لجنہ اماء اللہ کا پس منظر اور سو سالہ ترقیات کا سفر
الفضل کا اجراء بھی ابتدائی لجنہ کی مالی قربانیوں سے ہوا
1922ء – 2022ء
قسط 4 آخری
لجنہ اماء اللہ کا سو سالہ سفر مالی قربانی
مال خرچ کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام قرآن کریم کی پہلی سورت سورۃ البقرہ کی آیت 4میں فرماتا ہے:
وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۴﴾
(البقرہ: 4)
اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
پھر فرمایا:
وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۶﴾
(البقرہ: 6)
اور یہی ہیں وہ جو فلاح پانے والے ہیں۔
مالی قربانی کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے کلام قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَاَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَاَحۡسِنُوۡۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۹۶﴾
(البقرہ: 196)
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئیں) ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی ہمیں صدقہ و خیرات کا حکم ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور اس میں ایک طرف صدقہ و خیرات کی اور دوسری طرف سوال سے بچنے کی نصیحت فرمائی اور فرمایا ’’اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘
(چالیس جواہر پارے صفحہ128)
مالی قربانی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’حقیقی نیکی کرنے والوں کی خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لیے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لیے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو جائے اور اس کے منہ کے لیے یہ خدمت ہے ……… خدا کی رضا جوئی کے لیے اپنے قریبوں کی اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعّہد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کرتے رہتے ہیں اور مسکینوں کو فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ67)
متفرق چندہ جات
جماعت احمدیہ کا مالی نظام بہت وسیع ہے۔ ہر تنظیم کا اپنا اپنا چندہ ہے مثلاً انصار اللہ کا چندہ، خدام الاحمدیہ کا چندہ، لجنہ اماء اللہ کا ممبری چندہ، ناصرات الاحمدیہ کا چندہ، اطفال الاحمدیہ کا چندہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ چندہ عام، چندہ جلسہ سالانہ، چندہ اجتماع، چندہ بلال فنڈ، مریم فنڈ، چندہ وصیت، تحریک جدید، وقف جدید بھی اہم چندہ جات ہیں۔
اس کے علاوہ جب کبھی بھی کسی مسجد کی تعمیر کے لیے یا کسی مشن ہاؤس یا کہیں جگہ خریدنی پڑے جماعت کے کاموں کے لیے تو پوری جماعت کے ساتھ ساتھ لجنہ اماء اللہ بھی بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتی ہیں۔
احمدیت کے عظیم الشان مالی نظام کا نتیجہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساری دنیا سے یہ مطالبہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے۔ اگر تم سچے مومن ہو، اگر تم جنت کے طلبگار ہو، اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی جائیدادوں کا 10/1 سے 3/1 حصہ اسلام اور مصالح اسلام کی اشاعت کے لیے دے دو اس طرح ساری دنیا کی جائیدادیں قومی فنڈ میں آجائیں گی اور بغیر کسی قسم کے جبر اور لڑائی کے اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دنیا کی جائیدادوں کے10/1 سے 3/1کا مالک بن جائے گا اور اس قومی فنڈ سے تمام غرباء کی خبر گیری جا سکے گی۔‘‘
(نظام نو مصنف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ صفحہ109-110)
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے کی خواتین
کی مالی قربانیوں کی مثال
حضرت ام الموٴمنینؓ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی قربانیوں کا تو شمار کرنا ناممکن ہے۔ آپؓ کی ساری زندگی جماعت کی خدمت میں بسر ہوئی۔ اس زمانہ میں کوئی تحریک تو نہ تھی نہ تنظیم تھی۔ صرف حضرت مسیح موعودؑ کے ایک اشارے پر تمام جماعت کے مردوزن قربانی کے لیے تیار رہتے۔ اس وقت سب سے پہلی ضرورت مالی قربانی کی جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کی میز بانی تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے جب اپنی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اصحاب جماعت نے قادیان آنا شروع کیا۔ عورتیں بھی آئیں۔ ان سب کی میزبانی کی پوری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت ام الموٴمنینؓ کی ہوتی تھی۔ آپؓ خود کھانا پکواتی تھیں یا اپنی نگرانی میں پکواتی تھیں۔ مہمانوں کی اکثریت کا قیام بھی دارالمسیح میں ہوتا تھا…اکثریت مہمان خواتین کی بھی دارالمسیح میں ہی قیام کرتی تھی۔ آپؓ اپنے گھر کے بھی کئی کمرے خالی کر دیا کرتی تھیں۔ مہمانوں کو صبح کے وقت چائے بھجوایا کرتی تھیں۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا کرتیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے لے کر آخر تک کوئی مالی تحریک ایسی نہ تھی جس میں آپؓ کا نمایاں حصہ نہ ہو۔ابتدائی زمانہ میں تو مہمان نوازی کا خرچ بھی خود حضرت مسیح موعودؑ برداشت کرتے تھے اور حضور علیہ السلام کی ان قربانیوں میں حضرت اُم الموٴ منین برابر شریک رہتی تھیں۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپور تھلوی سے روایت ہے کہ:
’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالا نہ کے لیے چندہ ہو کر نہیں جاتا تھا۔ حضورؑ اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سالن نہیں ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت یا رہن کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لیے سامان بہم پہنچایا۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ7-8)
آپؓ نے کبھی تحریک جدید کا وعدہ نہیں لکھوایا تھا جیسے ہی حضورؓ اعلان فرماتے اس کے معاً بعد آپؓ اپنا چندہ گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ نقد عطا فرماتیں۔ آپؓ نے لجنہ کے قیام سے پہلے بھی مالی قربانی میں مثالیں قائم کیں۔ کوئٹہ کا زلزلہ 31؍مئی 1935ء کو آیا اس میں آپؓ نے 200روپیہ چندہ دیا۔ خلافت جوبلی فنڈ میں 500روپے دیے۔ تعمیر مہمان خانہ اور توسیع مسجد کے 200روپے دیے۔ 1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تعلیم الاسلام کالج کے لیے ڈیڑھ لاکھ چندہ کی تحریک کی آپؓ نے پانچ سو روپے عنایت فرمائے۔
(تاریخ لجنہ جلددوم صفحہ309-308)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا وجود شعائر اللہ میں سے تھا اور اللہ تعالیٰ کے متعدد نشانات کا مظہر تھا۔ آپؓ لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے ہیں۔ آپؓ کا نام فہرست میں دوسرے نمبر پردرج ہے۔ آپؓ لجنہ اماء اللہ لاہور کی 1958ء سے1967ء تک صدر رہیں۔ آپ کی عاملہ نے آپؓ کی ہدایات کی روشنی میں کام کرتے ہوئے ترقی کی منزل کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔
آپؓ مالی قربانیوں میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں۔ جب جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک ہوئی تو آپؓ نے ایک ہزار روپیہ دیا۔ 1961ء میں مصباح اعانت فنڈ کا اعلان ہوا تو جس کے لیے ساٹھ روپے مقرر کیے گئے تھے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس میں حصہ لینے والی ممبرات کے نام مصباح میں دس سال تک بغرض دعا شائع کریں گے۔ اس تحریک میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے بھی حصہ لیا۔ تحریک خاص میں آپؓ نے 2000روپے عطا فرمائے۔
(تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ539)
حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نام و نمود کی خواہاں کبھی بھی نہیں تھیں۔ نیکی کے کاموں کو وہ عام طور پر چھپا کر کیا کرتی تھیں۔ اسی طرح صدقہ و خیرات کو بھی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔ تحریک جدید کا چندہ وعدہ کے ساتھ ہی ادا کر دیتی تھیں نہ صرف اپنے بچوں کا بلکہ اپنی خادمہ محمد بی بی کا چندہ بھی اپنی طرف سے ادا کرتیں۔
اصحاب احمد جلد12 کے صفحہ76 پر تحریر ہے کہ:
’’حضرت سیّدہ موصوفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد مندرجہ رسالہ الوصیّت صفحہ نمبر29 کے مطابق نظام وصیت سے مستثنیٰ تھیں لیکن اس کے باوجود آپ چندہ عام اور حصہ جائیداد ادا فرماتیں رہیں۔
حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب نے رقم فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے چندوں کو ملا کر کم از کم 3/1 حصہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں جا رہا ہے۔‘‘
جماعت کی مختلف تحریکات میں موصوفہ نے حصہ آمد اور تحریک خاص میں دو ہزار روپیہ چندہ دیا۔ تحریک جدید کے پانچ ہزار ی مجاہدین میں آپؓ کا نام شامل ہے۔
(محسنات صفحہ187-188)
اہلیہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب
اور دوسری صحابیات کی مالی قربانی
حضرت مسیح موعودؑ کو ایک تبلیغی اشتہار کے لیے 60روپے کی ضرورت تھی۔ آپؑ نے منشی ظفر احمد صاحب سے فرمایا کہ آپ کی جماعت یہ انتظام کر سکے گی؟
آپ خود اپنا واقعہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
’’میں نے عرض کی حضرت! ان شاء اللّٰہ کرسکے گی اور میں جا کر روپے لاتا ہوں۔ چنانچہ میں فوراً کپور تھلہ گیا اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کیے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کر دیے۔ حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو دعا دی۔ چند دن کے بعد منشی اروڑہ خان صاحب بھی لدھیانہ گئے۔ تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ ’’منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت مدد کی۔‘‘ منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’حضرت کون سی مدد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’یہی جو منشی ظفر احمد صاحب جماعت کپور تھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے‘‘ منشی صاحب نے کہا حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے تو مجھ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا ہے۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا۔ اس کے بعد منشی اروڑہ صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ10-11)
والدہ ماجدہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ احمدیہ سلسلہ کے لیے بے حد عقیدت رکھنے والی اور قربانی کرنے والی خاتون تھیں۔ ہر قربانی میں پیش پیش رہتیں۔ اسی وجہ سے آپؓ کا نام مینارۃ المسیح پر ذیل الفاظ میں کندہ ہے۔
’’44۔ حسین بی بی والدہ آنریبل سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان ڈسکہ ضلع سیالکوٹ‘‘
آپ نے خالص موحّدانہ زندگی بسر کی۔ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور رحم کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت وافر عطا فرمایا تھا۔ یتامیٰ اور مساکین کے لیے اپنے ہاتھ سے پارچہ جات تیار کرتی رہتی تھیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ9)
عزیز بیگم اہلیہ خانصاحب منشی برکت علی صاحب شملوی
مینارۃ المسیح کی تعمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے پورا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمائی تھی۔ اس تحریک میں ایک سو روپیہ دینے والوں کے نام مینارۃ المسیح پر کندہ کروائے گئے تھے۔ آپ کا نام بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہے۔ سلسلہ کی ہر تحریک میں آپ کا نمایاں حصہ ہوتا تھا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ13-14)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حکیم مولوی نور الدینؓ
کے زمانہ میں مالی قربانی اخبار الفضل کا اجراء
الفضل کن حالات میں جاری ہوا اور اس کے لیے سلسلہ احمدیہ کی معزز خواتین نے کیا گرانقدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ احمدیت اور تاریخ احمدیہ مستورات میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔
الفضل اخبار 19؍جون 1913ء کو جاری ہوا اور اس کا اجراء حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ہی زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کیا۔ آپؓ الفضل کے لیے دی گئی مالی قربانی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی (حرم اوّل) کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنوئیں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو۔ جو اس زمانے میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا اپنے دو زیور مجھے دے دیے۔ کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں۔ ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے۔ جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیوارت کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دو کڑے فروخت ہوئے۔ یہ ابتدائی سرمایہ ’’الفضل‘‘ کا تھا۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت ام الموٴمنینؓ کے دل میں پیدا کی اور آپؓ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لیے دے دی۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ17-19)
زنانہ دعوت الی الخیر فنڈ
الفضل میں 25؍فروری 1914ء کو ایک لجنہ کی تحریک کا اعلان شائع کیا کہ عورتوں کا یہ چندہ تبلیغ اور سلسلہ کے کاموں میں خرچ کیا جائے گا۔ اس فنڈ کی ابتداء حضرت ام المؤمنینؓ کے چندہ سے کی گئی جو دو روپے تھا۔ یہ تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی طرف سے 7؍جنوری 1914ء کے الفضل میں شائع ہوئی تھی۔ آپؓ نے زیر عنوان ’’من انصاری الی اللّٰہ‘‘ لکھا ’’میں نے چاہا کہ ایک دعوت الی الخیر کا زنانہ فنڈ کھولا جائے جس میں عورتوں کے چندے شائع کیے جائیں اور عورتوں میں تحریک کی جائے کہ وہ بھی اس دینی کام میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ آجکل دین کی سب سے پہلی مدد مالی مدد ہے اور وہ اس کام میں تو کم سے کم فوراً حصہ لے سکتی ہیں۔‘‘
یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی۔ پہلی فہرست اس فنڈ کی جو شائع کی گئی تھی وہ مندرجہ ذیل ہے:
نام
چندہ
پیسہ | آنہ | روپیہ | |
معرفت صوفی غلام محمد صاحب عورتوں کا چندہ | 1 | 8 | 0 |
والدہ صاحبہ ناصر احمد ( حرم اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی)ؓ | 1 | 0 | 1 |
اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب | 1 | 0 | 1 |
اہلیہ صاحبہ مستری عبد الرحمان صاحب | 0 | 10 | 0 |
اہلیہ صاحبہ میر محمد اسحاق صاحب | 0 | 8 | 0 |
اہلیہ صاحبہ مستری عبد الرحمان صاحب | 0 | 4 | 0 |
اہلیہ صاحبہ عبد الحئی عرب صاحب | 1 | 0 | 0 |
اہلیہ صاحبہ بابو عثمان صاحب | 0 | 4 | 0 |
میزان | 6 | 4 | 0 |
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ23-24)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی پہلی مالی تحریک
مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے مالی تحریک بارہ ہزار روپے کی فرمائی۔ الفضل نے لکھا کہ ’’اگرچہ مرد ایک ایک ماہ کی آمد دینے کا وعدہ کر چکے ہیں پھر بھی مستورات میں جلسہ کی تجویز ہے اور خواتین بھی غیر معمولی طور پر چندہ میں حصہ لے رہی ہیں۔‘‘ حضرت امّ المؤمنین نے سو روپیہ چندہ دیا۔
چنانچہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے 27؍اپریل 1914ء کو خواتین قادیان کا جلسہ ہوا۔ اکثر بیبیوں نے چندہ دیا اور کئی زیور بھی جمع ہوئے۔ یہ تحریک دعوۃ الی الخیر کے نام سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے دور میں جاری ہوئی تھی۔ اب مزید ضرورت پڑنے پر دوبارہ تحریک کی گئی۔ سکول کی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے بھی ایک ایک پیسہ خوشی با مراد دیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ29)
ولایت میں تبلیغ کے لیے ’’تبلیغ ولایت فنڈ‘‘ میں
مستورات کی مالی قربانی
عورتوں کو دین کی خاطر قربانی کرنے کی تاکید فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
’’ولایت کے اخراجات تبلیغ بڑھ رہے ہیں اور اس وقت پانچ سو روپیہ ماہوار کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ کہ جس سے وہاں گزارہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت وہاں ایک آدمی ہے لیکن دو کے بغیر گزارہ نہیں۔ پس پانچ سو سے کم میں کسی صورت میں گزارہ نہیں ہو سکتا۔ مرد آٹھ دس ہزار روپیہ کے قریب سلسلہ کی مختلف ضروریات پر خرچ کرتے ہیں۔ عورتیں اپنے ذمہ یہ پانچ سو کی رقم لے لیں۔ گویا مردوں سے قریباً سولہواں حصہ خرچ ان کے ذمہ پڑتا ہے۔ اس سے ان کا عہد بھی پوار ہو جائے گا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی۔‘‘
حضورؓ نے یہ بھی فرمایا کہ
’’آئندہ ہر ایک عورت جو چندہ دے خواہ ماہوار خواہ اعانت کے طور پر وہ سب اسی فنڈ میں یعنی ’’تبلیغ ولایت فنڈ‘‘ میں جمع ہوا کرے۔ اس میں سے دسواں حصہ لنگر میں دیا جایا کرے اور باقی ولایت کی تبلیغ پر خرچ ہو۔‘‘
حضورؓ نے گاؤں کی عورتوں کے لیے یہ طریق بھی تجویز فرمایا کہ:
’’ایک آٹا فنڈ‘‘ قائم کرلیں اور روزانہ ایک مٹھی آٹے کی الگ کر کے ایک برتن میں جمع کر دیا کریں۔ جو ہفتہ وار جمع ہو کر عورتوں کے تبلیغ فنڈ میں جمع کیا جائے اور فروخت کر کے اس کی قیمت قادیان بھجوا دی جایا کرے اس طرح آسانی سے بہت سی رقم ہر گاؤں سے جمع ہو سکتی ہے۔‘‘
(ضمیمہ الفضل قادیان دار الامان 12 تا 18-19؍دسمبر 1916ء صفحہ5)
مستورات کا والہانہ لبیک
اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح محمد سیال صاحب ایم اے نے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی نواسی ہیں اپنا زیور قیمتی بائیس روپیہ بطور اعانت کے دیا۔ قادیان کی غریب عورتوں نے اپنے زیورات روپیہ پیسہ سے ایثار کا عمدہ نمونہ دکھلایا۔
فیروز پور کی خواتین کی قربانی
حضورؓ کی اس تحریک پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے جو خواتین ماہوار چندہ دیا کرتی تھیں ان سب نے شرع چندہ میں اضافہ کیا اور جو چندہ نہ دیتی تھیں انہوں نے بھی دینا شروع کر دیا۔ اس طرح ماہوار چندہ کی شرح میں چھ سات روپے کا اضافہ ہو گیا۔
جب عورتوں کا چندہ الگ ہو گیا تو ان کو شوق ہونے لگا کہ ہماری آمد چندہ بڑھے اور ماہوار موعود چندوں میں سے کوئی بقایا دار نہ رہے۔ چنانچہ جہاں جہاں سے چندہ وصول نہ ہوا تھا سیکرٹری صاحبہ محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت مولوی عبد القادر صاحب بمعیت بعض مدد گاروں کے خود گئیں اور چندہ کی وصولی کی۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ39-42)
شملہ کی خواتین کی قربانی
انجمن احمدیہ کی جو سالانہ رپورٹ شائع ہوئی اس میں لکھا تھا کہ
’’یہ خوشی کی بات ہے کہ اس سال احمدی بہنوں نے بھی چندہ میں خاصہ حصہ لیا چنانچہ تقریباًساٹھ روپے ان کی طرف سے وصول پائے۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ46)
اہلیہ بابو محمد امیر صاحب کی قربانی
بابو محمد امیر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ
’’خاکسار اپنی بیوی صاحبہ کو… روپے ماہوار ان کی خاص ضروریات کے لیے دیا کرتا ہے۔ ان میں سے… ماہوار وہ چندہ دے دیتی ہیں اور شائد اب تک اخبار الفضل کی خریدار بھی ہیں۔ اب ان کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ تحریک شملہ میں انہوں نے علاوہ ماہواری اور وقتی چندوں کے مبلغ… روپے دینے کی نیت کی ہے… تحریک شملہ کے متعلق لکھتی ہیں۔ چندہ خاص میں امید ہے کہ آپ پورے مہینے کی تنخواہ دیں گے۔ دنیا کے کام تو پورے ہو ہی جائیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ راضی ہو جاوے تو ایک مہینہ کی تنخواہ کی کوئی بات نہیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ49)
مختلف جماعتوں کی خواتین کی مالی قربانی
احمدی مستورات مگھیانہ تبلیغ ولایت کے لیے ماہوار چندہ جمع کر کے بھجواتی تھیں۔
مستورات قادیان نے 29؍دسمبر 1920ء جلسہ سالانہ کے موقع پر حضورؓ کی تقریر سنی اور ایک ہزار سے زیادہ چندہ جمع کیا۔
جماعت احمدیہ لاہور کی خواتین میں بھی بیداری کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ مولانا غلام رسول راجیکیؓ صاحب نے وعظ فرمایا اور خواتین کو قومی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک کی۔ وعظ کے بعد اہلیہ صاحبہ عبد الحمید صاحب آڈیٹر اور اہلیہ صاحبہ پہلوان کریم بخش صاحب نے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ خدا کے فضل سے عورتوں نے بڑی خوشی سے چندہ دیا۔
گجرات شہر کی خواتین بھی کسی سے کم نہ تھیں ان کی بیداری کا یہ عالم تھا کہ ہر روز صبح اور شام کی نمازوں میں مسجد آتیں با جماعت نماز ادا کرتیں اور جمعہ بھی باقاعدگی سے پڑھتی تھیں۔ مستورات کی ایک انجمن بنا کر باقاعدہ چندہ کی فہرست کھولی گئی اور پندرہ روپے چندہ جمع کئے گئے۔
امرتسر کی احمدی عورتوں کا جوش کے عنوان سے الفضل میں مضمون شائع ہوا۔ مستری اللہ بخش صاحب وزیر ہند پریس امرتسر نے لکھا کہ ان کی اہلیہ صاحبہ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اشاعتِ اسلام امریکن فنڈ کے لیے مستورات سے چندہ وصول کرنا شروع کیا۔ دو ماہ میں مستورات سے امریکن فنڈ کے لیے چندہ پچیس روپے آٹھ آنے وصول پائے۔
سامّانہ کی احمدی خواتین اسی سال (1921ء) منظم ہوئیں۔ چندہ باقاعدہ ادا کرتی تھیں۔ مولوی محمد ابراہیم بقا پوری نے اس جماعت کی پڑتال کی تو رجسٹر ملاحظہ فرمایا تو بہت خوش ہوئے اور تحریر فرمایا:
’’جو باقاعدگی مستورات کے چندہ کے متعلق یہاں دیکھی گئی ہے وہ اور کسی جگہ نہیں دیکھی گئی اور یہی بات میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کا موجب ہوئی۔‘‘
لدھیانہ کی مستورات نے سال 1921ء میں چندہ جمع کر کے مرکز کو ارسال کیا۔ لدھیانہ کی مستورات وصولی چندہ میں مردوں کی تحریک کی مطلق محتاج نہیں رہی ہیں۔ بلکہ اکثر موقعوں پر انہوں نے عمدہ طریق عمل سے خود مردوں کو بھی امداد پہنچائی۔
خواتین امرتسر نے فروری1921ء نومبر 1921ء تک دس ماہ میں دو سو نوے روپے آٹھ آنے چندہ اشاعت اسلام امریکن فنڈ میں دیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ64)
تعمیر زنانہ وارڈ نور ہسپتال کی تعمیر
نور ہسپتال حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے زمانہ میں جاری ہو چکا تھا لیکن عورتوں کے لیے علیحدہ وارڈ نہ تھی۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نور ہسپتال کے انچارج مقرر ہوئے تو انہوں نے احمدی مستورات سے اپیل کی کہ اگر عورتیں چار ہزار روپے چندہ، جمع کر دیں تو ایک لمبا کمرہ مع برآمدہ و صحن بنایا جا سکتا ہے۔
احمدی مستورات نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور ایک سال میں ایک ہزار روپیہ کے قریب جمع ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے مکرمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ سے الفضل میں اس تحریک کے لیے مضمون لکھ کر چندہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی۔ جس کے نتیجہ میں سب سے پہلے اس فنڈ میں 50روپے سلیمہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب نے بھجوائے۔ پھر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ، فہمیدہ بیگم صاحبہ شاہ جہانپوری، صفیہ سلطان صاحبہ اہلیہ سید محمد حسین شاہ صاحب، محمودہ صاحبہ مالیر کوٹہ، خواتین امرتسر اور خواتین شاہجہاں پور اور نصرت گرلز سکول قادیان کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ61-63)
یکم اگست1923ء کو صبح آٹھ بجے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد حضرت ام الموٴمنین کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا۔ آپؓ نے دعا فرمائی اور زنانہ وارڈ کے کمروں کی بنیادی اینٹ رکھی۔ اس موقع پر سیکرٹری لجنہ اماء اللہ حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہؓ نے شفا خانہ کا مختصر حال اور کار گزاری پیش کرتے ہوئے چندہ کی تحریک کی اسی وقت ڈیڑھ سو روپے کے قریب وعدہ ہو گیا۔ سب سے بڑی رقم پانچ صد روپے کے قریب چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی اہلیہ مکرمہ کی طرف سے دیے گئے۔ بقیہ رقم کا بڑا حصہ اہلیہ قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور اہلیہ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ124)
کرم بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت منشی امام دین ؓکا واقعہ
جب حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد لنڈن کے لیے تحریک فرمائی تو کرم بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت منشی امام الدین صاحب کے پاس کافی زیور موجود تھا۔ آپ نے غالباً صرف ایک زیور اپنی والدہ مرحومہ کی نشانی کے طور پر رکھ کر بقیہ سارا زیور اپنی خوشی سے پیش کر دیا۔ جس وقت آپ گھر سے زیور بھجوانے لگیں تو چاندی کا زیور ترازو میں سیروں کے حساب سے نکلا تھا۔ آپ تولنے کے بعد بہت خوش ہوئیں کہ اس کا اتنا وزن ہوا ہے اور بہت ہی خوشی سے اسے پیش کر دیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ13)
اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب نے مسجد فضل لنڈن کے لیے دس پندرہ اشرفیاں دیں۔
تیس ہزار کی رقم چند روز میں ہی جماعت قادیان، ضلع گورداسپور، ضلع امرتسر اور ضلع لاہور کے احمدیوں نے ہی پوری کر دی۔
تحریک چندہ خاص میں مستورات کی مالی قربانی
اپریل 1922ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انجمن کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اس چندہ کی تحریک کی۔ صیغہ بیت المال پر ایک لاکھ روپے کا قرض تھا۔ آپؓ نے دو ماہ کے اندر اندر یہ رقم جمع کرنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ آپؓ نے چندہ تقسیم فرماتے ہوئے قادیان کی مستورات کے ذمہ ایک ہزار روپے کی رقم لگائی۔ جس میں سے سب سے پہلے حضرت اُم الموٴمنینؓ نے پہلی رقم ایک سو روپے عنایت فرمائی۔ باقی تمام ملک کی مستورات کے لیے باقی 900روپے کی رقم جمع کرنی تھی۔
حضرت امّ المؤمنینؓ کی ملیریا کی وباء
کے لیے مالی قربانی (ستمبر 1924ء)
برسات کے موسم میں اکثر اوقات قادیان میں ملیریا کی وباء پھیل جاتی تھی۔ ان ایام میں غرباء کے لیے حضرت اُمّ الموٴ منینؓ نے اٹھارہ روپے کی کونین خرید کر نور ہسپتال کو عنایت فرمائی۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ153)
فروری 1925ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سفر یورپ سے واپسی پر اخراجات بڑھ جانے پر جماعت احباب سے ایک لاکھ روپے کی تحریک کی جس پر لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی بے مثال تھی۔
پندرہ سو روپے نقد، زیور اور وعدوں کی صورت میں اسی وقت جمع ہو گیا۔ بقیہ فہرستیں تیار کرنے کا کام بھی شروع کیا گیا۔ اس کی پہلی فہرست جس میں 114خواتین جو احمدی تھیں کے نام بیت المال کے ناظر صاحب کی طرف سے شائع کی گئی۔ جنہوں نے معقول چندہ ادا کیا۔ ان میں طلائی زیورات اور نقرئی زیورات بھی شامل تھے۔
اس تحریک کے لیے حیدر آباد دکن کی سلیمہ بیگم صاحبہ نے حضورؓ کی خدمت میں خط لکھا۔ فرماتی ہیں:
’’حضور کا بھی بہت بڑا احسان ہے کہ اپنے نا چیز خادموں کے لیے ایسے متبرک مواقع بار بار مہیا فرماتے ہیں، اس تحریک کے مطابق میرے خاندان کے سب لوگ ایک ایک ماہ کی آمدنی ادا کرتے ہیں۔ چونکہ یہ چندہ خدا کے لیے ہے۔ اس لیے یہ عاجزہ اپنے تمام گھر والوں کا چندہ یکجا کر کے حضور کی خدمت میں ارسال کرتی ہے۔ حضور اسے قبول فرمائیں۔ نیز کل کی ڈاک سے مبلغ 56روپے کلدار سیدہ امۃ الحئی صاحبہ کی لائبریری کے لیے روانہ کیے ہیں۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ162)
’’امۃ الحئی لائبریری‘‘ کا قیام اور لجنہ کی مساعی
یہ لائبریری حضرت سیّدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد لجنہ اماء اللہ نے قائم کی جس کی تمام تر ذمہ داری بھی خود لی اور اس لائبریری کے لیے جلسہ سالانہ پر آنے والی مستورات 4 آنے فی خاندان چندہ لینا تجویز کیا۔ اس چندہ میں قادیان کی عورتیں بھی شامل تھیں۔ یہ لائبریری 1927ء میں قائم کی گئی اور اس کی مہتمم حضرت سیدہ اُمّ طاہرؓ مقرر کی گئیں۔ لجنہ کی درخواست پر حضرت اُمّ المومنینؓ نے ایک الماری مرحمت فرمائی۔
لجنہ کی درخواست پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک گول کمرہ عنایت فرمایا جہاں 16؍ستمبر 1927ء کو اس کا افتتاح کیا گیا۔ ابتداء میں دو سو روپے کی کتب خریدی گئیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، حضرت اُمّ الموٴمنینؓ اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دیگر افراد نے کتب دیں۔ 1930ء کی رپورٹ کے مطابق لائبریری میں سات سو کے قریب کتب تھیں۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ231)
دسمبر 1925ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر
مستورات کے قیام طعام کے لیے مالی قربانی
اس سال جلسہ سالانہ کا انعقاد کسی کھلی جگہ کروانے کی تجویز پیش ہوئی۔ اس سال چھ سو مستورات تین قیام گاہوں میں ٹھہریں۔ ہر قیام گاہ کی الگ منتظمہ تھی۔ اس سال یہ تجویز کیا گیا کہ آئندہ جلسہ مستورات کا کسی کھلی جگہ پر انتظام کیا جائے جس کا خرچ لجنہ برداشت کرے گی۔ اس موقع پر چندہ مستورات نو سو روپے جمع ہوا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ188)
امیر جماعت احمدیہ فیروز پور جناب مرزا ناصر علی صاحب کی اہلیہ کی مالی قربانی
انہوں نے احمدیہ مسجد فیروز پور کی خستہ حالت دیکھ کر پانچ صد روپے کی گراں قدر رقم برائے مرمت مسجد سامان اور دریوں وغیرہ کے لیے عطا کی اور مقامی جماعت کے یتیم و مساکین کے لیے بھی 500 روپے دئیے۔ یعنی کل ایک ہزار روپے جو آجکل کے شائد لاکھوں روپے کے برابر ہوں گے۔
ان کی اس شاندار مالی قربانی پر لجنہ اماء اللہ نے ایک ریزو لیشن پاس کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ205)
شدھی تحریک کے مقابلہ میں احمدی خواتین کی بے مثال قربانیاں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1923ء میں اس تحریک کے خلاف آواز اٹھائی اور 7؍مارچ 1923ء کو اس فتنہ کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور ڈیڑھ صد احمدیوں کی ضرورت کا مطالبہ کردیا اور فرمایا کہ ہر مجاہد کو تین ماہ اپنے خرچ پر وہاں رہنا ہو گا۔ ساری جماعت نے اس پر لبیک کہا اور ہر طبقہ کے افراد نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس مہم کے لیے حضورؓ نے 50ہزار روپے جمع کرنے کی اپیل فرمائی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا چندہ دو سو روپے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ کئی عورتوں نے اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کیا کہ ہم بھی وہاں جا کر کام کرینگی۔ مثلاً سعیدہ بیگم صاحبہ نے لاہور سے، سردار بیگم دختر شیخ محمد حسین صاحب سب جج زیرہ ضلع فیروز پور، زینب بیگم طاہرہ بنت حکیم شیخ عبد الرحیم صاحب آگرہ، محمودہ خاتون اہلیہ صاحبہ عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹہ اور عمر بی بی والدہ محمد عبد الحق صاحب آگرہ سب نے حضورؓ کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف کرنے کے لیے خطوط لکھے۔
حضرت سیدہ امۃ الحئی ؓ حرم دوم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بیس بڑے دوپٹے اور ایک چھوٹا دوپٹہ عید کے موقع پر ان راجپوت عورتوں کے لیے بھیجے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا مقابلہ جوانمردی سے کیا اور اس وجہ سے تکالیف برداشت کیں۔
ایک عورت جو کرایہ کے مکان میں رہتی تھی نے حضورؓ کی خدمت میں پندرہ روپے آٹھ آنے بھجوائے جس کا نام زینب زوجہ فقیر محمد تھا اپنے گھر کا سارا سامان بیچ کر یہ چندہ دیا۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ118-123)
نادار بچیوں کی تعلیم کے لیے ایک مالی قربانی کی تحریک
نادار بچیوں کے لیے ایک مالی قربانی کی تحریک شروع کی گئی۔ مسعودہ بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد علی صاحب بدو ملہی انسپکٹر انجمن احمدیہ نے الفضل میں لکھا:
’’ہر ایک شہر اور ہر ایک گاؤں میں لجنہ اماء اللہ کے ماتحت ایسا انتظام کیا جائے جس میں چندے کی ایک ایسی مد کھولی جائے جن سے ان لڑکیوں کی جو یتیم یا غریب ہیں تعلیمی ضروریات پوری کی جائیں یعنی مفت کتابیں دی جائیں اور سامان تعلیم بہم پہنچایا جائے جس سے وہ ترقی کر سکیں ……پس جہاں لجنہ اماء اللہ کے ماتحت اور کاموں کے کرنے کا ارادہ کیا ہے وہاں میری اس مختصر عرض پر غور کر کے اس کے متعلق مناسب طریق کو عمل میں لایا جائے۔‘‘
یہی تجویز آج مستقل طور پر شعبہ خدمت خلق کے رنگ میں ظاہر ہو چکی ہے ہر سال سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچیوں کو تعلیمی وظائف، نقد اور کتب کی صورت میں دی جاتی ہے۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ209)
اب تو امداد طلباء کے نام سے بھی ایک مستقل چندہ جاری ہے جس میں باقاعدہ لجنہ اماء اللہ اپنے وعدے لکھواتی ہے۔
قادیان سے ہجرت کے بعد مہاجرین کے قیام و طعام کے انتظامات کا سہرا حضرت سیّدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صاحبہ کے سر رہا۔جو اس کٹھن کام کو دیگر کارکنات کی مدد سے حضرت مصلح موعودؓ کی زیر ہدایت دن رات سر انجام دیتی رہیں اور حضورؓ کا سلوک انتہائی مشفقانہ اور مہربانہ تھا کہ ہر آنے والا آرام اور تسکین پاتا تھا۔ حضرت سیدہ ممدوحہ بذات خود ہر ایک کے لیے مہمان خانہ سے کھانا منگوا کر تقسیم فرماتیں۔ ان کے لیے کپڑے اور بستر فراہم کرتیں۔ ان کی رہائش کے لیے جگہ کا انتظام فراہم کرتیں۔ بیماروں کے علاج کا انتظام کرتیں۔ بعد میں حضرت آپا جان مریم صدیقہ صاحبہ نے یہ کام مکرمہ امۃ اللطیف صاحبہ کو سونپ دیا۔ چنانچہ تفصیلی ہدایات لینے کے لیے امۃ اللطیف صاحبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں۔ آپ نے حضرت اقدسؓ ، حضرت ماں جانؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کروائی۔ کھانے کے متعلق ہدایات دیں۔ ایک ایک روٹی صبح شام لنگر خانہ سے دی جانے لگی۔ صفائی کا بہت خیال رکھا جاتا تھا کیونکہ وبائی امراض زور پکڑ رہی تھیں۔ لجنہ اماء اللہ کی زیر نگرانی قادیان سے آئی ہوئی بہت سی خواتین اور ان کے بچوں کے ساتھ لجنہ اماء اللہ لاہور کی خواتین نے بھی مہاجرخواتین کی خدمات سر انجام دیں۔
ہزاروں کی تعداد میں عورتیں اور بچے لاہور پہنچنے لگے۔ لٹے ہوئے قافلے نہایت کسمپرسی اور پریشانی کی حالت میں پہنچتے۔ ان کی حالت ناقابل بیان تھی۔ اکثر کے پاس جوتے، کپڑے، برتن اور برقع تک نہ تھے۔ ان سب کو کیمپوں میں ٹھہرایا گیا۔ کھانا بہت سی کارکنات اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی مستورات کھلاتی تھیں اور رات بسر کرنے کے لیے صفوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ بیماروں کو دوائیں دیں۔ سینکڑوں رشتہ دار ایک دوسرے کو ملنے آتے۔ ان کو لینے آتے۔ تلاش کر کے ملایا جاتا اور کئی ایک کے پاس جانے کے لیے کرایہ تک نہ تھا کرایہ کا انتظام کیا جاتا۔
مختلف علاقوں کی لجنہ کی خدمات مہاجرین کے لیے
لاہور کی لجنہ نے بڑی کوشش کر کے مہاجرین کے لیے سامان اکٹھا کیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں کپڑے، بستر اور نقدی اکٹھی کر کے دفتر لجنہ اماء اللہ میں جمع کروائے۔
راولپنڈی کی لجنہ
محترمہ امۃ العزیز صاحبہ ایک سر گرم رکن تھیں۔ وہ جہاں مہاجرین کو ٹھہرایا گیا تھا وہاں دیگر ممبرات کے ساتھ پہنچ کر امدادی کاموں میں شرکت کرتیں اتنا عمدہ اور موثر کام کیا کہ راولپنڈی کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اور مسلم لیگ نے ان کے کام کو از حد سراہا اور انہیں کمشنر کا عہدہ دے دیا گیا۔ آپ شب و روز محنت کر کے مہاجرین کی آباد کاری کا کام رات گئے تک مصروف رہ کر کرتیں۔ جتنی خواتین کی ضرورت ہوتی وہاں لیکر پہنچ جاتیں اور بڑی خوش اسلوبی سے کام کو سرانجام دیتی تھیں۔
کھاریاں ضلع گجرات کی لجنہ نے بہت کام کیا۔ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ کھاریاں نے مہاجرین کو آباد کیا۔ کثیر تعداد میں کپڑے اور بستر جمع کر کے دو ٹرکوں پر مرکز بھجوائے۔
گھسیٹ پورہ ضلع لائلپور کی لجنہ کی قربانی
محترمہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد طفیل صاحب سابق صدر لجنہ گھسیٹ پورہ ضلع لائلپور (حال فیصل آباد) تحریر کرتی ہیں کہ:
’’قیام پاکستان کے بعد ہم ہجرت کر کے ضلع لائلپور کے ایک گاؤں چک نمبر69-RB گھسیٹ پورہ میں پہلے احمدی خاندان کی حیثیت سے آباد ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک کے ماتحت کہ احمدی مہاجرین اکٹھے مختلف مقامات پر آباد ہونے کی کوشش کریں۔ میں نے اپنے خاوند کو تحریک کی کہ اس گاؤں میں زیادہ سے زیادہ احمدی آباد کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ ان کی کوششوں سے پہلے اپنے تمام رشتہ داروں کو یہاں بلا کر آباد کیا، پھر ہم رتن باغ لاہور پہنچے اور زمیندار احمدی مہاجرین سے رابطہ کیا۔ انہیں گھسیٹ پورہ پہنچنے کی تحریک کی اور جب وہ تیار ہو گئے تو افسران سے مل کر 180-190 احمدی گھرانوں کو زمین الاٹ کرا کر یہاں آباد کرنے کا انتظام کیا۔ اس طرح یہاں احمدی آبادی کی اکثریت ہو گئی۔ چنانچہ یہاں احمدی آبادی خدا کے فضل سے ایک ہزار سے بھی زیادہ تجاوز کر چکی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ29-34)
قصہ مختصر تمام لجنہ نے جس طرح ہو سکا مہاجرین کی مدد کی جو کچھ بھی ہو سکا ان کو دیا۔ اپنی جمع پونجی سے کیا کسی گورنمنٹ کی مدد تو نہ لی۔ لی تو صرف اپنی ہی۔ اگر کہیں آنا جانا پڑا تو سب اپنی جیب سے خرچ کیا تو سب لجنہ کی قربانی ہی تھی۔
فضل عمر فاؤنڈیشن کے لیے مالی قربانی
صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہؓ نے مصباح میں ایک مضمون لکھا۔ آپؓ فرماتی ہیں:
’’آج وہ محسن جماعت، محسن نسواں، محسن انسانیت ہم میں موجود نہیں لیکن اشاعت اسلام کی جو تدابیر آپؓ نے اختیار کی تھیں۔ جو سکیمیں آپؓ نے بنائی تھیں ان کے فروغ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ’’فضل عمر فاؤنڈیشن‘‘ کا قیام فرمایا جس کا ابتدائی سرمایہ 25لاکھ روپے ہو گا تاکہ آپؓ کے جاری کردہ کاموں کو پہلے سے بھی زیادہ بہتر صورت میں جاری رکھا جا ئے اور ان کو ترقی دی جائے۔
پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مرد، عورتوں اور بچوں سب نے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دل کھول کر فضل عمر فاؤنڈیشن میں حصہ لیا اور تین سال گزر نے پر صرف مقررہ رقم پوری ہو گئی۔ بلکہ مقررہ رقم سے بہت زیادہ جمع ہو گئی۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ306-307)
1974ء کے احمدیوں کے خلاف فسادات اور
ابتلاء میں لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی
1974ء میں احمدیہ جماعت کے خلاف ایک خطرناک ابتلاء آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے پاکستان میں جماعت کے خلاف نفرت و حقارت کی آگ بھڑکا دی گئی۔ بہت سے احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ گھروں اور مکانوں کو لاکھوں کی مالیت کے سامان کے ساتھ جلا کر خاک کر دیا یا لوٹ لیا گیا۔ بہت سے بے یارو مدد گار احمدی بے خانماں گھرانوں نے ربوہ کی سر زمین پر پناہ لی۔ سب خالی ہاتھ تھے۔ ان کی مدد کے لیے پورے پاکستان کی لجنہ نے بے شمار قربانیاں دیں جن کا انفرادی ذکر کرنا تو مشکل ہے۔ چند ایک جماعتوں کا ذکر درج ذیل ہے۔
سکھر25/118، راولپنڈی 296 روپے، کوئٹہ 78/2393، سیالکوٹ 1416 روپے، لاہور10,180 روپے، لائل پور868 روپے، اسلام آباد 60 روپے، حیدرآباد300 روپے، جنوبی سرگودھا550 روپے، ناصرہ آباد تھر پارکر10 روپے، چک نمبر58لائلپور10 روپے اور متفرق افراد کی طرف سے 1255 روپے ان کے علاوہ 43شہروں اور گاؤں کی لجنہ بھی شامل تھیں۔
(تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ239-242)
MTA کے لیے مالی قربانی
مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ جو چوبیس گھنٹے چلنے والا سیٹلائٹ ٹیلی ویژن ہے جو پوری دنیا میں دیکھا اور سنا جاتا ہے اور ان شاء اللّٰہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔
اتنے بڑے نظام کو چلانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس آسمانی مائدہ کے بارہ میں خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو القاء فرمایا تو ہر قسم کی مشکل راستہ سے ہٹ گئی اور اتنا بڑا مالی منصوبہ پایہٴ تکمیل کو پہنچا۔ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ کا ظہور ہوا۔ امیر سے امیر اور بڑی سے بڑی حکومت بھی یہ کام نہ کر سکی، جو جماعت احمدیہ کے غریب عوام نے کر دکھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ابھی تحریک بھی نہ کی تھی کہ چندہ دیا جائے۔ افرادِ جماعت تو جیسے منتظر تھے کہ امام وقت کے منہ سے کوئی بات نکلے، کوئی اشارہ ملے تو وہ اپنے تعاون اور اپنی فدائیت کا ثبوت دیں۔ بغیر طلب کیے اپنے مسیح موعودؑ کے روحانی فرزند کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیے۔ لاکھوں کے چیک مردوں اور عورتوں کی طرف سے وصول ہونے شروع ہو گئے۔ کیوں یہ انتظام نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے تو حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو ’’نور الدین‘‘ بنا دیا۔ کوئی بھی خواہش، کوئی منصوبہ ہو اس کے لیے روپے کی کمی آڑے نہ آتی۔
احمدی خواتین مردوں کے قدم بہ قدم بر ضاو رغبت اس راستہ پر چلتی رہی ہیں اور چلتی رہیں گی۔ ان شاء اللّٰہ
(محسنات صفحہ219-220)
قدرتی آفات میں لجنہ کی مالی قربانی
سیلاب ہو یا زلزلہ، جنگ یا کوئی اور مصیبت ہر جگہ جماعت احمدیہ مالی قربانی کرنے میں پیش پیش رہتی ہے اور لجنہ اماء اللہ نے ہر قدم پر لبیک کہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دور ہو یا کسی بھی خلیفۂ وقت کا ہر آفت کے موقع پر لجنہ کی مالی قربانی قابل ذکر رہی ہے۔ ہر ایک کا ذکر کرنا تو مشکل ہے لیکن ایک بہت بڑی آفت شمالی علاقہ جات و کشمیر میں نازل ہوئی۔ 8؍اکتوبر 2005ء کو ایک قیامت خیز زلزلہ آیا۔ یہ زلزلہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مصیبت کے مارے لوگ جو گھر سے بے گھر ہوگئے، حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے Humanity First اور پاکستان کے احمدیوں کو زلزلہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی خاص تحریک فرمائی۔ اس تحریک میں لجنہ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ راولپنڈی کی لجنہ اور پاکستان کے مختلف شہروں کی لجنہ نے نئے پرانے اچھی حالت کے کپڑوں اور روپے پیسے سے بہت زیادہ مدد کی۔
غیر ممالک کی لجنات کی مالی قربانی
کینیڈا میں گزشتہ بارہ سال سے مینا بازار بھی انوکھی طرزکے ہوتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف مسجد اور مشن ہاؤس کے فنڈ کے لیے مخصوص ہوتے۔ یہ آمدنی صرف ایک روزہ آمدنی نہ ہوتی بلکہ اس کے پیچھے شب و روز کی محنت جو سلائی کڑھائی، پکوان، سیل میں سستے داموں کپڑا خرید کر اور طرح طرح کی تراکیب سے یہ رقم بڑھائی جاتی رہی۔ یہاں تک مسجد کی تکمیل تک مینا بازار سے حاصل ہونے والی آمدنی ڈیڑھ لاکھ ڈالرز سے بھی زیادہ کی رقم تھی۔
(محسنات صفحہ222)
لجنہ اماء اللہ جرمنی کی تاریخ 1973ء تا 1990ء مرتبہ کوثر شاہین ملک سے پتہ چلتا ہے کہ لجنہ ممبرات ہر قسم کے طوعی اور لازمی چندہ جات میں باقاعدہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ مثلاً لجنہ گیزن کی آٹھ ممبرات کے نام سو (100) مساجد کی تحریک میں وعدہ جات میں درج ہیں۔
(محسنات صفحہ222)
سو سالہ جوبلی فنڈ میں لجنہ کی مالی قربانی
حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1973ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے عالمگیر منصوبہ کا اعلان فرمایا کہ جماعت احمدیہ اپنا سو سالہ جشن شایان شان طریقہ سے منا سکے۔ لجنہ اماء اللہ نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ جوش و خروش سے حصہ لیا۔آپؒ نے اسلام کے عالمگیر غلبہ کی خاطر قرآن کریم کی اشاعت کے لیے ایک عظیم الشان طویل المیعاد منصوبے کا اعلان فرمایا جس کے لیے جماعت سے ڈھائی کروڑ روپے کی اپیل فرمائی۔ حاضرین جلسہ نے جس والہانہ انداز میں لبیک کہا وہ جماعت احمدیہ اور خلافت احمدیہ کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے۔ لجنہ اماء اللہ نے بھی اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وعدہ جات پیش کیے۔ اس فنڈ کا نام ’’صد سالہ جشن فنڈ‘‘ رکھا گیا۔ اس فنڈ کی تکمیل حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دور میں ہوئی۔
(تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ210-211)
سرائے مسرور کے لیے مالی قربانی
یہ شاید 2003ء یا 2004ء کی بات ہے جب صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی طرف سے ’’سرائے مسرور‘‘ کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی۔ ہماری مجلس کی صدر صاحبہ نے ہمارے حلقہ کا دورہ کیا اور بہت جوش دلانے والا خطاب فرمایا۔ اس موقع پر خاکسار نے اپنے گلے میں پہنا ہوا اپنا جہیز کا گلوبند اتار کر چندے کے لیے پیش کر دیا۔ جس کی بعد میں مجھے 4500 روپے کی رسید ملی، اس وقت 4000 روپے کا تولہ سونا تھا۔ اسی طرح دوسری لجنات نے بھی وعدے لکھوائے اور نقد بھی اسی وقت ادا کئے۔ صدر صاحبہ نے فرمایا کہ جو ایک لاکھ روپیہ دے گا اس کا نام ’’سرائے مسرور‘‘ کی تختی پر آویزاں کیا جائے گا۔ ضلع راولپنڈی کی 25 ممبرات نے ایک لاکھ روپیہ ادا کیا جن کے نام وہاں کندہ ہیں۔ اسی طرح پورے پاکستان کی لجنہ نے قربانیاں دیں ان کے نام وہاں کندہ ہیں۔
(معلومات رجسٹر سیکرٹری مال)
صد سالہ خلافت جوبلی پر
لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی
27؍مئی 2005ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صد سالہ خلافت احمدیہ جوبلی منانے کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر احباب جماعت نے مبلغ دس کروڑ پاؤنڈز کی رقم حضور انور کی خدمت میں پیش کی جو اشاعت اسلام پر خرچ کی جائے گی۔ اس رقم میں لجنہ نے بھی بھر پور حصہ ڈالا۔
(نظام خلافت اور خلافت کے سو سال صفحہ327)
حرف آخر
نماز جنت کی کنجی ہے۔ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور مال خرچ کرنے سے کبھی کم نہیں ہوتا بشرطیکہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔
(راشدہ مصطفٰے)