• 29 اپریل, 2024

صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شجاعت اور دلیری

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
… اس وقت چند واقعات ہیں جن سے اُن کی (صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ناقل) شجاعت اور دلیری کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں اور ایوب بیگ، مولوی عبداللہ ٹونکی کے مکان پر گئے اور مولوی عبداللہ ٹونکی کو مرزا ایوب بیگ صاحب نے پوچھا کہ آپ نے ہم کو اور ہمارے آقا کو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کافر کیوں کہا ہے؟ مولوی صاحب اور یئنٹل کالج میں عربی کے پروفیسر تھے اور فتوی کفر میں انہوں نے بھی اپنی مہر ثبت کی تھی۔ مرزا صاحب کے سوال پر (یعنی مرزا ایوب بیگ کے سوال پر) اُس نے کہا کہ چونکہ (فلاں فلاں مولوی)، مولوی غلام دستگیر قصوری، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی نذیر حسین دہلوی، مولوی عبدالجبار غزنوی نے فتویٰ دیا ہے اس لئے مَیں نے بھی لکھ دیا۔ تو حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب نے اس کو کہا بڑی دلیری سے کہ چونکہ یہ تمام جہنم میں جائیں اس لئے آپ بھی ساتھ (جہنم میں) جائیں۔ اس پر کہنے لگا مَیں نے غلطی کی ہے۔ مَیں نے مرزا صاحب کی کتابوں کو نہیں دیکھا۔ اس پر ہم دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب کتابیں جو اُس وقت لکھی جا چکی تھیں، اُس کے گھر جا کر دے آئے اور تین مہینے کے لئے اُس سے کہہ دیا کہ آپ ان کا مطالعہ فرما لیں۔ تین ماہ کے بعد ہم پھر گئے۔ پھر کہنے لگا کہ آپ بچے ہیں۔ (یہ دونوں نوجوان تھے۔ ان کو کہنے لگا کہ آپ بچے ہیں۔) ابھی آپ نہیں سمجھ سکتے۔ (کہتے ہیں) مرزا (ایوب بیگ) صاحب نے فرمایا کہ بی۔ اے پاس تو مَیں ہوں۔ (پڑھا لکھا ہوں، بی۔ اے پاس ہوں۔) اگر انگریزی آپ نے پڑھنی ہے تو مجھ سے پڑھ سکتے ہیں۔ اگر مجھے کبھی عربی پڑھنے کی ضرورت ہوئی تو آپ سے پڑھ لوں گا۔ اگر ہم آپ کے خیال میں بچے ہی ہیں تو بچوں پر تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔ کیا آپ ایسا ہمیں لکھ کر دے سکتے ہیں۔ (پھر ہم وہاں سے آ گئے۔ کہتے ہیں) تیسری دفعہ (ہم) پھر گئے اور خواجہ کمال الدین کے خسر خلیفہ رجب الدین کو ساتھ لے گئے کیونکہ وہ بوڑھا تھا۔ ہم اس خیال پر اُسے ساتھ لے گئے کہ اگر وہ اب کے بھی کہے گا کہ تم ناسمجھ بچے ہو تو ہم خلیفہ صاحب کو پیش کر دیں گے۔ اس پر مولوی عبداللہ نے خلیفہ رجب الدین (صاحب سے ادھر اُدھر کی) باتیں شروع کیں کہ بہت اچھا ہوا کہ مسلمانوں نے آٹے دال کی دکانیں کھول لی ہیں اور مٹی کے برتنوں کی دکانیں کھول لی ہیں۔ (لکھتے ہیں کہ) یہ لیکھرام کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس پر ایوب بیگ نے مولوی عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ الٰہی قیامت کے دن میں خدا کے سامنے اسی طرح مولوی عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر کہوں گا کہ الٰہی! تین دفعہ ہم اس کے مکان پر چل کر گئے۔ اس نے ہم کو نہیں سمجھایا کہ ہم کیوں کافر ہیں۔ اس پر مولوی عبداللہ ٹونکی نے کہا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اس پر ایوب بیگ صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ خدا تعالیٰ کی بھی پرواہ نہیں کرتے تو میں آپ کو عمر بھر کبھی السلام علیکم نہیں کہوں گا۔ پھر وہاں سے ہم اُٹھ کر چلے آئے۔ اور پھر آئندہ اس عہد کو مرزا ایوب بیگ نے اپنی زندگی بھر پورا کیا۔ اور مَیں نے مولوی عبداللہ کی زندگی تک پورا کیا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 9 صفحہ26 تا 28)

یہ ڈھٹائی جو ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، جو اُس وقت سے چلی آ رہی ہے اور آج تک چلتی چلی جا رہی ہے۔ کتابیں پڑھتے نہیں یا کچھ حصہ پڑھ لیں گے اور بغیر سیاق و سباق کے یا دیکھا دیکھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرنے شروع کر دیں گے بلکہ عرب ملکوں میں تو اکثر جو واقعات وہاں سے آتے ہیں وہ یہی ہے کہ پاکستان کے مولویوں نے متفقہ طور پر کیونکہ احمدیوں کو کافر کہہ دیا اس لئے اب یہ کافر ہیں ہمیں اور کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ تو احمدیت کی ابتدا سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ آج تک اُسی طرح چلتا چلا جا رہا ہے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

حضرت ام المؤمنین ؓ کی اپنی خادمہ سے شفقت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2021