• 16 مئی, 2024

حضرت ام المؤمنین ؓ کی اپنی خادمہ سے شفقت

حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم ؓ کی ساری جماعت سے محبت و شفقت کے ان گنت واقعات ہماری تاریخ میں محفوظ ہیں۔ آپ کا وجود ہی باعث رحمت و برکت تھا۔ یہاں آپ ؓ کا اپنی عاشق خادمہ حضرت برکت بی بی صاحبہ ؓسے حسن سلوک کا ذکر ہے ان کو 1896ء میں قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ آپ ہرسیاں ضلع گورداسپور میں اپنے شوہر حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓکے ساتھ رہتی تھیں ایک دن میاں صاحب گھر سے سامان تجارت خریدنے نکلے تھے راستے میں ایک دوست نے بتایا کہ ہم امام مہدی ؑ کا انتظار کر رہے تھے کہ سب نشانیاں پوری ہوگئی ہیں میں نے سنا ہے قادیان میں ایک شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ نے یہ نوید سن کر اپنے گھوڑے کی باگ موڑی اور قادیان پہنچ گئے حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرکے گھر واپس آئے تو بیوی برکت بی بی صاحبہ نے پوچھا کیا ہؤا خالی ہاتھ آرہے ہیں؟ سامان نہیں لائے؟

آپ نے ان کو سچ سچ بتا دیاکہ خریدنا کیا تھا وہ تو خود کو بھی بیچ آئے ہیں قادیان شریف جا کر حضرت مسیح زماں علیہ السلام کی بیعت کر آئے ہیں۔ اس پر اُنہوں نے اپنا ایک خواب سنایا اور کہا۔ مجھے بھی قادیان لے چلیں میں بھی بیعت کرنا چاہتی ہوں۔قدرت نے حق کی طرف رہنمائی کے لئے خوابوں کے ذریعے سامان کیا تھا اور اپنے پیارے مسیح کے در پر آنے کے راستے خود سمجھائے تھے۔ جب آپ پہلی دفعہ قادیان پہنچیں تو میاں صاحب سے کہا کہ اب آپ مجھے راستہ نہ بتائیں بلکہ میرے ساتھ ساتھ آئیں اب میں اُس راستے سے جاؤں گی جو خوابوں میں دیکھا کرتی ہوں اس طرح آپ بغیر کسی رہنمائی کے۔چنانچہ آپ چلتے چلتے دارالمسیح تک پہنچ گئیں۔ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے رُخ ِ انور پر نگاہ پڑی تو پہچان گئیں کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کو خوابوں میں دیکھا کرتی تھیں اور فوراً بیعت کر لی۔ اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی سعادت پائی جن کو اللہ تعالیٰٰ نے خود الہام کر کے مسیحا تک پہنچایا تھا کہ

یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ

بیعت کے ساتھ ہی قادیان اور اہل ِقادیان کی محبت دل میں گھرکر گئی اپنے شوہر سے فرمائش کی کہ میں آپ سے کچھ نہیں مانگتی صرف یہ وعدہ کریں کہ مجھے قادیان جانے سے نہیں روکیں گے۔ ہرسیاں سے قادیان کے چکر لگنے لگے خاص طور پر نماز جمعہ پڑھنے قادیان جاتے۔

دارالمسیح میں قیام

حضرت برکت بی بی صاحبہ قادیان آتیں تو حضرت اماں جان ؓ کے پاس ہی قیام ہوتا آپ آتے ہی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگتیں۔ کھانے پکانے میں کافی مہارت تھی۔ ایک دن آپ کے کھانا پکانے کی داد حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے بھی دی کھانا پسند فرمایا اور پوچھا۔

نصرت آج کھانا کس نے پکایا ہے؟

آپ نے بتایا کہ آپ کی ’’نئی مریدنی نے‘‘ حضرت اقدس ؑنے از راہ ِ شفقت ارشاد فرمایا:
کہ اب یہ جب بھی آئیں کھانا یہی پکایا کریں۔ حضرت اماں جان ؓ نے بھی خوب اطاعت کی۔ آپ کے قادیان آنے پر فرماتیں برکت بی بی اب باورچی خانہ سنبھالو۔

اس طرح اس خوش نصیب خاتون کو ایک نہایت بابرکت خدمت کی توفیق ملی۔ کہ آپ کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانے حضرت اقدس ؑ نے تناول فرمائے۔

آپ قادیان آتیں تو کئی کئی دن الدار میں ٹھہر جاتیں آپ کا دل اس مقدس خاندان کے عشق میں اتنا سرشار تھا کہ واپس جانے کو دل نہ چاہتا۔ حضرت اماں جان ؓ بھی سچی محبت اور خلوص کی پرکھ رکھتی تھیں آپ کا دل بھی نہ چاہتا کہ وہ واپس چلی جائیں کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جب میاں صاحب آپ کو لینے کے لئے آتے تو حضرت اماں جان ؓ فرماتیں۔

فضل محمد برکت بی بی کو چند دن اور رہنے دو پھر آ کر لے جانا۔

اور وہ ان دونوں کا پیار دیکھ کر تنہا واپس لوٹ جاتے۔

ایک دلچسپ واقعہ

آپ جب حضرت اقدس ؑ کے یہاں تشریف لاتیں تو بڑی بچی رحیم بی بی کو بھی ساتھ لے آتیں۔ ان کے بارے میں محترمہ اہلیہ مولوی غلام نبی مصری صاحبہ نے ایک بے حد دلچسپ واقعہ ان کے بھولپن کی فرمائش کا سنایا۔ جو حضرت اقدس ؑ کی بچوں کی دلداری کی خوبصورت مثال بھی ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی تصنیف میں مصروف تھے۔ بچی حضرت صاحب کو پنکھا کر رہی تھی خدا جانے اس بچی کے دل میں کیا آیا کہ وہ ایک کھڑکی میں چڑھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی۔
’’حضرت جی آپ یہاں آجائیں تو میں آپ کو پنکھا کروں۔‘‘

اور حضرت اقدس ؑ بچی کی دلجوئی کی خاطر اپنا کام چھوڑ کر اُٹھے اور کھڑکی کے پاس تشریف لے آئے۔

Ian Adamson نے اپنی کتاب اس دلچسپ واقعہ کا ذکر کے صفحہ 144پر کیا ہے:

Mirza Ghulam Ahmed of Qadian
One of his wife›s friend often stayed with them for a month. Her little daughter occasionally amused herself by coming into his room and fanning him as he worked. One day she found it more interesting to sit by the window. She told him ‘Come and sit over here. It is easier for me›.
Ahmad duly got up and sat where she had directed

آؤ! میرے ساتھ چلو

حضرت میاں فضل محمد صاحب کی کچھ روایات رجسٹر روایات نمبر ۱۴ میں درج ہیں۔ اس میں حضرت اقدس ؑ کی کرم نوازی کی ایک روایت اس طرح درج ہے:
’’ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا جب میری بیوی گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا۔ ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر قادیان میں پلیگ تھی اس واسطے اندر جانے سے روکا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضورؑ باہر تشریف لے کر آئے۔ السلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا۔ حضور نے پوچھا کھڑے کیوں ہو۔ میں نے عرض کی کہ شادی خان اندر جانے نہیں دیتے۔ حضور نے فرمایا کہ آؤ میرے ساتھ چلو‘‘

حضرت برکت بی بی صاحبہ ہرسیاں میں قیام کرنے والے قادیان کے مسافروں کی خوب خاطر مدارات کرتیں جلسہ سالانہ پر پیدل چل کر قادیان جانے والے قافلوں کا پڑاؤ سیکھواں میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ہاں ہوتا اور کبھی ہرسیاں میں حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓ کے گھر ٹھہرتے۔ یہ قافلے دن اور رات میں کسی وقت بھی آ جاتے۔ آپ بڑی مستعدی سے قافلے کے قیام و طعام کا انتظام فرماتیں بلکہ اللہ تعالیٰٰ کا شکر کرتیں کہ مسیح پاک کی برکت ہے کہ اُس کے عاشقوں کی خدمت کا موقع مل سکا۔
’’فضل محمد چراغ لے کر ڈھونڈ یں اب برکت بی بی اُن کو نہیں مل سکے گی’’

آپ نے قادیان کے قریب آنے کی خواہش میں قادیان کے جنوب میں آدھ میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں ننگل باغباناں میں ایک مکان لیا اور بچوں کے ساتھ اُس میں منتقل ہو گئیں۔ قادیان قریب تَر ہو گیا مگر اتنی دوری بھی گوارا نہ ہوئی اور بالآخر1916ء۔1917ء میں ہجرت کرکے یہ خاندان قادیان آگیا۔ قادیان آکر جس علاقے میں مکان بنوایا وہ بعد میں ’دارالفضل‘ کہلایا۔

برکت بی بی صاحبہ کا قادیان ہجرت کرنے کا فیصلہ بہت بابرکت تھا جس نے آئندہ آنے والی نسلوں کی قسمتوں کے رُخ موڑ دئے۔ آپ کس قدر مضبوط ایمانی قوت کی مالکہ ہوں گی اللہ تعالیٰٰ کی محبت کی خاطر گھر بار چھوڑ کر اپنے محبوب کی بستی میں دھونی رمائی۔ قادیان پہنچ تو گئیں مگر قادیان میں زیادہ رہنا نصیب نہ ہؤا

1917ء میں ایک بچے کی پیدائش کے بعد بیمار ہو گئیں۔ اسی بیماری میں آپ کا وصال ہوگیا اور آپ قادیان کی مٹی میں دفن ہو گئیں۔

آپ کی بڑی بیٹی رحیم بی بی صاحبہ روایت کرتی ہیں کہ جب اماں جانؓ کو آپ کی وفات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
’’فضل محمد چراغ لے کر ڈھونڈ یں اب برکت بی بی اُن کو نہیں مل سکے گی‘‘

حضرت اماں جان ؓ کا حضرت برکت بی بی صاحبہ ؓ کے بچوں سے پیار اور شفقت

حضرت برکت بی بی صاحبہ ؓ حضرت سیّدہؓ کی خدمت میں رہتی تھیں۔ماں کے ساتھ بچے لگے رہتے تھے اس طرح بچوں کو بھی حضرت سیدہ ؓکا پیار اور سایۂ عاطفت ملا۔ چند واقعات سے باہمی محبت اور قرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت اماں جانؓ کی وسیع القلبی اور مرحومہ سے تعلقاتِ محبت نباہنے کا عجیب روح پرور انداز تھا۔ سوچا جائے تو کوئی نسبت ہی نہ تھی کہاں ایک غریب دیہاتی عورت اور کہاں مسیح و مہدیء دوراں کی رفیقہء حیات مگر میل و محبت نے سب فاصلے مٹا دئے۔ حضرت سیّدہ نے ایک مرتبہ آپ کی بیٹی صالحہ بی بی کو بلایا تیل کی شیشی لائیں اور فرمایا:
صالحہ! آؤ میں تمہارے سر میں تیل لگا دوں میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ تمہارے سر میں تیل لگا رہی ہوں سوچا اس خواب کو عملی طور پر پورا کر لیں

سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا نصیبے ہیں۔ یہی بیٹی صالحہ بی بی جوانی میں بیوہ ہوگئیں۔ یہ خبر حضرت اماں جان ؓ کو ملی۔ آپ بے چین ہو گئیں۔ اُس وقت آپ کی طبیعت علیل تھی پھر بھی فوراً اظہار افسوس کے لئے جانے کا ارادہ فرمایا کسی نے عرض کی کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بعد میں تشریف لے جائیے مگر آپ نے فرمایا:
’’برکت جو میری عاشق تھی اُس کی بچی بیوہ ہو گئی ہے اس لئے میں ضرور جاؤں گی۔‘‘

دوسری بیٹی احمد بی بی صاحبہ ایک دفعہ بیمار ہو گئیں دل میں حضرت اماں جان ؓ کی محبت اس قدر راسخ تھی کہ بیماری میں ایک ہی اصرار تھا کہ اماں جان ؓ کو ایک نظر دیکھنا چاہتی ہوں۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ آپؓ قریب ہی کسی کی تعزیت کے لئے تشریف لائیں۔ اُن کی خدمت میں احمد بی بی صاحبہ کی شدید خواہش کا ذکر کیا گیا۔ آپ از راہِ شفقت گھر تشریف لے آئیں۔برکت بی بی مرحومہ کی بیٹی کی خواہش پوری کر دی یہ ان کی آخری خواہش ثابت ہوئی کیونکہ اس واقعہ کے جلد بعد وہ وفات پا گئیں۔

شکر نعمت کے طور پر یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ فضل و برکت کے اس بابرکت جوڑے کو حضرت اقدس ؑ کی دعاؤں کے طفیل خوب پھل لگے عددی پھیلاؤ بھی حاصل ہوا اور آگے نسلوں میں ٹھوس خدمت دین کی سعادت پانے والے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم اپنے داداجان اور دادی جان کے احسان مند ہیں جن کی قربانیوں سے ہمیں حقیقی اسلام احمدیت سے وابستگی کی قیمتی دولت ملی بزرگوں کے تذکرہ کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے دُعا نکلتی ہے کہ مولا کریم جس طرح اس جہان میں ان کو اپنے مسیحا ؑ کا قرب عطا فرمایا اسی طرح جنت الفردوس میں اپنا اور اپنے پیاروں کا قرب نصیب فرمانا۔

اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں بھی جماعت سے وابستگی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین ثمّ آمین۔

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خصوصی نمبر بر موقع 12 ربیع الاول

اگلا پڑھیں

نماز میں چھینک کا جواب دینا