• 5 مئی, 2024

منصب خلافت

منصب خلافت
(تقریر جلسہ یوم خلافت برطانیہ 2021ء)

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ

(البقرہ: 130)

اور اے ہمارے رب! (ہماری یہ بھی التجا ہے کہ تو) انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ یقیناً تو ہی غالب (اور) حکمتوں والا ہے۔

(تفسیر صغیر)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو  اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا ہے ۔یہ دعارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے لئے ہے۔جس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ انبیاء اور انبیاء کے بعد خلفاء کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔ اس آیت میں انبیاء اور پھر ان کے خلفاء کے کاموں کا ذکر ہے ۔ یعنی ان کاموں کی بجا آوری بھی قیامت تک جاری رہے گی ۔

چنانچہ آخری زمانے میں خلافت کے قیام کے حوالے سے رسول کریمﷺ کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا

قَالَ حُذَیْفَۃُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللّٰہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیًّا، فَتَکُوْنُ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَاللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، ثُمَّ سَکَتَ۔

(مسند احمد حدیث نمبر 12034:کتاب الفضائل، باب:فصل: نبوت، خلافت اورملوکیت کے مراحل پر مشتمل سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ایک جامع حدیث)

تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ جب تک اللہ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی، پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا، پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہوگا، پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھا لے گا، پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کو منظور ہو گا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک منظور ِخدا ہوگا، پھر جب اللہ چاہے گا وہ اسے بھی اٹھا لے گا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، پھر طریقۂ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی پھر نبیﷺ خاموش ہوگئے۔‘‘

(مسند امام احمد بن حنبل مترجم، مسند الکوفیین صفحہ 116تا117، حدیث نمبر 18596)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسیؔ انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد 6۔شہادۃ القرآن صفحہ 353)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ہماری جماعت کا یہ  عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدے کی رُو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لئے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہوگا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناً اُسے ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔‘‘

مزید فرمایا: ’’جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے ،وہ دنیا میں خدا اور رسول کریم ﷺ کا نمائندہ ہے۔‘‘

(الفضل 27؍اگست 1937ء صفحہ6 اور 8)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں
’’۔۔۔خلیفہ وقت ساری دنیا کا استاد ہے۔ اور اگر یہ سچ ہے اور یقیناً سچ ہے تو دنیا کے عالِم اور دنیا کے فلاسفر شاگرد کی حیثیت سے ہی اس کے سامنے آئیں گے۔ استاد کی حیثیت سے اس کے سامنے نہیں آئیں گے۔

(الفضل 21دسمبر 1966ءصفحہ 5)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں جماعت احمدیہ میں قائم ہونے والی خلافت علی منھاج النبوہ کی بشارت ’’قدرت ثانیہ‘‘ کے عنوان سے دی ۔

اور جب یہ دوسری قدرت خلافت ِ احمدیہ کے مظہر اول  حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیف المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بابرکت وجود میں ظاہر ہوئی تو آپ نے ہماری راہنمائی فرمائی کہ خلیفہ وقت سے تعلق کس طرح کا ہونا چاہیئے چنانچہ آپ نے فرمایا:
’’تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں ۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے۔ {لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ} (ابراہیم: 8)۔ لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے: {اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد}۔ (ابراہیم8 (خطبات نور۔ صفحہ131)

منصب خلافت کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اطاعت و فدائیت کے جو نمونےاور  قربانیوں کی جو مثالیں احمدیوں مرد و زن نے قائم کی ہیں  جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہے اور یہ آج بھی  ہمارے لئے بطور مشعل ِ راہ ہیں انہیں اپنے اندر ،اپنے عزیز واقارب اور اولاد  در اولاد میں جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور اسی لئے یہاں ا ن کا بیان بھی ضروری ہے ۔

مبارک وہ حقیقت جان لی جس نے خلافت کی
مبارک وہ قیادت مان لی جس نے خلافت کی

مبارک وہ جو پیوستہ خلافت کے شجر سے ہے
کہ وہ محفوظ ہر خوف و خطر، ہر فتنہ گر سے ہے

(مکرم محمد صدیق امرتسری)

حضرت اماں جان ام المؤمنین رضی اللہ عنھا حضرت خلیفۃ  المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اطاعت میں کیا نمونہ دکھاتی تھیں اس کے بارے میں حضرت خلیفہ اول نے خود ایک موقع پر فرمایاکہ ایک مرتبہ حضرت (اماں جان) نے مجھے کہا کہ خد ا تعالیٰ  کی رضا جوئی کے لئے میں چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لئے بھیج دی۔ حضرت (اماں جان) نے نہایت خوشدلی سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اسے درست کرکے واپس بھیج دیا ۔۔۔۔

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 532-533)

خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح خلیفہ اول کی اطاعت کی اس کا اظہار خود ان الفاظ میں فرمایا
’’مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود ، بشیر ، شریف ، نواب ناصر ، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا ۔میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ۔ ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے ۔

(بدر 4جولائی 1912ء صفحہ 7)

محبت و اطاعت اور ہر قسم کی قربانیوں کی یہ داستانیں تاریخ احمدیت میں قرطاس در قرطاس بھر ی پڑی ہیں لیکن یہاں وقت کی مناسبت سے صرف چند ہی کا ذکر ممکن ہے ۔

خلفاء احمدیت کی آواز پر کس طرح احباب جماعت اپنا سب کچھ قربان کرتے رہے اس کا ذکر حضرت خلیفۃ  المسیح  الثانی ؓ یوں کرتے ہیں :
ایک پٹھا ن عورت جو نہایت غریب ،چلتے وقت بالکل پا س پاس قدم رکھ  کر چلتی  ہے ۔میرے پاس آئی اور اس نے دو روپے میرے ہاتھ  پر رکھ  دیئے ۔ اس کی زبان پشتو ہے  اردو کے چند الفاظ ہی بول سکتی ہے۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنے ایک ایک کپڑے کو ہاتھ لگا کر کہا کہ یہ  دو پٹہ دفتر کا ہے یعنی بیت المال نے مجھے صدقہ میں دیا ہے ۔ یہ پاجامہ دفتر کا ہے ،یہ جوتی دفتر کی ہے، میرا قرآن بھی دفتر کا ہے ۔ میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ میری ہر چیز بیت المال سے ملی  ہوئی ہے ۔ یہی دو روپے جو میرا سرمایہ حیات ہیں میں حضور کی خدمت میں پیش کرتی ہوں اسے قبول فرمائیں ۔

حضرت سر چوہدری محمد ظفرا للہ خان ؓسے احباب جماعت اچھی طرح واقف ہیں اور آپ کی دنیاوی ترقیات اور بام عروج پر پہنچنے کی دنیا بھی قائل ہے ۔ کسی نے ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا کہ ان ترقیات اور کامیابیوں کا راز کیا ہے تو حضرت چوہدری صاحب نے بے ساختہ جواب دیا ۔

Because through all my life I was obedient to Khilafat یعنی میری کامیابیوں کی وجہ یہ ہے کہ میں تمام زندگی خلافت کا مکمل مطیع اور فرمانبردار رہا ہوں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ایک عورت جس کے پاس تھوڑا سا زیور تھا  اس نے دیا  پھر تسلی نہ ہوئی  دوبارہ گھر گئی جو برتن تھے وہ لے آئی اور وہ بھی حاضر کردیئے ۔ اس کے خاوند نے کہا کہ زیورات دے چکی ہے یہی کافی ہیں ۔ اس نے کہا خدا کی قسم میرے دل میں اتنا جوش ہے کہ بس چلے تو تجھے بھی  بیچ کر سب کچھ خدا کی راہ میں دے دوں  ۔ یہ کیفیت تھی  غرباء عورتوں کی ۔دل ٹھنڈ ے ہی نہیں ہوتے تھے  ، دیتے چلے جاتے تھے۔برتن بیچ کے لیکن تسلی نہ ہوئی ۔ کہا خدا کی قسم اے خاوند ! میں تجھے بھی  بیچ کر اپنا جو کچھ ہے خدا کی راہ میں دینے کو تیار ہوں ۔

(خطابات طاہر  قبل از خلافت صفحہ 264)

یہاں اس بات کا ذکر بھی از حد ضروری ہے کہ یہ محبت کی داستانیں یک طرفہ نہیں ہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خلفاء احمدیت کو اپنی جماعت سے کس قدر محبت اور ہمدردی ہے اس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا ۔صرف ایک جھلک ان فقرات میں آپ کو دکھاتا ہوں

خلیفہ اول کا فرمانا ’’تم میاں بیوی آرام سے سو رہے ۔اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا ۔ میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا ہوں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد صفحہ 553)

خلیفہ ثانی کا اظہار عاجزی ’’ہاں تمہارے لئے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔‘‘

(برکات خلافت انوار العلوم جلد 2صفحہ 158)

خلیفہ ثالث کا اظہار محبت ’’جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل 21؍مئی 1978ء)

خلیفہ رابع کا پیار ’’میں نے آپ کو یہاں اس لئے نہیں بٹھایا کہ میں نے کوئی تقریر کرنی ہے ۔ میں نے آپ کو دیکھنے کے لئے بٹھایا ہے ۔ میری آنکھیں آپ کو دیکھنے سے ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں ۔ میرے دل کو تسکین ملتی ہے ۔ مجھے آپ سے پیار ہے ۔عشق ہے ۔خدا کی قسم کسی ماں کو بھی اس قدر پیار نہیں ہوسکتا۔‘‘

(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004) بیان مکرم چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید

اور پھر سیدنا مسرور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ  تعالیٰ بنصرہ العزیز

محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب نے ایک یہ بات بھی  لکھی کہ :
’’یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ افراد جماعت کی فلاح اور ان کی حفاظت کا سب سے زیادہ خیال بھی حضور ہی کو رہتا ہے ۔ حضور انڈیا میں تھے۔ انڈیا کے ملکی حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ حضور قادیان تشریف نہ لے جاسکے۔ دہلی کے ایک سرکاری اہلکار  نے حضور کو  کہا کہ اگر حضور چاہیں تو حفاظتی انتظامات کروائے جاسکتے ہیں تاکہ حضور قادیان جاسکیں ۔ حضور نے فرمایا کہ حفاظت تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرنی ہے ۔لیکن میرے اردگرد ہر وقت میری جماعت کے کئی سو افراد ہوتے ہیں۔ جلسہ پر تو ہزاروں ہوں گے۔ مجھے ان میں سے ہر ایک کی فکر ہے۔ میں ان میں سے کسی ایک کی جان کو بھی خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کو ہر فرد جماعت کی حفاظت کا کتنا احساس رہتا ہے۔ اگرچہ ہر احمدی  اپنی جان خلافت پر قربان کرنے کو تیار  ہے، مگر حضور کو ہر احمدی  کی جان کی فکر ہے۔‘‘

(الحکم انگریزی 20ستمبر 2019)

حضرت  خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔

مزید فرمایا
دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔

(خطبہ جمعہ 6؍ جون 2014ء)

خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے
عطاءِ الہی ہے فضل خدا ہے

یہ مولا کا اک خاص احسان ہے
وجود اس کا خود ا س کی برہان ہے

(حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ)

ہم سب نے خلیفہ وقت سے کس طرح وابستہ رہنا ہے اور کیا طرز عمل اختیار کرنا ہے یہ طریق یو گنڈ اکی ایک خاتون نے ہمیں سکھایا  ہے چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب یوگنڈا تشریف لے گئے تو حضور کی گاڑی جیسے ہی ائرپورٹ سے باہر نکلی ۔ ایک عورت اپنے دو اڑھائی سال کے بچے کو اٹھائے ہوئے حضور کی گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگی۔ حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ اس (عورت) کی اپنی م نظر میں پہچان تھی ۔ خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آرہا تھا ۔ وفا کا تعلق ظاہر ہورہا تھا ۔ بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی ۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو ۔ کافی دور تک دوڑتی گئی ۔ اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی ۔ آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کر مسکرایا ۔ ہاتھ ہلایا ۔ تب ماں کو چین آیا۔ بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو۔ تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں ۔

(الفضل انٹر نیشنل 10تا17جون 2005)

وہ مسکرا کے سارے درد ٹال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے

پس اے خلافت احمدیہ کے وفا دارو اور جانثارو!

سنو اور خوب اچھی طرح اسے اپنی عقل  و فراست کی گانٹھوں میں باندھ کر محفوظ کر لو کہ تمہاری یہ شادابی اور یہ ایک جسم کی مانند ایک دوسرے سے جڑے رہنا یہ سب سر تا پا خلافت محمد یہ احمدیہ کے دم قدم کی برکت سے ہےاور اسی کے صدقے ہے  ۔ یہ نعمت تمہیں  جو حاصل ہے اس کے انتظار میں لاکھوں کروڑوں اس دنیا سے روتے ،سسکتے چلے گئے ۔اب اسے سر آنکھوں پر بٹھانا ،سینہ سے لگانا اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں اور اپنے باپوں اور اپنے ہر دوسرے پیارے سے ہزار بار بڑھ کر عزیز رکھنا ۔ تمہاری زندگی اور تمہاری نسلوں کی بقاء اب خلافت احمدیہ جو خلافت علی منھاج النبوۃ ہے ، اسی سے  وابستگی میں  ہے ۔ سب تدبیریں قیامت تک کے لئے خلافت سے وابستہ ہوچکی ہیں ۔ امت مسلمہ کی تقدیر اس نظام سے وابستہ  ہے ، بلکہ امن  عالم کی ضمانت اب خلیفہ وقت کی راہنمائی اور ہدایات پر  عمل پیرا ہونے میں ہے ۔ جان دے کر بھی اس نعمت کی حفاظت کرو اور انصار کی زبان میں سیدنا و امامنا  حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں  بمنت عرض کروکہ اے جان سے بھی پیارے امام ،میرے پیارے آقا ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور ہم آپ کے پیچھے بھی  لڑیں گے ہم دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور خدا کی قسم ،خدا کی قسم اب قیامت تک کسی دشمن کی مجال نہ ہوگی کہ محمد عربی ﷺ کی خلافت کو  بری نظر سے دیکھ سکے ۔

خلافت سے عقیدت میں کمی ہر گز نہ آنے دو
اگر جاتی ہو جاں اس راہ میں تو اس کو جانے دو

کوئی چون و چرا حکم ِ خلیفہ میں نہیں جائز
یہی نکتہ کرے گا دین و دنیا میں تمہیں فائز

(شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر)

اللھم اید امامنا بروح القدس وانصرہ نصرا عزیزاً
اللھم اید امامنا بروح القدس وانصرہ نصرا عظیماً

(راجہ برہان احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

مہمان کی عزت و احترام