڈائریکٹر مسٹر جوزف ساما این نے اپنا پیغام سنایا جس میں گھانا جماعت کی تعلیمی وتربیتی خدمات کو سراہا نیز مکرم یوسف احمد ایڈوسئی مرحوم کی اس علاقہ کے لئے خدمات کا بھی ذکر کیا۔

مہمانوں کے تاثرات کے بعد مکرم امیر و مشنری انچارج نے اپنے افتتاحی خطاب سے نوازا۔ آپ نے تمام حاضرین کے سامنے سلام، اسلام اور مسلمان کے الفاظ کی حکمت بیان کی کہ ہم کیوں مسلمان ہیں اور کیوں ہمارا دین اسلام ہے نیز ان تمام الفاظ کا مفہوم یہ کہ ہمارا دین امن و آشتی کا مذہب ہے اور اسلام کا پیغام محبت و الفت ہے اور یہ دین اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے پسند کیا جیسا کہ فرمایا وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ: 4) اور نیز فرمایا کہ وَجَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰکُمۡ وَمَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (الحج: 79) اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین اسلام ہے فرمایا: اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ (اٰل عمران: 20)

آپ نے سنت نبویﷺ و سنت خلفائے راشدین سے مثالیں دے کر بیان کیا کہ مساجد معاشرے میں امن اور صلح کا گہوارہ ہونی چاہئیں اور ایک مسلمان حکومت کے لئے عوام الناس کے مسائل حل کرنے کے لئے یہی ایک جائے پناہ ہے۔ جیسا کہ ریاست مدینہ میں حضورﷺ نے یہود و نصاریٰ کو مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت عطا فرمائی۔ چنانچہ غیر مسلم خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا ہندو، اگر وہ ظاہری طور پر پاک ہوں تو ان کو عام مساجد میں آنے کی اجازت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں حضورﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں غیر مسلم مسجد نبوی میں داخل ہوتے تھے، لہٰذا کسی غیر مسلم کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فرمایا:
مسجد ایک مقدس جگہ ہے اسے پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں، اس لیے ہر طرح کی آلودگی، بچوں کی آمد و رفت، شور و شرابہ، ناپاک لوگوں کے داخلے سے حفاظت ایمان کا حصہ ہے، اس کے باوجود سنت نبویﷺ سے غیر مسلم اقوام کے مسجد میں داخلہ اور قیام کا ثبوت ملتا ہے۔ جب وفد ثقیف رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا، تاکہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہﷺ، آپﷺ انھیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں، جب کہ وہ مشرک ہیں آپﷺ نے فرمایا إن الأرض لاتنجس، إنما ینجس ابن آدم زمین نجس نہیں ہوتی نجس تو ابن آدم ہوتا ہے۔

(نصب الرایہ: 4/270)

آپ نے اپنے خطاب میں تعمیر مساجد کی اہمیت اور تعمیر کعبۃ کے مقاصد بیان کئے نیز یہ کہ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے لئے بنائی جاتی ہیں اور مساجد کے دروازے سب کے لئے کھلے رہنے چاہئیں اور ان بیوت اللہ میں کوئی بھی عبادت کرسکتا ہے بشرطیکہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ مساجد میں غیر اللہ کی پوجا کی ممانعت ہے کیونکہ یہ شرک ہے جو ظلم عظیم ہے۔

ابتداء میں تمام مذاہب ایک جیسے ہی تھے لیکن اب طریقے مختلف ہوگئے تاہم اصل مقصد سب کا ایک ہی تھا کہ اللہ کی عبادت کی جائے۔ اسی لئے آج دنیا میں قدیم مذاہب بھی موجود ہیں لیکن اہل دنیا نے انہیں اپنے طور طریقے، نظریات اور بدعات پیدا کر کے ان میں بگاڑ پیدا کردیا۔ حضرت آدم، نوح، موسیٰ، ابراہیم، عیسیٰ علیہم السلام سے لے کر حضورﷺ تک تمام انبیاء ایک ہی پیغام لے کر آئے تھے جو توحید کا پیغام تھا۔ بعض انبیائے کرام نے جب تبلیغ کی ان کی قوموں نے ان پر مظالم ڈھائے اور ان کے پیغام کو ابتداء میں اکثریت نے رد کردیا جیساکہ موسیٰؑ پر فرعون نے مظالم ڈھائے مگر وہ ثابت قدم رہے۔ غرض الٰہی جماعتوں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے حواریوں کو قربانیاں دینا پڑیں۔ ان بارہ حواریوں نے بہت محنت و مستعدی سے دور دراز علاقوں کے سفر کر کے تبلیغ کی اور انہیں نرم اخلاق کی تعلیم دی گئی کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کر دو مگر شریعیت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی ہر چیز کی تکمیل کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے ذریعہ دین مکمل کردیا اور خود ہی اس کا نام اسلام بطور دین پسند فرمایا جو دین ابراہیمی ہے اور خود ہی ہمارا نام مسلمان رکھا اور پھر فرمایا کہ
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ: 4) اور یوں دین اسلام کی تعلیم مکمل کر دی۔ اب ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال آگے کرنے کا دور گزر چکا بلکہ آج جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ کا دور ہے کہ صبر بھی کرو برداشت بھی اور معاف بھی کرو اگر معاشرہ کی اصلاح ہو لیکن اگر برائی و ظلم حد سے بڑھ جائے تو پھر بدلہ لینا بھی ضروری ہے کہ اس سے بھی بعض دفعہ اصلاح معاشرہ ہوتی ہے۔

آپ نے اپنے خطاب میں بائیبل اور قرآنی تعلیمات کا یوں مختصر موازنہ بھی پیش کیا۔ مکرم امیر صاحب کے خطاب کا چوئی Twi میں رواں ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پیش کیا جاتا رہا۔

اپنے خطاب میں آپ نے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کی بیت اللہ کی بنیادیں بلند کرتے وقت کی دعائیں تفصیل کے ساتھ پیش کیں اور بتایا کہ آج وقت و تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ ساری دعائیں خدا تعالیٰ نے نہ صرف آل ابراہیم کے لئے قبول فرمائیں بلکہ آج ساری دنیا ان دعاؤں کے ثمرات سے بہرہ ور ہورہی ہے۔

ہمیں یہاں اس بات کی ضروت ہے کہ ہم پانچوں وقت یہاں نمازیں اداکریں اور اللہ کے گھر کو آباد رکھیں اس طرح نمازیوں کی تعداد بھی خدا تعالیٰ بڑھا دے گا۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر احمدی اپنے طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کرے اور اپنے آپ کو عملی تبلیغی نمونے کے طور پر پیش کرے۔

ہمارے معاشرہ میں جو کرپشن اور دیگر کمزوریاں ہیں ان کی اصلاح ضروری ہے اور جب آپ اپنے عمل سے وہ منفی باتیں چھوڑ دیں گے تو لوگ خود بخود آپ کے گرویدہ ہوجائیں گے۔ اپنی کم تعداد پر گھبرانا نہیں چاہئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے بھی تبلیغ میں سخت محنت کی جس کا نتیجہ دیکھ لیں کہ آج ساری دنیا میں ان کا پیغام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ پس اپنے عمل سے احمدیت کو پھیلائیں تو آپ کی اقلیتیں بھی اکثریت میں بدل جائیں گی۔

خطاب کے آخر میں آپ نے اس مسجد کی تعمیرکے سلسلہ میں نمایاں قربانی کرنے والوں کے اسماء خاص طور پر لئے جن میں مکرم محمد یوسف ایڈوسئی، مسٹر محمد عبداللہ، مسٹر ناصر احمد، مسٹر محمود احمد اوسو ناظم انصاراللہ، مسٹر ضیاء الرحمن، مسٹر آپیاہ Appiah صدیق اور مکرمہ نوحوNuhu صفورا شامل ہیں۔ اس مسجد کے لئے پانی کے انتظامات کے لئے بورہول Borehole کے جملہ اخراجات مکرم مولوی عبد الحمید طاہر ریجنل مبلغ کماسی کی کاوشوں سے مکرم سید سعید شاہ آف کراچی نے ادا کئے۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ نئی تعمیر شدہ مسجد میں 120 افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اسی طرح اس موقعہ پر آپ نے دیگر نمایاں قربانی کرنے والے احباب کا بھی ذکر خیر کیا۔ اور جماعت احمدیہ انکاویہ کو مناسب انتظامات کرنے پر مبارکباد پیش کی اور اس تقریب میں شامل جملہ معزز مہمانان و حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔

2۔ تقریب سنگ بنیاد اووماسو Anwomaso جماعت احمدیہ کماسی
28ستمبر 2021ء بروز منگل

آج مکرم امیر و مشنری انچارج گھانا ہمراہ قافلہ 10:15 کماسی مشن ہاؤس سے روانہ ہو کر10:40 پر Anwomaso پہنچ گئے۔ یہ مقام کماسی سنٹر سے 15 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔

مکرم امیر صاحب نے پروگرام کی صدارت کا آغاز کیا۔ جہاں مقامی خادم مسٹر یوسف آدم نے سورۃ البقرہ آیت 25 کی تلاوت کی۔ بعدہ مکرم عبدالرحمن اور عبدالرزاق صاحب نے قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خوش الحانی سے پیش کیا۔11:15 پر مکرم عبد السلام یوسف سرکٹ پریذیڈنٹ ایجا Ayigya جماعت نے استقبالیہ ایڈریس پیش کیا۔ پھر مقامی جماعت کے خدام نے مقامی زبان Twiمیں ترانے پیش کئے۔

سرکٹ مشنری معلم احمد اوسی رچرڈ نے آووماسو میں جماعت کی مختصر تاریخ پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ اس علاقہ کے ابتدائی احمدی معلم ابوبکر صدیق اور ابو سلیمان تھے۔ ان کے علاوہ مسٹر کوجو ہارونا بھی ابتدائی احمدی تھے۔ یہ دوست 1922ء میں الحاج مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب (گولڈکوسٹ کے دوسرے مبلغ) کے زمانہ میں احمدی ہوئے تھے۔ یہاں کے پرانے احمدیوں میں پاپا ہارونا، یعقوب، ابراہیم ایڈوسئی اور ماما صالحہ بھی شامل ہیں۔

چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحیم کی ایک رپورٹ کے مطابق حضرت مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحب نے جولائی 1922ء کو سالٹ پانڈ سے علاقہ فومینا کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں یہاں مختلف دیہات و قصبات میں بیعتیں ہوئیں۔ اسی طرح مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحب اپنی ایک رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے اشانٹی ریجن کا طویل دورہ مارچ 1924ء میں کیا تھا۔ جو غالباً اس علاقہ کا آپ کا تیسرا دورہ تھا۔

(تفصیل کے لئے الفضل قادیان 17؍اگست 1922ء صفحہ2
اور الفضل قادیان 2ستمبر 1924ء صفحہ2)

اس بابرکت تقریب میں چند غیر مسلم احباب کے علاوہ دو مقامی چیف مع ہمراہی بھی شامل ہوئے۔ آووماسو کے مقامی چیف نانا Asebwa خود حاضر نہ ہوسکے تاہم انہوں نے اپنے نمائندہ دوسرے چیف جناب ایبوسموائی کوفیاں کو بھجوایا۔ جنہوں نے چیف کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ جناب چیف نے اپنے پیغام میں معذرت کی کہ وہ خود اس موقع پر حاضر نہ ہوسکے اور بتایا کہ وہ جماعت احمدیہ کے بارہ میں بخوبی علم رکھتے ہیں کہ یہ جماعت پر امن ہے اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ ان کا ماٹو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں بہت پیارا ہے۔

خلاصہ خطاب امیر و مشنری انچارج

تقریب کے آخر میں مکرم امیر صاحب گھانا نے 12:35 پر خطاب کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم یہاں دو مقاصد کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ تعمیر نو مسجد اور احمدیہ مشن ہاؤس کے سنگ بنیاد کےلئے۔ آپ نے اپنے خطاب میں تعمیر بیت اللہ کے مقاصد، اس کی مختصر تاریخ بیان کی۔ اس موقع پر آپ نے سورۃ البقرۃ میں موجود ابراہیمی دعاؤں کی قبولیت کا مضمون بیان کیا نیز کہ آج ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ انہی دعاؤں کے سایہ تلے ہم یہ سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔اور تعمیر بیت اللہ کے جو مقاصد ہیں وہ ہماری مساجد کی شکل میں بھی پورے ہورہے ہیں۔ کیونکہ ہماری مساجد کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو اس وقت دعا کی تھی ان کی قبولیت کا ایک پھل یہ بھی ہے کہ موجودہ عرب جو سعودی عرب کہلاتا ہے آج دنیا کا امیر ترین ملک ہے اور خدا تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے اسے مالا مال کیا ہے اور اس کی دولت سے دنیا کے بینک اور کئی ممالک بھی مالا مال ہیں۔ اور اگر عرب اپنی دولت بینکوں سے نکال لیں تو ساری دنیا کی اقتصادیات یک دم نیچے گر جائے گی۔ یہ بھی ابراہیمی دعاؤں کی قبولیت کے ثمرات ہی ہیں جن کے پھل آج ساری دنیا کھا رہی ہے۔

اسی طرح آج ہمارے ملک گھانا جو دراصل ایک سونے کی کان ہے کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے صرف ہمیں محنت اور دیانت کی ضرورت ہے۔ نیز ان وسائل کو قومی دولت سمجھ کر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

آج کی تقریب میں جس مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد ہم کرنے جا رہے ہیں یہ ایک مخلص احمدی کی عظیم مالی قربانی کا نمونہ ہے جو آج ہم میں یہاں موجود ہیں (مسٹر آدم کوبینا سٹیج کے عقب میں بائیں جانب براجمان تھے۔) پس آج ہم احمدیوں کو اس علاقہ کے لوگوں کے لئے اپنے عملی نمونہ سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم احمدی ہیں اور عملی نمونہ ہی سب سے بڑھ کر تبلیغی ہتھیار ہے۔

پروگرام کے آخر میں آپ نے جملہ حاضرین تقریب اور مقامی احمدیوں و غیر از جماعت لوگوں کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ اس تقریب میں 22 لجنات 30خدام و انصار،5 بچگان اور 7 غیر مسلم و غیر از جماعت احباب شامل ہوئے۔

تقریب سنگ بنیاد کا آغاز 12:35 پر ہوا جس میں حسب ذیل افراد نے سنگ بنیاد رکھا۔

مکرم امیر و مشنری انچارج، مقامی چیف، مکرم آدم کوبینا Adam Kowbena جنہوں نے یہ مسجد تعمیر کروائی، ریجنل مبلغ مولوی عبد الحمید طاہر صاحب، ریجنل پریذیڈنٹ، و زونل قائد، نمائندہ خدام، مرکزی مبلغ مولوی یوسف محمد بن صالح، ملک غلام احمد مبلغ سلسلہ نمائندہ مبلغین اور خاکسار احمد طاہر مرزا شامل ہوئے۔ مکرم امیر و مشنری انچارج کی اجتماعی دعا کے بعد یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

بواڈی، Kumasi طاہر ہومیو اینڈ ہربل کمپلیکس کا دورہ

اسی روز اووماسو جماعت سے واپسی پر مکرم امیر و مشنری انچارج گھانا مع قافلہ نے کماسی مشن ہاؤس سے 15 کلومیٹر کے فاصلہ پر طاہر ہومیو اینڈ ہربل کمپلیکس نیز شعبہ آکوپنکچر علاج کا اور اس بلڈنگ میں موجودبقیہ تمام شعبہ جات کا تفصیلی جائزہ لیا اورعملہ سے بریفنگ حاصل کیں۔ آپ نے سٹاف کو بتایا کہ جماعت احمدیہ گھانا کا مشن ہے کہ اس ادارہ کو جدید مشینری و تکنیکی سہولیات سے ہم آہنگ کر کے جدید اصولوں پر چلایا جائے جو اس کی پروڈکشن میں پیش رفت کا باعث ہو گا۔ اسی طاہر ہربل کمپلیکس کے ہومیوپتھک ڈیپارٹمنٹ کی بھی مرمت و تزئین کر کے اس میں تجربہ کار ڈاکٹر تعینات کئے جا رہے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض اس شعبہ سے استفادہ کر سکیں۔

3۔ تقریب سنگ بنیاد مشن ہاؤس اپیجا
Apegya جماعت
29ستمبر 2021ء بروز بدھ

آج صبح 10:30 مکرم امیر و مشنری انچارج گھانا بہمراہ قافلہ روانہ ہوئے اور 11:40 پر اپیجا Apegya پہنچے۔

استقبالیہ ممبران میں مرکزی مبلغ مولوی یوسف صالح صاحب اور زونل مبلغ اکرا شامل تھے۔ استقبالیہ کے بعد مکرم امیر صاحب کی صدارت میں 11:50 پر تلاوت و دعا کے بعد پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ تلاوت قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ ساؤمے Saume سرکٹ مشنری معلم حکیم اجیمنگ Agyemang صاحب نے کی۔ بعدہ حسین شمس الحق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ خوش الحانی سے پیش کیا۔

12:15 مکرم عبد الواحد اجمبیدو Agambedu سرکٹ پریذیڈنٹ اماؤوے Amoawi جماعت نے استقبالیہ ایڈریس پیش کیا۔ بعدازاں مقامی جماعت کے خدام نے زبان Twi میں ترانہ پیش کیا۔ 12:30 Amoawi سرکٹ مشنری معلم لقمان ایکوا عیسیٰ نے اپیجا Apagya جماعت کی مختصر تاریخ پیش کی جس میں انہوں نے بیان کیا کہ اس علاقہ میں احمدیت کا طلوع تقریبا 74 سال قبل 1945ء میں ہوا تھا، جب تین احمدیوں نے اس گاؤں میں احمدیت کا پیغام پہنچایا تھا تو اس وقت مرحوم اوپنین احمد (احمدو) کی اہلیہ نے اور اوپنین سینیڈو Opanin Senaidu نے بیعت کر لی اور اسلام احمدیت میں داخل ہوگئے۔ اوپنین سینیڈو نے اسکورے Asokore میں احمدیت قبول کی اور اپنے شہر کے لوگوں میں جماعت کو متعارف کروایا۔ اور اس علاقہ میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس دور میں احمدی مبلغین اور عیسائی منادین کی تبلیغی کوششوں میں مسابقت کی دوڑ لگی ہوئی تھی اور ہر کوئی اپنے طور پر عوام الناس کے دل فتح کرنا چاہتا تھا۔ انہی ایام میں دبنکا Dabanka نامی ایک نوجوان نے احمدیوں کے پیغام کو توجہ سے سنا اور قائل ہوگئے اور فورا بیعت کرکے اسلام احمدیت میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ اور ان کا اسلامی نام عبداللہ رکھا گیا تھا۔ اس طرح وہ بیعت کرنے والے پہلے احمدی بن گئے۔ ان کے بعد مرحوم اوسوفو بشیر کماسی سے آئے اور تبلیغ بھی کی اور کئی دوسرے بھی ان کی کوششوں سے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ اس مقام کے ابتدائی احمدیوں میں چند ایک احباب کے اسماء حسب ذیل ہیں:

مرحوم اوپنین ابراہیم عطاہ کنونکو۔ مرحوم اوپنین یاو ذروئے۔ اوپنین کوجو احمد (جو آج اس تقریب میں موجود ہیں)۔ مرحوم اوپنین یوسف کوفی مینساہ۔ مرحوم اوپنین پینسان۔ اور مرحوم اوپنین عثمان ذروئے شامل ہیں جنہوں نے بمع اہل خانہ بیعت کی۔ بعد ازاں کئی دیگر معززین علاقہ بھی شامل ہوئے۔ اپیجا جماعت کے بارہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ اپیجا کی آدھی سے زائد آبادی جماعت احمدیہ میں شامل ہوگئی تھی۔ البتہ آج ان کی نسلیں یہاں موجود نہیں ہیں۔

اس مبارک تقریب میں پندرہ سے زائد غیر مسلم و غیر از جماعت احباب جن میں دو مقامی چیف مع ہمراہی بھی شامل ہوئے۔ اس موقع پر اپیجا کے مقامی چیف نانا اوسو پیپرا ثانی Owusu Pepra II نے مختصر خطاب کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ جماعت احمدیہ ایک پرامن جماعت ہے۔ جس طرح ہم نے اس مسجد کی تعمیر میں تعاون کیا اس مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے بھی تعاون کریں گے۔

اس موقع پرمقامی چیف نے بیس سیمنٹ بوری کی پیشکش بھی کی۔ دوسرے چیف نانا آموا نے بھی خیرسگالی کا پیغام دیا۔

خطاب امیر و مشنری انچارج گھانا

اس تقریب سے مکرم امیر و مشنری انچارج گھانا نے 12:55 پر اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ آپ نے اپیجا چیف کی اس علاقہ کے لئے بالخصوص جماعت کے لئے ان کی سابقہ خدمات کو سراہا نیز انہی کی کاوشوں سے یہ قصبہ ترقیات کی راہ پر گامزن ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔

آپ نے بتایا کہ اگرچہ اپیجا جماعت کی تجنید 14لجنہ اماءاللہ 7 احباب اور چند بچگان پر مشتمل ہے تاہم اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس مسجد و مشن ہاؤس کی برکت سے جلد یہ جماعت بڑھے گی۔ آپ نے حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ دعا، محنتِ شاقہ اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ اپیجا میں احمدیت کا پودا 1945ء میں لگا اور یہ بھی سچ ہے کہ اپیچا کے چیف کا تعاون بھی ابتداء سے ہی ہمارے ساتھ رہا۔

اس قصبہ میں الحاج ضیاء کی تبلیغ سے احمدیت پھیلی جو احمدیہ اسکول وا Wa کے پرنسپل بھی رہے۔ اسی طرح ان کی اہلیہ سسٹر عائشہ نے بھی تبلیغ میں حصہ لیا۔ ان لوگوں نے یہاں پہلے مسجد بنائی وہ ایک مشکل وقت تھا۔ اب یہاں نئی مسجد بن گئی ہے اور آج آپ لوگوں کی کاوشوں سے ہم یہاں دو منزلہ مشن ہاؤس کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہمیں دوسرے احباب کو تبلیغ کرنی چاہئے۔ اب مجمع میں تقاریر کرنے کا دور گزرچکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ اپنے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ تبلیغ کرنی چاہئے نیز سب سے بڑھ کر اپنے عملی نمونہ سے ثابت کرنا ہوگا کہ احمدی دراصل حقیقی مسلمان ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے یہی سب سے مؤثر تبلیغی ہتھیار ہے۔

آپ نے مزید بتایا کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اَلْمُسْلِمُ مِرْاٰۃُ الْمُسْلِمِ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے آئینہ کی طرح ہوتا ہے اگر آپ کا عمل درست ہوگا تو لوگ خود بخود احمدی ہوجائیں گے۔ لیکن اگر آئینہ دھندلا ہو تو اس کے سامنے کھڑے ہوکر سنوارا نہیں جاسکتا اور نہ صاف چہرہ دیکھا جاسکتا ہے۔ احمدی کو اپنے آئینہ کا چہرہ صاف رکھنا چاہئے یعنی اپنے اخلاق و کردار کو سنوار کر رکھنا چاہئے تاکہ لوگ آپ سے رہنمائی پا سکیں۔

اس گاؤں کے چیف نانا کو ہم سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا پیغام محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ہے۔ اور نانا اوسو پیپرا سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں کہ انہوں نے ہمیں یہاں مشن ہاؤس بنانے کی اجازت دی۔ ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ اور امید ہے کہ وہ ہماری حمایت جاری رکھیں گے۔ خطاب کے آخر میں مکرم امیر صاحب نے ایک بار پھر نانا پیپرا کا، اسی طرح اپیجا جماعت اور جملہ مہمانان کرام نیز پریس کے دو نمائندگان کا بھی شکریہ ادا کیا۔

امیر و مشنری انچارج کا پریس نمائندگان کو انٹرویو

اس کے بعد مکرم امیر صاحب نے پریس کو مختصر انٹرویو دیا اور صحافیوں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ تقریب کے آخر میں مکرم امیر صاحب گھانا نے 12:35 پر خطاب کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم یہاں دو مقاصد کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ تعمیر نو مسجد اور احمدیہ مشن ہاؤس کے سنگ بنیاد کےلئے۔ آپ نے اپنے پیغام میں بتایا کہ ہمیں اپنے معاشرہ کو پرامن اور مذہبی ہم آہنگی سے مزین کرنا ہے کیونکہ گھانا دنیا میں ایک پر امن ملک کے طور پر مشہور ہے۔ اور کرپشن جیسے افعال سے آئندہ نسلوں کو بچانا ہوگا۔ اس سلسلہ میں دینی درسگاہیں اور مساجد و عبادت گاہیں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں۔

تقریب سنگ بنیادکا آغاز 1:50 پر ہوا جس میں حسب ذیل افراد نے سنگ بنیاد رکھا۔ مکرم امیر و مشنری انچارج، مقامی چیف، ریجنل مبلغ مولوی عبد الحمید طاہر صاحب، ریجنل پریذینڈنٹ، زونل قائد، نمائندہ انصار، خدام و لجنہ اور مکرم مولوی محمد یوسف بن صالح صاحب مکرم امیر و مشنری انچارج کی اجتماعی دعا کے بعد یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

نئی تعمیر شدہ مسجد اپیجا جماعت

نمازوں کی ادائیگی اپیجا جماعت کی نئی تعمیر شدہ ایک گنبد اور دو میناروں والی خوبصورت مسجد میں ادا کی گئی جس کی تعمیر کا آغاز فروری 2015ء میں کیا گیا اور جس میں 200 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔

اگرچہ اپیجا جماعت کی ابتدائی مسجد 1945ء، 1946ء میں احباب نے بہت جلد تعمیر کر ڈالی تھی اور ایک لمبا عرصہ تک اس علاقہ کی خوبصورت عمارت میں سے ایک تھی تاہم مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہوگئی اور کچھ عرصہ قبل نو تعمیر شدہ روڈ کے وسط میں آگئی اس لئے اس پرانی مسجد کو گرا کر مقامی احباب نے ایک نئی زمین خریدی اور مقامی چیف نانا اووسو پیپرا نے بھی ایک پلاٹ مسجد کے لئے دیا۔ یوں نئی مسجد کے لئے اپیجا جماعت کی مسجد کا سنگ بنیاد فروری 2015ء میں رکھا گیا اوراس کا افتتاح اپریل 2019ء میں مکرم امیرو مشنری انچارج گھانا نے کیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر ایڈیشنل وکالت مال مرکز احمدیت لندن کے تعاون سے ہوئی۔ دیگر نمایاں مالی قربانی کرنے والے احباب میں نانا اپیجا ہینے، نانا تاویہ، مسٹر مورو، پروفیسر ایرک کوبینا فاروق، مکرمہ راشدہ دوفی دریے اور جناب صادق اموا شامل ہیں۔ جنہوں نے 1000 سے 3000 GHS تک مال قربانی کی توفیق پائی۔

علاوہ ازیں اصوفیہ جماعت، اچینا جماعت اور امواوی جماعت کے خدام و انصار نے وقار عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان احباب کے علاوہ اس سرکٹ کے 7 احباب اور 15 لجنہ ممبرات نے حسب توفیق مالی قربانی میں حصہ لیا۔ اللہ تعالیٰ تمام احباب و خواتین کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔

اپیجا جماعت سے واپسی پراسی روز مکرم امیر صاحب بہمراہ قافلہ مکرم الحاج عمر کوفی نوحو سابق ریجنل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کماسی کے گھر تشریف لے گئے جہاں مرحوم کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا۔ مرحوم ایک طویل عرصہ اشانٹی Ashanti ریجن کے ریجنل صدر کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔

نصرت آباد محلہ کا دورہ

مورخہ 29 ستمبر کو اپیجا سے واپسی پر مکرم امیر صاحب نے شام کو نصرت جماعت کا دورہ کیا۔ اس جماعت کا قیام خلافت رابعہ میں ہوا۔ اس محلہ کے احمدی احباب کے مطابق 1998ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس محلہ کا نام نصرت آباد عطا فرمایا۔

اس محلہ میں بیس کے قریب احمدی گھرانے آباد ہیں۔ جب بہت سے احباب اس علاقہ میں جمع ہوگئے تو حضور انور کی خدمت میں اس کا نام رکھنے کے لئے لکھا گیا۔ چنانچہ حضور نے اس کا نام نصرت آباد عطا کیا۔

4۔ ثوابا (Sawaba Adenyase)
ثوابا مسجد کماسی ریجن

ثوابا Sawaba (Adenyase) سرکٹ جماعت علاقہ کماسی میں واقع ہے۔ اور یہاں ایک بڑی جماعت ہے۔ یہ علاقہ زونگو قبائل مسلمانوں کا ہے جہاں بکثرت مسلمان آباد ہیں۔

اس علاقہ میں احمدیت کا آغاز مقامی احمدی مکرم الحاج مصطفےٰ کے مطابق 1972ء میں ہوا۔ الحاج مصطفےٰ احمد اپنے والد ایکواسی بخاری کے انتقال کے بعد ابوابو Aboabo مقام سے اپنی والدہ کے ساتھ ثوابا منتقل ہوگئے اور اپنی زمینوں کے وارث ٹھہرے جنہوں نے بعد میں اپنی زمین کا ایک حصہ موجودہ مسجد کے لئے جماعت ثوابا کو عطیہ کر دیا۔ مکرم الحاج مصطفےٰ مرحوم نے 1972ء میں کماسی کے سرکٹ مشنری یوسف احمد ایڈوسئی مرحوم کے ذریعہ بیعت کی۔ 1976ء میں ثوابا کی مسجد مکمل ہوگئی اور یوں یہاں باقاعدہ جماعت کا قیام ہوگیا۔ 2014ء میں پرانی مسجد کو گرا کر نئی مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا جس میں متعدد مخیر حضرات نے حصہ لیا اور یوں یہ نئی مسجد مکمل ہوگئی۔

آج موٴرخہ 30 ستمبر مکرم امیر و مشنری انچارج گھانا ہمراہ قافلہ کماسی مشن ہاؤس سے 10:30 روانہ ہوئے اور 11:00 صبح ثوابا جماعت پہنچے۔ یہاں مسجد کے افتتاح کے لئے 45 لجنہ اماء اللہ ممبرات 35 احباب اور 10 غیر مسلم اور غیر از جاعت احباب بھی موجود تھے۔ جن میں دو مقامی چیف مع اپنے ہمرایوں کے نیز دو مقامی امام مساجد تیجانیہ اور اہل سنت والجماعت بھی موجود تھے۔ حسب روایت تقریب کا آغاز تلاوت و عربی قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا جن کا انگریزی اور مقامی Twi چوئی زبان میں ترجمہ پیش کیا گیا۔

استقبالیہ ایڈریس مقامی معلم صاحب نے پیش کیا۔ مقامی جماعتی ترانوں کے بعد مسجد کی تعمیر کی تاریخ اور نمایاں قربانی کرنے والوں کو سراہا گیا۔ اس مسجد کی تعمیر کےلئے رفیع کامران احمد صاحب آف جرمنی نے تعاون کیا۔ علاہ ازیں مادام سارہ آدمز داؤد، حاجیہ حلیمہ اپوکو احمد (سرکٹ صدر لجنہ ثوابا سرکٹ) اور بعض دیگر احباب و خواتین جماعت ثوابا بھی شامل ہیں۔ وقار عمل کے ذریعہ کثیر احباب و خدام نے حصہ لیا۔ اسی طرح ریجنل مبلغ مولوی عبد الحمید طاہر صاحب کی کاوشیں بھی شامل حال رہیں۔ اسی طرح ایک مقامی دوست جو اس علاقہ کے پرانی احمدی ہیں نے کثیر رقم مسجد کے لئے پیش کی۔

بعدہ ایک سرکٹ مشنری نے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ پیش کی جس میں اس جماعت کے ابتدائی احمدیوں کا ذکر شامل تھا۔ اس دوران مکرم امیر صاحب نے احباب جماعت کو بعض اہم انتظامی امور کی طرف توجہ دلائی۔ بعدہ معززین نے خطاب کیا جس میں ایک مقامی چیف اور اہل سنت و الجماعت کے امام شامل تھے۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کی مذہبی رواداری اور قومی وسماجی خدمات کو سراہا۔ اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔

12:40 پر مکرم امیرو مشنری انچارج نے خطاب فرمایا جس میں قرآن و حدیث سے مساجد کی تعمیر کی ضرورت و اہمیت پیش کی۔ آپ نے بتایا کہ اسلام ہمیں پر امن معاشرہ اور مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے مثالیں پیش کیں جیسے اہل نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت عنایت فرمانا جیسا کہ تاریخ اسلام و کتب سیرت میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ:
نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ آیا، وفد میں 60 افراد تھے۔ جب وہ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز ادا کر چکے تھے۔۔۔ ان کی نماز کا وقت ہو گیا، وہ اٹھے اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو، انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔

(السيرة النبوية جلد2 صفحہ224)

چنانچہ جب تک اہل نجران عبادت کرتے رہے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسجد سے باہر تشریف لے آئے اور انکی عبادت کے مکمل ہونے کا انتظار فرماتے رہے۔

اسی طرح ایک موقع پر بنو حنفیہ کے یہودی قبیلہ کے ایک فرد ثمامہ کو مسجد نبوی میں رکھا گیا جو بعد میں اسوہ رسول سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگیا۔

اسی طرح آپ نے دوران خطاب یہ بھی فرمایا کہ مساجد معاشرہ کا سماجی معاشرتی اور دینی مرکز ہیں۔ اور پرامن معاشرے کے لئے مساجد اسلام کا حسن ہیں۔ اس لئے ان کو صاحب ماحول بنانا چاہئے۔ تقریر کے بعد مسجد کا افتتاح عمل میں آیا جس میں مکرم امیرصاحب، مقامی چیف اور مقامی احمدی بھائی جس نے اس کی تعمیر میں نمایاں انفرادی قربانی کا مظاہرہ کیا فیتا کاٹا۔ اس موقع پر مکرم امیر صاحب نے ابراہیمی و اسماعیلی دعاؤں کے ورد سے مسجد کا افتتاح کیا اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائی۔

دو منزلہ نو تعمیر شدہ مسجد میں 90 سے 100 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ یہ مسجد ایک گنبد اور دو خوبصورت میناروں پر مشتمل ہے۔ پانی، بجلی، روشنی کے جملہ انتظامات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ اس مسجد کو اہل اشانٹی کے لئے مبارک فرمائے۔ آمین۔

یکم اکتوبر:کماسی سے واپسی باغ احمد Winneba
یکم اکتوبر 2021ء اشانٹی سے واپسی اکرا ہیڈکواٹر

T.I. Basic Junior School Kumasi کا مختصر دورہ:

کماسی مشن ہاؤس سے روانگی کے بعد مکرم امیر صاحب نے ایک مقامی سکول ٹیچر کے ہمراہ T.I. Basic Junior School Kumasi کا ایک مختصر دورہ کیا۔ جہاں اسکول کے بعض اساتذہ اور سٹاف کے ممبران سے گفتگو کی۔ یہاں سے آپ باغ احمد وینیبا واپسی کے لئے روانہ ہوئے اور 12:30 Assin کے علاقہ کی چھوٹی سی جماعت آسن انڈو Andoeکی ایک خوبصورت نوتعمیر مسجد میں مختصر قیام کیا۔

Assin Asamankese مسجد

یہاں سے روانہ ہو کر چند میل کے فاصلہ پر آسن زون کی ایک ابتدائی جماعت (Assin Asamankese) جو حضرت مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحب کے زمانہ میں قائم ہوئی تھی، کی ایک قدیمی مسجد میں رکے۔ یہ مسجد 1925ء میں مقامی احباب و خواتین نے بنائی تھی۔ یہ مسجد کماسی منکسم روڈ پر واقع ہے۔

اس مسجد میں ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ براہ راست سنا۔ بعدہ مقامی امام کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی جس کے بعد مکرم امیر صاحب نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔

مکرم امیر صاحب نے اس جماعت کی زیر تعمیر نئی وسیع و عریض مسجد (جس میں بیک وقت 600 افراد نماز ادا کر سکیں گے) کا بھی جائزہ لیا اور احباب جماعت کی مالی قربانیوں کو سراہا۔ اللہ تعالیٰ جلد انہیں یہ مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کے بعد وہاں سے روانگی ہوئی۔ اور 3:30 کے قریب ہم بخیریت واپس باغ احمد جلسہ گاہ وینیبا Winneba پہنچ گئے۔ جہاں آپ نے دو دن قیام کیا۔ مورخہ 3اکتوبر 2021ء کو آپ کی احمدیہ مسلم مشن ہاؤس ہیڈ کوارٹر اکرا بخیریت واپسی ہوئی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

(رپورٹ: احمد طاہر مرزا۔ اکرا ہیڈکواٹر، گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ