حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو کھول کر اس طرح پیش فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور: 38)۔ جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اس بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ15 ایڈیشن 2003ء)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ162 ایڈیشن 2003ء)
یہ بالکل درست ہے۔ لیکن فرمایا یہ بھی یاد رکھو کہ ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو اور ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے‘‘۔ یعنی کوئی کام ہی نہ کرے ’’بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور: 38) والا معاملہ ہو۔ دست با کار، دل بایاروالی بات ہو‘‘۔ یعنی ہاتھ کام کر رہے ہوں اور دل اپنا خدا تعالیٰ کی طرف توجہ میں رہے۔ فرمایا کہ ’’تاجر اپنے کاروبارِ تجارت میں اور زمیندار اپنے امورِ زراعت میں اور بادشاہ اپنے تختِ حکومت پر بیٹھ کر، غرض جو جس کام میں ہے، اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اُس کی عظمت اور جبروت کو پیشِ نظر رکھ کر اُس کے احکام اور اوامر و نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے حکم ہیں، جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے یہ کرو، اُن باتوں کے کرنے کو اپنے سامنے رکھو۔ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے رُک جاؤ، اُن باتوں سے رُکنے کو اپنے سامنے رکھو، اُن سے بچنے کی کوشش کرو۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے حکم اپنے سامنے رکھو گے تو ایک لائحہ عمل سامنے ہو گا اور پھر اُس کے اندر ہی انسان کام کرتا ہے۔ جو چاہے کرو سے مراد یہ ہے۔ پھر تمہارے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا کہ اُنہی رستوں پر چلو جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر‘‘۔ فرمایا کہ ’’اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لُولوں کی طرح نکمے بیٹھے رہو اور بجائے اس کے کہ اَوروں کی خدمت کرو، خود دوسروں پر بوجھ بنو‘‘۔ یہ نہیں اسلام کہتا کہ کام نہ کرو، سارا دن بیٹھے رہو، ذکرِ الٰہی بھی ہو لیکن اپنے کام بہر حال کرنے ہیں۔ فرمایا ’’نہیں بلکہ سست ہونا گناہ ہے۔ بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اُس کے دین کی کیا خدمت کر سکے گا۔ عیال و اطفال ’’یعنی بیوی بچے‘‘ جو خدا نے اُس کے ذمّے لگائے ہیں اُن کو کہاں سے کھلائے گا؟ پس یاد رکھو کہ خدا کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو۔ بلکہ اُس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا ۪ۙ﴿۱۰﴾ (الشّمس: 10)۔ تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو‘‘۔ کسی پیشے میں بھی جاؤ، ’’جو چاہو کرو مگرنفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو‘‘۔ وہی لوگ فلاح پاتے ہیں جو اپنے نفس کو پاک رکھتے ہیں۔‘‘ اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کردیں۔ پھر جو تمہاری دنیا ہے یہی دین کے حکم میں آ جاوے گی۔ ’’یہ دنیا کمانا، یہ تجارتیں، یہ کاروبار، یہ ملازمتیں، یہ بھی پھر دین بن جاتا ہے اگر نیت نیک ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کا عہد ہو۔ فرمایا کہ: ’’انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا۔ دل پاک ہو اور ہر وقت یہ لَو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنیا بھی اُس کے واسطے حلال ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَات۔‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ550 ایڈیشن 2003ء)
پس یہ ہے وہ حالت جو ہر احمدی کی ہونی چاہئے اور جب آپ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری دنیا بھی دین کے تابع ہو گی۔ ہمارے سے کوئی ایسا کام سرزد نہیں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشاء کے خلاف ہو۔
(خطبہ جمعہ یکم نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام)