اسلامی اصطلاحات کا برمحل استعمال
ازروئے احادیث
جس طرح ایک مضمون میں خاکسار نے قرآن کریم سے وہ آیات پیش کی ہیں جن سے ہمیں اسلامی اصطلاحات کے بارے میں علم ہوتا ہے اسی طرح ذیل میں چند ایک احادیث بطور نمونہ پیش کی جارہی ہیں جن سے ان کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو ان اصطلاحات کے بر محل استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تَعَوُّذ
قارئین کے استفادہ کے لئے وہ روایات درج کی جارہی ہیں جن میں تَعَوُّذ پڑھنے کی ہدایت کی گئی یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سند ملتی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر نماز شروع کرتے۔ پھر سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالىٰ جَدُّكَ وَ لَآ إِلٰهَ غَيْرُكَ پڑھ کر تین مرتبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰـهُ پڑھتے۔ پھر فرماتے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ هَمْزِهٖ وَ نَفْثِهٖ وَ نَفْخِهٖ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ هَمْزِهٖ کے معنیٰ گلا گھوٹنے کے اور وَ نَفْخِهٖ کے معنیٰ تکبر اور وَ نَفْثِهٖ کے معنیٰ شعر گوئی کے ہیں۔
ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہی معنیٰ بیان کیے گئے ہیں اور اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں داخل ہوتے ہی تین مرتبہ اللّٰهُ اَكْبَرُ كَبِيْرًا، تین مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيْرًا اور تین مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا پڑھتے۔ پھر یہ پڑھتے اَللّٰهُمَّ إِنِّيْٓ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ هَمْزِهٖ وَنَفْخِهٖ وَنَفْثِهٖ۔ ابن ماجہ میں اور سند کے ساتھ یہ روایت مختصر بھی آئی ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تین مرتبہ تکبیر کہتے۔ پھر تین مربتہ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ کہتے پھر اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ آخر تک پڑھتے۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو شخص لڑنے جھگڑنے لگے۔ غصہ کے مارے ایک کے نتھنے پھول گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ کہہ لے تو اس کاغصہ بھی جاتا رہے۔ نسائی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلۃ میں بھی اسے روایت کیا ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے۔ اس کی ایک روایت میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے اس کے پڑھنے کو کہا لیکن اس نے نہ پڑھا اور اس کا غصہ بڑھتا ہی گیا۔ استعاذہ کے متعلق اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں، یہاں سب کو جمع کرنے سے طول ہو گا۔ ان کے بیان کے لئے اذکار و وظائف فضائل و اعمال کے بیان کی کتابیں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب سب سے پہلے وحی لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پہلے اَعُوْذُ پڑھنے کا کہا۔ تفسیر ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پہلے پہل جب جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا اَعُوْذُ پڑھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِسْتَعِذْ بِاللّٰـهِ السَّمِيْعِ الْعَلِيْمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ، پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا: کہیے بِسْمِ اللّٰـهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پھر کہا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ (العلق: 2)
(بحوالہ تفسیر ابن کثیر آن لائن اردو ترجمہ)
حضرت سلیمان بن صرد ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی قریب جھگڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ تھا،رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر وہ اس بات کو کہے تو اس کی یہ کیفیت جاتی رہے یعنی اگر وہ کہے کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ اس پر لوگوں نے اس جھگڑنے والے شخص کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 846صفحہ 898)
بِسْمِ اللّٰہِ
بمعنیٰ اللہ کے نام کے ساتھ
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر قابل قدر اور سنجیدہ کام اگر خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بغیر شروع کیا جائے تووہ بے برکت اور ناقص رہتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ہر قابل قدر گفتگو (اور تقریر وغیرہ) اگر خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بغیر شروع کی جائے تو وہ برکت سے خالی اور بے اثر ہوتی ہے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 20 صفحہ43)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ کام جو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص اور برکت سے خالی ہوتا ہے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 21 صفحہ43)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں نے عید الاضحی کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد حضورؐ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا جسےآپؐ نے ذبح کیا۔ ذبح کرتے وقت آپؐ نے یہ الفاظ کہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے۔ اے میرے خدا ! یہ قربانی میری طرف سے اور میری امّت کے لوگوں کی طرف سے، جو قربانی نہیں کر سکتے، قبول فرما۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث297 صفحہ337)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حضور کچھ لوگ جو کفر سے نئے نئے نکلے ہیں ہمارے پاس گوشت لے کرآتے ہیں اور ہمیں علم نہیں کہ انہوں نے جانور کو ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللّٰـهِ پڑھی بھی یا نہیں۔ کیا ہم گوشت کھا سکتے ہیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم خود اس پر بِسْمِ اللّٰـهِ پڑھ لو اور بخوشی کھاؤ۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث53 7 صفحہ517)
حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ گاؤں والے ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ جانور کو ذبح کرتے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا تھا یا نہیں تو ایسے گوشت کو ہم کیا کریں؟ حضور ؐنے فرمایا اس پر بِسْمِ اللّٰـهِ پڑھ لو پھر اس گوشت کو کھا لو۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 538 صفحہ518)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پنیر لایا گیا۔ آپ ؐنے فرمایا یہ کہاں کا تیار شدہ ہے؟ صحابہ نے عرض کیا۔ فارس کا یعنی مجوسیوں کا بنایا ہوا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ اس میں حرام چیز ملائی جاتی ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیادہ کرید کی ضرورت نہیں بِسْمِ اللّٰـهِ پڑھو اور کاٹ کر کھاؤ۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 539صفحہ 519)
امام ابو داؤدؒ نے حضرت ابن عمر ؓسے روایت کی ہے کہ غزوہ تبوک کے سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عیسائیوں کا بنایا ہواپنیر پیش کیا گیا۔ اس کے متعلق یہ بھی خیال تھا کہ یہ مجوسیوں کا بنایا ہوا تھا۔ آپؐ نے کسی چھان بین کے بغیر چُھری منگوائی اور بِسْمِ اللّٰـهِ پڑھ کر اُسے کاٹا اور استعمال فرمایا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکّہ کے موقع پر پنیر پیش کیا گیا تو آپؐ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟صحابہ ؓنے عرض کیا۔ اہلِ عجم اس کو تیار کرتے ہیں۔ آپ ؐنے فرمایا۔ چُھری سے کاٹ کر اسے استعمال کر سکتے ہو (یعنی کسی چھان بین کی ضرورت نہیں)
ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ سنتے ہیں کہ اس کے بنانے میں مردار کی چربی استعمال ہوتی ہے آپؐ نے فرمایا زیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں چُھری سے کاٹو اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھا لو۔
( حدیقۃ الصالحین حدیث540 صفحہ520)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو پہلے اللہ تعالی کا نام لے یعنی بِسْمِ اللّٰـهِ پڑھے۔ اگر شروع میں بھول جائے تو یاد آنے پر بِسْمِ اللّٰـهِ اَوَّلَہٗ وَ اٰ خِرَہٗ پڑھ لے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث541 صفحہ521)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
بمعنیٰ اللہ کا شکر ہے۔
حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی شرم دل میں ہو جیسا کہ اس سے شرم کرنے کا حق ہے۔صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں شرم بخشی۔حضور ؐ نے فرمایا۔یوں نہیں بلکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی شرم رکھتا ہے وہ اپنے سر میں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے۔پیٹ اور اس میں جو خوراک وہ بھرتا ہے اس کی حفاظت کرے موت اور ابتلاء کو یاد رکھنا چاہیئے، جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے۔وہ دنیاوی زندگی کہ زینت کے خیال کو چھوڑ دیتا ہے پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی اللہ تعالیٰ کی شرم رکھی۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 819صفحہ 769)
اِنْ شَآءَ اللّٰہُ
بمعنیٰ خدا نے چاہا تو۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افطار کرنے کے بعد یہ فرماتے تھے ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآ ءَ اللّٰہُ۔ پیاس جاتی رہی اور رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہوا یعنی اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اس کا ثواب ضرور ملے گا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 276 صفحہ316)
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
بمعنی ٰاللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ مجھ میں برائیوں سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکیوں کو کرنے کی قوت۔
حضرت ابو موسی ٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتائوں ؟میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول ! مجھے ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھا کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ مجھ میں برائیوں سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکیوں کو کرنے کی قوت۔
(حدیقہ الصالحین حدیث81 صفحہ 132)
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
توحید باری تعالیٰ اسلام کی بنیاد ہے اور یہ اسلام کی کنجی ا ور پہلا رکن ہے۔ اس بارے میں ایک لمبی روایت میں یو ں بیان ہوا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آگ اس شخص پر حرام کر دی ہے جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کیا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہو۔ حضرت محمود بن ربیع کہتے تھے کہ مَیں نے یہ بات کچھ اَور لوگوں سے بیان کی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابوایوب انصاریؓ بھی تھے۔ وہ اس جنگ میں تھے جس میں وہ ملکِ روم میں فوت ہوئے اور یزید بن معاویہ ان کے سردار تھے۔ توحضرت ابوایوب نے میری بات کا انکار کیا اور کہا کہ بخدا مَیں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا کہا ہو جو تم نے بیان کیا ہے۔ یعنی کہ آگ اس پہ حرام ہوئی جو صرف لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ پر بہت گراں گزری۔ مَیں اس بات سے بڑا پریشان تھا۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے اوپر ایک منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا اور اس جنگ سے واپس لوٹا تو یہ بات مَیں حضرت عِتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھوں گا بشرطیکہ مَیں نے ان کی قوم کی مسجد میں ان کو زندہ پایا۔ چنانچہ مَیں لوٹا اور حج یا عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر مَیں چل پڑا یہاں تک کہ مدینہ آیا اور بنو سالم کے محلے میں گیا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عتبانؓ بوڑھے ہو گئے ہیں اور آپ کی بینائی جاتی رہی ہے۔ آپ اپنی قوم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے سلام پھیرا تومَیں نے انہیں سلام کیا اور انہیں بتایا کہ مَیں کون ہوں۔ پھر مَیں نے ان سے وہ بات پوچھی تو انہوں نے اس کو اسی طرح بیان کیا جس طرح کہ پہلی دفعہ مجھ سے بیان کیا تھا۔
(صحیح بخاری، کتاب التہجد بَابُ صَلاَۃِ النَّوَافِلِ جَمَاعَۃ روایت نمبر 1186)
(لغات الحدیث جلد اول صفحہ 580)
کہ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ مَیں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھا اس پہ آگ حرام ہو گئی لیکن حضرت ابوایوب اس کو نہیں مانتے تھے۔ اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنی رائے لکھی ہے کہ حدیث میں یہی آتا ہے کہ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ۔
( بحوالہ خطبہ جمعہ 20نومبر 2020ء)
جَزَاکُمُ اللّٰہُ
بمعنیٰ اللہ آپ کو اس کی جزاء دے اور شکریہ کہنے کے وقت اِسے استعمال کرتے ہیں۔ ’’جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا‘‘ کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ان میں سے چند ایک ذیل میں درج ہیں:
’’مَنْ صُنِعَ إِلَیْہِ مَعْرُوْفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِہٖ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِی الثَّنَآءِ‘‘
حضرت اسامہ بن زید ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے اللہ تعالیٰ تجھےاس کی جزا ئےخیر دے اور اس کا بہتر بدلہ دے تو اس نے ثنا کا حق ادا کردیا یعنی ایک حد تک شکریہ کا فرض پورا کردیا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث756 صفحہ714)
بعض لوگ جَزَاکَ اللّٰہُ کے ساتھ اَحْسَنَ الْجَزَآء، اَطْیَبُ الْجَزَآء، اَجْزَءَ الْجَزَآء، اَخْیَرَ الْجَزَآء کے الفاظ استعمال کرنا مستحب سمجھتے ہیں جیسے کہ ایک دفعہ آنحضورﷺ صحابہ کرام میں کھجوریں تقسیم کر رہے تھے۔ اس وقت حضرت اسید بن حضیرؓ نے آپؐ کا شکریہ ’’جَزَاکَ اللّٰہُ اَطْیَبُ الْجَزَآءِ‘‘ کے الفاظ میں ادا کیا جس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا:
فَجَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً اَجْزَءَ الْجَزَآءِ وَ اَطْیَبُ الْجَزَآءِ
(المستدرک)
اگر کسی عورت کو یہ دُعا دینی ہو تو اسے ’’کاف‘‘ پر زیر کے ساتھ جزاکِ اللّٰہ کہیں گے۔ اس مسنون طریق کو رواج دینا چاہئے۔ معمولی سے معمولی احسان پر چھوٹا بڑا جَزَاکَ اللّٰہُ یا جَزَاکُمُ اللّٰہُ کے الفاظ استعمال کرتا ہے جو بہت خوش آئند بات ہے۔ ذیل میں مزید روایات درج کی جاتیں ہیں جن سے اس کلمے کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے عاریتاً ہار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، انہوں نے (بغیر وضو) نماز پڑھ لی۔ آپ ﷺسے شکایت کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری۔ (اس موقع پر) سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ’’جَزَاکِ اللّٰہُ خَیْرًا‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ دے۔ واللّٰہ! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوا جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دی۔
(صحیح البخاری، کتاب التیمم باب إذا لم یجد مآءً ولا ترابًا، رقم الحدیث 336 اور صحیح مسلم، کتاب الحیض باب التیمم رقم الحدیث 367 /109)
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ ان کلمات کے ساتھ دعا دینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں عہدِ نبوت میں بھی معروف تھا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک طویل حدیث بیان کرتی ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک اعرابی سے کھجوروں کے بدلے میں اونٹ خریدے۔ گھر میں کھجوریں دستیاب نہ ہوئیں، اعرابی کو بتایا تو وہ دھوکے کا واویلا کرنے لگا۔
اس پر آپ ﷺ نے سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہاسے کھجوروں کا پوچھ کر اعرابی کو ان کے پاس بھیجا۔ بعد میں جب اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو کہنے لگا:
’’جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا فَقَدْ أَوْفَیْتَ وَ أَطْیَبْتَ‘‘
اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے، آپ نے پورا پورا اور خوب عمدہ ادا کر دیا۔
(مسند أحمد 6/ 268۔ 269و فی نسخۃ 43/ 337۔ 339رقم الحدیث 26312، وسندہ حسن، محمد بن إسحاق صرح بالسماع عندہ)
تعامل صحابہ اور تقریری حدیث سے مذکورہ مسئلہ صراحتاً ثابت ہوجاتا ہے۔
آمین
ایک قدیم سامی الاصل لفظ ہے جو عبرانی سے عربی زبان میں آیا ہے۔ آمین کے معنیٰ علمائے تفسیر نے یوں بیان کیے ہیں:
1۔ اے خدا ہماری دعا قبول فرما
2۔ ایسا ہی ہو
3۔ درست
یہ کلمہ ابراہیمی ادیان یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مخصوص عبادتوں اور ہر دعا کے بعد پڑھا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس کا تلفظ آمِن (Amen) ہے۔ نیز یہ کلمہ مذاہب ثلاثہ کے تمام قدیم و جدید مخطوطات میں پایا جاتا ہے۔
[1] یہودی شریعت کا پیروکار ایک یہودی اس کلمے کو مختلف عبادات اور تناظر میں ادا کرتا ہے۔
[2] عیسائیت میں عبادت اور مناجات کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔
[3] اور دعائے ربانی کے بعد کہا جاتا ہے۔
[4] اہل سنت مسلمان، یہودی اور عیسائی چاہے کسی بھی زبان کے ہوں آج تک اپنی عبادات اور نمازوں میں اور قراءت سورہ فاتحہ کے بعد پڑھتے ہیں لیکن اہل تشیع نماز میں بعد فاتحہ نہیں پڑھتے بلکہ اسے نقص نماز سمجھتے ہیں۔
[5]
[6]
• Amen». Catholic Encyclopedia. 2007-09-05 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2007.
• Orach Chaim 56 (amen in kaddish); O.C. 124 (amen in response to blessings recited by the prayer reader); O.C. 215 (amen in response to blessings made by any individual outside of the liturgy).
• Harper, Douglas. amen قاموس علم اشتقاق الألفاظ. اطلع عليہ بتاريخ 20 أغسطس 2007.
• • Wycliffe. ‘‘Matthew 6:9–15’’. Wycliffe Bible.
• ’’قول: آمين فی الصلاة‘‘ هل قول آمين مبطل للصلاة؟ مركز الأبحاث العقائدیۃ 03 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا، جلد اوّل
فِیْٓ اَمَانِ اللّٰہِ
بمعنیٰ اللہ کی حفاظت میں۔ الوداع ہوتے یا کسی کو الوداع کرتے وقت یہ دعائیہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔
ہمیں اس بارے میں کوئی واضح حدیث یا آیت نہیں مل سکی مگر ذیل میں بیان دو روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رخصت کے وقت سلام کیا جائے اور اس کے لئے یہ کلمات بھی ادا کیے جاسکتے ہیں جن کا لغوی مفہوم ہے ’اللہ کی حفاطت یا امان میں۔‘
اسلام کی تعلیم ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو سلام کریں، اسی طرح جدا ہوتے وقت بھی سلام کے ذریعہ جدا ہوں یہ سب سے اچھا اور مبارک عمل ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا انْتَهٰٓى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِذَٓا أَرَادَ أَنْ يَّقُوْمَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الْأُوْلٰى بِأَحَقَّ مِنَ الْاٰخِرَةِ
(ابو داؤدحدیث 5208)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیئے کہ سلام کہے اور جب وہاں سے اٹھنا چاہے تو بھی سلام کہے،پہلی دفعہ سلام کہنا دوسری دفعہ کے مقابلے میں کوئی زیادہ اہم نہیں ہے۔ اگر کسی کو سفر پہ رخصت کررہے ہیں تو ان کو اس طرح سے دعا دینا مسنون ہے جیسا کہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو سفر کی لئے رخصت کرتے تو فرماتے : آؤ میں تمہیں ویسے ہی رخصت کروں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہم کو رخصت کرتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے :
أَسْتَوْدِعُ اللّٰهَ دِيْنَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيْمَ عَمَلِكَ
(الترمذی، حدیث3443)
ترجمہ: میں تمہارے دین اور تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔
یَرْحَمُکَ اللّٰہُ
بمعنیٰ اللہ تم پر رحم فرمائے۔ یہ الفاظ چھینک کی آواز سننے پر چھینک آنیوالے شخص کو کہے جاتے ہیں۔
حضرت معاویہ بن حکم السُلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں رسول کریم ﷺ کے پاس آیا تو مَیں نے حضور ﷺ سے اسلام کے بارے میں باتیں سیکھیں۔ ان میں سے ایک بات جو مجھے بتائی گئی وہ یہ تھی کہ جب تجھے چھینک آئے تو تُو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ۔ اور جب چھینک مارنے والا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے تو، تُو یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نماز میں رسول کریمﷺ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شخص نے چھینک ماری اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہا تو میں نے جواباً بلندآواز سے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہہ دیا۔ اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے جو کہ مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ مَیں نے کہا تم مجھے کیوں تیز نظروں سے گھورتے ہو۔ اس پر لوگوں نے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہا۔ جب رسول کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ بولنے والا کون تھا۔ اشارہ کر کے بتایا گیا کہ یہ بدوی باتیں کر رہا تھا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ نماز، قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہوتی ہے۔ پس جب تو نماز پڑھ رہا ہو تو تُو یہی کام کیا کر۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے زیادہ نرمی سے بات کرنے والا مُعلّم اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔
(ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ باب تشمیت العاطس فی الصلوٰۃ)
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
بمعنیٰ تم پر سلامتی ہو۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا۔ اے لوگو! سلام کو رواج دو، ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ۔ صلہ رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ اگر تم ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث493 صفحہ482)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا کون سا اسلام افضل اور بہتر ہے۔ آپؐ نے فرمایا کھانا کھلانا اور ہر ملنے والے کو خواہ جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرنا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث494 صفحہ482)
حضرت عمر ان بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو دس گنا ثواب ملا ہے۔ پھر ایک اور شخص آیا اس نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ کہا۔ حضورؐ نے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آپؐ نے فرمایا اس کو بیس گناہ ثواب ملا ہے۔ پھر ایک اور شخص آیا اس نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہا۔ آپ ؐنے انہی الفاظ میں اس کو جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آپؐ نے فرمایا اس شخص کو تیس گنا ثواب ملا ہے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث495 صفحہ483)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے میرے بیٹے! جب تم گھر جاؤ تو سلام کہو اس طرح تجھے بھی برکت ملے گی اور تیری خاندان کو بھی۔
( حدیقۃ الصالحین حدیث496 صفحہ483)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو اور تھوڑے زیادہ آدمیوں کو سلام کریں (یعنی سلام میں پہل کریں۔)
(بخاری، کتاب الاستئذان باب سلام الراکب علی الماشی بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث497 صفحہ484)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے پھر جب کوئی درخت یا دیوار یا پتھر درمیان میں حائل ہو جائے یعنی وہ ایک دوسرے سے اوجھل ہو جائیں اور دوبارہ آپس میں ملیں تو پھر ایک دوسرے کو سلام کہیں۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث498 صفحہ484)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل ِ یمن آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا۔ تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مصافحہ کو رواج دیا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث499 صفحہ485)
حضرت ابو امامہ بؓیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عیادت کا ایک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی مریض کے پاس جائے اس کی پیشانی یا نبض کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کا حال احوال پوچھے اور آپس میں ملنے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرو۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث500 صفحہ485)
حضرت ایّوب بن بشیر قبیلہ عنزہ کے ایک شخص کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ اس شخص نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت ملاقات آپ لوگوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے۔ اس پر حضرت ابوذر ؓنے بتایا کہ میں جب کبھی بھی حضورؐ سے ملا مصافحہ کیا ہے۔ بلکہ ایک مرتبہ حضور ؐنے مجھے بلا بھیجا۔ میں اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا تو میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضورؐ اس وقت بستر پر تھے۔ حضورؐ نے مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا اور معانقہ کیا۔ اس خوش نصیبی کے کیا کہنے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث501 صفحہ486)
حضرت شعبیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالبؓ سے ملے تو حضور نے بوقتِ ملاقات ان سے معانقہ کیا اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث502 صفحہ486)
حضرت اُمیمہ بنت رقیہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو حضورؐ نے فرمایا۔ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا یا عورتوں کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کربیعت نہیں لیتا۔
( حدیقۃ الصالحین حدیث503 صفحہ487)
حضرت اسماء بنت یزید ؓبیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں سے گزرے۔ وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی تھی آپؐ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کو سلام کیا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث504 صفحہ487)
حضرت محمد بن زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلی ؓکا ہاتھ مسجد میں پکڑے ہوئے تھا اور وہ گھر کی طرف واپس آرہے تھے کہ راستہ میں چھوٹا بڑا مسلمان عیسائی جو کوئی بھی ملتا آپ اسے سلام کہتے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کہ انہوں نے کہا اے بھتیجے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے سلام پھیلانے کا حکم دیا ہے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث505 صفحہ488)
حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست، یہود سب ملے جُلے بیٹھے تھے۔ آپؐ نے ان کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔
( حدیقۃ الصالحین حدیث506 صفحہ488)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو یہود و نصاریٰ سلام کریں تو اس کے جواب میں وَعَلَیْکُمْ کہو۔
( حدیقۃ الصالحین حدیث507 صفحہ489)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جب تک ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں داخل نہیں ہو گے، اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم آپس میں محبت قائم نہ کرو۔ نیز آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جس سے آپس میں محبت پیدا ہو؟ (اور وہ ذریعہ یہ ہے کہ) تم آپس میں سلام کرنے میں پہل کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان بَابُ بَيَانِ أَنَّہٗ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُوْنَ)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کونسا اِسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفْ۔
یعنی تم کھانا کھلاؤ اور سلام کہو ہر اُس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے۔
(بخاری، کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر12)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا کون سا اسلام افضل اور بہتر ہے۔ آپؐ نے فرمایا کھانا کھلانا اور ہر ملنے والے کو خواہ جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرنا۔
(بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث494 صفحہ482)
حضرت سہیلؓ بن سعد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی غربت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اپنے گھر میں داخل ہو تو اگر کوئی گھر میں ہو تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا کرو۔ اور اگر کوئی نہ ہو تو پھر بھی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ دیا کرو۔ اپنے اوپر ہی سلامتی بھیجا کرو۔ والسلام تمہیں مل جائے گا اور ایک دفعہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھا کرو۔ تو اس آدمی نے ایسا ہی کیا یہانتک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا رزق عطا کیا کہ اس کے ہمسائے بھی اس سے فیضیاب ہونے لگے۔
(روح البیان لاسماعیل حقی بن مصطفیٰ زیر آیت سورۃالاخلاص جلد10 صفحہ558۔ دارالکتب العلمیہ بیروت۔ 2003ء)
ﷺیا دورد شریف پڑھنےکا حکم
حضرت کعبؓ بن عجرہؓ بیان فرماتے ہیں :
ہم لوگوں نے (ایک دفعہ) حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ لوگوں یعنی آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا کریں۔ سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے (مگر درود بھیجنے کا طریق ہم نہیں جانتے)۔ آپؐ نے فرمایا یوں کہا کرو:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء حدیث نمبر3370)
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ پر عمدگی سے ایک دفعہ درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ستر بار درود بھیجیں گے۔
(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر6754)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے احباب سے کہا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو بہت اچھی طرح سے بھیجا کرو۔ تمہیں کیا معلوم کہ ہو سکتا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے حضور پیش کیا جاتا ہو۔ راوی کہتا ہے کہ سامعین نے ان سے کہا آپ ہمیں اس کا طریقہ بتائیں۔ انہوں نے کہا یوں کہا کرو۔ اے اللہ! اپنی جناب سے درود بھیج، رحمت اور برکات نازل فرما، سیدالمرسلین اور متقیوں کے امام اور خاتم النبیین، محمد اپنے بندے اور اپنے رسول پر جو ہر نیکی کے میدان کے پیشوا اور ہر نیکی کی طرف لے جانے والے ہیں اور رسول رحمت ہیں۔ اے اللہ! تو حضرت محمد ﷺ کو ایسے مقام پر فائز فرما جس پر پہلے اور پچھلے سب رشک کریں۔ (پھر اس کے بعد مسنون درود پڑھا)
(سنن ابن ماجہ، کتا ب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا باب الصلوٰۃ علی النبیﷺ)
اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ
کتب احادیث میں بھی استغفار کی بہت زیادہ فضیلت اور تاکید بیان ہوئی ہے۔ بلکہ اس توبہ و استغفار کو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حسنِ ظن کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندےکی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتاہے جتنا کوئی آدمی جنگل بیابان میں (کھانے پینے سے لدا) گمشدہ اونٹ کےمل جانے پرخوش ہوتاہے۔
(بخاری، کتاب الدعوات)
اَللّٰہُ اَکْبَرُ
بمعنیٰ اللہ سب سے بڑا ہے۔ ارشاد نبویؐ کے مطابق جب آپ پہاڑی یا اونچائی (Stairs) چڑھ رہے ہوں، تو پڑھا جاتا ہے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ
بمعنیٰ اللہ پاک ہے۔ جب پہاڑی یا اونچائی (Stairs) سے اُتر رہے ہوں تو پڑھا جاتا ہے۔
(نیشنل سلیبس صفحہ113۔114)
آنحضور ﷺ کی یہ سنت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ کسی ٹیلہ یا بلندی پر چڑھتے تکبیر (اَللّٰہُ اَکْبَرُ) اور اُترتے تسبیح (سُبْحَانَ اللّٰہِ) پڑھا کرتے تھے۔ جیسے صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی غزوہ یا حج و عمرہ سے واپس ہوتے تو جب بھی کسی بلند جگہ کا چڑھاؤ ہوتا تو تین مرتبہ ’’ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہتے اور یہ دعا پڑھتے:
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
(صحیح بخاری، باب ما یقول اذا رجع من الحج اوالعُمرۃِ اَوِ الغزو)
یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اُسی کا ہے اور حمد اُسی کے لئے ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے:
کُنَّآ اِذَا صَعِدْنَا کَبَّرْنَاوَ اِذَا نَزَلْنَا سَبَّحْنَا
(صحیح بخاری، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ التَّكْبِيرِ إِذَا عَلَا شَرَفًا حدیث نمبر3299)
کہ ہم جب چڑھائی چڑھتے تو تکبیر (اَللّٰہُ اَکْبَرُ) کہتے اور جب بلندی سے نیچے آتے تو تسبیح (سُبْحَانَ اللّٰہِ) کہتے۔
بَارَکَ اللّٰہُ
بمعنیٰ اللہ مبارک کرے۔ یہ تب کہا جاتا ہے جب پسندیدہ بات ظہور پذیر ہو یا کوئی شخص انعام سے نوازا جائے۔ کتاب المعانی میں اسکا مفہوم بَارَكَ اللّٰهُ الشَّيْءَ وَفِيْهِ وَعَلَيْهِ خیرو برکت والا کرنا، برکت دینا بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوفؓ پر زرد رنگ کا نشان دیکھا تو آپ ؐ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ گٹھلی بھر سونا مہر میں رکھ کر میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ اَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ مبارک کرے، ولیمہ بھی کرو چاہے ایک بکری ذبح کر لو۔
(بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث364 صفحہ399)
یَا اَللّٰہُ
بمعنیٰ اے اللہ! اللہ خدا تعالیٰ کا ذاتی نام ہے۔ اسے ایسے وقت میں بولا جاتا ہے جب کسی کو کوئی درد اور تکلیف پہنچے نیز دعا کے وقت بھی یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے لئے کہا جاسکتا ہے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَا جِعُوْنَ
بمعنیٰ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ کسی کی وفات یا کسی چیز کے گم جانے پر پڑھا جاتا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے بچہ کو وفات دیتا ہے تو اپنے ملائکہ سے کہتا ہے کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی رُوح قبض کی، اس پر فرشتے جواب دیتے ہیں ہاں ہمارے اللہ! پھر فرماتا ہے تم نے اس کے دل کی کلی توڑ لی۔ فرشتے جواب دیتے ہیں ہاں، ہمارے اللہ !پھر وہ پوچھتا ہے۔ اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں اس نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا اس پر اللہ تعالی کہتا ہےتم میرے اس صابر و شاکر بندے کے لئے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو۔
(بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث 589 صفحہ)
اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ
حضرت براء بن عاذب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ظ نے یوم ِ قریظہ کے دن حسان بن ثابت سے فرمایا۔ مشرکین کی ہجو کرو جبرئیل تمہارے ساتھ ہے۔ حضرت حسان ؓ جب کفار کے جواب میں ہجویہ اشعار پڑھتے تو حضورؐ ساتھ ساتھ فرماتے جاتے۔ میری طرف سے جواب دیتے جاؤ اللہ روح القدس کے ذریعہ تمہاری مدد فرمائے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث334 صفحہ375)
استقبال اور الوداع
حضرت سائب ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس آئے تو مدینہ کے لوگ ثنیات الوداع تک آپؐ کے استقبال کے لئے پہنچے۔ سائب کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ گیا تھا۔ اس وقت میں چھوٹی عمر کا لڑکا تھا۔
( حدیقۃ الصالحین حدیث488 صفحہ479)
حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آتے تو اہلِ بیعت کے بچے بھی آپؐ کے استقبال کے لئے جاتے ایک دفعہ آپؐ سفر سے آئے تو سب سے پہلے مجھے آپؐ تک پہنچایا گیا۔ آپؐ نے مجھے گود میں اٹھا لیا۔ پھر حضرت فاطمہؓ کے دو بیٹوں امام حسن ؓ اور امام حسینؓ میں سے کسی ایک کو لایا گیا۔ تو آپؐ نے اسے اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ اس طرح مدینہ منورہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ ایک اونٹ پر ہم تین سوار تھے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث489 صفحہ480)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک فوجی مہم میں بھیجے جانے والے صحابہ کو الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ بقیع الغرقد تک گئے۔ ان کو رخصت کیا اور ان کے لئے یوں دعا کی۔ اللہ کے نام پر یعنی اس کی رضا اور اس کے دین کی خدمت کے لیے جانا نصیب ہو۔ اے میرے اللہ !تو ان کی مدد کر۔ یہ مہم کعب بن اشرف کی شرارتوں کے قلع قمع کرنے کے لیے آپ نے بھیجی تھی۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث490 صفحہ480)
گھر کے اندر جانے اور اس کے لئے
اجازت لینے کے آداب
حضرت ربعی بن حراشؓ بیان کرتے ہیں کہ بنی عامر کے ایک آدمی نے ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی جب کہ آپ ؐگھر میں تشریف فرما تھے کہ اندر آ جاؤں؟ آپؐ نے اپنے خادم کو کہا۔ جاؤ اور اس سے کہو کہ اندر آنے کی اجازت اس طرح مانگتے ہیں۔ پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہیں، پھر پوچھیں کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ جب اس آدمی نے یہ بات سنی تو ایسا ہی کیا۔ سلام کہا۔ پھر عرض کیا۔ اندر آسکتا ہوں؟ حضورؐ نے فرمایا۔ اجازت ہے آجاؤ۔ چنانچہ وہ اندرحاضر ہو گیا۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 508 صفحہ490)
حضرت عطاء بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کیا میں گھر میں داخل ہوتے وقت اپنی ماں سے بھی اندر آنے کی اجازت لوں۔ حضور ؐنے فرمایا۔ ہاں اجازت لے کر گھر میں داخل ہونا چاہیے۔ اس شخص نے کہا میں تو ماں کے ساتھ ہی اس گھر میں رہتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا اجازت لے کر اندر داخل ہوا کرو۔ اس شخص نے کہا میں تو اس کا خادم ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا گھر میں اطلاع دے کر داخل ہوا کرو۔ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اپنی ماں کو ننگی حالت میں دیکھو یعنی وہ بے خیالی میں اس حالت میں بیٹھی ہو کہ اس کے جسم کے کسی حصہ پر کپڑا نہ ہو۔ اس شخص نے عرض کیا میں تو اسے پسند نہیں کرتا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا پھر اجازت لے کر اندر جایا کرو۔ یعنی بغیر اجازت خواہ اپنی ماں کا ہی گھر ہو اندر نہیں جاناچاہیے کیونکہ اکیلے ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ کپڑے وغیرہ بدل رہی ہو یا گرمی کی وجہ سے کپڑے اتار کر لیٹی ہوں۔کئی احتمالات ہیں۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 509 صفحہ491)
قبرستان جانا اور وفات یافتہ عزیزوں کے لئے دعا کرنا
حضرت بُرَیدہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سکھایا کہ ان میں سے جب کوئی قبرستان جائے تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے یعنی اے ان گھروں میں رہنے والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو۔ ہم بھی ان شاء اللہ تعالی تم سے جلد ملنے والے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت اور سلامتی چاہتا ہوں۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث 618 صفحہ578)
آداب ملاقات
حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو (اس کی حیثیت کے مطابق) اس کی عزّت و تکریم کرو۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث491 صفحہ481)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وقفہ دے کر اور کبھی کبھی ملنے سے محبت زیادہ ہوتی ہے۔ (روز روز ملنے چلے آنے سے چاہت کم ہو جاتی ہے۔)
(حدیقۃ الصالحین حدیث492 صفحہ481)
شکر کا انداز
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم درجہ کا ہے کم وسائل والا ہے۔ لیکن اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر اور اچھی حالت میں ہے۔یہ بھی شکر کا ایک انداز ہے۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث775 صفحہ714)
(درثمین احمد۔ جرمنی)