• 25 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 14 حصہ اول)

حیاتِ نورالدینؓ
سوانحی خاکہ حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ
قسط14 حصہ اول

حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کی زندگی کے تین حصے بنتے ہیں۔ پہلا وہ حصہ جس میں آپؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے ملے نہ تھے۔ دوسرا وہ حصہ جس میں آپؓ اپنے آقا ومطاع سے شناسا ہو چکے تھے اور اپنا تن من دھن آپؑ کے قدموں پر نثار کرچکے تھے۔ جبکہ تیسرا وہ حصہ جس میں آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد مسند خلافت پر متمکن فرمایا۔ مضمون ہذا میں زندگی کے ان تینوں حصوں کا سوانحی خاکہ سالوں کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرونگی، آج حصہ اول پیش ہے۔ وباللّٰہ التوفیق

حصہ اول

اس حصہ میں آپؓ کی پیدائش تا حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے پہلی ملاقات تک کے واقعا ت کا ذکر ہے۔

1834ء پیدائش

ایک جدید تحقیق کے مطابق حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کی پیدائش 1834ء کی ہے (بحوالہ الفضل آن لائن 11 اپریل 2020ء)

مقام تولد

آپ بھیرہ پاکستان کے محلہ معماراں میں پیدا ہوئے۔

والدین

آپ کے والد محترم کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب ہے جبکہ والدہ کا نام حضرت نور بخت صاحبہ تھا۔

بھائی اور بہنیں

آپ کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں جنکے معلوم نام مندرج ہیں:

  1. مولوی سلطان احمد صاحب
  2. مولوی غلام نبی صاحب
  3. حکیم غلام احمد صاحب
  4. مولوی محمد بخش صاحب
  5. غلام محی الدین صاحب 6۔ نام معلوم نہیں ہے۔

بہنیں

  1. محترمہ غلام بی بی صاحبہ
  2. محترمہ امام بی بی صاحبہ

آپ کے والدین اور تمام بہن بھائی (ماسوائے ایک بہن کے) جماعت احمدیہ کے قیام سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔ ایک بہن جو زندہ رہیں ان کا قادیان میں آنا ثابت ہے اور وہ احمدی بھی ہوگئی تھیں۔

ابتدائی تعلیم کا حصول

آپ نے اپنی والدہ کی گود میں ہی قرآن مجید نیز والدہ سے پنجابی اور فقہ کی کتابیں پڑھیں۔ کچھ حصہ قرآن مجید کا اپنے والد محترم سے بھی پڑھا۔ آپ کا بیان ہے کے والدہ کا عشق قرآن اس قدر تھا کہ حمل میں مجھے پیٹ کے اندر بھی قرآن کی آوازیں ہی سنائی دیں۔

1853ء

اس سال آپؓ اپنے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب کے پاس لاہور آگئے اور یہاں منشی قاسم علی صاحب سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔

1855ء

آپؓ لاہور سے واپس بھیرہ چلے گئے اور فارسی حاجی شرف الدین صاحب سے پڑھنی شروع کی مگر طبیعت اس سے مانوس نہ ہو پائی۔ عربی کی تعلیم مولوی سلطان احمد صاحب سے بھیرہ میں ہی حاصل کی۔

1858ء

آپؓ نے نارمل سکول راولپنڈی میں داخلہ لے لیا۔ تقسیم کسور ومرکب سیکھنے کے لئے آپ نے شیخ غلام نبی صاحب کی خدمات لیں۔ نیز علم اقلیدس منشی نہال چند سے سیکھا۔

سکول کی ہیڈ ماسٹری

آپ کو تحصیل کی سطح پر امتحان میں نمایاں کامیابی ملنے پر پنڈدادنخان کے مڈل سکول کا ہیڈماسٹر بنا دیا گیا۔اس سکول میں آپ چار سال تک ہیڈ ماسٹر رہے بعد ازاں سکول کی ہیڈماسٹری سے آپ نے خود استعفیٰ دے کر حصول علم کی غرض سے رام پور، مراد آباد اور لکھنؤ کا سفر کیا۔رام پور میں آپ کا قیام تین سال رہا۔ اور قانون بو علی سینا کا عملی حصہ آپ نے یہیں پڑھا اور اس کی سند حاصل کی۔

1864ء

سفر میرٹھ ودہلی وبھوپال۔ بھوپال میں مولوی عبد القیوم صاحب کی آپ کو کی گئی مشہور نصیحت کہ نہ خدا بننا نہ رسول بھی جماعتی لٹریچر کا حصہ ہے۔

1865۔1866ء حج بیت اللہ

بھوپال سے الوداع ہوکر آپ برہان پور سٹیشن پہنچے وہاں سے بمبئی اور پھر مکہ کے لئے عازم سفر ہوئے۔اور وہاں حج کی سعادت حاصل کی۔ مکہ معظمہ میں محمد حسین صاحب سندھی ایک بزرگ کے مکان پر رکے۔

جب بیت اللہ پر پہلی نظر پڑی تو یہ دعا کی کہ
میں جب ضرورت کے وقت تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کرلیا کر

مکہ میں آپ نے مختلف علماء سے حدیث کا علم حاصل کیا۔ مدینہ میں حضرت شاہ عبد الغنی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کی بیعت کی۔ اور وہیں پر آپؓ کو چالیس احادیث کا راوی بننے کا شرف حاصل ہوا۔

1868ء۔1869ء دوسری مرتبہ حج کی سعادت

آپ دوبارہ مدینہ سے مکہ چلے گئے اور دوسری بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔

1870ء – 1871ء

مکہ سے جدہ اور پھر وہاں سے بذریعہ جہاز آپ بمبئی آگئے۔ وہاں سے ریل پر سوار ہو کر دہلی آگئے۔ دہلی سے اپنے استاد حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔ لاہور کے بعض مقامات میں قیام کے بعد آپ 1871ء میں واپس بھیرہ تشریف لے گئے جہاں اللہ کے فضل سے آپ کے والدین زندہ تھے لیکن کئی بھائی وفات پاچکے تھے۔

پہلی شادی

انہی سالوں میں آپ کی پہلی شادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی جو شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی کی بیٹی تھیں۔

بھیرہ میں آتے ساتھ ہی آپ نے قرآن وحدیث کی درس وتدریس کا سلسلہ شروع فرما دیا نیز خدمت خلق کے جذبہ سے مطب بھی جاری فرما دیا۔

1877ء

آپ کے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے بھوپال کا سفر کیا اور وہاں ملازمت بھی کی۔ پھر بھیرہ واپس آگئے۔ اور طبابت شروع کردی۔

جموں میں ملازمت

انہی دنوں لالہ متھراداس جو کہ والئی جموں مہاراجہ رنبیر (یا رندھیر) سنگھ کے عہد میں پولیس آفیسر تھے اور بھیرہ سے تعلق رکھتے تھے سل کی وجہ سے بیمار ہوکر بھیرہ آئے۔ آپؓ نے انکا کامیاب علاج کیاجسکی شہرت ہوئی۔ نیز انہی دنوں دیوان کرپا رام جوکہ وزیراعظم کشمیر تھے پنڈ دادنخان سے گزرے اور ان تک بھی اس علاج کی شہرت پہنچی۔ انہوں نے نیز لالہ متھراداس نے مہاراجہ کے سامنے آپؓ کے علم وفضل کا ذکر کیا تو مہاراجہ نے لالہ جی سے ہی کہا کہ مولوی صاحب کو جا کر بھیرہ سے لے آؤ۔چنانچہ متھرا داس نے آپ تک مہاراجہ کا یہ پیغام پہنچایا۔

اس کے بعد آپؓ جموں پہنچے اور آپ کی تنخواہ ابتدا میں دو صد مقرر ہوئی پھر پانچ صد تک پہنچ گئی۔

سوامی دیانند سرسوتی پر اتمام حجت

اسی سال آپ لاہور آئے تو پنڈت دیانند سے بھی آپؓ نے گفتگو کی۔ اور آپؓ کے مقابلہ پر وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔

1879ء

اس سال کشمیر میں سخت قحط پڑا۔ آپؓ نے بوجہ قحط رونما ہونے والی ہیضہ کی وباء کے دنوں میں عظیم الشان طبی خدمات سرانجام دیں۔ جس پر مہاراجہ نے خوش ہوکر آپ کو قیمتی خلعت بطو رانعام نوازی۔

فصل الخطاب فی مسئلۃ فاتحۃ الکتاب:
اسی سال کتاب فصل الخطاب فی مسئلۃ فاتحۃ الکتاب شائع ہوئی۔

1880ء

مولوی محمد حسین بٹالوی کی تجویز پر بننے والی انجمن حمایت اسلام کے ممبر بنے اور 60 روپیہ سالانہ چندہ کا وعدہ بھی کیا نیز 100روپیہ یکمشت چندہ دینے کا بھی وعدہ کیا۔

1881ء

اس سال آپ نے ایک ماہ کا جموں کا سفر کیا اور اسی دوران آپ نے قرآن کریم کے 14 پارے حفظ کرلئے۔

1882ء حضرت مسیح موعودؑ سے
پہلا غائبانہ تعارف

اس سال آپ کا پہلی دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے غائبانہ تعارف گورداس پور کے ایک صاحب شیخ رکن الدین صاحب کی معرفت ہوا۔ جنہوں نے بتایا کہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے اسلام کی حمایت میں رسالے لکھے ہیں (غالبا اس سے مراد براہین احمدیہ تھی)۔ آپؓ نے یہ سن کر خط لکھ کر یہ کتابیں منگوائیں اور یوں جموں میں حضورؑ کا چرچا شروع ہوگیا۔

نیز ریاست کے وزیر اعظم دیوان اننت رام یا دیوان گوبند سہائے سے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک اشتہار نشان نمائی کی عالمگیر دعوت ملا۔

1884ء

آپ اس سال پھر انجمن حمایت اسلام کے ممبر بنے اور اس کی ترقی کے لئے ہر ممکن مدد قلم ومال کے ذریعہ سے کی۔

نوٹ: (مضمون ہذا کا مواد تاریخ احمدیت جلد سوم، مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین اور حیات نو ر سے لیا گیا ہے)

اے خدا بر تربت او بارشِ رحمت ببار
داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم

(جاری ہے)

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

’’تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 ستمبر 2022