• 27 جولائی, 2025

مکرم شیخ ممتاز رسول مرحوم

اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ
مکرم شیخ ممتاز رسول مرحوم

خاکسار نے کچھ سال پہلےروزنامہ الفضل میں اپنے پیارے والد شیخ ممتاز رسول صاحب کے کچھ حالات و واقعات بغرض دعا لکھے تھے۔ یہ سب حالات آپ کی زندگی کے اس دور سے تعلق رکھتے تھے جو آپ نے پاکستان میں گزاری۔آپ نے اپنی زندگی کے چند سال جرمنی میں بھی گزارے۔ وہ عرصہ اگر چہ میں آپ کے ساتھ نہ تھی یعنی آپ کے شہر میں نہ تھی مگر اپنے دوسرے بہن بھائیوں والدہ اور جاننے والوں سے بہت تعریفی کلمات آپ کے بارے میں سنے، خاص طور سے جماعتی خدمات اور دعوت الی اللہ کے بارے میں۔ خاکسار آپ کی زندگی کے اس پہلو سے کافی حد تک نا واقف تھی،اس لیے دوسروں سے سن کر دلی خوشی ہوئی۔ کچھ تاریخی حقائق بھی تھے۔ سو،دل کیا کہ آپ کے ذکر خیر کے ساتھ یہ حقائق بھی محفوظ ہو جائیں۔

پیارے پاپاجی،میری امی اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ 1987ء میں جرمنی آئے۔ جرمنی آنے کے لیے ویزہ بھی آپ کو معجزانہ طریق پر بہت آسانی سے ملا۔آپ نے Sahwalbach (شوال باخ) میں اسائلم کیس کروایا۔ کچھ ہفتے اوفن باخ ایک ہوٹل میں رہے۔ چند ماہ Furth (فرتھ) اور پھر دو سال Gross Rohrheim (گروس روھر ھائم)ایک ہائم میں۔ ہائم میں چند ایک اور بھی احمدی فیملیز اور کچھ غیر احمدی بھی تھے۔ کچھ احمدی فیملیز اردگرد کے دیہات اور شہروں میں بھی تھیں۔1987ء۔1988ء میں گروس روہرہائم میں جماعت قائم ہوئی۔آپ اس جماعت کے پہلے باقاعدہ صدر تھے۔ہائم میں جہاں آپ کی رہائش تھی،وہاں نیچے ایک ہال تھا،آپ وہاں باقاعدگی سے پانچ وقت نماز با جماعت کا اہتمام کرتے۔اذان کبھی خود دیتے اور کبھی دوسرے احباب جماعت کو کہتے۔اجلاس باقاعدگی سے کرواتے۔مرکزی ہدایات کے مطابق کام کرتے۔عاملہ میٹنگز اور دیگر ضروری امور میں بھی میٹنگ کر کے سب سے مشورہ کر کے حکمت سے کام کرتے۔ہائم میں نماز جمعہ بھی باقاعدگی سے ہوتی۔ تہجد کی نماز بھی آپ ادا کرتے۔چندہ جات باقاعدگی سے دیتے۔رمضان المبارک کا بہت احترام کرتے،اعتکاف بھی بیٹھتے۔حضور اقدس کی خدمت میں باقاعدگی سے دعائیہ خطوط لکھتے۔ان دنوں خلیفۃ المسیح کی خطبہ جمعہ کی کیسٹ آتی تھی۔پہلے گھر میں سنواتے اور پھر احباب جماعت کو۔اخبار الفضل بھی لگوائی ہوئی تھی۔بہت شوق سے مطالعہ کرتے۔یہ آپ کےتکیہ کے نیچے پڑی ہوتی تھی۔دو ہفتے یا شاید مہینے بعد الفضل کا بنڈل آتا تھا۔اس دن آپ کے لیے گویا عید کا سماں ہوتا۔

عیدیں بھی بہت اہتمام سے مناتے۔اس وقت فرنکفرٹ میں ایک ہی پاکستانی کپڑوں کی دکان ہوتی تھی۔وہاں لے کر جاتےاور عید کی شاپنگ کرواتے۔لباس کے معاملہ میں نہایت نفیس اور اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔عطر اور خوشبو کا استعمال کرتے۔جمعہ کے دن خاص طور پر نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر جمعہ پڑھنے جاتے۔

پیارے پاپاجی دعوت الی اللہ بھی دلی لگن اور شوق سے کرتے۔گروس روہرہائم کے علاوہ دیگر قریبی شہروں WormsاورBiblisمیں بھی جا کر تبلیغی اسٹال لگاتے۔ تبلیغی نشستیں بھی منعقد کرواتے۔

1989ء میں جماعت کی صدسالہ جوبلی کے موقعہ پر Grossrohrheim کے برگر ماسٹر(مئیر) کو آپ نےخلیفہ وقت اور جماعتی ہدایات کے مطابق قرآن کریم اور اسلامی اصول کی فلاسفی اور تحفہ جات بھی دئیے۔جرمن ترجمہ کرنے کے لیے خاکسار کی چھوٹی بہن کو جو اس وقت چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علم تھی،ساتھ لے کر گئے،وہ بتاتی ہے کہ بہت عاجزی اور انکساری سے انہوں نے یہ تحفے پیش کیے تھے اور احمدیت کا پیغام پہنچاتے ہوئے ساتھ روتےبھی جاتے بھی تھے۔ برگر ماسٹر پربے حد اثر ہوا تھا۔ اس نے بہت عزت اور تکریم سے استقبال بھی کیا تھا، کیونکہ ہم پہلے سے ٹائم لیکر ملنے گئے تھے۔ برگر ماسٹر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ضرور ان کتابوں کو پڑھے گا اور اپنی کابینہ کو بھی بتائے گا۔ پھر اس وقت جوبلی کے سلسلے میں اپنے اپنے شہر میں درخت لگانے کی بھی تحریک تھی۔ اس میں بھی برگر ماسٹر نے بہت تعاون کیا۔ شہر میں اسپورٹس ہال کے سامنے پودا لگایا گیا۔ جو الحمد للہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اسپورٹس گروپ کے علاوہ جماعتی وفد کی موجودگی میں یہ پودا لگایا گیا۔ لجنہ اماءاللہ کی ممبرات بھی شامل ہوئیں۔

گھر میں بھی آپ انفرادی طور پر تبلیغی پروگرام کرتے رہتے تھے۔ امی لوگوں کے لیے ضیافت کی اشیاء تیار کرتیں۔ دریائے رائن آپ کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ پیدل یا سائیکل پہ وہاں چلے جاتے، خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہوتے۔ تبلیغی پمفلٹس اور جماعتی کتب تھیلے میں ڈال کر ساتھ لے جاتے اور دریا کے کنارے بیٹھ کر پڑھتے رہتے۔

آپ کو عہدہ وغیرہ کی بالکل بھی پرواہ نہ تھی، ہاں اپنے فرائض سے پوری طرح باخبر تھے اور ان کو احسن رنگ میں بجا لاتے۔ کوئی دکھاوا نہ تھا، نہ تکبر نہ بڑائی کا احساس۔ خدا تعالیٰ کی رضا مقدم تھی۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے، مناسب تنقید کرنے اور مناسب حال مشورہ دینے میں البتہ نہ کسی سے ڈرتے نہ مرعوب ہوتے۔

اس وقت کی مقامی صدر لجنہ مکرمہ نورجہاں غفورصاحبہ نے کچھ سال پہلے، خاکسار کی درخواست پہ مجھے آپ کے بارہ میں مختصراً آپکی جماعتی کاوشوں کے بارہ میں تحریراً بتایا۔ وہ تحریر کرتی ہیں کہ ’’شیخ صاحب نے مختصر عرصہ میں جماعت کو بہت فعال بنایا۔ انتظامی لحاظ سے شیخ صاحب میں بہت ملکہ اور صلاحیتیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی تھیں جو کہ وہ بروئے کار لاتے تھے جماعت گروس روہرہائم کی ترقی میں انکی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کا بہت دخل ہے۔ جرمن حلقوں میں جماعت کا تعارف ان کی انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ان کو تبلیغ کا شوق تھا۔وہ سائیکل پہ مختلف اطراف میں نکل جاتے تھے اور پمفلٹس تقسیم کرتے تھے، جماعت سے ان کی محبت اور وابستگی بہت بڑھی ہوئی تھی۔ خود بھی بے حد ایکٹو تھے۔ اور جماعت کے دوسرے لوگوں کو بھی فعال رکھتے تھے۔‘‘

نورجہاں صاحبہ نے ایک مرتبہ فون پر مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ آپ کے پاپا جی مختلف ریستورانز میں کافی وغیرہ بھی پینے جایا کرتے تھے اور شائد یہی نیت ہوتی ہو گی کہ لٹریچر وغیرہ وہاں رکھنے کا موقع ملے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی یہ حقیر کاوشیں قبول فرما لے اور اس پیاری جرمن قوم کے دل سینے اسلام احمدیت کا پیغام سننے،سمجھنےاور قبول کرنے کے لئے کھولے۔ (آمین)

پیارے پاپاجی اپنے آباؤاجداد کا بھی بہت ذکر خیر کرتے۔ آپ کی پیدائش ہشیار پور انڈیا کی تھی۔ اپنا بچپن آپ نے قادیان میں گزارا۔ اس وقت کی بھی باتیں سناتے تھے۔ بورڈنگ ہاؤس کا،وہاں کے ماحول کا اور شرارتوں کا ذکر کرتے۔

جرمنی میں قیام کے دوران اپنے بھائی اور بہن کے ساتھ پاکستان میں باقاعدہ خط و کتابت کا سلسلہ تھا۔1992ء میں آپ پاکستان واپس چلے گئے۔ جماعت گروس روہرہائم بھی قریبی دوسری جماعت میں مدغم کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ پیارے پاپا جی کی یہ حقیر کاوشیں قبول فرما لے اور انہیں اپنے پیاروں کے قدموں میں اپنےاعلیٰ علّیّین میں جگہ عطا فرمائے۔ همیں خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔ آپ کا نام روشن کرنے والے ہوں۔ دین کے سچے خادم ہوں۔ مقبول خدمت دین کی توفیق ہمیشہ همیں ملتی رہے۔ خلیفہ وقت کی آنکھیں ہم سےٹھنڈی ہوں اور ہم آپ کے سلطان نصیر ہوں۔ آمین یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

(مبارکہ شاہین۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

حضرت ام المؤمنین ؓ کی اپنی خادمہ سے شفقت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2021