• 18 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 24)

قرآنی انبیاء
حضرت عزیر علیہ السلام
قسط 24

حضرت عزیرؑ ایک صالح نبی جو قریباً چار سو سال قبل مسیح میں مبعوث ہوئے ہیں،
اپنی قوم کو ترقی دینے کا باعث ہوئے، اس قدر نیکی میں بڑھے کہ یہود نے انہیں ابن اللہ کہنا شروع کر دیا

حضرت عزیرؑ کا قرآن کریم میں ایک جگہ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا: وَقَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُ ۣ ابۡنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۰﴾ (التوبہ: 30) اور یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ (بات) صرف ان کے منہ کی لاف ہے وہ (صرف) اپنے سے پہلے کفار کی باتوں کی نقل کر رہے ہیں۔ اللہ ان کو ہلاک کرے وہ (حقیقت سے) کیسے دور جا رہے ہیں۔

حضرت عزیرؑ صالح انبیاء میں سے تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب بابل میں دکھوں کا زمانہ بہت ہو گیا اور ان میں سے بہت صلحاء ہو گئے حتی کہ دانیال، عزرا، حزقیل، یرمیاہ ایسے برگزیدہ بندگان خدا پیدا ہوئے اور انہوں نے جناب الہی میں خشوع وخضوع سے دعائیں مانگیں تو ان کو الہام ہوا کہ وہ نسل جس نے گناہ کیا تھا وہ تو ہلاک ہوچکی اب ہم ان کی خبر گیری کرتے ہیں‘‘

(حقائق الفرقان جلد01 صفحہ209)

بائبل کے ’’عرزا‘‘ ہی قر آن کریم میں مذکور ’’حضرت عزیر علیہ السلام‘‘ ہیں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’445 قبل مسیح میداور فارس کے بادشاہ نے جس نے بابل فتح کرلیا تھا۔ اس صلہ میں کہ یہود نے اس کی مدد کی تھی ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ یہود کے ایک نبی نحمیاہ کودوبارہ آبادکرنے کے لئے بھیجا گیا تاوہ یروشلم اور دوسرے یہودی مقامات کو دوبارہ آباد کریں۔ اس بادشاہ کانام خورس تھا اورانگریزی میں اسے سائرس لکھتے ہیں۔اس نے نہ صرف یہود کو ان کے وطن واپس جانے کی اجازت دی بلکہ وہ سامان جو وہاں سے نبوکدنصرلے گیاتھا وہ بھی ان کوواپس دے دیا۔(عزرا باب 1 آیت 2، 3، 7، 8)۔ یہ عرزاوہی عزیر ہیں جن کا قر آن کریم میں ذکر آتاہے کہ یہود انہیں خدا کا بیٹا کہتے تھے‘‘

(تفسیر کبیر جلد04 صفحہ304)

حضرت عزیرؑ کا زمانہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تورات کے متعلق خود یہود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بخت نصر کے وقت اُسے بالکل مٹا دیا گیا تھا۔ بلکہ عزرا نبی کے وقت تک جو قریباً چار سو سال قبل مسیح ہوا تورات اور دوسرے انبیاء کی کتابوں کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ تب عزرا نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ۔۔اور پانچ زود نویس چالیس روز تک دوسروں سے الگ تھلک جا بیٹھے اور انہوں نے الہامی تائید سے ان کتب کو مکمل کیا۔

‘‘(APOCRYPHA 11، ESDRAS 14)

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 105-106)

حضرت عزیرؑ کا اپنی قوم کی ذلت دور کرنا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہودیوں کو دیکھ لو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف مبعوث ہوئے اور انہوں نے قوم کو عروج تک پہنچایا۔ ۔۔اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ ۔۔ پھر تنزل پیدا ہوا تو حضرت شمعونؑ آگئے۔ ۔۔ غرض ہمیشہ انبیاء کے ذریعہ ہی ان کو ترقی حاصل ہوئی۔ ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی پر ایمان لائے بغیر انہیں محض دنیوی تدابیر سے عروج حاصل ہوگیا۔ اسی طرح بابل کی حکومت نے ان کو تباہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے عزرا نبی کو کھڑا کردیا جس نے ان کی ذلت دور کی۔ پھر گرے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمادیا۔ یہ نہیں ہوا کہ دنیوی لیڈروں کی اتباع کرکے انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہو یا مادی تدابیر نے ان کو ترقی تک پہنچادیا ہو‘‘

(تفسیر کبیر جلد09 صفحہ557)

یہود کے قول: ’’عزیر اللہ کا بیٹا ہے‘‘ کی حقیقت

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہودی لوگ یوں تو زبان سے شرک کے قائل نہ تھے مگر وہ ایک نبی کو خداکا بیٹا قرار دیتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ یہودی کہتے تھے: عُزَیۡرُ ۣ ابۡنُ اللّٰہِ (توبہ: 30) یعنی عزیر اللہ کا بیٹا ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد05 صفحہ393)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’چوتھی صدی تک یہود عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے‘‘

(حقائق الفرقان جلد04 صفحہ 222)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’دنیا میں کئی مذاہب آتے ہیں پھر مٹتے ہیں۔ ایک فرقہ تھا یہود سے، وہ حضرموت (غربی کنارہ یمن) میں رہتا تھا۔ وہ عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے۔ ہجری چوتھی صدی کے اخیر تک انکا بقایا رہاہے۔ پس یہ اعتراض نہیں چاہیئے کہ اب تو یہود نہیں کہتے کہ عزیر ابن اللہ تھے کیونکہ دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ دیکھو قسطلانی، داود ظاہری اور لیث کے متبعین اب نہیں پائے جاتے مگر کتابوں میں ان کا ذکر ہے‘‘

(حقائق الفرقان جلد02 صفحہ286)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’باوجود ان احکام کے (جو تفصیل کے ساتھ انہیں تورات میں دئے گئے تھے) یہود ان کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اور ان کے سلوک اپنوں اور بیگانوں سے خراب ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض حضرت عزیر کو ابن اللہ قرار دینے لگ گئے تھے۔ جیسا کہ یہود کا صدوقی فرقہ جو یمن کی طرف رہتا تھا اس شرک میں ملوث ہو چکا تھا‘‘

(الملل والنحل جلد اول صفحہ99)

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ4)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’آپ (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کی ہر اس قوم سے لڑائی کی جو توحید کی دشمن تھی۔۔۔ آپ نے یہود کا بھی مقابلہ کیا جو عزیر کو خدا تعالی کا بیٹا قرار دیتے تھے۔۔۔ اور آخر عرب میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں توحید کو غالب کر کے دکھا دیا اور بتوں کے پرستاروں کو خدائے واحد کے آستانہ پر لاڈالا‘‘

(تفسیر کبیر جلد06 صفحہ575)

یہودیہ کی آبادکاری میں حصہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اور عزیر اور نحمیاہ دو نبیوں کے ذریعہ سے جب یہودیہ دوبارہ بسایا گیا اور مذہب موسوی کی باگ ڈور کلی طور پر یہودا کے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی تو یہودی کا لفظ نسلی امتیاز یا مقام رہائش کے معنوں سے بالکل الگ ہو کر مذہب (موسوی کے پیرو) کے معنوں میں استعمال ہونے لگا‘‘

(تفسیر کبیر جلد01 صفحہ358)

حضرت عزیرؑ کے وقت میں یوروشلم کی آبادی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہاروت و ماروت جو دو نبی تھے انہوں نے اُس کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ وہ باہر سے حملہ کرے تو یہود اندر سے اُس کی مدد کریں گے۔ اور اُس نے ان کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ بابل فتح ہونے پر تمہیں واپس یروشلم جانے کی اجازت ہو گی۔ بلکہ میں تمہیں معبد کی تعمیر کیلئے بہت کچھ مدد بھی دو نگا۔ چنانچہ اُس نے بابل پر حملہ کیا اور اندر سے یہود نے اُن کی مدد کی اور بابل فتح ہو گیا۔ اور انہیں واپس اپنے وطن جانے کی اجازت ملی۔ اور عزرا نبی کے زمانہ میں یروشلم پھر آباد ہوا۔ اور خورس نے بہت سا سامان اُن کو اپنے پاس سے دیا جس میں لکڑی وغیرہ بھی تھی۔ چنانچہ ہسٹو رینیز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد 2 صفحہ 126 میں یہ ذکر پایا جاتا ہے کہ یہود نے خورس سے خفیہ معاہد ہ کیا تھا اور اُس کے حملہ آور ہونے پر اندر سے اُس کی مدد کی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ بابل پر قابض ہو گیا اور اُس کی مدد سے یہود بابل کی قید سے رہا ہو کر واپس اپنے وطن چلے گئے۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ76)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالی نے یورشلم کو آباد کر دیا تو عزرا نبی تشریف لائے۔ دیکھا کہ جہاں پانی تھا وہاں کھانے پینے کی تمام چیزیں تازہ بتازہ، نو بہ نو (نہ کہ سڑی بسی) موجود ہیں بلکہ مال مویشی اور سواری کے جانور بھی۔ یہ معنے بھی کسی وقت دلچسپی سے خالی نہیں‘‘

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ417)

بائبل کا بخت نصر کے زمانے میں ضائع ہونا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بائبل کے متعلق یہود کا یہ یقین ہے کہ بخت نصر کے زمانہ میں وہ ضائع ہوگئی تھی پھر عزرا نبی نے اس کو دوبارہ لکھا گویا یہودی تاریخ کے مطابق بھی اصلی بائبل موجود نہیں رہی تھی بعض انسانوں نے خواہ وہ نبی ہی ہوں اس کو دو بارہ درست کر کے لکھا ہے۔ پس اس کی حیثیت محض ایسی رہ گئی جیسا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی حدیثوں کی۔ اور جس طرح احادیث نبویہ کو کتاب اللہ نہیں کہا جا سکتا اس کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جاسکتا‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ542)

حضرت عزیرؑ کا بائبل کو دوبارہ لکھنا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تورات کی اندرونی شہادت سے یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ یہ کتاب مٹ گئی تھی۔ اور اِس کے مٹنے کا باعث یہ ہؤا کہ چھٹی صدی قبل مسیحؑ یعنی چودھویں صدی ابراہیمیؑ کے آخر میں جب بخت نصر نے بیت المقدس جو جلا دیا تو تورات کی مقدس کتابیں بھی جل گئیں اور یہود قید ہو کر بابل میں لے جائے گئے۔ جہاں ستّر سال تک قید رہے۔ اِس اسیری کے بعد وہ رہا ہوئے۔ اور حضرت عزَیرؑ جن کی کتاب پُرانے عہد نامہ میں پائی جاتی ہے انہوں نے اِس کتاب کی تدوین دیگر احباب سمیت کی اور اپنی یادداشت کی بناء پر اُسے لکھا۔

حضرت عزیرؑ کے نام سے ایک اور کتاب عیزڈراس ESDRAS یونانی زبان میں موجود ہے۔ جو حضرت عزیرؑ کی اُس کتاب کے علاوہ ہے جو پُرانے عہد نامہ میں پائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ کتاب موجودہ بائیبل کی کتابوں میں شامل نہیں مگر بائیبل سے کسی درجہ کم نہیں۔ چنانچہ بائیبل کا جو زخیمہ بعد میں مرتب ہؤا ہے اس میں عیز ڈراس کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اِس کتاب کے دوسری کتاب کے چودھویں باب کو پڑھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح حضرت عزیرؑ نے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت چالیس دن تک تورات کو دوبارہ لکھا۔ کتاب مذکورہ کے چودھویں باب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے:۔
’’دیکھو! اے خدا! مَیں جاؤں گا جیسا کہ تُو نے مجھے حکم دیا ہے۔ اور جو لوگ موجود ہیں مَیں اُن کو فہمائش کروں گا۔ لیکن جو لوگ بعد کو پیدا ہوں گے اُن کو کون فہمائش کرے گا۔ اس طرح دُنیا تاریکی میں ہے۔ اور جو لوگ اس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں۔ کیونکہ تیرا قانون جل گیا۔ پس کوئی نہیں جانتا ان چیزوں کو جو تُو کرتا ہے۔ اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں۔ لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تُو روح القدس کو مجھ میں بھیج اور مَیں لکھوں تمام جو کچھ کہ دُنیا میں ابتداء سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا۔ تاکہ تیری راہ کو پاویں اور وہ لوگ جو اخیر زمانے میں ہوں گے زندہ رہیں گے اور اُس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستے سے لوگوں کو اکٹھا کر اور اُن سے کہہ وہ چالیس دن تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں۔ لیکن دیکھ تُو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور اپنے ساتھ سیریا SIRIA ڈبریا DABRIA سیلیمیا SELEMIA اکانس ECANUS اور اسیل ESIAL کو لے۔ اور ان پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے کو تیار ہیں اور یہاں آ۔ اور مَیں تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کروں گا۔ جو نہ بُجھے گی تا وقتیکہ وہ چیزیں پُوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا‘‘ (آیت 2تا 25)۔ غرض حضرت عزیرؑ اور پانچ زودنویس چالیس روز تک اوروں سے الگ تھلگ جا بیٹھے اور الہامی تائید سے انہوں نے چالیس دن میں دو سو چار کتابیں لکھیں‘‘ (آیت 44) جن میں نہ صرف تورات بلکہ وہ سب کتابیں جو حضرت موسٰیؑ سے لے کر حضرت عزیرؑ تک کے پیغمبروں کی طرف منسوب تھیں شامل ہیں۔

مزید برآں یہ کہ تاریخی طور پر اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا کہ یہودیوں میں تورات کو حفظ کرنے کا رواج ہو۔ بلکہ آج تک بھی یہود میں تورات کو حفظ کرنے کا عام رواج نہیں۔ اور جبکہ اُن میں حفظ کا رواج ہی نہیں تھا یہ کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں نے دوبارہ تورات کو لکھا تھا اُنہوں نے اُسے صحیح طور پر ہی لکھا تھا۔ تورات کی دوبارہ تدوین یہود کی جلا وطنی کے ایک لمبے عرصے بعد ہوئی ہے۔ بخت نصر یہود کو قید کر کے بابل لے گیا تھا اور وہاں اُس نے ایک مدّت تک اُن کو اپنی غلامی میں رکھا۔ یہ مُدّت قریبًا ساٹھ ستّر سال بنتی ہے (دیکھو تاریخ بائیبل مصنّفہ پادری ولیم۔ جی بلیکی۔ بارھواں باب) اس کے بعد جب سائرس فارس اور میدبادشاہ کا زور ہؤا تو اُس کے ساتھ یہود نے خفیہ سمجھوتہ کیا اور اس کے حملہ آور ہونے پر اندر سے اُس کی مدد کی۔ جس کی وجہ سے وہ بابل پر بہت جلد قابض ہو گیا۔ اس کے بعد انعام کے طور پر اُس نے بنی اسرائیل کو اپنے مُلک کی طرف واپس جانے کی اجازت دیدی۔ اُس وقت عزرا نبی کا زمانہ تھا اور انہی کے زمانہ میں دوبارہ تورات لکھی گئی۔ یہ سارا عرصہ قریبًا سو سال کا بنتا ہے اور ہر شخص قیاس کر سکتا ہے کہ اِس عرصہ میں کتنے لوگ زندہ رہے ہوں گے اور کتنے مر چکے ہوں گے۔ بخت نصر کے حملے اور عزرا نبی کے زمانہ میں سو سال کا جو وقفہ ہے اس میں اگر یہود کی تورات حفظ ہوتی تب بھی اتنے لمبے عرصہ کے بعد اس کے دوبارہ لکھا جانا یقینی نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ کیونکہ بہت سے لوگ مر چکے ہوں گے۔ لیکن اُن میں تو حفظ کا رواج ہی نہیں تھا اس لئے انہوں نے جو کچھ لکھا قیاسی اور خیالی طور پر لکھا‘‘

(تفسیر کبیر جلد08 صفحہ416-418)

عزرا کے بعد کی بائبل کے نسخوں میں اختلاف

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بائبل کے وہ نسخے جو عزرانبی کے بعد تاریخی زمانہ میں لکھے گئے ہیں ان میں ہی کافی اختلاف ہے یہودیوں، سامریوں اور مسیحیوں کی بائبل کے نسخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ گو اصولی طور پر وہ متفق ہیں لیکن پھر بھی کافی اختلاف موجود ہے۔ جب یہ اختلاف تاریخی زمانہ کا ہے تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عزرا نبی سے پہلے زمانہ میں کیا کیا دست بُرد یہودی کتب میں کر چکے ہونگے‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ371)

حضرت عزیرؑ کی کتاب سے صداقت قرآن کریم کی دلیل

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’عزرا نبی کی کتاب باب 1 آیت 2 سے بھی قرآن کی صداقت ظاہر ہوتی ہے (حقائق الفرقان جلد03 صفحہ37) اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ مزیدفرماتے ہیں: ’’شاہ فارس خورس یوں فرماتا ہے کہ خداوند خدا نے زمین کی سب مملکتیں مجھے بخشیں اور مجھے حکم کیا ہے‘‘ عزرا کی کتاب باب 1 آیت 2۔ اس سے ظاہر ہے کہ حسب کتب مقدسہ وہ حکم الہی کا پابند اور مملکتوں کا بادشاہ تھا‘‘

(حقائق الفرقان جلد03 صفحہ41)

(مرزا خلیل احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

’’تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 ستمبر 2022