• 12 مئی, 2025

رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کے اخلاق

معرکہ فحل میں حضرت ابوعبیدہؓ کی خدمت میں جو رومی سفیر حاضر ہوا وہ رومی جرنیلوں کے مقابل پر اسلامی جرنیل کی سادگی دیکھ کر اول تو پہچان ہی نہ سکا۔ پھر ملاقات کر کے ان کی سادگی وقار اور رعب سے بہت متاثر ہوا۔

اسی موقع پر اس سفیر نے وہ تاریخی پیشکش بھی کی کہ آپ کے ہر سپاہی کو ہم دو اشرفیاں دیں گے اگر آپ لوگ یہیں سے واپس چلے جاؤ۔ حضرت ابوعبیدہؓ جیسے جری اورامین انسان اصولوں کا یہ سودا کیسے کر سکتے تھے؟ چنانچہ اگلے روز دونوں فوجوں کے درمیان میدان جنگ میں بلا کارن پڑا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے قلب لشکر میں رہ کر نہایت دانشمندی اور دلیری سے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے بہت بڑی رومی فوج کو شکست فاش دی۔

فتح حمص کے بعد لاذقیہ کا قلعہ بند شہر بھی ابوعبیدہؓ نے کمال دانشمندی سے اس طرح فتح کیا کہ مخفی طور پر کچھ خندقیں کھدوا کر اپنی فوج کا ایک حصہ وہاں چھوڑا اور باقی فوج کو کوچ کاحکم دے دیا۔ محصورین نے دیکھا کہ فوج پڑاؤ اٹھا چکی تو شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے۔ ابوعبیدہؓ کی سپاہ خندقوں سے نکل کر شہر میں داخل ہو گئی۔

(فتوح البلدان صفحہ 138)

ان متواتر شکستوں کے بعد شہنشاہ روم نے ملک بھر سے فوجیں یر موک میں جمع کر لیں۔حضرت ابوعبیدہؓ نے مقابلہ کے لئے جرنیلوں سے مشورہ طلب کیا تو یہ تجویز پیش ہوئی کہ مفتوحہ علاقوں کی تمام فوجوں کو مقابلہ کے لئے اکٹھا کیا جائے مگر اس صورت میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو مفتوح عیسائی باشندوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا خطرے سے خالی نہ تھا اوردوسری طرف مفتوحہ علاقوں کے لوگوں سے جزیہ وخراج لے کر ان کی حفاظت کے وعدے کئے تھے۔ چنانچہ اس نازک موقع پر امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ نے جو تاریخی فیصلہ فرمایا وہ آپؓ کی شان امانت کو خوب ظاہر کرتا ہے آپ نے فرمایا کہ ’’مفتوحہ علاقوں سے فوجیں دمشق جمع ہوں اور وہاں کے باشندوں کو ان سے وصول شدہ جزیہ و خراج آپ نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ فی الوقت ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنے سے معذور ہیں اس لئے اپنی امانت واپس لے لو‘‘ چنانچہ حمص کے عیسائیوں اور دیگر مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو کئی لاکھ کی رقم واپس دی گئی ،اس بے نظیر عدل وانصاف اور ادائیگی امانت کا ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے کہاتمہاری عادلانہ حکومت ہمارے لئے پہلے کی ظالمانہ حکومت سے بہت بہتر ہے اور مسلمان جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو مقامی عیسائی باشندے انہیں الوداع کرتے ہوئے روتے جاتے تھے اور دلی جوش سے یہ دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تم کو پھر واپس لائے۔ یہودیوں نے تو یہاں تک کہا کہ تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور ہر جگہ پہرہ بٹھا دیا۔

(فتوح البلدان صفحہ 143)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2020