• 15 مئی, 2024

’’اپنے جائزے لیں‘‘ (قسط 1)

’’اپنے جائزے لیں‘‘
ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ
قسط 1

ایک نئے فیچر کا آغاز

ایک لمبے عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ جماعتی بالخصوص ذیلی تنظیموں کے افراد و خواتین اور بچے بچیوں کی تربیتی نکتہ نگاہ سے اپنے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے وہ ارشادات یکجا کردیئے جائیں جن میں حضور نصیحت کرتے ہوئے بڑے درد و الحاح سے احباب جماعت کو اپنے جائزے لیں، اپنا محاسبہ کریں کے الفاظ سے بیان فرماتے ہیں۔ خاکسار کی خواہش اس وقت بھر آئی جب قادیان سے مکرم نیاز احمد نائیک نے رابطہ کرکے اپنے آپ کو اس نیک کام کے لئے پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی نیک جزاء دے اور اس اہم کام کو مکمل کرنے کی توفیق پائیں۔ یہ فیچر ہر ہفتہ کو الفضل آن لائن کی زینت بنا کرے گا۔ ان شاء اللہ

(ابو سعید۔ ایڈیٹر)

عہدیداران مکمل عاملہ کی
Involvement کا جائزہ لیں

’’میں نے کہا ہر شخص کو اس ذمہ دار ی کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے نظام جماعت کا احترام کرناہے اوردوسروں میں بھی یہ احترام پیداکرناہے۔تو خلیفہ ٔوقت کی تسلی بھی ہوگی کہ ہر جگہ کام کرنے والے کارکنان، نظام کو سمجھنے والے کارکنان، کامل اطاعت کرنے والے کارکنان میسر آسکتے ہیں تو بہرحال جیساکہ میں نے کہاکہ اصل کام نظام جماعت کا احترا م قائم کرناہے اوراس کو صحیح خطوط پرچلانا ہے۔تو اس کے لئے عہدیداران کو، کارکنان کو دوطرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے۔ایک تو وہ ہیں جو جماعت کے عام ممبر ہیں۔ جتنے زیادہ یہ مضبوط ہوں گے، جتنا زیادہ ہر شخص کا نظام سے تعلق ہوگا، جتنی زیادہ ان میں اطاعت ہوگی، جتنی زیادہ قربانی کا ان میں مادہ ہوگا، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت مضبوط ہوگا۔ اور یہ چیزیں ان میں کس طرح پیداکی جائیں۔ اس سلسلہ میں عہدیداران کے فرائض کیا ہیں؟ اس کا میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں۔ اگر وہ پیار محبت کا سلوک رکھیں گے تویہ باتیں لوگوں میں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ اور یہی آ پ کا گروہ ہے جتنا زیادہ اس کا تعلق جماعت سے اور عہدیدارن سے مضبوط ہوگا، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت بھی آرام سے اوربغیرکسی رکاوٹ کے چلے گا۔ اتنا زیادہ ہی ہم دنیا کو اپنا نمونہ دکھانے کے قابل ہو سکیں گے۔ اتنی ہی زیادہ ہمیں نظام جماعت کی پختگی نظر آئے گی۔ جتنا جتنا تعلق افراد جماعت اور عہدیداران میں ہوگا۔ اور پھر خلیفہ ٔوقت کی بھی تسلی ہوگی کہ جماعت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے جن سے بوقت ضرور ت مجھے کارکنان اور عہدیداران میسر آسکتے ہیں۔ اگر کسی جگہ کچھ جماعتیں تو اعلیٰ معیار کی ہوں اور کچھ جماعتیں ابھی بہت پیچھے ہوں تو بہرحال یہ فکر کا مقام ہے۔توعہدیداران کو اپنے علاقہ میں، اپنے ضلع میں یا اپنے ملک میں اس نہج پر جائزے لینے ہوں گے کہ کہیں کوئی کمی تونظر نہیں آ رہی۔ اپنے کام کے طریق کا جائزہ لیناہوگا۔ اپنی عاملہ کی مکمل Involvementکا یا مکمل ان کاموں میں شمولیت کا جائزہ لینا ہوگا۔کہیں آپ نے عہدے صر ف اس لئے تو نہیں رکھے ہوئے کہ عہدہ مل گیاہے اور معذرت کرنا مناسب نہیں اس لئے عہدہ رکھی رکھو اور اس سے جس طرح بھی کام چلتاہے چلائے جاؤ۔ اس طرح توجماعتی نظام کو نقصان پہنچ رہاہوگا۔ اگر تو ایسی بات ہے تو یہ زیادہ معیوب بات ہے اور یہ زیادہ بڑا گناہ ہے بہ نسبت اس کے کہ عہدے سے معذرت کر دی جائے۔اس لئے ایسے عہدیدارتو اس طرح جماعت کے نظام کو، جماعت کے وقار کو نقصان پہنچانے والے عہدیدار ہیں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد1 صفحہ535)

امراء و صدران، جماعتوں میں
خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں

’’بعض جگہ سے شکایت آ جاتی ہے کہ ہم نے اپنے حالات کی وجہ سے امداد کی درخواست کی جو مرکز سے مقامی جماعت میں تحقیق کے لئے آئی تو صدر جماعت بڑے غصے میں آئے اور کہا کہ تم نے براہ راست درخواست کیوں دی، ہمارے ذریعہ کیوں نہ بھجوائی۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ہم نے تو ان سے معافی مانگ لی، دوبارہ ان کے ذریعہ سے درخواست بھجوائی گئی اور ایک لمبا عرصہ گزر گیاہے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور پتہ بھی نہیں لگا۔جو ہماری ضرورت تھی وہ اسی طرح قائم ہے۔ایک تو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی، بے عزتی کر کے معافی منگوائی گئی، دوبارہ درخواست لکھوائی اور پھر کارروائی بھی نہیں کی۔اگر کسی عہدیدار نے یا صدر جماعت نے یہ سمجھ کر کہ یہ درخواست لکھنے والا یا درخواست دہندہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی امداد کی جائے، ایسے لوگوں کو پیار سے بھی سمجھایاجا سکتاہے۔ اور پھر اگر مدد نہیں کرنی تھی تو درخواست دوبارہ لکھوانے کی ضرورت ہی کیاتھی۔تویہ چیزیں ایسی ہیں کہ بلا وجہ عہدیدار کے لئے لوگوں کے دلوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔امراء ہو ں، صدران ہوں، ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ وہ خلیفۂ وقت کے نمائندے کے طور پر جماعتوں میں متعین کئے گئے ہیں اور اس لحاظ سے انہیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 1 صفحہ 533)

سیکرٹری تعلیم کے فرائض

’’عموماً سیکرٹریان تعلیم جماعتوں میں اتنے فعال نہیں جتنی ان سے توقع کی جاتی ہے یا کسی عہدیدار سے توقع کی جا سکتی ہے۔اور یہ مَیں یونہی اندازے کی بات نہیں کر رہا، ہر جماعت اپنا اپنا جائزہ لے لے توپتہ چل جائے گا کہ بعض سیکرٹریان پورے سال میں کوئی کام نہیں کرتے۔ حالانکہ مثلاً سیکرٹری تعلیم کی مثال دے رہاہوں، سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بچوں کی فہرست بنائے جو پڑھ رہے ہیں، جو سکول جانے کی عمر کے ہیں اور سکول نہیں جا رہے۔ پھر وجہ معلوم کریں کہ کیاوجہ ہے وہ سکول نہیں جا رہے۔مالی مشکلات ہیں یا صرف نکما پن ہی ہے۔ اورایک احمدی بچے کو تو توجہ دلانی چاہئے کہ اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ مثلا ً پاکستان میں ہر بچے کے لئےخلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی تھی کہ ضرور میٹرک پا س کر ے۔بلکہ اب تو معیارکچھ بلند ہو گئے ہیں اور مَیں کہوں گا کہ ہر احمدی بچے کو ایف۔اے ضرور کرنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 1 صفحہ 530)

قرض سوچ سمجھ کر دیں

’’بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو عادی قرض لینے والے ہوتے ہیں۔ پتہ ہوتاہے کہ ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہم یہ قرض واپس کر سکیں۔ لیکن پھر بھی قرض لیتے چلے جاتے ہیں کہ جب کوئی پوچھے گا کہہ دیں گے کے ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں، ہم تودے ہی نہیں سکتے۔ اپنے اخراجات پر کنٹرول ہی کوئی نہیں ہوتا۔جتنی چادر ہے اتنا پاؤں نہیں پھیلاتے اصل میں نیت یہی ہوتی ہے پہلے ہی کہ ہم نے کون سا دینا ہے۔بے شرموں کی طرح جواب دے دیں گے۔ یہاں جو قرض دینے والے ہیں ان کو بھی بتادوں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں جھگڑے ہوں اورامورعامہ میں اور جماعت میں اور خلیفہ ٔ وقت کے پاس کیس بھجوائیں کہ ہمارے پیسے دلوائیں تو پہلے ہی سوچ سمجھ کر، جائز ہ لے کر ایسے لوگوں کو قرض دیا کریں۔ یا تو اس نیت سے دیں کہ ٹھیک ہے اگر نہ بھی واپس ملا تو کوئی حرج نہیں۔یاپھر اچھی طرح جائزہ لے لیا کریں کہ اس کی اتنی استعداد بھی ہے، قرض واپس کرسکتاہے کہ نہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 112)

قرض سے رہائی کا طریق

’’تمہاری ہر قسم کی ترقی کے لئے اور قرضوں سے بچنے کے لئے پریشانیاں دور ہونے کے لئے استغفار ہی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ غور کرکے سمجھ کر پڑھو صرف رٹے ہوئے الفاظ نہ دہراتے چلے جاؤ اور پھر ساتھ اپنے اندر جو برائیاں ہیں ان کا بھی جائزہ لیتے رہو اور محاسبہ کرتے رہو اور ان سے بھی بچنے کی کوشش کرتے رہو۔ ترقی کے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 331)

قرض سے رہائی کانسخہ

ایک نسخہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی روایت میں ملتا ہے:
’’کسی شخص نے آپؓ سے کہا کہ 25ہزار روپے کا مقروض ہو گیا ہوں تو آپؓ نے فرمایا اس کے تین علاج ہیں
(1) (بہت زیادہ) استغفار کرو، (2) فضول خرچی چھوڑ دو۔ (سارے اپنا اپنا جائزہ لیں تو یہی باتیں سامنے آتی ہیں) اور (3) ایک پیسہ بھی ملے تو قرض خواہ کو دے دو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 581)

شیطانی راستوں سے بچنے کا طریق

’’جب ایک برائی آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اٹھ جاتاہے تو اس طرح پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر دوسروں کے حقوق مارنے والے بھی ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔بہن بھائیوں کی جائیدادوں کو کھاجانے والے بھی ہوتے ہیں، رحمی رشتوں کو بھلا دینے والے بھی ہو جاتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی نیکی، ہر قسم کی برکت ان پر سے، ان کے گھروں سے اٹھ جاتی ہے اور یہ آپ بھی پھر آہستہ آہستہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہیں اورانجام کار یہی نتیجہ نکلتاہے کہ ایسےلوگ پھر جماعت میں بھی نہیں رہتے۔توشیطان کے ایسے پیروکاروں سے اللہ تعالیٰ خود بھی جماعت کو پاک کردیتاہے۔

اگر آ پ جائزہ لیں تو خود بھی آپ جائزہ لے کر یہی دیکھیں گے اوریہ بڑا واضح اور صاف نظرآجائے گا کہ جماعت کو چھوڑنے والے اکثر ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہرایک کو ایسے ماحول سے بچائے، ایسی سوچوں سے بچائے، ایسے لوگوں سے بھی بچائے جن کا اوڑھنا بچھونا صرف دنیا کی لذات ہیں اورجو شیطان کے راستے پر چلنے والے ہیں۔جیساکہ میں نے بتایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ان شیطانی راستوں سے بچنے کا طریق صرف ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، اس کے آگے جھکو، اس کے سامنے روؤ، فریاد کرو، گڑگڑاؤکہ اے ا للہ شیطان ہرطرف سے ہم پرحملے کر رہاہے اب توُ ہی ہے جو ہمیں اس گند سے بچا سکتاہے، اور شیطان کے حملوں سے بچا سکتاہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 1صفحہ 550)

اپنے ممالک میں یتامیٰ کاجائزہ لیں

’’میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتاہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی یتامیٰ کی تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، پڑھائی نہ کرسکتے ہوں، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں۔ خاص طور پر افریقن ممالک میں، اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے، ا س طرف کافی کمی ہے اورتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔تو باقاعدہ ایک سکیم بناکر اس کام کوشروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں یتامیٰ کو سنبھالیں۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سنبھالنے میں جو اخراجات ہوں گے ان میں کوئی کمی نہیں پیش آئے گی۔ لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے اور تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اورہمیں توفیق دے کہ ہم یتامی کا جو حق ہے وہ ادا کر سکیں۔‘‘

پھر فرمایا: ’’مسکین لوگوں سے بھی حسن سلوک کرو۔ ان مسکینوں میں تمام ایسے لوگ آ جاتے ہیں جن پر کسی کی قسم کی تنگی ہے۔ ان کی ضروریات پوری کرو۔ اس کا جائزہ بھی ہراحمدی کو اپنے ماحول میں لیتے رہنا چاہئے۔ مسکینوں سے صرف یہ مراد نہ لیں کہ جو مانگنے والے ہیں۔ مانگنے والے تو اپنا خرچ کسی حد تک پورا کر ہی لیتے ہیں مانگ کر۔ لیکن بہت سے ایسے سفید پوش ہیں جو تنگی برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہاتھ نہیں پھیلاتے۔اور اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ لاَ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً تو ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 69)

تین باتیں جو مسلمان میں نہیں ہونی چاہئے

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ اس شخص کو سرسبزوشاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے اسی طرح آگے پہنچایا کیونکہ بہت سارے ایسے لوگ جنہیں بات پہنچائی جاتی ہے وہ خود سننے والے سے زیادہ اسے یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تین امور کے بارہ میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرسکتا اور وہ تین یہ ہیں۔خدا تعالیٰ کی خاطر کام میں خلوص نیت، دوسرا ہر مسلمان کے لئے خیرخواہی اور تیسرے جماعت مسلمین کے ساتھ مل کر رہنا۔تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تین باتیں جوبیان کی گئی ہیں کسی مسلمان میں ہوں تو اس کو جائزہ لینا چاہئے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ جس میں یہ تین باتیں ہوں وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔‘‘

( خطبات مسرور جلد 2صفحہ 109)

اگر معاف نہیں کر سکتے
تو اتنا بدلہ نہ لو کہ ظلم بن جائے

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسے نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے حسن سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ہم پہ ظلم کیا تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرو کہ اگر لوگ تم سے حسن سلوک کریں تو تم ان سے احسان کا معاملہ کرو۔ اور اگر وہ تم سے بدسلوکی کریں تو بھی تم ظلم سے کام نہ لو۔

(ترمذی کتاب البروالصلۃ والادب باب ماجاء فی الاحسان والعفو)

دیکھیں کس قدر حسین تعلیم ہے۔ پھر ہر کوئی اپنا جائزہ لے۔ خوف پیدا ہوتا ہے کیا ہم نے یہ معیار حاصل کر لیا ہے، حکم تو یہ ہے کہ اگر کوئی تم سے معمولی نیکی بھی کرتا ہے تو تم اس سے احسان کا سلوک کرو، جو نیکی تمہارے سے کسی نے کی ہے اس سے کئی گنابڑھ کر اس سے نیکی کرو۔اور پھر یہیں بس نہیں کر دینا فرمایا کہ اگر تمہارے سے کوئی برائی بھی کرتا ہے تو پھر بھی تم نے ظلم نہیں کرنا۔ اگر معاف نہیں کر سکتے تو اتنا بدلہ نہ لو کہ ظلم بن جائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 214)

رعایت یا معافی چندہ کی بات متعلقہ عہدیداران تک ہی محدود رہنی چاہئے

’’جو جماعتی عہدیداران ہیں، صدر جماعت یا سیکرٹریان مال، ان کو بھی یہ کہتا ہوں کہ ہر فرد جماعت کی کوئی بھی بات ہر عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اور امانت ہے اس لئے اس کو باہر نکال کر امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے، یا مجلسوں میں بلاوجہ ذکر کرکے امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے۔ رعایت یا معافی چندہ کوئی شخص لیتا ہے تو یہ باتیں صرف متعلقہ عہدیداران تک ہی محدود رہنی چاہئیں۔ یہ نہیں ہے کہ پھر اس غریب کو جتاتے پھریں کہ تم نے رعایت لی ہوئی ہے اس لئے اس کو حقیر سمجھا جائے۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، ۔اول تو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ رعایت لیتے ہیں ان میں سے اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے اپنی رعایت کی اجازت کو ختم کروا دیں اور چندہ پوری شرح سے ادا کریں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جلد ہی دوبارہ اس نظام میں شامل ہو جائیں جہاں پوری شرح پہ چندہ دیا جا سکے۔ ایسے لوگ بہت سارے ہیں اور جو نہیں ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ہر ایک شخص کا خود بھی فرض بنتا ہے کہ اپنا جائزہ لیتا رہے تاکہ جب بھی توفیق ہو اور کچھ حالات بہتر ہوں جتنی جلدی ہو سکے شرح کے مطابق چندہ دینے کی کوشش کی جائے، اللہ تعالیٰ سب کی توفیق میں اضافہ کرے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 362)

واپسی سفر پر مسجد میں نفل ادا کرو

’’پہلے بھی میں نے بتایا ہے کہ آپؐ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ سفر سے واپسی پر توبہ کرتے ہوئے، اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس سے دعائیں مانگتے ہوئے گھروں میں داخل ہو جاؤ۔ تو اس حدیث نے یہ نمونہ دیا کہ سفر سے واپس آ کر دونفل مسجدمیں ادا کرتے تھے۔ اب دیکھ لیں کیا ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے سکتا ہے، اپنا محاسبہ کر سکتا ہے کہ نفل تو علیحدہ رہے بہت سے ایسے ہیں کہ سفرسے واپس آ کر بچوں میں یا دوسرے گھریلو معاملات میں یا اپنی مجلسوں میں اتنے کھو جاتے ہیں، دنیاوی معاملات میں اتنے زیادہ گم ہو جاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آجکل کا سفر اُس زمانے کے سفر کے لحاظ سے بہت آرام دہ ہے، کوئی مقابلہ ہی نہیں اس زمانے کے سفر کے ساتھ، لیکن پھر بھی جو فرض نمازیں ہیں وہ بھی قضا کر کے پڑھتے ہیں یا پڑھتے ہی نہیں اورتھکاوٹ کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ اگرہر کوئی اپنا اپنا جائزہ لے تو آپ کو بڑی واضح تصویر سامنے آ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب سستیاں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 438)

بیوی سے حسن سلوک کی تلقین

’’ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں؟ بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو۔ حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں۔ اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گرجنا، برسنا شروع کر دیا۔ تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی۔ تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ452)

منافق کی تین نشانیاں

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت سے کام لیتا ہے۔

(بخاری کتاب الادب باب قول اللّٰہ تعالیٰ یاایھاالذین امنوا ااتقوااللّٰہ وکونوا مع الصدقین)

تویہاں مزید کھول دیا کہ جھوٹ ایسی چھوٹی برائی نہیں ہے کہ کبھی کبھی بول لیا تو کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک ایسی حرکت ہے جو منافقت کی طرف لے جانے والی ہے۔ ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو بڑی فکر کی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر بعض دفعہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا مذاق میں یا کوئی چیز حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ پھر وعدہ خلافی ہے یہ بھی جھوٹ کی ہی ایک قسم ہے۔ قرض لے کر ٹال مٹول کر دیا وعدہ خلافی کرتے رہے، توفیق ہوتے ہوئے بھی واپس کرنے کی نیت کیونکہ نہیں ہوتی اس لئے ٹالتے رہے۔ پھر اس کے علاوہ بھی روزمرہ کے ایسے معاملات ہیں کہ جن میں انسان اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتا۔ پھر میاں بیوی کے بعض جھگڑے صرف اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ خاوند نے فلاںوعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ592)

جائزہ لیں کہ ہماری مجالس پاکیزہ ہیں کہ نہیں

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام بڑے بڑے گناہ کرنے والوں، لوگوں کے حق مارنے والوں، لوگوں پہ ظلم کرنے والوں، جھوٹ بولنے و الوں، دھوکہ دینے والوں، لوگوں پر الزام تراشیاں کرنے والوں، بری مجلس میں بیٹھنے والوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا پھر مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ایمان کے دعوے کے بعد ہم میں کہیں کوئی برائی تو نہیں۔ یا ہم ایسی برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں۔ ہماری مجالس پاکیز ہ ہیں، ہمارے اعمال ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں، ہم اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 603)

ہر ایک لغو بات گناہ ہے

’’ہر ایک اپنا جائزہ لیتا رہے کہ کیاکیا لغویات اس میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہر برائی لغو ہے یا ہرلغو حرکت یا بات گناہ ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 603)

دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کریں

’’ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اس معیار پر پورا اتر رہا ہے۔ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے امید رکھ رہے ہیں۔ نہ یہ کہ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں، ایک دوسرے سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے۔ اور اپنی طرف نظر ہی نہ ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 681)

قرآن کریم کو حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کرام کے اصولوں پر سمجھنا چاہئے

’’ایک احمدی کو خاص طورپر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے، سمجھناہے، غور کرنا ہے اور جہاںسمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے۔ اور پھر اس پر عمل کرنا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے لئے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے۔ ورنہ تو احمدی کا دعویٰ بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہو گا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں۔ اس لئے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعویٰ تو نہیں؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پا ئے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے۔ قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں لپیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہونی تھیں ہو گئیں۔ یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے۔ دنیا کے کاموں کے لئے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دو رکوع تلاوت ہی کر سکیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 690)

جائزے لیں کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ تو نہیں دیا

’’قرآن کریم میں آیا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ ا تَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْرًا (الفرقان: 13) اور رسول کہے گا اے میرے رب! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔پس احمدیوں کو ہمیشہ فکر کرنی چاہئے کیونکہ ماحول کا بھی اثر ہو جاتا ہے۔ دنیاداری بھی غالب آ جاتی ہے۔ کوئی احمدی کبھی بھی ایسا نہ رہے جو کہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرتا ہو، کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی اس آیت کے نیچے آ جائے کہ اس نے قرآن کریم کو متروک چھوڑ دیا ہو۔ پس اس کے لئے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو کمیاں ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر کوئی کمی تو نہیں۔ ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ تو نہیں دیا۔ تلاوت باقاعدگی سے ہو رہی ہے یا نہیں۔ ترجمہ پڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں۔ تفسیر سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں۔متروک چھوڑنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے نہ اللہ کے حقوق ادا کر رہے ہیں نہ بندوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں جب ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو ہر ایک کو اپنا علم ہو جائے گا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 697)

جماعتی نظام اور ذیلی تنظیمیں جائزہ لیں کہ
افراد جماعت بدعات میں مبتلاء تو نہیں ہورہے

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:
’’پیر بنیں۔پیر پرست نہ بنیں‘‘ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ بعض رپورٹیں ایسی آتی ہیں، اطلاعیں ملتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی، بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمدیوں نے اپنے دعا گو بزرگ بنائے ہوئے ہیں۔ اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کریا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں کہ 20دن کی د وائی لے جاؤ، 20دن کا پانی لے جاؤیا تعویذ لے جاؤ۔ یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں۔ میرے نزدیک تو وہ احمدی نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دعا کروانے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو مرضی کرتا رہوں، لوگوں کے حق مارتا رہوں، میں نے اپنے بزرگ سے دعا کروا لی ہے اس لئے بخشا گیا، یا میر ے کام ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مومن کہلانا ہے تو میری عبادت کرو، اور تم کہتے ہو کہ پیر صاحب کی دعائیں ہمارے لئے کافی ہیں۔ یہ سب شیطانی خیالات ہیں ان سے بچیں۔ عورتوں میں خاص طور پر یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے، جہاں جہاں بھی ہیں ہمارے ایشین (Asian) ملکوں میں اس طرح کا زیادہ ہوتا ہے یا جہاں جہاں بھی Asians اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہاں بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے ذیلی تنظیمیں اس بات کا جائزہ لیں اور ایسے جو بدعات پھیلانے والے ہیں اس کا سدباب کرنے کی کوشش کریں۔ اگر چند ایک بھی ایسی سوچ والے لوگ ہیں تو پھر اپنے ماحول پر اثر ڈالتے رہیں گے۔ نہ صرف ذیلی تنظیمیں بلکہ جماعتی نظام بھی جائزہ لے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک بھی اگر لوگ ہوں گے تو اپنا اثر ڈالتے رہیں گے۔ اور شیطان تو حملے کی تاک میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے بننے کی بجائے اس طرح بعض شرک میں پڑنے والے ہو جائیں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 766)

جائزہ لیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی
کتنی باتوں پر عمل کرنے والے ہیں

’’جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ضرور پھر پکار سنتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ جو بندے میری باتوں پر بھی عمل کریں۔ تو اگر جائزہ لیں اور اگر ہم سارے جائزہ لیتے رہیں تو پتہ لگ جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتنی باتوں پر عمل کرنے والے ہیں۔ خود بخود اس جائزے کے ساتھ ہی دعا کی قبولیت کے نہ ہونے کے شکوے دور ہو جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل عزت دعا کرنے والا اس لئے ہے کہ وہ خالص ہو کر اس کے آگے جھکتا ہے اس کے آگے، اس کے سامنے حاضر ہوتاہے، اس سے فریاد کرتا ہے، اس میں کوئی دکھاوا نہیں ہوتا۔ وہی صاحب عزت ہے جو اس کی رضا کی خاطر کر رہا ہے اور یہ چھپ کر بھی ہوتا ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 865)

رمضان میں اپنی برائیوں کا جائزہ لیں

’’حدیث میں آتاہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں۔ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں رکھے اور اپنامحاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ تو یہاں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں۔پہلی یہ کہ ایمان کی حالت اور دوسری ہے محاسبۂ نفس۔اب روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا بھی محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں میں جائزہ لوں کہ میرے میں کیا کیا برائیاں ہیں، ان کا جائزہ لوں۔ ان میں سے کون کون سی برائیاں ہیں جو میں آسانی سے چھوڑ سکتاہوں ان کو چھوڑوں۔کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں نہیں کر سکتا یامیں نہیں کر رہا۔اور کون کون سی نیکیاں ہیں جو مَیں اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ تو اگر ہر شخص ایک دو نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرے اور ایک دو برائیاں چھوڑنے کی کوشش کرے اورا س پرپھر قائم رہے تو سمجھیں کہ آپ نے رمضان کی برکات سے ایک بہت بڑی برکت سے فائدہ اٹھا لیا۔‘‘

(خطبات مسرورجلد اول صفحہ 428)

(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاءاللہ)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

نگران ہیومینیٹی فرسٹ آئیوری کوسٹ میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2022