• 29 اپریل, 2024

نماز اور حضورِ قلب کے طریق و دعائیں

جب تک کسی عمل کی عظمت و اہمیت اور اس کے فوائد و خصائل اور برکات و فضائل کااحساس اور پتہ نہ ہو اس میں توجہ قائم نہیں ہو سکتی۔اسی پہلو کے پیش نظر نماز کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعو د علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور کھڑا ہوتا ہے جب انسان بندہ ہوکر لاپرواہی کرتا ہے تو خدا بھی غنی ہے۔ ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے۔ایمان کی جڑ نماز ہے۔بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے؟ اے نادانو!خدا کو حاجت نہیں تم کو حاجت ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قلب الہٰی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 292)

نماز میں حضورقلب نہ ہونے کی وجوہات

’’نماز میں توجہ قائم نہ رہنا اور حضور قلب نہ ہونا اس کی کئی وجوہات ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ سے جب اس سلسلے میں ایک شخص نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ’’اس کی اصل جڑ امن اور غفلت ہے جب انسان خدا تعالیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر امن میں ہو جاتاہے تب وساوس ہوتے ہیں۔دیکھو زلزلے کے وقت اور کشتی میں بیٹھ کر جب کشتی خوفناک مقام پر پہنچتی ہے سب اللہ اللہ کرتے ہیں اور کسی کے دل میں وساوس پیدا نہیں ہوتے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ 284)

ایک اور موقع پر ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’انسان کی کوشش سے جو حضور قلب حاصل ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ۔۔۔ وضو کرتاہے اپنے آپ کو کشاں کشاں مسجد تک لے جاتا ہے۔نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی کوشش ہے۔اس کے بعد حضور قلب کا عطا کرنا خداتعالیٰ کاکام ہے۔انسان اپناکام کرتاہے۔ خداتعالیٰ بھی ایک وقت پراپنی عطا نازل کرتاہے۔ نماز میں بے حضوری کا علاج بھی نمازہی ہے۔ نماز پڑھتے جاؤ۔ اس سے سب دروازے رحمت کے کھل جا ویں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 66)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام لفظ صلوٰۃ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نماز عبادت کامغز ہے۔جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہوتو اس کانام صلٰوۃ نہیں۔لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اوراس کی رضا کو مدنظر رکھتاہے اور ادب انکسار تواضع اورنہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلٰوۃ میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہئے۔جب ایسی حالت پہنچ جائے تب موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کانام صلوٰۃ ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 283-284)

پھرفرماتے ہیں:
’’گناہوں سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اس کے سوائے کوئی طاقت نہیں جو زور کے ساتھ پاک کردے۔ پاک جذبات کے پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ نے نما زرکھی ہے۔ نماز کیا ہے؟ ایک دعا جو درد،سوزش اور حرقت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہے تاکہ یہ خیالات اوربرے ارادے دفع ہوجاویں اورپاک محبت اورپاک تعلق حاصل ہوجائے اورخدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلنا نصیب ہو۔ صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اورجلن اور رقت طاری ہونا ضروری ہے۔‘‘

(بدر مورخہ 10 جنوری 1967ء صفحہ 12)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نماز کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نماز کے معنی ٹکریں مارنے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے۔ جہا ں تک طاقت ہے وہاں تک رقت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔ اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے۔‘‘

(البدر جلد3 نمبر 34 مورخہ 8 ستمبر 1904ء صفحہ 3)

نیز فرمایا:’’نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں کیونکہ اس میں حمد الہٰی ہے،استغفار اور درود شریف۔ تمام وظائف کا مجموعہ یہی نماز ہے لوگ پوچھتے ہیں کوئی وظیفہ سب سے بڑا وظیفہ نماز ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بھی بیان ہوتی ہے،انسان استغفار بھی کرتا ہے،درود شریف بھی پڑھتا ہے اور یہی چیزیں ایسی ہیں جو دعاؤں کی قبولیت کا نشان دکھانے والی ہیں،وجہ بننے والی ہیں۔۔۔۔۔ اور اس سے ہر قسم کے غم وہم دور ہوتے ہیں۔اورمشکلات حل ہوتی ہیں۔آنحضرت کو اگر ذرہ بھی غم پہنچتا تو آپ دعا کے لئے کھڑے ہوجاتے اوراس لئے فرمایا اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (سورۃ الرعد آیت 29) اطمینان، سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اورکوئی ذریعہ نہیں۔‘‘

(الحکم جلد7 مورخہ 31 مئی 1903ء صفحہ 9)

نماز بندے اورخدا کے تعلق کا ذریعہ ہے

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اورصدق کا خیال رکھو اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔وہ کافر اور منافق ہیں جوکہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہاکرتے ہیں کہ نماز شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہواہے نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کونماز کا مزہ نہیں آتا یہ دین کو درست کرتی ہے اخلاق کودرست کرتی ہے دنیا کو درست کرتی ہے۔نماز کا مزہ دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھران کانتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں۔اور یہ مفت کابہشت ہے جواسے ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔ نماز خواہ مخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کا ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اورکشش ہے اس رشتے کو قائم رکھنے کے لئےخداتعالیٰ نے نماز بنائی ہےاوراس میں لذت رکھ دی ہےجس سے تعلق قائم رہتا ہے جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگران کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہو تاہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتاہے۔دروازہ بند کر کے دعاکرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اورلذت پیداہوجو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ گہرا اور انوار سے پر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی جب تک وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہوجائے تواس کی چاشنی کا حصہ مل گیا۔لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 591-592)

آنحضورؐ کا طریق عمل

’’آنحضرتﷺ کی ذات اقدس ہمارے لئے بہترین اسوہ حسنہ ہے، آپ کی نمازوں کی کیفیت کا یہ حال تھا کے اتنا لمبا قیام فرماتے کہ پاؤں متورم ہو جاتے اور آپ کو اس کا احساس اور پرواہ نہ ہوتی سجدہ میں اس قدر گریہ وزاری کرتے جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز۔

حضرت مطرفؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو نما زپڑھتے دیکھا ہے آپ کی گریہ وزاری کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے چکی کے چلنے کی ہوتی ہے۔‘‘

(ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب البکاء فی الصلوۃ)

آپﷺ بھی حضور قلب کی دعا کرتے کہ:

عَنْ ثَابِتِ بْنِ سَرْحٍ رضِّيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:کَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُوْلِ اللّٰهِؐ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِي عَيْنَيْنِ ھَطَّالَتَيْنِ تَبْکِیَانِ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ وَتُشْفِقَانِ مِنْ خَشْیَتِکَ قَبْلَ أَنْ يَّکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَالْأَضْرَاسُ جَمْرًا۔ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَأَحْمَدُ

(أخرجه ابن المبارک في الزهد)

’’حضرت ثابت بن سرح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ کی دعوات مبارکہ میں سے ایک دعا مبارک یہ بھی تھی: ’’اے اللہ! مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو زور سے برسنے والی ہوں اور برستے آنسوؤں کے ساتھ روئیں اور تیرے عذاب و عتاب سے خوفزدہ ہوں، اس سے قبل کہ آنسو خون بن جائیں اور ڈاڑھیں انگارے (یعنی عذاب نار میں مبتلا ہونے سے قبل اس عذاب کا ڈر اور خوف دل میں پیدا ہو جائے تاکہ آنکھیں آنسوؤں کے ذریعے اس آگ کو بجھا لیں اور اس کا ملاحظہ کرنے سے پہلے ہی اس کے بچاؤ کی تدبیر کر لیں)۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن المبارک اور احمد نے روایت کیا ہے۔

صحابہؓ رسول کا نماز میں محویت کا عالم

’’صحابہؓ رسول کی نماز میں محویت کا عجیب عالم ہوتا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہ جب نمازیں پڑھاکرتے تھے توانہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارغ ہوتے توایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے۔ جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہےتو شریعت نے حکم دیا ہے کہ آکر السلا م علیکم کہے۔نماز سے فارغ ہونے پر السلا م علیکم ورحمۃ اللہ کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اللہ اکبر کہا تو وہ گویا اس عالم سے نکل گیا اورایک نئے جہاں میں جا داخل ہوا گویا ایک مقام محویت میں جا پہنچا۔پھر جب وہاں سے واپس آیا توپھر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر آن ملا۔ لیکن صرف ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل پر اس کا اثر نہ ہو چھلکوں سے کیا ہاتھ آسکتا ہے۔ محض صورت ہونا کافی نہیں حال ہونا چاہئے۔علت غائی حال ہی ہے۔مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا تو وہ الٹی ہلا کت کی راہیں ہیں۔ انسان جب حال پیدا کرلیتا ہے اور اپنے حقیقی خالق و مالک سے ایسی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کاعالم اس پر طاری ہو جاتا ہے۔ تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتاہے اور ذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 33)

نماز میں ذوق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ
اپنی زبان میں دعا کرنا

’’نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنے سے بھی توجہ اورحضور قلب حاصل ہوتا ہو۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس حوالے سے فرماتے ہیں نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہئےکیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ اسی طرح اپنی زبان میں پڑھنا چاہئےاورقرآن شریف کا حصہ جواس کے بعد پڑھا جاتاہے وہ بھی عربی زبان میں پڑھنا چاہئےاوراس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اس طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئےلیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہئے اورپھر ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہئے تاکہ حضورِدل پیدا ہوجائے کیونکہ جس نماز میں حضورِ دل نہیں وہ نماز نہیں آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز کوٹھونگےدارپڑھ لیتے ہیں۔جلدی جلدی نماز ادا کرلیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہےپھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کردیتے ہیں۔یہ بِدعت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ 54)

حضورِقلب کے لئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا

حضرت پیر سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم زیادہ پڑھو اور اس قدر پڑھو کہ ہاتھ پیر اور تمام بدن دکھ جاوے تو کچھ اپنی جان پر رحم آوے گا اورکچھ تکان ہوگا اورپھر خدا تعالیٰ کے رحم پر نظر ہوگی اور اس کے بعد خداتعالیٰ بھی رجوع برحمت ہوگا اور دریائے رحمت الہٰی جو ش مارے گا اورپھرحضور اور خشوع و خضوع اورلذت اورذوق و شوق پیداہوجائے گا۔ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرلیتے ہیں اوربعد میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں اوردیر لگاتے ہیں نظر کہیں ہوتی ہے،ہاتھ کہیں ہوتے ہیں،دل کسی اورطرف لگا ہوتا ہے،حضور کہاں سے ہوحضور اورذوق جس کو حلاوتِ ایمانی کہتے ہیں وہ تو نماز میں ہونی چاہئے بعض لوگ راگ اوردوسروں سے حضور اور تضرع اورذوق حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فضول ہے وہ ایک آنی اورعارضی ذوق ہوتا ہے جو پائیدار نہیں ہوتاجس کو ایک بار سچا اورحقیقی تضرع حاصل ہوجائے۔قیام رکوع سجدہ میں بہت دیر لگانی چاہئے اور تہجد کی نماز پڑھنی چاہئے۔میں نے کہا سستی کابھی کوئی علاج ہے؟فرمایااس وقت غسل کر لیا کرو سستی دفعہ ہوجائے گی۔ہم بھی غسل کر لیا کرتے ہیں۔نمازِ تہجد سے انسان مقامِ محمود تک پہنچ جاتاہے۔مقامِ محمود وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ انسان کی حمد کرتا ہے۔پھر فرمایاقوالی تو سنی ہوگی میں نے عرض کی ہاں سنی ہوئی ہے۔فرمایا وجد آیا؟ عرض کیا ہاں آیا۔فرمایا کہ دیکھوعین قوالی کے وقت وجد آتاہے قوالی کے بعد نہیں آتا اس طر ح نماز کے اندر انسان کو وجد آنا چاہئے جو حقیقی وجد ہے اورقوالی کے وقت عارضی وجد ہے جو آناًفاناً سب ذوق جا تارہتا ہےاورنماز کا ذوق و شوق وجد حقیقی ہے جو ہمیشہ رہتاہے۔ایک دفعہ فرمایاحقیقی رونا آجاوے تو ہسنا کیسا؟لوگ قوالی میں روتے ہیں وجد کرتے ہیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہی کیفیت جاتی رہتی ہے جو عارضی ہوتی ہے اوربعد میں سب منہیات اورمعاصی کے اس طرح پابند رہتے ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے حقیقی لذت اوروجد کو قرآن شریف میں فرمایا کہ

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ

(العنکبوت:45)

یہ بات قوالی سننے والوں کو نصیب نہیں ہوتی ہے۔کیونکہ وہ عارضی ہے ذوقِ حقیقی سے ذوقِ عارضی کو کیا نسبت ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ نماز میں لذت و سرور اور ذوق و شوق کیونکر حاصل ہو۔فرمایا تم نے کبھی شراب پینے والوں کو دیکھا ہے۔عرض کیا ہاں دیکھا ہے۔فرمایااگرایک پیالی شراب میں نشہ نہ ہو تو شرابی کیا کرے گا۔عرض کیا اور پئیے گا فرمایا تب بھی نشہ نہ ہو اتو پھر۔عرض کیا اور پی لے گا فرمایا کب تک۔عرض کیا جب تک نشہ نہ ہو۔فرمایا یہی حال نماز میں پیدا کرو۔نماز کا ذوق اورحضور قلب نماز سے ہی ملے جب تک لذت وسرورحاصل نہ ہو جائے۔نماز کو زیادہ دیر تک پڑھو۔لذت وسرور سب کچھ حاصل ہوجائے گا فرمایاانسان کی حالت زمین کی سی ہے بعض جگہ پانچ سات ہاتھ پر پانی نکل آتا ہے بعض مقام پر دس بیس پر پانی نکلتا ہے۔سو انسان جس قدر جدوجہد کرے گا اسی قدر جلد پانی نکلے گا۔انسان کو دعاؤں اور نمازوں میں تھکنا اورماندہ ہونا نہیں چاہئے۔جیسے کنواں کھودنے والے ناامید نہیں ہوتے ایک روز ایسا ہوتا کہ پانی نکل آتا ہے۔سو نماز پڑھنے والا کبھی نہ کبھی رحمت الہٰی کے چشمہ کو پالیتا ہےاورذوق وشوق کماحقہ حاصل کر لیتاہے اور یہی انسان کی سعادت اوراس کی خلقت کی علت غائی ہے۔‘‘

(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 150-152 موٴلفہ پیر سراج الحق نعمانی)

متقی کی ایک صفت قیام صلوۃ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام متقی کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’متقی کی دوسری صفت یہ ہے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ یعنی وہ نماز کو کھڑا کرتے ہیں۔متقی سے جیسا ہو سکتا ہے نماز کھڑی کرتا ہے۔یعنی کبھی اس کی نماز گرتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اورخطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کراس کے حضور میں حارج ہوجاتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں لیکن یہ نفس اس کی کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے۔ کبھی نماز گرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعے ہدایت عطا کرتاہے۔ اس کی ہدایات کیا ہوتی ہیں؟ اس وقت بجائے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس غیب کے ذریعے سے انہیں وہ مقام عطا کرتاہے جس کی نسبت فرمایاہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لئے بمنزلہ غذا ہوجاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطاکیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور خوب سیر ہوکر حظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہواوراسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھانامل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے۔یہی حالت پھر نماز میں ہوجاتی ہے۔وہ نماز اس کے لئے ایک قسم کا نشہ ہوجاتی ہےجس کے بغیر وہ سخت کرب اور اضطراب محسوس کرتاہے لیکن نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اورلذت محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پاسکتااورنہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہو سکتی ہےاورانسان ترقی کرکے ایسی حالت میں پہنچ جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے ذاتی محبت ہوجاتی ہے اوراس کو نماز کھڑا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لئے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے۔اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہوجاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے۔ انسان پر ایسی حالت ہے کہ اس کی محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے۔اس میں کوئی تکلیف اور بناوٹ نہیں ہوتی۔ جس طرح پر حیوانات اوردوسرے انسان اپنے موکولات اور مشروبات اور دوسری لذت اٹھاتے ہیں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے۔ اس لئے نماز کو خوب سنوار کر پڑھنا چاہئے۔ نماز ساری ترقی کی جڑ او ر زینہ ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ،راست باز قطب گذرے ہیں۔ انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے؟ اسی نماز کے ذریعے۔خود آنحضرت فرماتے ہیں کہ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت انسان جب اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تواس کے لئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 604-605)

نماز میں حضور وتوجہ حاصل کرنے کا طریق اور دعا

مولوی نظیر حسین سخا دہلوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نماز میں حصول حضور اور توجہ کا طریق تحریراًدریافت فرمایااس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر فرمایا:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ

طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسر ی اور بے خیال نماز پر خوش نہ ہو بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں اور اگر توجہ پیدا نہ ہو توپنج وقت ہر ایک نماز میں خداتعالیٰ کے حضور میں بعد ہرایک رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں کہ
’’اے قادرو مطلق ذوالجلال! میں گنہگار ہوں اوراس قدر گناہ کی زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اورمیری تقصیرات معاف فرمااورمیرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اوراپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میسر آوے۔‘‘

اوریہ دعا صر ف قیام پر ہی موقوف نہیں بلکہ رکوع میں اورسجدے میں اور التحیّات کے بعد بھی یہی دعا کریں اوراپنی زبان میں کریں دعا کرنے میں ماندہ نہ ہوں اورتھک نہ جا ویں بلکہ پورے صبر اور استقلال سے اس دعا کو پنج وقت کی نمازوں میں اور نیز تہجد کی نما ز میں کر تے رہیں۔اور بہت بہت خدا تعالیٰ سے اپنے گنا ہوں کی معافی چاہیں کیونکہ گناہ کے باعث دل سخت ہوجاتے ہیں ایسا کرو گے تو ایک وقت میں یہ مراد حاصل ہو جائے گی۔مگر چاہئے کہ اپنی موت کو یاد رکھیں۔آئندہ زندگی کے دن تھوڑے سمجھیں اور موت قریب سمجھیں۔یہی طریق حصول حضور کا ہے۔‘‘

(الحکم 24 مئی 1904ء)

حضورِ نماز کی ایک اور دعا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نماز میں رقت، حضو رقلب اور لذت کی ایک اور دعا سکھلائی ہے۔فرماتے ہیں:
’’نماز کیا چیز ہے۔نماز دراصل رب العزۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اورنہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اس پراپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی اس وقت اس کی نمازوں میں لذت اورذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزہ آتا ہے اسی طرح پھر گریہ وبکا کی لذت آئے گی اوریہ حاجت جو نماز کی ہے پید اہوجائے گی اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہواسی طرح بے ذوقی نما ز کو پڑھنا اوردعائیں مانگنا ضروری ہیں اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کرکے کہ اس سے لذت اور ذوق پیداہویہ دعا کرے۔‘‘

’’اے اللہ! تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نا بینا ہوں اور میں اس وقت بالکل ایک مردہ حالت میں ہوں اور میں جا نتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا اس وقت مجھے کو ئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور نا شناسا ہے توایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہوجائے توا یسا فضل کر کہ میں نا بینا نہ اٹھوں اوراندھوں میں نہ جا ملوں۔

جب اس قسم کی دعا مانگے گا اواراس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی نما زمیں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کردے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 615-616)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا:
’’یاد رکھو کہ اگر موجودہ ٹکروں والی نماز ہزار برس بھی پڑھی جاوے تو ہرگز فائدہ نہ ہوگا نماز ایسی شےہے کہ اس کے ذریعہ آسمان انسان پرجھک جا تا ہے۔نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اوراس کی روح گداز ہو کرخدا کے آستانہ پر گری پڑی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ 627)

’’فرمایا سوتم نمازوں کو سنوارو۔۔۔غفلت کی نماز کوترک کرو نماز وہی ہے جو کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے تک پورے خشوع و خضوع اورحضور قلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو۔۔۔اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری نماز اداکرو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 176۔177)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’نماز کی یہ خاصیت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹادیتی ہے۔ سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 103)

فرمایا:
’’غرض یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں اورسب بلائیں دور ہوتی ہیں۔مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں۔بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گدازہوجاتاہے اورآستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہوجاتاہے کہ پگھلنے لگتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 402)

فرمایا:
’’نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدرطبعی جو ش اورذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجاوے جو لذات روحانیہ سے سراسرمعمور ہو اور دنیاوی رذائل اور انواع اقسام کے معاصی قولی،فعلی اور بصری اورسماعی سے دل متنفر کردے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جل 22 صفحہ 6)

حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نماز ظاہری پاکیزگی،ہاتھ منہ دھونے اورناک صاف کرنے اور شرمگاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ جیسے میں اس ظاہری پاکیزگی کوملحوظ رکھتاہوں اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور سچی طہارت عطا کر اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور قدوسیت،مجددیت پھرربویت،رحمانیت،رحیمیت،اوراس کے سبحانیت کے ملک ملک میں تصرفات اوراپنی ذمہ داریوں کویاد کر کے اس قلب کے ساتھ ماننے کو تیار ہوں سینہ پرہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتاہوں۔اس قسم کی نماز جب پڑھتاہے اور پھراس کی خاصیت اور اثر پیداہوتاہے۔۔۔

پھر پاک کتاب کا کچھ حصہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ میری عبودیت اورنیازمندی کی انتہاء بجز سجدے کے اورکوئی نہیں۔جب اس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیازمندی اور سچائی جب اعضاء اور جوارح پر اثر کر چکی تو اورجوش مارکر ترقی کرے گی۔‘‘

(خطبات نور صفحہ 126)

ہمارے پیارے اما م سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’اگر نمازوں میں روروکر اپنے رب سے مانگیں گے تو اپنے دعوؤں کے مطابق ضرور ہماری دعائیں سنے گا۔پس سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنی نمازوں کو،اپنی دعاؤں کو،اس کے لئے خالص کرنا ہوگا۔اوریہی بنیادی چیز ہے۔اگر نمازوں میں ذوق اورسکون میسرآگیا توسمجھیں سب کچھ مل گیا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 220)

پھر ہمارے پیارے سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’ہمیشہ یاد رکھیں! اس زمانے کے امام کومان کر ہمیں اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کر نا ہوگا۔ وہ نمازیں پڑھنی ہوں گی جو ہر قسم کی برائیوں سے روک رہی ہوں۔ وہ نمازیں پڑھنی ہو ں گی جو نیک عمل کی طرف آگے بڑھانے والی ہوں۔اگر ہمارا نمازیں پڑھنا ہماری زندگیوں میں انقلاب نہیں لا رہا تو بڑے فکر کی ضرورت ہے۔۔۔۔ پس ہر احمدی کو ہمیشہ یا د رکھنا چاہئے کہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے جو مجاہدہ کرنا ہے اس میں پہلے خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبا دت اور نمازوں کی ادائیگی ہے۔دعاؤں اور ذکرالہٰی کی طرف توجہ ہے۔پھر اپنی توفیق کے مطابق صدقہ و خیر ات کرنا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد6 صفحہ8)

ہمارے پیارے امام سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’وہ نمازیں پڑھوجو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں صرف دکھاوے کی نمازیں نہ ہوں۔۔۔ان میں باقاعدگی بھی ہو اور پھر اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہوں۔‘‘

(خطبا ت مسرور جلد6 صفحہ78)

پھرایک اور موقع پر فرمایا:
’’نماز ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مومن مومن نہیں کہلاسکتا۔اور پھریہ کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے،سنوار کرادا کرنی ہے۔نماز کو جلدی جلدی اس لئے ادانہیں کرنا کہ میں نے اس کے بعد اپنے دنیاوی جھمبیلوں کونمٹاناہے۔نمازسنوار کر پڑھنے میں بہت سے لوازمات شامل ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ186)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم تمام نصائح پر عمل کرتے ہوئے وہ نمازیں پڑھیں جو خداتعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں اور لذت و سرور سے بھرپور ہوں آمین۔

(مبارک احمد معین)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 3)