• 11 دسمبر, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 26؍نومبر 2021ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍نومبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

اللہ اکبر! ان دونوں (ابوبکرؓ و عمر ؓ) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے!
وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے(حضرت مسیح موعودؑ)

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت عمرؓ کے دربار میں علم رکھنے والے خاص طور پر

قرآن کریم کا علم رکھنے والوں کا بڑا مقام

تھا چاہے وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں یا بچے ہیں یا بڑے ہیں۔ بخاری میں ایک روایت ہے حضرت ابن عباسؓ نے کہا عُیَیْنَہ بن حِصن بن حُذَیفہ مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے حُرْ بِن قَیس کے پاس اترے اور حُرْ بِن قیس ان لوگوں میں سے تھے جن کو حضرت عمرؓ اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور قاری یعنی قرآن کے عالم ہی، بڑی عمر کے ہوں یا جوان، مجلس میںحضرت عمرؓ کے قریب بیٹھنے والے تھے، ان کو مشورہ دینے والے ہوتے تھے۔ عُیَینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے بھتیجے! اس امیر کے پاس تمہاری وجاہت ہے۔ اس لیے میرے لیے ان کے پاس آنے کی اجازت مانگو۔ حُر بن قیس نے کہا: میں تمہارے لیے ان کے پاس آنے کی اجازت لے لوں گا۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے تھے چنانچہ حُرنے عُیینہ کے لیے اجازت مانگی اور حضرت عمرؓ نے ان کو اجازت دی۔ جب عُیینہ ان کے پاس آیا تو اس نے کہا خطاب کے بیٹے یہ کیا بات ہے۔ اللہ کی قَسم! نہ تو آپؓ ہم کو بہت مال دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان اور ہمارے مال کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ ناراض ہو گئے یہاں تک کہ اس کو کچھ کہنے کو ہی تھے کہ حُرنے حضرت عمرؓ سے عرض کیا امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے۔ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ ۔(الاعراف: 200) یعنی اے نبی! ہمیشہ عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر اور یہ عُیینہ جاہلوں میں سے ہی ہے۔ اللہ کی قسم ! جب حُر نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی تو حضرت عمرؓ وہیں رک گئے اور کچھ نہیں کہا اور حضرت عمرؓ کتاب اللہ کو سن کر رک جاتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب التفسیر سورة الاعراف باب خذالعفو…حدیث 4642)

حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمرؓ کے دربار کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک امیر آیا۔ اس نے اس بات کو بہت مکروہ سمجھا کہ ایک دس برس کا لڑکا بھی بیٹھا ہے کہ ایسی عالیشان بارگاہ میں لونڈوں کو کیا کام؟ اتفاق سے حضرت عمرؓ اس امیر کی کسی حرکت پر ناراض ہوئے۔ جلاد کو بلایا۔ وہی لڑکا پکار اٹھا۔ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ (آل عمران: 135) اور پڑھا وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ۔(الاعراف: 200) اور کہا ھٰذَا مِنَ الْجَاهِلِيْن۔ حضرت عمرؓ کا چہرہ زرد ہو گیا اور خاموش رہ گئے۔ اس وقت اس کے بھائی نے‘‘ یعنی اس شخص کے بھائی نے جو بول رہا تھا ’’کہا۔ دیکھا اسی لونڈے نے تمہیں بچایا ہے جس کو تم حقیر سمجھتے تھے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ122)

حضرت عمرؓ بچوں کی تربیت کس طرح کیا کرتے تھے۔

اس بارے میں ایک روایت ہے۔ یوسف بن یعقوب نے کہا: ابن شہاب نے مجھے اور میرے بھائی کو اور میرے چچا کے بیٹے کو جبکہ ہم کم سن بچے تھے کہا تم اپنے آپ کو بچہ ہونے کی وجہ سے حقیر نہ سمجھنا کیونکہ حضرت عمرؓ کو جب کوئی معاملہ درپیش آتا تو آپ بچوں کو بلاتے اور ان سے بھی اس غرض سے مشورہ لیتے کہ آپ ان کی عقلوں کو تیز کرنا چاہتے تھے۔

(سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ165۔ مکتبہ مصریة الازھر)

جنگ احد میں جب جنگ کا پانسا پلٹا اور مسلمانوں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا تو اس وقت ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا۔ یہاں

حضرت عمرؓ کی غیرت

کا سوال ہے کہ کیا ان لوگوں میں محمد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا: کیا لوگوں میں ابوقحافہ کا بیٹا ہے؟ پھر تین بار پوچھا: کیا ان لوگوں میں ابن خطاب ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا یہ جو تھے وہ تو مارے گئے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے: اے اللہ کے دشمن ! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے۔ جن کا تم نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں اور جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لیے بہت کچھ باقی ہے۔ ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکہ کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب……حدیث نمبر 3039)

پھر

بیت المال کے اموال کی حفاظت اور نگرانی میں کس حد تک محتاط تھے۔

اس بارے میں روایت ہے۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے دودھ پیا۔ آپ کو وہ پسند آیا۔ کسی نے گلاس میں دودھ دیا، آپؓ نے پیا اور پسند آیا۔ آپؓ نے اس شخص سے پوچھا جس نے آپؓ کو دودھ پلایا تھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اس نے آپؓ کو بتایاکہ وہ ایک چشمہ پر گیا جس کا اس نے نام بھی لیا۔ وہاں زکوٰة کے اونٹوں کو لوگ پانی پلا رہے تھے۔ انہوں نے میرے لیے ان کا دودھ دوہا جس کو میں نے اپنے اس پانی پینے والے برتن میں ڈال لیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کر کے اس کو نکال دیا۔(مؤطا امام مالک کتاب الزکاۃ باب ماجاء فی أخذ الصدقات والتشدید فیھاحدیث 31 دار احیاء التراث العربی بیروت 1985ء) کہ یہ زکوٰة کا مال ہے۔ یہ میں نہیں پیوں گا۔

بَراءَ بن مَعْرُور کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمرؓ گھر سے نکلے یہاں تک کہ آپؓ منبر پر تشریف لائے۔ آپؓ اس وقت بیمار تھے۔ آپ کی اس بیماری کے لیے شہد تجویز کیا گیا۔ بیت المال میں شہد کا برتن موجود تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو میں اسے لے لیتا ہوں ورنہ یہ مجھ پر حرام ہے تو لوگوں نے اس بارے میں آپ کو اجازت دے دی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 147 ذکر استخلاف عمر مطبوعہ دارا لاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

بیت المال کے اموال کی حفاظت کا کس قدر خیال تھا اس بارے میں یہ واقعہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ مختصر بیان کرتا ہوں کہ ایک دوپہر کو شدید گرمی میں پیچھے رہ جانے والے دو اونٹوں کو خود ہانک کر آپؓ چراگاہ میں لے کر جا رہے تھے کہ کہیں ادھر ادھر گم نہ ہو جائیں۔ اتفاق سے حضرت عثمانؓ نے جب دیکھا تو کہا کہ یہ کام ہم کر لیتے ہیں، آپؓ سائے میں آ جائیں۔تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم لوگ آرام سے سائے میں بیٹھو۔ یہ میرا کام ہے۔ یہ مَیں ہی کروں گا۔

(ماخوذ از اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد3 صفحہ667 عمربن الخطاب مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان2003ء)

اس واقعہ کو حضرت مصلح موعوؓد یوں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسلمانوں کو مال دیا، دولت دی، عزت دی، رتبہ دیا مگر وہ اسلام سے غافل نہیں ہو گئے۔ یہ بیان فرما رہے ہیں کہ تم لوگوں میں کچھ ہے تو اپنے دین سے غافل نہ ہو، اسلام کی تعلیم سے غافل نہ ہو، اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ باہر قُبّہمیں بیٹھا ہوا تھا اور اتنی شدید گرمی پڑ رہی تھی کہ دروازہ کھولنے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اتنے میں میرے غلام نے مجھے کہا۔ دیکھئے شدید دھوپ میں باہر ایک شخص پھر رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص میرے قُبّہ کے قریب پہنچا اور میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمرؓ ہیں۔ ان کو دیکھتے ہی میں گھبرا کر باہر نکلا اور میں نے کہا اس گرمی میں آپؓ کہاں؟ حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ بیت المال کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا جس کی تلاش میں مَیں باہر پھر رہا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آگے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَ۔ وہ ہوں گے تختوں پر مگر ہر وقت نگرانی ان کا کام ہو گا۔ دنیا کی نعمتیں اور دنیا کے آرام ان کو سست نہیں بنائیں گی۔ وہ ان اَرَآئِک کے اندر سو نہ رہے ہوں گے بلکہ بیدار اور ہوشیار ہوں گے۔ لوگوں کے حقوق کی دیکھ بھال کریں گے اور اپنے فرائض منصبی کو پوری خوش اسلوبی سے ادا کرتے چلے جائیں گے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد8 صفحہ315،314)

مساوات کے قیام

کے بارے میں روایت آتی ہے۔ سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے۔ حضرت عمرؓ کو یہودی کی طرف حق معلوم ہوا تو انہوں نے اس کے موافق فیصلہ کیا۔ پھر یہودی بولا اللہ کی قسم ! تم نے سچا فیصلہ کیا ہے۔

(مؤطا امام مالک کتاب الاقضیۃ باب الترغیب فی القضاء بالحق روایت نمبر 1425مکتبہ دار الفکر 2002ء)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ مصر کا ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا اے امیرالمومنین! میں ظلم سے آپؓ کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: تُو نے اچھی پناہ گاہ ڈھونڈی ہے۔ اس نے کہا میں نے عمرو بن عاصؓ کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا اور میں اس سے آگے نکل گیا۔ اس پر وہ مجھے کوڑے مارنے لگا اور کہا میں معزز فرد کا بیٹا ہوں۔ تمہیں یہ جرأت کس طرح ہوئی کہ میرے سے آگے نکلو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا اور انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ آئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا مصری کہاں ہے؟ کوڑا لو اور حضرت عمرو بن عاصؓ کے اس لڑکے کو مارو۔ وہ اسے مارنے لگا۔ اور حضرت عمرؓ فرما رہے تھے، اس مصری شخص کو کہہ رہے تھے کہ ’معزز فرد کے بیٹے کو مار۔‘ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ اس نے اسے مارا اور ہم اس کے مارنے کو پسند کر رہے تھے۔ وہ اسے مسلسل کوڑے مارتا رہا یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ اب چھوڑ دے۔ پھر حضرت عمرؓ نے اس مصری شخص سے کہا کہ عمرو بن عاصؓ کے سر پر مارو۔ تو اس (مصری) نے کہا کہ اے امیر المومنین! ان کے بیٹے نے مجھے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے۔ تو حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ سے کہا: تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے؟ حضرت عمرو بن عاصؓ نے عرض کیا اے امیر المومنین! نہ مجھے اس واقعہ کا علم تھا اور نہ وہ مصری میرے پاس آیا۔

(کنز العمال کتاب الفضائل مجلد السادس روایت نمبر 36005 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس کچھ مال آیا اور آپؓ اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے لگے۔ لوگوں نے بھیڑ لگا دی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ لوگوں سے مزاحمت کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور آپؓ تک پہنچ گئے۔ آپؓ نے انہیں ایک درہ لگایا اور کہا: تم زمین میں اللہ کے سلطان سے نہیں ڈرے اور اژدھام کو چیرتے ہوئے آگے نکل آئے تو میں نے سوچا کہ تم کو بتا دوں کہ اللہ کا سلطان بھی تم سے قطعًا نہیں ڈرتا۔

(سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ97 دارالمعرفۃ بیروت)

حضرت عمرؓ میں وسعتِ حوصلہ

کس حد تک تھی۔ اس بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! تم میں کوئی بھی شخص اگر مجھ میں ٹیڑھا پن دیکھے تو اسے سیدھا کر دے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا اگر ہم آپؓ میں ٹیڑھا پن دیکھیں گے تو اسے اپنی تلواروں سے سیدھا کریں گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس امّت میں ایسا بھی آدمی پیدا کیا ہے جو عمر کے ٹیڑھے پن کو اپنی تلوار سے سیدھا کرے گا۔

(سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ106 دارالمعرفۃ بیروت)

حضرت عمرؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: مجھے بھلائی کا حکم دے کر، برائی سے روک کر اور مجھے نصیحت کر کے میری مدد کرو۔

(سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ107 دارالمعرفۃ بیروت)

پھر ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیوب سے مجھے آگاہ کرے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ 222 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر حضرت عمرؓ کا ایک قول بیان کیا جاتا ہے کہ مجھے خوف ہے کہ مَیں غلطی کروں اور میرے ڈر سے کوئی مجھے سیدھا راستہ نہ دکھائے۔

(سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ107 دارالمعرفۃ بیروت)

ایک دن آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور مجمع عام کے سامنے کہنے لگا: اے عمر! اللہ سے ڈرو۔ بعض لوگ اس کی بات سن کر سخت غصہ ہو گئے اور اسے خاموش کرانا چاہا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اس سے کہا: تم میں کوئی خیر نہیں اگر تم عیب کو نہ بتاؤ اور ہم میں کوئی خیر نہیں اگر ہم اس کو نہ سنیں۔ (سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ107 دارالمعرفۃ بیروت) یعنی اسے کہا صرف یہ بات نہ کرو بلکہ معین کر کے بتاؤ کہ کیا بات کرنا چاہتے ہو۔

ایک دن حضرت عمرؓ لوگوں کے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؓ نے اتنا ہی کہا تھا اے لوگو! سنو اور اطاعت کرو کہ ایک آدمی نے بات کاٹتے ہوئے کہا: اے عمر! نہ ہم سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے نرمی سے پوچھا اللہ کے بندے! کیوں؟ اس نے کہا: اس لیے کہ بیت المال سے جو کپڑا سب میں تقسیم کیا گیا اس سے لوگ صرف قمیص بنوا سکے۔ جوڑا مکمل نہیں ہوا اور آپؓ کو بھی اتنا ہی کپڑا ملا ہوگا۔ پھر آپؓ کا جوڑا کیسے تیار ہو گیا؟ حضرت عمرؓ نے کہا: اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور پھر اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا۔ عبداللہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو اپنے حصہ کا کپڑا دیا ہے تاکہ ان کا لباس مکمل ہو جائے۔ یہ سن کر سب لوگ مطمئن ہو گئے اور اس آدمی نے کہا۔ اے امیر المومنین! اب سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔

(سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ107 دارالمعرفۃ بیروت)

بعض اس قسم کے اجڈ بھی ہوتے تھے لیکن اس قسم کی باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تربیت یافتہ صحابہ تھے ان کے منہ سے کبھی آپ نہیں سنیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو دیر سے مسلمان ہوئے، یا پھر بالکل ہی اجڈ، اَن پڑھ اور جاہل تھے۔ جو کبار صحابہ تھے ان میں ایسی باتیں نہیں پائی جاتی تھیں ان میں کامل اطاعت ہوتی تھی۔

اسلام مذہبی امور میں آزادی دیتا ہے۔

اس بارے میں حضرت عمرؓ کا طریق کیا تھا ۔ فتح اسکندریہ کے بعد وہاں کے حاکم نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو پیغام بھیجا کہ اے اقوامِ عرب! میں تم سے زیادہ قابل نفرت قوموں یعنی اہلِ فارس اور روم کو جزیہ ادا کرتا تھا۔ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کو جزیہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ آپ میرے علاقے کے جنگی قیدیوں کو لوٹا دیں۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے دربارِ خلافت میں تمام حالات لکھے۔ حضرت عمرؓ کا جواب آیا کہ تم حاکم اسکندریہ کے سامنے یہ تجویز رکھو کہ وہ جزیہ ادا کرے مگر جو جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں ہیں یعنی مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں انہیں اختیار دیا جائے گا کہ وہ اسلام قبول کریں یا اپنی قوم کے مذہب کو برقرار رکھیں۔ جو مسلمان ہو جائے گا وہ مسلمانوں میں شامل ہو گا اور اس کے حقوق و فرائض انہی جیسے ہوں گے یعنی مسلمانوں جیسے مگر جو اپنی قوم کے مذہب پر برقرار رہے گا اس پر وہی جزیہ مقرر کیا جائے گا جو اس کے ہم مذہبوں پر ہو گا۔ چنانچہ عمرو بن عاصؓ نے تمام قیدیوں کو جمع کیا اور ان کو فرمانِ خلافت پڑھ کر سنایا گیا تو بہت سے قیدی مسلمان ہو گئے۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2 صفحہ512-513۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

مذہبی آزادی میں آپ کس قدر محتاط تھے۔

اس بارے میں ایک واقعہ ہے۔ ایک دفعہ ایک بوڑھی نصرانی عورت اپنی کسی ضرورت سے حضرت عمرؓ کے پاس آئی تو آپؓ نے اس سے کہا مسلمان ہو جاؤ محفوظ رہو گی۔ اللہ نے محمدؐ کو حق کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس نے جواب دیا میں بوڑھی عورت ہوں اور موت میرے قریب ہے ۔آپؓ نے اس کی ضرورت پوری کر دی لیکن ڈر ے کہ کہیں آپؓ کا یہ کام اس کی ضرورت سے غلط فائدہ اٹھا کر اسے مجبورا ًمسلمان بنانے کے مترادف نہ ہو جائے۔ اس لیے آپؓ نے اس عمل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور کہا اے اللہ! مَیں نے اسے سیدھی راہ دکھائی تھی اسے مجبور نہیں کیا تھا۔ بہت احتیاط تھی۔

(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطاب از ڈاکٹر علی محمد الصلابی ۔ صفحہ101۔دار المعرفۃ بیروت 2007ء)

پھر ایک واقعہ ہے۔ حضرت عمرؓ کا ایک عیسائی غلام تھا اس کا نام اَشَق تھا اس کا بیان ہے کہ میں حضرت عمرؓ کا غلام تھا۔ آپؓ نے مجھ سے کہا مسلمان ہو جاؤ تا کہ مسلمانوں کے بعض معاملات میں تم سے مدد لے لیا کروں کیونکہ ہمارے لیے مناسب نہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں ان لوگوں سے مدد لوں جو غیر مسلم ہیں لیکن میں نے انکار کر دیا، غلام نے کہا۔ تو آپؓ نے فرمایا لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ دینِ اسلام میں زبردستی نہیں۔ جب آپؓ کی وفات قریب ہوئی تو آپؓ نے مجھے آزاد کر دیا اور کہا تمہاری جہاں مرضی ہو چلے جاؤ۔

(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطابؓ شخصیت اور کارنامے، ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم اردو صفحہ184، مکتبہ الفرقان، مظفر گڑھ، پاکستان)

جانوروں پر شفقت اور رحم دلی کا واقعہ۔

اَحْنَف بن قَیس کا بیان ہے کہ ہم عمر بن خطابؓ کے پاس ایک وفد کی شکل میں فتحِ عظیم کی خوشخبری لے کر آئے۔ آپؓ نے پوچھا آپ لوگ کہاں ٹھہرے ہو؟ میں نے کہا فلاں جگہ۔ پھر آپؓ میرے ساتھ چل پڑے۔ ہماری سواری کے اونٹوں کے باڑے یعنی ان کے باندھنے کے مقام تک پہنچے اور ایک ایک کو غور سے دیکھنے کے بعد فرمانے لگے کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اللہ سے خوف نہیں کھاتے! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان کا بھی تم پر حق ہے؟ انہیں کھلا کیوں نہ چھوڑ دیا کہ گھاس وغیرہ چرتے۔

(سیرت عمر بن خطاب از علی محمدالصلابی صفحہ 171 دارالمعرفۃ بیروت)

حضرت عمرؓ نے ایک اونٹ دیکھا جس پر بے بسی اور بیماری کے آثار بالکل نمایاں تھے۔ سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنا ہاتھ اونٹ کی پشت پر ایک زخم کے پاس رکھا اور خود کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تیرے بارے میں اللہ کے ہاں میری بازپرس نہ ہو۔

(الطبقات الکبریٰ باب ذکر استخلاف عمر جلد 3صفحہ 217 دارالعلمیۃ بیروت)

پھر ایک روایت اسلم سے ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے فرمایا میرے دل میں تازہ مچھلی کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یَرْفَا (حضرت عمرؓ کے غلام کا نام ہے) سواری پر سوار ہوا اور آگے پیچھے چار میل تک دوڑا کر ایک عمدہ مچھلی خرید کر لایا۔ پھر سواری کی طرف متوجہ ہوا اور اسے غسل دیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ بھی آ گئے اور فرمانے لگے چلو یہاں تک کہ آپؓ نے سواری کو دیکھ کر فرمایا۔ تم اس پسینہ کو دھونا بھول گئے ہو جو اس کے کان کے نیچے ہے۔ تم نے عمر کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک جانور کو تکلیف میں مبتلا کر ڈالا ہے۔ اللہ کی قسم!عمر تیری اس مچھلی کو نہیں چکھے گا۔

(کنز العمال کتاب الفضائل مجلد السادس صفحہ 287 روایت نمبر35966 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے پاس گرمی کے موسم میں دوپہر کے وقت عراق سے ایک وفد آیا۔ اس میں اَحْنَف بن قَیس بھی تھے۔ حضرت عمرؓ سر پر پگڑی باندھ کر زکوٰة کے ایک اونٹ کو تارکول وغیرہ لگا رہے تھے۔ آپؓ نے فرمایا اے اَحْنَف! اپنے کپڑے اتارو اور آؤ۔ اس اونٹ میں امیر المومنین کی مدد کرو۔ یہ زکوٰة کا اونٹ ہے۔ اس میں یتیم، بیوہ اور مسکین کا حق ہے۔

(کنز العمال جلد 3 صفحہ 303 کتاب الخلافہ مع الامارۃ/قسم الافعال حدیث14303 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت عمرؓ کا ایک یہودی کو ایک جواب

اس کے بارے میں ا یک روایت ہے۔ طارق نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کی کہ یہود میں سے کسی شخص نے ان سے کہا: امیر المومنین! آپؓ کی کتاب میں ایک آیت ہے جسے آپ پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر یعنی یہود کی قوم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا وہ کون سی ہے؟ اس نے کہا۔ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (المائدہ: 4) یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے اور تمہیں اپنی نعمت ساری کی ساری عطا کر دی ہے اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ہمیں وہ دن اور وہ جگہ بھی معلوم ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ آپؐ اس وقت جمعہ کے دن عرفات میں کھڑے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب زِیَادَةُ الْاِیْمَانِ وَ نُقْصَانُہ ، حدیث 45)

حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ سے ایک یہودی نے کہا کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے۔ اگروہ ہماری کتاب میں اترتی تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا۔ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ… الآیۃ۔ آپ نے فرمایا وہ دن تو ہمارے لئے دو عیدوں کا دن تھا یعنی جمعہ کا دن اور عرفہ کے دن۔ [اس دن] یہ آیت نازل ہوئی تھی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ6)

بعض بزرگان حضرت عمرؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ اَشْعَثْ سے روایت ہے کہ میں نے امام شعبی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ جب لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کریں تو دیکھو کہ حضرت عمرؓ نے اس معاملے میں کیا کیا ہے۔ کیونکہ حضرت عمرؓ بغیر مشورہ کے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔

(حلیة الاولیاء جلد 4صفحہ 304-305۔ روایت 5841۔ مکتبة الایمان ۔ الطبعة الاولیٰ 2007)

امام شَعبی فرماتے ہیں: مَیں نے حضرت قَبِیصہ بن جابر کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ میں حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے آپ سے زیادہ کتاب اللہ کو پڑھنے والا اور اللہ کے دین کو سمجھنے والا اور آپ سے اچھا اس کی درس و تدریس کرنےو الا کوئی نہیں دیکھا۔

(تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر مجلد 11 ۔ جزء 21 صفحہ 128۔ دار احیاء التراث العربی الطبعة الاولیٰ 2001ء)

حضرت حسن بصریؒ نے کہا جب تم اپنی مجلس کو خوشبودار بنانا چاہو تو حضرت عمرؓ کا بہت ذکر کرو۔

(سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ217۔ مکتبہ مصریة الازھر)

مجاہد سے روایت ہے کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ بےشک حضرت عمرؓ کے دور میں شیاطین جکڑے ہوئے تھے۔ جب آپؓ شہید ہوئے تو شیاطین زمین میں کودنے لگے۔

(سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ217۔ مکتبہ مصریة الازھر)

حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ

آپؓ کا شاعرانہ ذوق

بھی بہت تھا۔ خود شعر تو نہیں کہتے تھے لیکن شعر سنتے تھے، پسند کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک سفر میں نکلا۔ ایک رات جب ہم چل رہے تھے تو میں ان کے قریب آیا تو انہوں نے اپنے پالان کے اگلے حصہ پر ایک کوڑا مار کر یہ اشعار پڑھے۔

كَذَبْتُمْ وَ بَيْتِ اللّٰهِ يُقْتَلُ أَحْمَدُ
وَ لَمَّا نُطَاعِنْ دُوْنَهُ وَنُنَاضِلُ
وَ نُسْلِمُهُ حَتّٰى نُصَرَّعَ حَوْلَهُ
وَ نَذْهَلَ عَنْ أَبْنَآئِنَا وَالْحَلٓائِلِ

تم جھوٹ بولتے ہو۔ اللہ کے گھر خانہ کعبہ کی قسم !حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم ان کی حفاظت کے لیے نیزہ بازی اور شمشیر زنی کے جوہر نہ دکھائیں۔ ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم ان کے قریب جنگ کرتے ہوئے مارے جائیں اور اپنے فرزند اور اہل و عیال کو بھول جائیں۔

وَ مَا حَمَلَتْ مِنْ نَاقَةٍ فَوْقَ رَحْلِهَا
أَبَرَّ وَ أَوْفٰى ذِمَّةً مِنْ مُحَّمَّدِ

کسی اونٹنی نے اپنی پشت پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نیکی کرنےو الا اور وعدہ پورا کرنے والے انسان کو نہیں اٹھایا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ577، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 2012ء)

ایک تاریخ دان ڈاکٹر علی محمد صَلَابی اپنی کتاب ’’سیدنا عمر بن خطابؓ۔ شخصیت اور کارنامے‘‘ میں شعر و شاعری سے لگاؤ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ شعر کے ذریعہ مثال دینے والے حضرت عمرؓ تھے۔

آپؓ کے بارے میں بعض لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ آپؓ کے سامنے شاید ہی کوئی معاملہ آتا رہا ہو اور آپؓ اس پر شعر نہ سناتے رہے ہوں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آپؓ نیا جوڑا زیب تن کر کے باہر نکلے۔ لوگ آپؓ کو بہت دھیان سے دیکھنے لگے۔ اس پر آپؓ نے انہیں مثال دیتے ہوئے یہ اشعار سنائے:

لَمْ تُغْنِ عَنْ هُرْمُزٍ يَوْمًا خَزَآئِنُهٗ
وَالْخُلْدُ قَدْ حَاوَلَتْ عَادٌ فَمَا خَلَدُوْا
أيْنَ الْمُلُوْكُ الَّتِيْ كَانَتْ نَوَافِلُھَا
مِنْ كُلِّ أَوْبٍ إلَيْهَا رَاکِبٌ يَفِدُ

کہ موت کے وقت ہُرمز کو اس کے خزانوں نے کوئی فائدہ نہ دیا اور قوم عاد نے ہمیشہ آباد رہنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ نہ رہی۔ کہاں گئے وہ بادشاہ جن کے چشموں گھاٹوں سے ہر طرف سے آنے والا قافلہ سیراب ہوتا تھا۔

(سیرة عمر بن الخطاب ،شخصیت اور کارنامے (مترجم) از علی محمد صلابی صفحہ 333 مطبوعہ مکتبۃ الفرقان مظفر گڑھ پاکستان)

علی محمد صَلَابی لکھتے ہیں کہ

حضرت عمرؓ انہی اشعار کو پسند کرتے تھے جن میں اسلامی زندگی کا جوہر چمکتا ہو۔

وہ اسلامی خصوصیات کی عکاسی کرتے ہوں اور ان کے معانی اور مطالب اسلام کی تعلیمات کے خلاف اور اس کی اقدار سے متعارض نہ ہوں۔ آپؓ مسلمانوں کو بہترین اشعار یاد کرنے پر ابھارتے اور فرماتے تھے۔ شعر سیکھو۔ اس میں وہ خوبیاں ہوتی ہیں جن کی تلاش ہوتی ہے نیز حکماء کی حکمت ہوتی ہے اور مکارم اخلاق کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔ آپؓ شعر کے فوائد کے سلسلہ میں صرف اتنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسے دلوں کی چابی اور انسان کے جسم میں خیر کے جذبات کا محرک تصور کرتے تھے۔ آپ شعر کی فضیلت اور فائدے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان کا سب سے بہترین فن شعر کے چند ابیات کی تخلیق ہے جنہیں وہ اپنی ضرورتوں میں پیش کرتا ہے۔ ان میں کریم اور سخی آدمی کے دل کو نرم کرلیتا ہے اور کمینے شخص کے دل کو اپنی طرف مائل کر لیتا ہے۔

جاہلی شعراء، زمانۂ جاہلیت کے جو پرانے شعراء تھے، ان کے کلام کو بھی اس لیے کافی لگن سے یاد کرتے تھےکہ کتابِ الٰہی کے افہام و تفہیم سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ آپؓ نے فرمایا: تم اپنے دیوان کو حفظ کر لو اور گمراہ نہ رہو۔ سامعین نے آپ سے پوچھا کہ ہمارا دیوان کون سا ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا دورِ جاہلیت کے اشعار ہیں۔ ان میں تمہاری کتاب یعنی قرآن مجید کی تفسیر ہے اور تمہارے کلام کے معنی ہیں۔ آپؓ کا یہ فرمان آپؓ کے شاگرد اور ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس کے اس موقف سے بھی متفق ہے جس میں آپ نے کہا کہ جب تم قرآن پڑھو اور اس کو نہ سمجھ سکو تو اس کے مفہوم معانی عرب کے اشعار میں تلاش کرو کیونکہ شاعری عربوں کا دیوان ہے۔

(ماخوذ از سیرة عمر بن الخطاب شخصیت اور کارنامے (مترجم) از علی محمد صلابی صفحہ 336 مطبوعہ مکتبۃ الفرقان مظفر گڑھ پاکستان)

برصغیر کے معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب ’الفاروق‘ میں آپؓ کے شعرو شاعری کے ذوق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شعر و شاعری کی نسبت اگرچہ حضرت عمرؓ کی شہرت عام طور پر کم ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپؓ شعر بہت کم کہتے تھے لیکن شعر و شاعری کا مذاق ایسا عمدہ رکھتے تھے کہ ان کی تاریخی زندگی میں یہ واقعہ ہم ترک نہیں کر سکتے۔ عرب کے ایک مشہور و معروف شاعرکا کلام کثرت سے یاد تھا اور تمام شعرا کے کلام پر ان کی خاص خاص آراء تھیں۔ اہلِ ادب کو عموماً تسلیم ہے کہ

آپؓ کے زمانہ میں اُن سے بڑھ کرکوئی شخص شعرپڑھنے والا نہ تھا۔

جَاحِظ نے اپنی کتاب ’البیان والتبیین‘ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے۔ حضرت عمرؓ کے ذوق ِسخن کا یہ حال تھا کہ اچھے اشعار سنتے تو بار بار مزے لے لے کر پڑھتے تھے۔ اگرچہ آپؓ کو مہماتِ خلافت کی وجہ سے ان اشغال میں مصروف ہونے کا موقع نہیں مل سکتا تھا تاہم چونکہ طبعی ذوق رکھتے تھے اس لیے سینکڑوں ہزاروں شعر یاد تھے۔ علمائے ادب کا بیان ہے کہ ان کے حفظِ اشعار کا یہ حال تھا کہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرتے تو ضرور کوئی شعر پڑھتے۔ آپؓ صرف وہ اشعار پسند کرتے تھے جن میں خودداری، آزادی، شرافتِ نفس، حمیت، عبرت کے مضامین ہوتے تھے۔ اسی بنا پر امرائے فوج اور اضلاع کے عاملوں کو حکم بھیج دیا تھا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کی تاکید کی جائے۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو یہ فرمان بھیجا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کا حکم دو کیونکہ وہ اخلاق کی بلند باتوں اور صحیح رائے اورانساب کی طرف راستہ دکھاتے ہیں۔ تمام اضلاع میں جو حکم بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے:

اپنی اولاد کو تیرنا اور شہ سواری سکھاؤ اور ضرب الامثال اور اچھے اشعار یاد کراؤ

یعنی علمی ذوق بھی پیدا کرو۔ اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ نے شاعری کے بہت سے عیوب مٹا دیے۔ اس وقت تمام عرب میں یہ طریقہ جاری تھا کہ شعراء شریف عورتوں کا نام اعلانیہ اشعار میں لاتے تھے اور ان سے اپنا عشق جتاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس رسم کو مٹا دیا اور اس کی سخت سزا مقرر کی۔ اسی طرح ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور حُطَیْئَہ کو جو مشہور ہجو گو تھا اس جرم میں قید کیا۔

(ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 330 تا 333 مکتبہ الحرمین لاہور 1431ھ)

علامہ شبلی نعمانی مزید لکھتے ہیں۔ اس زمانے کا سب سے بڑا شاعر مُتَمَّمْ بن نُوَیْرَہ تھا جس کے بھائی کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ میں حضرت خالدؓ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعہ نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچایا تھا کہ ہمیشہ رویا کرتا اور مرثیہ کہا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی تو اس نے چند اشعار پڑھے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے کہا کہ اگر مجھے کوئی ایسا مرثیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا۔ اس نے کہا

اے امیرالمومنین! اگر میرا بھائی آپؓ کے بھائی کی طرح مارا جاتا یعنی شہادت کی موت مرتا تو میں ہرگز اس کا ماتم نہ کرتا۔

حضرت عمرؓ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ متمم جیسی تعزیت کسی نے نہیں کی۔

(ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 345مکتبہ الحرمین لاہور 1431ھ)

حضرت عمرؓ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

’’بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہو نا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاً ظاہر ہوں یا کسی اَور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپؐ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے اور آنجنابؐ نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں مگر چونکہ مقدّر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیو نکہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلی طور پر گو یا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا

اس لیے عالم ِوحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ265)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں ’’یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایساہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی من جانب اللہ بتا سکتے۔‘‘

(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ151 مکتوب نمبر2 مکتوب بنام حضرت خان صاحب محمد علی خان صاحب مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مجھے میرے رب کی طرف سے خلافت کے بارے میں ازروئے تحقیق تعلیم دی گئی ہے اور محققین کی طرح میں اس حقیقت کی تہ تک پہنچ گیا اور میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ

صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم) نیکو کار اور مومن تھے

اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمان کی عنایات سے خاص کئے گئے اور اکثر صاحبان معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی۔ انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے۔ ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دوپہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پرواہ نہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محو خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کے اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں پس تم ان کے مقام کی چمک دمک کا ان کی خوشبو کی مہک سے پتہ لگاؤ اور جلد بازی کرتے ہوئے بدگمانیوں کی پیروی مت کرو اور بعض روایات پر تکیہ نہ کرو! کیونکہ ان میں بہت زہر اور بڑا غلو ہے اور وہ قابل اعتبار نہیں ہوتیں۔ ان میں سے بہت ساری روایات تہ و بالا کرنے والی آندھی اور بارش کا دھوکہ دینے والی بجلی کے مشابہ ہیں۔ پس اللہ سے ڈر اور ان (روایات) کی پیروی کرنے والوں میں سے نہ بن۔‘‘

(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ25-26)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: بخدا اللہ تعالیٰ نے شیخین حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے۔ پس جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور ان کو برا بھلا کہنے کے درپے رہتا ہے اور زبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلب ایمان کا ڈر ہے اور جنہوں نے اس کو دکھ دیا، ان پر لعن کیا اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمان کا غضب ان کا انجام ٹھہرا۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے اور میں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا برکات ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے اور اللہ تعالیٰ انہیں دنیا کی لذات و شہوات میں چھوڑ دیتا ہے اور نفسانی خواہشات کے گڑھوں میں گرا دیتا ہے اور اسے اپنے آستانے سے دور رہنے والا اور محروم کر دیتا ہے۔

انہیں یعنی خلفائے راشدین کو اسی طرح اذیت دی گئی جس طرح نبیوں کو دی گئی اور ان پرلعنتیں ڈالی گئیں جس طرح مرسلوں پر ڈالی گئیں اس طرح ان کا رسولوں کا وارث ہونا ثابت ہو گیا اور روز قیامت ان کی جزا اقوام و ملل کے ائمہ جیسی متحقق ہو گئی کیونکہ جب مومن پر کسی قصور کے بغیر لعنت ڈالی جائے اور کافر کہا جائے اور بلا وجہ اس کی ہجو کی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے تو وہ انبیاء کے مشابہ ہو جاتا ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مانند بن جاتا ہے۔ پھر اسے بدلہ دیا جاتا ہے جیسا نبیوں کو بدلہ دیا جاتا ہے اور مرسلوں جیسی جزا پاتا ہے۔ یہ لوگ بلا شبہ حضرت خیر الانبیاء کی اتباع میں عظیم مقام پر فائز تھے اور جیسا کہ بزرگ و برتر اللہ نے ان کی مدح فرمائی وہ ایک اعلیٰ امّت تھے اور اس نے خود اپنی روح سے ان کی ایسی ہی تائید فرمائی جیسے وہ اپنے تمام برگزیدہ بندوں کی تائید فرماتا ہے اور فی الحقیقت ان کے صدق کے انوار اور ان کی پاکیزگی کے آثار پوری تابانی سے ظاہر ہوئے اور یہ کھل کر واضح ہو گیا کہ وہ سچے تھے اور اللہ ان سے اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے انہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو دنیا جہان میں کسی اور کو نہ دیا گیا۔

(ماخوذ از سرالخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 28تا 30)

پھر آپؑ شیعہ حضرات کی ایک بات کو ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شیعہ حضرات میں سے جو یہ خیال کرتا ہے کہ (ابوبکر) صدیقؓ یا (عمر) فاروقؓ نے (علی) مرتضیؓ یا (فاطمۃ) الزھرۃؓ کے حقوق کو غصب کیا اور ان پر ظلم کیا تو ایسے شخص نے انصاف کو چھوڑا اور زیادتی سے پیار کیا اور ظالموں کی راہ اختیار کی۔ یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر اپنے وطن، عزیز دوست اور مال و متاع چھوڑے اور جنہیں کفار کی طرف سے اذیتیں دی گئیں اور جو شر پسندوں کے ہاتھوں بے گھر ہوئے مگر (پھر بھی) انہوں نے اچھے اور نیک لوگوں کی طرح صبر کیا اور وہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے (پھر بھی) گھروں کو سیم و زر سے نہ بھرا اور نہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سونے اور چاندی کا وارث بنایا بلکہ جو کچھ حاصل ہوا وہ بیت المال کو دے دیا اور انہوں نے دنیاداروں اور گمراہوں کی طرح اپنے بیٹوں کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا۔ انہوں نے اس دنیا میں زندگی فقر اور تنگدستی کی حالت میں بسر کی اور وہ امراء اور رؤسا کی طرح ناز و نعمت کی طرف مائل نہ ہوئے۔ کیا ان کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ازراہِ تعدّی لوگوں کے اموال چھیننے والے تھے اور حق چھیننے، لوٹ مار کرنے اور غارت گری کی طرف میلان رکھنے والے تھے۔ کیا سرورِ کائنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت قدسیہ کا یہ اثر تھا؟ حالانکہ اللہ تمام کائنات کے رب نے ان کی حمد و ثناء کی۔

حقیقت یہ ہے کہ (اللہ) نے ان کے نفوس کا تزکیہ فرمایا اور ان کے دلوں کو پاکیزگی بخشی اور ان کے وجودوں کو منور کیا اور آئندہ آنے والے پاکبازوں کا پیش رَو بنایا

اور ہم کوئی کمزور احتمال اور سطحی خیال بھی نہیں پاتے جو ان کی نیتوں کے فساد کی خبر دے یا ان کی ادنیٰ برائی کی طرف اشارہ کرتا ہو چہ جائیکہ ان کی ذات کی طرف ظلم منسوب کرنے کا کوئی پختہ ارادہ کرے۔ بخدا وہ انصاف کرنے والے لوگ تھے۔ اگر انہیں مالِ حرام کی وادی بھی دی جاتی تو وہ اس پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ ہی حریصوں کی طرح اس کی طرف مائل ہوتے خواہ سونا پہاڑوں جتنا یا سات زمینوں جتنا ہوتا۔ اگر انہیں حلال مال ملتا تو وہ ضرور اسے صاحبِ جبروت (خدا) کی راہ اور دینی مہمات میں خرچ کرتے۔ پس ہم یہ کیسے خیال کر سکتے ہیں کہ انہوں نے چند درختوں کی خاطر (فاطمۃ) الزھراءؓ کو ناراض کر دیا اور جگر گوشۂ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو شر پسندوں کی طرح اذیت دی بلکہ شرفاء نیک نیت ہوتے اور حق پر ثابت قدم ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف سے ان پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ متقیوں کے باطن کو خوب جانتا ہے۔‘‘

(سرالخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ37 تا39)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’سچ تو یہ ہے کہ (ابوبکر) صدیقؓ اور (عمر) فاروقؓ دونوں اکابر صحابہ میں سے تھے۔

ان دونوں نے ادائیگی حقوق میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ انہوں نے تقویٰ کو اپنی راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنا لیا تھا۔ وہ حالات کا گہرا جائزہ لیتے اور اَسرار کی کنہ تک پہنچ جاتے تھے۔ دنیا کی خواہشات کا حصول کبھی بھی ان کا مقصود نہ تھا۔ انہوں نے اپنے نفوس کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھا۔ کثرت فیوض اور نبی الثقلینؐ کے دین کی تائید میں شیخین (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) جیسا میں نے کسی کو نہ پایا۔ یہ دونوں ہی آفتاب امم و ملل (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع میں مہتاب سے بھی زیادہ سریع الحرکت تھے اور آپؐ کی محبت میں فنا تھے۔ انہوں نے حق کے حصول کی خاطر ہر تکلیف کو شیریں جانا اور اس نبی کی خاطر جس کا کوئی ثانی نہیں، ہر ذلت کو برضا و رغبت گوارا کیا اور کافروں اور منکروں کے لشکروں اور کافروں سے مٹھ بھیڑ کے وقت شیروں کی طرح سامنے آئے یہاں تک کہ اسلام غالب آگیا اور دشمن کی جمعیتوں نے ہزیمت اٹھائی۔ شرک چھٹ گیا اور اس کا قلع قمع ہو گیا اور ملّت و مذہب کا سورج جگمگ جگمگ کرنے لگا اور مقبول دینی خدمت بجا لاتے ہوئے اور مسلمانوں کی گردنوں کو لطف و احسان سے زیر بار کرتے ہوئے ان دونوں کا انجام خیر المرسلینؐ کی ہمسائیگی پر منتج ہوا اور یہ اس اللہ کا فضل ہے جس کی نظر سے متقی پوشیدہ نہیں اور بیشک فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ جو شخص بکمال شوق اللہ کے دامن سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ اسے ہرگز ضائع نہیں کرتا، خواہ دنیا بھر کی ہر چیزاس کی دشمن ہو جائے اور اللہ کا طالب کسی نقصان اور تنگی کا منہ نہیں دیکھتا اور اللہ صادقوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔

اللّٰہ اکبر! ان دونوں (ابوبکرؓ و عمر ؓ) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے!
وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ
اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے

لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطا کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہ ربّ العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے اور یہ رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف رخ کرتی ہے جن کی طرف عنایت (الٰہی) ازل سے متوجہ ہو۔ (یہی لوگ ہیں) جنہیں انجام کار اللہ کے فضل کی چادریں ڈھانپ لیتی ہیں۔‘‘

(سرالخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 77 تا 79)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے وہ اصحابِ ثلاثہ سے ہی بنا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جوکچھ کیا ہے وہ اگر چہ کچھ کم نہیں مگر ان کی کارروائیوں سے کسی طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خفت نہیں ہو سکتی کیو نکہ کا میابی کی پٹڑ ی تو صدیق اکبرؓ نے ہی جمائی تھی اور عظیم الشان فتنہ کو انہوں نے ہی فرو کیا تھا۔ ایسے وقت میں جن مشکلا ت کا سامنا حضرت ابوبکرؓ کو پڑا وہ حضرت عمرؓ کو ہرگز نہیں پڑا۔ پس صدیقؓ نے رستہ صاف کر دیا تو پھر اس پر عمرؓ نے فتوحات کا دروازہ کھولا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ414-415)

پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں جو آپؑ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین حضرت ابوبکر و عمر کی محبت اور عزت کی تھی کہ ’’ایک دفعہ ایک دوست نے جو محبت مسیح موعودؑ میں فنا شدہ تھے۔ آپ کی خدمت میں عرض کی کہ کیوں نہ ہم آپؑ کو مدارج میں شیخینؓ‘‘ یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ’’سے افضل سمجھا کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب قریب مانیں؟ اللہ اللہ! اس بات کو سن کر حضرت اقدسؑ‘‘ یعنی مسیح موعود علیہ السلام ’’کا رنگ اُڑ گیا اور آپ کے سراپا پر عجیب اضطراب وبیتابی مستولی ہو گئی۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’میں خدائے غیور وقدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضور اقدسؑ کی نسبت اَور بھی زیادہ کر دیا۔ آپؑ نے برابر چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی۔ بولتے وقت میں نے گھڑی دیکھ لی تھی اور جب آپؑ نے تقریر ختم کی جب بھی دیکھی۔ پورے چھ ہوئے۔ ایک منٹ کا فرق بھی نہ تھا۔ اتنی مدت تک ایک مضمون کو بیان کرنا اور مسلسل بیان کرنا ایک خرق عادت تھا۔ اس سارے مضمون میں آپؑ نے رسول کریم علیہ افضل الصلوٰة والتسلیمات کے محامد وفضائل اور اپنی غلامی اور کفش برداری کی نسبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور جناب شیخین علیہم السلام ’’(حضرت ابوبکر و عمر)‘‘ کے فضائل بیان فرمائے اور فرمایا۔ ’’میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مداح اور خاک پا ہوں۔‘‘

جو جزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے وہ قیامت تک کوئی اَور شخص نہیں پا سکتا۔

کب دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو جناب شیخین علیہما السلام‘‘ (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر) ’’کو ملا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ326)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر یہاں سے ختم ہوتا ہے یعنی کہ خطبات میں۔ ان شاء اللہ آئندہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو حضرت ابوبکرؓ کا ذکر شروع ہو گا۔

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ گوئٹے مالا 2021 و افتتاح مسجد نور کابون

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 دسمبر 2021