• 25 اپریل, 2024

اخلاق میں تبدیلی مجاہدہ اور دعا سے ممکن ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوۡمٍ سُوۡٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّالٍ (الرعد:12) یعنی خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بلا کو جو قوم پر آتی ہے دُور نہیں کرتا ہے جب تک خود قوم اس کو دُور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمت نہ کرے۔ شجاعت سے کام نہ لے تو کیونکر تبدیلی ہو۔ (حضرت مسیح موعودؑ) فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی ایک لَا تبدیل سنت ہے۔۔۔۔ پس ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب کہ مجاہدہ اور دعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے۔

پھر حضرت مسیح موعودؑ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ انسان کے اخلاق جتنے بھی گرے ہوئے ہوں اگر اصلاح کرنا چاہے تو اصلاح ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی فرمایا کہ اس کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ آپؑ نے اس بارے میں حکماء کے نظریات کا بھی ذکر فرمایا ہے اور ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ حکماء کے تبدیل اخلاق پر دو مذہب ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انسان تبدیل اخلاق پر قادر ہے اور دوسرے وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ وہ قادر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسل اور سستی نہ ہو اور ہاتھ پیر ہلاوے تو تبدیل ہو سکتے ہیں۔ (سستی نہ دکھاؤ۔ مجاہدہ کرو تو اخلاق بہتر ہو سکتے ہیں) فرمایا کہ مجھے اس مقام پر ایک حکایت یاد آئی ہے اور وہ یہ ہے۔

کہتے ہیں کہ یونانیوں کے مشہور فلاسفر افلاطون کے پاس ایک آدمی آیا اور دروازے پر کھڑے ہو کر اندر اطلاع کرائی۔ افلاطون کا قاعدہ تھا کہ جب تک آنے والے کا حلیہ اور نقوشِ چہرہ کو معلوم نہ کر لیتا تھا اندر نہیں آنے دیتا تھا۔ (اس کا حلیہ اور اس کی ظاہری حالت وغیرہ جب تک پتا نہ کر لے اندر نہیں آنے دیتا تھا) اور وہ قیافہ سے استنباط کر لیتا تھا کہ شخص مذکور کیسا ہے۔ (جو شخص آیا ہے وہ کیسا ہے؟ ان باتوں سے اندازہ لگا لیتا تھا کہ) کس قسم کا ہے؟ نوکر نے آ کر اس شخص کا حلیہ حسب معمول بتلایا تو) افلاطون نے جواب دیا کہ اس شخص کو کہہ دو کہ چونکہ تم میں اخلاق رذیلہ بہت ہیں مَیں ملنا نہیں چاہتا۔ (تم گھٹیا اخلاق کے مالک ہو۔ مَیں تمہیں نہیں ملنا چاہتا۔) اس آدمی نے جب افلاطون کا یہ جواب سنا تو نوکر سے کہا کہ تم جا کر کہہ دو کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ٹھیک ہے مگر مَیں نے اپنی عادت رذیلہ کا قلع قمع کرکے اصلاح کر لی ہے۔ (گندی باتیں، بداخلاقیاں ختم کر دی ہیں۔) اس پر افلاطون نے کہا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس کو اندر بلایا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اس سے ملاقات کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جن حکماء کا یہ خیال ہے کہ تبدیل اخلاق ممکن نہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملازمت پیشہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں جب وہ سچی توبہ کر لیتے ہیں پھر اگر ان کو کوئی سونے کا پہاڑ بھی دے تو اس پر نگاہ نہیں کرتے۔

پھر آپ اخلاق کی درستی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان پر جیسے ایک طرف نقص فی الْخَلق کا زمانہ آتا ہے۔ (یعنی کہ کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اس کی بناوٹ میں، جسم کی ظاہری بناوٹ میں) جسے بڑھاپا کہتے ہیں۔ اس وقت آنکھیں اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں اور کان شنوا نہیں ہو سکتے۔ غرض کہ ہر ایک عضو بدن اپنے کام سے عاری اور معطل کے قریب قریب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے یاد رکھو کہ پیرانہ سالی دو قسم کی ہوتی ہے (یا بڑھاپا دو قسم کا ہوتا ہے) طبعی اور غیر طبعی۔ طبعی تو وہ ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ (ظاہری جسم کا بڑھاپا ہے یہ طبعی بڑھاپا ہے اور) غیر طبعی وہ ہے کہ کوئی اپنی امراض لاحقہ کا فکر نہ کرے۔ (جو مرضیں ہیں ان کی فکر نہ کرو) تو وہ انسان کو کمزور کر کے قبل از وقت پیرانہ سال بنا دیں۔ (بوڑھا کردیں گی۔ اگر فکر نہ کرو گے تو) جیسے نظام جسمانی میں یہ طریق ہے۔ (کہ اگر انسان بیماریوں کا علاج نہ کرے تو جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ جسمانی نظام میں یہ دو طرح کے طریق ہیں۔ ایک طبعی بڑھاپا کہ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھاپا آتا ہے۔ ایک غیر طبعی بڑھاپا ہے جو بعض ایسی وجوہات سے انسان پر آتا ہے یا کمزوری آتی ہے جو بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتی ہے) فرمایا کہ ایسا ہی اندرونی اور روحانی نظام میں ہوتا ہے۔ (ایک ظاہری نظام میں جس طرح یہ دو طرح کے بڑھاپے ہیں اسی طرح اندرونی اور روحانی نظام جو ہے اس میں بھی دو طرح کے بڑھاپے ہیں) اگر کوئی اپنے اخلاق فاسدہ کو اخلاق فاضلہ اور خصائل حسنہ سے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ (جو برے اور گندے خیالات ہیں ان کو اچھے خیالات اور اچھی باتوں سے تبدیل نہیں کرتا، کوشش نہیں کرتا) تو اس کی اخلاقی حالت بالکل گر جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور قرآن کریم کی تعلیم سے یہ امر ببداہت ثابت ہو چکا ہے کہ ہر ایک مرض کی دوا ہے۔ لیکن اگر کسل اور سستی انسان پر غالب آجاوے تو بجز ہلاکت کے اور کیا چارہ ہے۔ اگر ایسی بے نیازی سے زندگی بسر کرے جیسی کہ ایک بوڑھا کرتا ہے تو کیونکر بچاؤ ہو سکتا ہے۔

پس آج کل اس سستی کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان مہیا فرمائے ہیں۔ اس ماہ میں اخلاق کی بہتری کی طرف بھی ہر ایک کو توجہ دینی چاہئے اور دوسری کمزوریوں اور گناہوں سے بچنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جون 2017ء )

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2020