لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانی کے سلسلے میں حیرت انگیز مساعی
ہوا میں تیرے فضلوں کامنادی… فَسُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
آج لجنہ اماء اللہ کی صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات کا بابرکت تذکرہ اورحضرت مصلح موعودؓ کے خواتین پر احسانات کی منادی ہورہی ہے۔ جماعت احمدیہ کی خواتین پر نازل ہونے والےبے شمار فضائل اور خواتین کی بحیثیت تنظیم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے باندھے گئے عہد کی باکمال پاسداری کی تحدیث نعمت کے طور پر کچھ ذکر کرنا مقصود ہے۔ ویسے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں احمدی خواتین کبھی بھی کسی میدان میں پیچھے نہیں رہیں مگر مالی قربانی اور خدمت خلق کا جذبہ حد سے سوا ہے اور اس جذبے کا اظہار اوّل روز سے ہو رہا ہے۔
جب بھی جماعت میں مالی قربانیوں کا ذکر چلتا ہے سب سے پہلے ہماری امّ الموٴمنین حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا (محترمہ نصرت جہاں) کا اپنا زیور بیچ کر بہشتی مقبرے کی زمین اور مہمان خانے کی ضرورت پوری کرنے کاحوالہ قطبی ستارہ بن کر سامنے آجاتا ہے۔حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضرت مسیح موعودؑ کے مقدس مشن میں قدم بہ قدم ساتھ دینے کا سلسلہ تو چل ہی رہاتھا اس سلسلے میں وقت پڑنے پر مالی معاونت اور وہ بھی اپنی ذاتی ملکیت دے کر ضروریات پوری کرنا ہماری جماعت کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے یاد رکھا جائے گا۔ حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھ کر دوسری صحابیات بھی اسی نمونہ پر چل رہی تھیں چنانچہ مینارۃ المسیحؑ کی تعمیر میں بھی خواتین کا بھر پور حصہ رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مردوں کے علاوہ احمدی خواتین جنہوں نے اس وقت سو روپے یا اس سے زائد رقم ادا کی ان کے نام بھی مینارۃ المسیح پر کندہ کروائے تھے۔جن میں حضرت امّاں جانؓ، محترمہ حسین بی بیؓ اور عزیزہ بیگمؓ اہلیہ خان صاحب منشی برکت علیؓ شامل تھیں۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ سے ایک مرتبہ حضور اقدسؑ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ’’اس وقت ساٹھ روپے کی ضرورت ہے ایک اشتہار چھپوانا مقصود ہے۔ کیا آپ کی جماعت یہ انتظام کر سکے گی۔ حضرت منشی صاحبؓ کو دیکھئے کہ وہاں سے اپنے گھر پہنچتے ہیں جماعت میں کسی اور سے بات نہیں کی اپنی بیوی سے زیور لے کر بازار میں جاکر بیچ کر ساٹھ روپے حضور اقدسؑ کی خدمت میں نذر کر دیتے ہیں۔
(محسنات۔مصنفہ بشریٰ بشیر)
مالی قربانی کا یہ جذبہ احمدی کے خون میں شامل ہے۔ عورتیں ہوں یا مرد جماعت کی آواز پر لبیک کہنا اور اپنی سب سے قیمتی شے جماعت کی خدمت میں پیش کر دینا ان کا شعار ہے۔
جماعت احمدیہ ہائے عالمگیر کے نظام کے تحت خدا تعالیٰ کی عبادتوں کے گھر ساری دنیا میں قریہ قریہ میں بنائے گئے ہیں اور مزید بنائے جارہے ہیں۔ جلسہ سالانہ کے دوسرے روز ’’ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی‘‘ کے موضوع پر خلیفۃ المسیحؑ کا جو خطاب ساری جماعت کی طرف سے تحدیث نعمت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ وہ انہی جماعتی ترقیات سے بھرا ہوتا ہے۔ اللہ کے فضل سے ہر سال کسی نہ کسی ملک میں نئی مساجد کی تعمیر یا خرید کا ذکر ہوتا ہے
عالمگیر مساجد کے سلسلے میں لجنہ اماء اللہ کی قربانیوں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔ لجنہ کی تنظیم کے قیام کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ اماء اللہ پر سب سے پہلی مالی ذمہ داری مسجد برلن (جس کی رقم سے بعد میں مسجد فضل لندن بنائی گئی) کی ڈالی تھی جو ہماری بزرگوں نے شاندار طریق پر پوری کی۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانہ کی خواتین جب کہ رزق کے مواقع بہت کم تھے کیسے پائی پائی جوڑ کر خلفاء کی تحریک پر لبیک کہتی رہیں۔ حضور رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ روپے کی تحریک کی گو کہ اس وقت جماعت کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی مگر پھر بھی خواتین نے بہت جلد غالباًایک لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر دیا۔
محترمہ بشریٰ بشیر صاحبہ نے اپنی کتاب ’’محسنات‘‘ میں لکھا ہے کہ ان قابل فخر قربانیوں کو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں خراج تحسین پیش کیا ’’1920ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں (بیت) بنائیں گے اس کے لئے ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہے تو جماعت کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ اکٹھا کر کے دے دیا۔ اس کے لئے عورتوں نے اپنے زیورات اتار کر دے دیے‘‘ یہی صورت حال ہمیں ہالینڈ کی مسجد بناتے ہوئے نظر آ تی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی لجنہ اماء اللہ ہجرت کی مشکلات سے نبرد آزما تھی مگر پھر بھی اپنے خلیفہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ٹارگٹ پورا کیا۔ اس کے بعد مساجد بنانے کی ذمّے داریوں میں نئی سے نئی کونپلیں پھوٹنا شروع ہو گئیں۔
ویسے تو ساری دنیا میں مساجد کی تعمیر میں مرد حضرات کے ساتھ لجنہ اماء اللہ نے بھی برابر کا بلکہ بعض جگہوں پر مردوں سے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ جس کی بہت سی مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں ملک ناروے جہاں خاکسار گزشتہ 35 برس سے مقیم ہے میں بننے والی مساجد اور لجنہ کی مساعی کے متعلق کچھ حقائق تحدیث نعمت کے لئے لکھ رہی ہے۔
ناروے کی مساجد اور لجنہ اماء اللہ ناروے کی مالی قربانیاں
’’تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوٴں گا‘‘ کی پیشگوئی کا ناروے کی سرزمین میں ایک مرتبہ پھر، پورا ہونے کا نظارہ۔
ملک ناروے جو اسکینڈےنیویا کے انتہائی شمال میں واقع ایک خوبصورت خطہ ہے۔ زمین کا یہ ٹکڑا دنیا کا کنارا بھی کہلاتا ہے۔ مذکورہ بالا خوشخبری جو اللہ تعالیٰ نے امام الزماں علیہ السلام کو ایک پیشگوئی کے ذریعے دی تھی جس کا اظہار جماعت احمدیہ نے بار ہا دیکھا ہے۔ناروے کی سر زمین میں بھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے نظارے آج سے 44برس قبل ناروے کے باشندوں نے دیکھ لئے تھے۔ جب 1979ء دسمبر میں پہلی مرتبہ مسجد کے لئے اس وقت کے مربی سلسلہ جناب منیرالدین کے ذریعے عمارت خریدی گئی تھی اور جہاں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ بہ نفس نفیس سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائے تھے۔
حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ کا ناروے جماعت پر اعتماد
ناروے کی پہلی مسجد نور کے وقت تو یہاں آبادی بہت کم تھی۔ مگر جتنی بھی تھی یہاں بھی مردو زن نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔
ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ناروے کی لجنہ اماء اللہ کی تجنید میں سے بھی کچھ ممبرات نے ایک ہزار کرونر کے وعدے لکھوائے اور ادا کئے، یاد رہے کہ ایک ہزار کرونر اس زمانے میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ مسجدنور کے پچیس برس بعد جب دوسری مسجد کا کام شروع ہوا۔ اس وقت تک ناروے کی ٹوٹل تجنید لگ بھگ پندرہ سو ہو چکی تھی۔ یہ 2005ء کا وقت تھا جب کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ناروے تشریف رکھتے تھے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اوسلو میں خطبہ جمعہ میں ناروے جماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے نئی مسجد کی تعمیر مکمل کرنے کا اعلان فرمایا اور جماعت کو ایک قسم کا چیلنج دیا کہ یہ مسجد ’’ناروے جماعت‘‘ نے ہی بنانا ہے۔
شائد خلیفہٴ وقت کو ناروے کی جماعت میں کوئی ایسی بات نظر آگئی تھی جس سے ان کو جماعت پر اعتماد ہو گیا کہ یہ جماعت بغیر کسی بیرونی جماعت کی مدد کے مسجد کے اخراجات برداشت کر لے گی۔
حضور ایدہ اللہ کا ارشاد
اور لجنہ اماء اللہ ناروے کی مالی قربانیاں
حضور اید ہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ نے ملک ناروے کی لجنہ اماء اللہ اور ناصرات میں جیسے بجلی بھر دی گئی ہو۔
؎سجی ہے پہن کر تو لجنہ کے زیور
فدائیوں کو اپنا اجر مل گیا ہے
یہ شعر ناروے لجنہ کی ایک ممبر محترمہ امتہ المنّان صاحبہ کے ایک ترانے کا ہے جو انہوں نے بیت النصر بننے پر لکھا تھا۔
اس شعر کے بیان میں قطعاًکوئی مبالغہ اور لفاّظی نہیں۔ ہماری جماعت کی فضا اس چیز کی گواہ ہے کہ خدام اور انصار کے ساتھ ساتھ ناروے کی بچیوں، خواتین اور بڑی عمر کی عورتوں نے جس جذبے سے مسجد بنانے کے لئے رقم کا انتظام کیا وہ قابل ستائش ہے صرف زیورات ہی نہیں لجنہ کی مرکزی عاملہ نے مختلف فیصلے کئے جس میں اخراجات کم کر کے آمدنی بڑھانے کے ذرائع ڈھونڈے گئے، اسٹالز لگانا۔ نمائش لگانا، دستکاری سے مختلف چیزیں بنا کر بیچنا۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلا اور بہت مستقل مزاجی سے بغیر کسی جھنجلاہٹ اور بیزاری کے ہر عمر کی لجنہ اور ناصرات نے اپنی طاقتوں سے بڑھ کر کام کیا۔
یہ مسجد (بیت النصر) 2010ء میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد 2020ء میں ایک جنوبی شہر کرسچیان سنڈ میں چرچ خرید کر مسجد میں ڈھالا گیا اور اللہ کے فضل سے ایک مشن ہاوٴس ستمبر 2022ء میں ناروے کے جنوب مغرب میں ایک شہر Satavangar میں خریدا گیا ہے۔ اس مشن ہاوٴس کی خرید کی آدھی رقم مکرم امیر جماعت صاحب نے لجنہ ناروے کے ذمّے لگائی ہے۔ ناروے کی ان تمام جماعتی عبادت گاہوں کے لئے مالی قربانی کے سلسلے میں چند واقعات پیش خدمت ہیں۔
چند واقعات
بہت سی ممبرات نے اپنے، سسرال اور میکے دونوں اطراف کے استعمال شدہ بھی اور ان چھوئے زیور بھی مسجد کے لئے دیے وہ قابل تعریف ہے۔ قارئین ہماری بات پڑھ کر سوچیں گے کہ تمام احمدی ممالک کی خواتین زیور دیتی ہیں ناروے کی خواتین نے کوئی نیا کام تو نہیں کیا۔ کام تو نیا نہیں ہے مگر دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں ایک فرق ضرور ہے کہ ناروے کے احباب کی تعداد بہت کم تھی اور کام بہت بڑا تھا اور اس کی تمام ذمّے داری ناروے کی جماعت پر ہی تھی۔
ہر لجنہ کی ممبر نے اپنے اوپر فرض کر لیا تھا کہ مسجد کی تعمیر کی رقم پوری کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینی ہے۔ لجنہ کا یہ حال تھا کہ موقعہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھانے پینے اور نمائش کے اسٹالز لگائے جاتے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ لجنہ کی ممبرات گھروں سے کھانے بنا کر لاتیں اور پھر انہی کھانوں کو مہنگے داموں خود ہی خرید تیں۔ پاکستان سے آتے جاتے کپڑے اور دوسری اشیاء خرید کر لائی جاتیں اور اپنی ہی دی ہوئی چیزیں خود ہی خرید نا پڑ جاتیں، کیونکہ ہر حلقے کے لئے اپنے اسٹال کی رقم میں اضافہ پیش نظر ہوتا۔ زیورات عطیہ کرنے کا ایک لمبا سلسلہ چلا۔ مربیان صاحبان اور امیر جماعت صاحب نے جب ہر ایک حلقے میں جا کر چندے کی تحریک کی تو ایک عجیب ہی منظر نظر آیا۔
1۔ سب سے پہلے ایک واقف زندگی کی اہلیہ محترمہ نے اپنے شوہر کی تحریک پر اپنا پہنا ہوا زیور اتار کر دے دیا۔ یہ منظر ممبرات کے لئے انتہائی پر اثر تھا اس کے بعد زیوارت دینے کی جیسے رسم چل پڑی ہو، نو بیاہتا لڑکیوں نے اپنے ان چھوئے زیورات مسجد کی نظر کر دئے، ایسا بھی ہوا کہ چند ایک لڑکیوں کو اپنے زیور بہت پسند تھے ان کی فرمائش تھی کہ ہمارے زیور کی قیمت لگا لیں وہ قیمت ہم خود آپ کو ادا کر دیتی ہیں یعنی ان لڑکیوں نے اپنے زیور خود ہی خرید لئے۔
اس سلسلےمیں مربی انچارج صاحب مکرم شاہد احمد کاہلوں صاحب نے خاکسار کو کچھ ایسے واقعات بتائے ہیں جو پہلے معلوم نہیں تھے۔
2۔ ابتدا میں جب مربی صاحب نے ایک حلقے کے مقامی اجلاس میں مسجد کے چندہ کی تحریک تو ایک بڑی عمر کی خاتون نے اس وقت اپنی چوڑیاں اتار کر عطیے میں یہ کہہ کر دے دیں کہ اب یہ چوڑیاں مجھ پر حرام ہیں۔ ایک اور واقف زندگی کی نو بیاہتا بیوی نے شادی کے چند ماہ بعد ہی اپنے تمام زیوارت چندہ میں دے دیے۔ اس کی نانی کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس کےسسرال والے کڑے مسجد سے دوبارہ خرید دیے، کچھ عرصہ قبل اس ممبر نے وہ کڑے دوسری مسجد کے لئے دے دیے۔
3۔ زیوارت محض دیے ہی نہیں جاتے تھے اسے دوبارہ خرید نے والی بھی وہی لجنہ ہوتی تھی۔ ایک لجنہ ممبر نے پانچ چھوٹے چھوٹے انتہائی خوبصورت سیٹ خریدے اور پھر انہیں براستہ قادیان کشمیر کی بچیوں کے لئے عطیہ کر دیے۔
4۔ انہی دنوں ایک بچّی کو خاوند کی طرف سے حق مہر ملا۔ اس نو بیاہتا بچی نے اپنے سارے حق مہر کی رقم مسجد کے لئے عطیہ کر دی۔
5۔ جب مسجد تقریباًمکمل ہوچکی تھی امید تھی کہ اس آئندہ آنے والا اجتماع نئی مسجد میں ہی ہوگا۔ مگر ایک بڑی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے اجازت نہیں مل رہی تھی۔یہ بات سب کو تو معلوم نہیں تھی ایک مخلص خاتون کو جب اس کا علم ہوا تو ان کے بیان کے مطابق‘‘ وہ ساری رات پریشان رہیں اور دعائیں کرتی رہیں صبح اٹھ کر انہوں نے ایک فیصلہ کیا اور امیر جماعت صاحب کو فون کیا کہ میرے پاس تین لاکھ روپیہ ہے جو میں نے اپنی بیٹی کے مکان خریدنے کے لئے بچا کر رکھا تھا اب میں وہ رقم آپ کو مسجد کے لئے دیتی ہوں تاکہ آپ اس سے مطلوبہ خرچ پورا کر لیں۔
6۔ مسجد بیت الفتوح کے علاوہ اس کے بعد مریم مسجد (Krtistiansands) کے لئے بھی لجنہ نے لاکھوں کرونر کے وعدہ جات لکھوائے اور ادائیگی کی۔ یہی حال نئے مشن (Stavangar) کے لئے بھی جس کا آدھا خرچ لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگا ہے اس کی ادائیگیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اب بھی مالی قربانی کرنے والی لجنہ اماء اللہ جس کی گھٹی میں قربانی اور اطاعت لکھی ہوئی ہے ویسے ہی قربانی پیش کر رہی ہے۔ جزاک اللّٰہ
ناروے کی دوسری مسجد ’’بیت النصر فروست‘‘
1986ء کے بعد اللہ تعالیٰ نے ناروے کےاحمدی باشندے جو کہ بہت کم تعداد میں تھے کی دعا سن لی۔ وہ ایسے کہ ناروے گورنمنٹ نے پاکستان میں ہماری جماعت کے حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو صرف ناروے آنے اور رہنے کی ہی اجازت نہیں دی بلکہ قانونی طور پر باقاعدہ شہریت کے حقوق بھی دئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فضل سےجماعت کی تجنید بڑھتی جارہی تھی اور مسجد نور کی جگہ ممبران کے لئے اب آہستہ آہستہ سکڑ رہی تھی۔ مگر پھر بھی اللہ کے فضل سے جماعت اور مجالس کی ہر ضرورت اسی مسجد میں پوری ہورہی تھی۔ یہ عمارت صرف مسجد کے طور پر ہی نہیں استعمال ہوتی تھی بلکہ اس میں مربی ہاوٴس بھی تھا۔ کسی زمانہ میں تین، مربیان اپنی اپنی فیملی کے ساتھ بھی یہاں رہا کرتے تھے۔
مگر کب تک ایسے رہتا! ایک وقت آیا کہ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے مسجد کی تحریک کر دی۔ اوسلو شہر کے اندر ایک جگہ خریدنے کا فیصلہ ہوگیا اور سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ آغاز تو ہوگیا مگر بعد میں کچھ وجوہات ایسی بنیں کہ کچھ عرصہ تعمیر کے عمل میں تعطل آگیا۔ 2005ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ ناروے تشریف لائے، حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی جگہ کا معائنہ کیا اور فیصلہ فرمایا کہ مسجد یہیں بنے گی اور اب اس کی تعمیر کا عمل شروع ہونا چاہئے۔ اگلے روز خطبہ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب ناروے کو اسی جگہ مسجد مکمل کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ جوش اور حوصلہ بھی دلایا۔ جس کا جماعت ناروے پر انتہائی مثبت اثر ہوا۔ آخر کار مسجد کی تکمیل 2010ء میں ہوگئی اور حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2010ء ستمبر میں بیت النصر کا افتتاح کر دیا۔ الحمد للّٰہ یہ مسجد ملک ناروے کی خوبصورت عمارتوں میں شمار کی گئی ہے۔
ناروے کی تجنید زیادہ نہیں ہے 2005ء میں تو اور ہی کم تھی، جب بہت کم خواتین یا بچیاں جاب کرتی تھیں مسجد کا خرچ بہت زیادہ تھا ہمارے امیر جماعت صاحب اور مربیان نے یہ بتا دیا تھا کہ ہم نے خود ہی اس مسجد کا سارا خرچ پو را کرنا ہے۔ بس یہی وہ چیلنج تھا جسے لجنہ ناروے نے اپنے دل پر لے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت کرم کیا اور ہماری مسجد کا سارا خرچ ناروے کے ممبران نے اللہ کے فضل سے خود پورا کیا۔
ناروے کی تیسری مسجد ’’مسجد مریم‘‘ کرسچیان ساند
شہر کرسچیان ساند (Kristiansand) شہر ناروے کے جنوب میں ناروے کے آٹھویں بڑے دریا OTRA کے کنارے واقع ہے۔ یہ شہر آبشاروں اور جھرنوں کی سر زمین ہے سالانہ تقریباً نو لاکھ کے قریب سیّاح یہاں سیر کو آتے ہیں۔ چھوٹی بندرگاہوں کے علاوہ بڑی بندرگاہ سے ڈنمار ک اور انگلینڈ تک بحری مسافر جہاز چلتے ہیں۔ یہاں جماعت احمدیہ کےممبران کی آمد 1987ء میں ہوئی جب ناروے میں آنے والے چند (تارکین وطن) خاندان گورنمنٹ کی طرف سے لا کر بسائے گئے۔ اس زمانہ میں مکرم نور بولستاد صاحب ناروے کے امیر جماعت تھے۔ انہوں نے اوسلو سے دو مربیان بھجوا کر ’’کرسچیان ساند‘‘ کی لوکل جماعت قائم کی اور جماعت کے پہلے صدر مکرم رفیق احمد فوزی (مرحوم) مقرر کئے گئے۔ بہت برس تک اس جماعت کی تجنید پچیس سے تیس عدد ممبران تک رہی۔ کچھ عرصہ بعد یہاں ایک مربی سلسلہ مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب کی تعیناتی ہوئی جو کم عرصہ کے لئے تھی۔ 2013ء میں باقاعدہ مربی سلسلہ (یاسر عتیق فوزی) کی تعیناتی کی گئی۔ جماعت کی ضرورت کے لئے عارضی استعمال کے لئے ایک چھوٹا سا مشن ہا وس خریدا گیا۔ مگر جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ عمارت ضرورت سے بہت کم ہے۔ ایک مرتبہ پھر شہر کے مربی سلسلہ کو نئی عمارت ڈھونڈنے کا ٹاسک ملا جلد ہی ایک عمارت جو انتہائی مناسب مقام پر تھی لے لی گئی۔ اس عمارت کو مسجد کی حیثیت دینے کے لئے ایک لمبی جدوجہد کی گئی۔ مسجد بنانے کے مخالفین جس میں دو چرچ بھی شامل تھے نے اپنی سی کوئی کسر نہ چھوڑی کہ کسی طرح شہر کی انتظامیہ اجازت نہ دے۔شائد اسی میں ہی خدا کی مرضی تھی۔ تین سال گزرنے کے باوجود اجازت کی کوئی صورت نہ نکلی۔ لیکن اللہ سے امید لگا رکھی تھی۔ پھر ایک دن کیا ہوا! ان دو چرچ میں سے نارویجین چرچ کے پادری صاحب کا مربی صاحب یاسر فوزی کو فون آیا اور انہیں بتا یا گیا کہ ’’ہم اپنا یہ چرچ بیچ رہے ہیں اگر آپ کی جماعت کی مرضی ہو تو آپ لے سکتے ہیں‘‘ یہ خالصةً خدا کا فضل تھا۔ اس چرچ کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔
جو مربی سلسلہ ناروے یاسر فوزی کی زبانی سنیئے۔ ’’اس علاقے میں دو چرچ تھے ایک ان میں سے سربین (Serbian) تھا جو ہماری جماعت کی پہلی والی عمارت کے بالکل سامنے تھا کچھ عرصہ قبل جب مسجد بنانے کے لئے انتظامیہ سے اجازت لینے کا مرحلہ تھا تو اس چرچ نے بھی مسجد بنانے کی مخا لفت کی تھی، مگر اتنی نہیں جتنی کہ سربین چرچ نے کی۔ جب یہ چرچ بکنے کے لئے لگا تو لوکل کمیونٹی نے چرچ کو اکسایا کہ وہ احمدیوں کے آگے چرچ نہ بیچے۔ اس کے باوجود بھی مجھے چرچ سے فون آیا کہ ’’کہ ہم چرچ بیچ رہے ہیں اگر آپ نے لینا ہو تو لے سکتے ہیں۔‘‘
الغرض 2020ء میں اسی سڑک پر سو ڈیڑھ سو گز دور کھڑا چرچ جماعت کے حصے میں آگیا۔ حضور نے خریدنے اور مسجد بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور مسجد کا نام ’’مریم مسجد‘‘ تجویز فرمایا۔ عمارت کا کچھ حصہ استعمال کے قابل نہیں تھا۔ کرسچن ساند جماعت کے پاکستانی اور عرب ممبران نے دن رات محنت کر کے ایک خوبصورت اسلامی عبادت گاہ میں ڈھال دیا۔ مسجد مریم میں مکرم طاہر محموداحمد خان صاحب مربی سلسلہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہمیں اس مسجد کی زیارت نصیب ہوئی اسے دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔تین منزلہ عمارت میں ایک مربی سلسلہ کا فلیٹ، تین مہمانان کے کمرے، دوسری منزل پر مسجد کا مردانہ حصہ مع کچن اور لائبریری، پہلی منزل پر لجنہ کا مسجدہال، کچن، کھیلوں کا کمرہ اور باتھ روم شامل ہیں۔ مسجد کا ماشاء اللّٰہ صحن بہت کشادہ ہے اور پارکنگ کی جگہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صدر مقامی کرسچن ساند مکرم رائے مظفر احمد صاحب کو بہت توفیق دی ہے کہ وہ بڑی مستقل مزاجی سے اپنی جماعت کے ممبران کے ساتھ مل کر عمارت مکمل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
مشن ہاوٴس ٹرونڈ ہائیم (Trondheim)
اللہ کے فضل سے گزشتہ چند سال میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تین نئے مربی سلسلہ ناروے میں بھیجے ہیں۔ ناروے کے شمال میں تیسرا بڑا شہر Trondheim جس میں بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں باہر کے ممالک کے اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں پڑھنے آتے ہیں۔ یہ شہر کسی زمانہ میں ناروے کا دارالخلافہ ہوتا تھا۔ گزشتہ چار برس سے اس شہر میں بھی جماعت قائم ہوچکی ہے اور مربی سلسلہ مکرم ہارون احمد پرویز صاحب اپنی فیملی سمیت شہر میں مقیم ہیں اور ماشاء اللّٰہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہاں بھی جناب امیر صاحب ناروے کی خاص توجہ کے تحت ایک مشن ہاوٴس کرائے پر لیاگیا ہے۔جس میں مربی ہاوٴس اور جماعت کے لوگوں کے جماعتی کام کے لئے بھی مناسب رہائش موجود ہے۔
ان شاء اللّٰہ ایک دن آئے گا جب ناروے کے اس خوبصورت اور تاریخی شہر میں بھی جماعت کی ذاتی مسجد ہوگی۔
مشن ہاوٴس، ستونگر (Stavanger)
Stavanger شہر ناروے کے انتہائی مغرب میں سمندر کے کنارے ایک خطہ ہے۔چھوٹے چھوٹے جزیروں پرمشتمل اس شہر کی شہرت تیل کے کارخانوں اور تنصیبات کی وجہ سے ہے۔ مربی سلسلہ نے کوشش کر کے جمعہ پڑھنے کی جگہ بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ جمعہ کا الگ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر نماز جمعہ مربی سلسلہ کی رہائش گاہ میں ہی ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجاز ت سے مکرم امیر جماعت صاحب ناروے نے مربی سلسلہ کو جماعتی کاموں کے لئے مشن ہاوٴس کے انتظام کرنے کا پیغام دیا ہوا تھا۔ تقریباً ایک سال کی بھاگ دوڑ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور ایدہ اللہ کی دعاوٴں اور مربی سلسلہ کی محنت کو قبول کرتے ہوئے چند ہفتے قبل ایک بڑی دو منزلہ، کشادہ، اور مضبوط عمارت عطا کر دی ہے۔ جماعت ناروے نے حضور اید ہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے یہ عمارت خرید لی ہے۔ جس کی قیمت چھ ملین کرونر ہے، ماشاء اللّٰہ تقریباً نو سو مکعب میٹر کا رقبہ ہے جس میں 228 مکعب میٹر پر عمارت بنی ہوئی ہے۔ الحمد للّٰہ! اللہ کرے گا وقت کے ساتھ مسجد کی سرکاری منظوری بھی مل جائے گی۔ ان شاء اللّٰہ۔ مکرم مشنری انچارج صاحب ناروے (شاہد احمد کاہلوں) نے جمعہ خطبہ پر جماعت کو اس مشن ہاوٴس کے خریدنے کی اطلاع دیتے ہوئے مکرم امیر جماعت صاحب ناروے کی طرف سے اس مشن ہاوٴس کی مبارک دیتے ہوئے خریداری کی آدھی رقم لجنہ اماء اللہ ناروے کے ذمہ لگانے کا اعلان بھی کیا۔ اللہ کرے امیر جماعت صاحب کی لجنہ ناروے پر یہ حسن ظنّی ایک مرتبہ پھر درست ثابت ہو۔ آمین
(نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)