• 19 مئی, 2024

کُجیاں (Money Box)

کُجیاں (Money Box)
بچوں اور بڑوں میں مالی قربانی کا شوق اور عادت ڈالنے کا ذریعہ

گزشتہ دنوں قادیان سے مکرمہ امۃ الشافی رومی، جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ بھارت نےروزنامہ الفضل آن لائن کے جلسہ سالانہ نمبر کے لئے ’’ممبرات لجنہ اماء اللہ بھارت کی قربانیاں اور خلافت سے وابستگی‘‘ کے عنوان پر اپنا ایک مضمون بھجوایا۔ جو انہوں نے ادارہ الفضل کی درخواست پر تحریر کیا ہے اور یہ مضمون 2اگست 2022ء کے شمارہ کی زینت بنا ہے۔

موصوفہ نے اپنے اس مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مالی تحریک بابت ’’یورپ میں دو نئے مراکز‘‘ کے تحت حضور رحمہ اللہ کا ایک اقتباس درج کیا ہے جو جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کے لجنہ اماء اللہ مستورات سے خطاب سے لیا گیا ہے۔ جس میں قادیان کی مستورات اور ناصرات کی مالی قربانیوں کے اشتیاق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں۔

’’۔۔۔۔ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی لجنات میں سے سب کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن قادیان کی لجنہ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ مالی قربانی میں یہ بے مثل نمونے دکھانے والی ہے۔قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہے۔لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کی جائے یہاں کی خواتین اور بچیاں ایسے ولولے اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ بس کرو۔ تم میں اتنی استطاعت نہیں ہے اور واقعةً مجھے خوشی کے ساتھ ان کا فکر بھی لاحق ہو جاتا ہے۔لیکن پھر میں سوچتاہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کی ہیں وہ جانے۔ وہ جانتا ہے کہ کس طرح ان کو بڑھ چڑھ کر عطا کرنا ہے۔وہی اللہ اپنے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کودین اور دنیا کی دولتوں سے بھر دے گا۔ایک موقع پر جب میں نے مراکز کیلئے تحریک کی تو احمدی بچیوں نے جو چھوٹی چھوٹی کُجیاں بنا رکھی تھیں۔عجیب نظارہ تھا کہ گھر گھر میں وہ کجیاں ٹوٹنےلگیں۔اور دیواروں سے مار مار کے کجیاں توڑ دیں۔چند پیسے، چند ٹکے جو انہوں نے اپنے لئے بچائے تھے وہ دین کی خاطر پیش کر دئیے۔ہمارا رب بھی کتنا محسن ہے، کتنا عظیم الشان ہے !بعض دفعہ بغیر محبت اور ولولے کے کروڑوں بھی اسکے قدموں میں ڈالے جائیں تووہ رد کردیتا ہے، ٹھوکر بھی نہیں مارتاان کی کوئی حیثیت نہیں مگر ایک مخلص ایک غریب پیارو محبت کے ساتھ اپنی جمع شدہ پونجی چند کوڑیاں بھی پیش کرے تو اسے بڑھ کر پیار اور محبت سے قبول کرتا ہے۔جیسے آپ اپنے محبت کرنے والے اور محبوبوں کے تحفوں کو لیتی اور چومتی ہیں۔خدا کے بھی چومنے کے کچھ رنگ ہوا کرتے ہیں۔اور میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان معنوں میں خدا نے ان چند کوڑیوں کو ضرور چوما ہوگا۔۔۔۔۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ مستورات قادیان فرمودہ 27دسمبر 1991ء
الفضل آن لائن 2؍اگست2022ء)

موصوفہ نے مجھے خوشی اور فخریہ انداز سے یہ بھی بتایا (اور بتانے کا ان کا حق بھی بنتا ہے) کہ میں بھی ان خوش نصیب ناصرات میں شامل تھی جنہوں نے ان دو مراکز کی خرید کے لئے اپنی اپنی کُجیاں توڑ کر ان میں موجود رقم کو خلافت احمدیہ کے دربار میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔

الفضل آن لائن کے قارئین یہ بخوبی جانتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں جب روپے کی کوئی زیادہ ریل پیل نہ ہوتی تھی، گھڑے، صراحی نما کُجیاں ملا کرتی تھیں۔ جسے گلّہ یا گلک بولتے تھے۔ جس میں چھوٹے اور بڑے بالخصوص بچے اپنی بچت یا جو رقم والدین سے جیب خرچ کے طور پر ملتی تھی یا سال بہ سال ملنے والی عیدی اس میں ڈالتے جاتے تھے۔ اور کسی اہم موقع پر جب کسی بڑی ضرورت کی چیز خریدنی ہوتی تو اسے توڑ کر رقم کو استعمال کیا جاتا اور وہ جشن کا سا سماں ہوتا تھا۔ اور گھر میں موجود بچوں (بہن بھائیوں) میں مقابلہ ہوتا تھا کہ دیکھتے ہیں کس کی رقم زیادہ جمع ہوئی ہے۔

اس دوڑ میں گھر کے بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بالخصوص خواتین نے بھی اپنی اپنی کُجیاں رکھی ہوتیں اور کسی تہوار جیسے عید وغیرہ پر توڑ کر اپنی زیب و زینت کے لئے خریداری کیا کرتیں۔ پھر زمانہ ذرا ترقی کی طرف بڑھنے لگا تو کمیٹی ڈالنے کا رواج زور پکڑ گیا۔ جس میں ہفتہ وار یا ماہوار اقساط کی صورت میں معینہ رقم اپنی طرف سے یا اپنے بچوں کی طرف سے نام بنام جمع کروانے لگیں۔ جس سے بعض سگھڑ اور تجربہ کار خواتین نے اپنی بچیوں کے جہیزاور گھر کی بڑی بڑی چیزیں بھی بنائیں۔

جہاں تک ان کُجیوں میں موجود رقم کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور تبلیغ کے لئے خرچ کرنے کا تعلق ہے تو اس سے جماعت احمدیہ کی تاریخ بھری پڑی ہے اور یہ تاریخ بہت روشن اور تابناک ہے۔ جب بھی کسی خلیفہ وقت نے مالی تحریک کی تو احمدی مستورات نےبڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور اپنا ہر دلعزیز اور قیمتی زیوراللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کیا وہاں احمدی بچوں اور بچیوں نے اپنی اپنی کُجیاں توڑ ڈالیں اور اس تحریک میں دے کرتاریخ احمدیت میں اپنے نام روشن کئے۔

کراچی کے ایک دوست نے ایک لمبا عرصہ قبل مجھے بتایا تھا کہ میں ایک معمولی تنخواہ کا ملازم ہوں اور عیال داربھی ہوں۔ جلسہ سالانہ ربوہ پر شمولیت میرا شوق ہے۔ میں جنوری کے آغاز سے ہی اپنی تنخواہ میں سے رقم بچا کر اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر کچھ رقم ماہ بماہ گلّہ میں ڈالتا جاتا ہوں اور دسمبر میں اسے توڑ کر ٹکٹ خرید کر جلسہ میں شامل ہوتا ہوں۔

قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب میری بڑی بیٹی عزیزہ قرة العین سلمہا اللہ 10سال قبل ہجرت کر کے برطانیہ آئیں تو آخری دنوں میں ایک گلّہ میرے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں موجود رقم صدقہ کر دیں اور جب اسے توڑا گیا تو پانچ ہزار روپے کے لگ بھگ رقم نکلی جو صدقہ کر دی گئی۔

زمانہ جوں جوں جدید ہوتا گیا ان کُجیوں کی شکلیں اور نام بھی بدلتے گئے۔ مٹی کے برتنوں کے غلّوں کو خوبصورت پالش اور بیل بوٹوں سے سجایا جانے لگا۔ بچوں کو راغب کرنے کے لئے مختلف پرندوں اور جانوروں کی شکلوں کے خوبصورت گلے متعارف ہوئے ۔ اس کے بعداس کو لکڑی اور ٹن کے باکس میں بدل دیا گیا جس پر ایک جندری (Lock) لگی نظر آتی تھی۔ بعد ازاں خوبصورت پلاسٹک، پھول بوٹوں والے ٹن یا کانچ کے مہنگے مہنگے غلّے بھی دیکھے بلکہ کسی کے گھر میں صدقہ کے لئے ایک ایسےBox کو دیکھنے کا موقع ملا جس کے اوپر ایسی کمپیوٹرائزڈ مشین لگی تھی جو اس باکس میں موجود رقم کو جمع کر کے Balance بھی بتاتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریز گاری اور سکّے جمع کرنے والے باکس کو درج ذیل ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
Money Box, Cash Box, CoinBank, Penny Bank وغیرہ۔

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ شعبہ وقف جدید برطانیہ نے مالی قربانی کو عام کرنے اور اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لیے مضبوط گتّے کے ایسے Boxمتعارف کروا رکھے ہیں جس پر Waqfe Jadeed Penny Bank لکھا ہوا ہے اور احمدی بچے، بچیاں اور واقفین نو، واقفات نو اس میں وقف جدید کے لئے رقم ڈالتے جاتے ہیں۔ جسےوقف جدید سال کے آخری مہینہ یعنی دسمبر میں کھول کر چندہ میں دے دیا جاتا ہے۔ اور یوں بچوں کو سارا سال چندہ دینے کی عادت بھی رہتی ہے اور بوجھ بنے بغیر چندہ بھی ادا ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت گھروں میں صدقہ باکس یا چندہ باکس کی ہوتی ہے۔

خاکسار کوبطور مربی سلسلہ پاکستان کے بڑے شہروں میں خدمت دین کا موقع ملا ہے اور اس دوران بے شمار احمدی ڈاکٹروں سے واسطہ رہا ان سے سلام دعا رہی۔ ان کے اخلاص کو قریب سے دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ ان میں بعض ڈاکٹرز کا یہ طریق رہا کہ وہ رات کو کلینک بند کرتے وقت اپنی انکم کا سولہواں حصہ اور موصی ہونے کی صورت میں دسواں حصہ کلینک میں موجود ’’چندہ باکس‘‘ میں ڈال کر گھر کو لوٹتے اور یوں خدا کا حق روز کے روز ادا ہوتا رہتا۔ فجزا ھم اللّٰہ تعالیٰ

بس آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنے گھروں میں صدقہ باکس، چندہ باکس، وقف جدید، تحریک جدید باکسز کو رواج دیں اور وقت آنے پر چندہ دے کر خدا کے حضور سر خرو ہوں۔

کان اللّٰہ معنا و ایدنا بنصرہٖ

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

نگران ہیومینیٹی فرسٹ آئیوری کوسٹ میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2022