• 13 مئی, 2025

صحابہؓ حضرت مسیح موعود ؑ کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات

حضرت مفتی محمد صادق ؓ

1907ء کی بات ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اب سلسلہ کا کام بڑھ رہا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دور و نزدیک تبلیغ کے کام کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کریں۔مفتی صاحب جو ہمیشہ اس انتظار میں ہوتے تھے کہ خدمت کا کوئی موقع ہو اور وہ اس کو حاصل کریں۔ انہوں نے فوراً حضرت صاحبؑ کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ ’’اگر اس لائق سمجھا جاؤں تو دنیا کے کسی حصہ میں بھیجا جاؤں۔‘‘

حضرت صاحبؑ نے اس پر اپنے قلم سے تحریر فرمایا ’’منظور‘‘ حضرت مسیح موعودؑ کی عطا کردہ اس منظوری کے مطابق مفتی صاحب کو پہلے برطانیہ اور پھر امریکہ میں قریبا ً سات سال تک خدمت دین کی عظیم سعادت حاصل ہوئی۔ 1917ء میں اس دور کا آغاز ہوا جب آپ انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔ بمبئی سے جہاز کے روانہ ہوتے ہی مفتی صاحب کی دعوت الی اللہ کا آغاز ہو گیا۔ اور تین دن کے اندر اندر ایک انگریز نے احمدیت قبول کر لی اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ سفر کے دوران ہی متعدد افراد نے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ سفر کی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری کے طور پر نظارہ دکھا دیا تھا کہ آپ خیریت سے منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ راستہ میں ایک موقعہ ایسا آیا کہ یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا۔ یہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ جہاز میں کہرام مچ گیا ہر مسافر جان بچانے کی فکر میں تھا۔ مفتی محمد صادقؓ لوگوں کو تسلیاں دیتے۔ چنانچہ جہاز خیریت سے منزل پر پہنچا اور مفتی صاحب کوتبلیغ کا ایک عمدہ موقعہ مل گیا۔

1920ء میں ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر امریکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ قبولیت دعا اور تائید الٰہی کا ایک عجیب واقعہ اس سفر میں رونما ہوا۔ ایک سخت سمندری طوفان نے جہاز کو آ گھیرا۔ طوفان اتنا شدید تھا کہ جہاز کی غرقابی کا خوف محسوس ہونے لگا۔ مسافروں کی چیخ و پکار سے ہر طرف شور قیامت برپا تھا۔ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعودؑ کے فدائی مفتی محمد صادق ؓ نے ایک عجیب جلالی انداز میں سمندر کو یوں مخاطب کیا “اے سمندر ! تجھے معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود کا ایک خادم خدا کے دین کی خدمت کے لئے جا رہا ہے کیا تو مجھے دکھ دے گا۔” مفتی صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ

میں نے اللہ تعالیٰ کے پیار اور مسیح موعود کے ایک ادنیٰ غلام کی دعا کی قبولیت کا نظارہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جونہی میں نے اپنی بات ختم کی جو دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور ایک عاجزانہ التجا تھی۔ میں نے دیکھا کہ گویا آسمان سے فرشتے اترے ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سمندر کی متلاطم موجوں کو ساکن کردیا۔

(کرم الٰہی ص 153`152)

یہ جہاز سلامت پہنچے گا

حضرت مفتی محمد صادق ؓ ایک واقعہ تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ 1917ء میں جب کہ جنگ عالمگیر اپنے پورے شباب پر تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مجھے حکم دیا دعوت دین کے لئے انگلستان جاؤ۔
عورتوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی حضور سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں لوگ گیہوں کی طرح پس رہے ہیں۔ اگر حضرت مفتی صاحب کو ابھی روک لیا جائے۔ تو بہتر ہے۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا۔ کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لئے ڈالے جاتے ہیں۔ مگر ان میں سے بھی کچھ اوپر رہ جاتے جو نہیں پستے۔ تو یہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں پسنے والے نہیں۔

جب ہمارا جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا۔ تو جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام مسافروں کو اوپر ڈیک پر بلایا اور ایک تقریر کرتے ہوئے کہا۔یہ سمندر جس میں ہم داخل ہوئے ہیں۔جرمن کے سب جہازوں سے بھرا پڑا ہے اور معلوم نہیں کہ کب ہمارا جہاز ان کے نشانے سے ڈوب جائے۔ اگر ایسا ہواتو یہ جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ایک سیٹی بجے گی۔ چنانچہ کپتان نے سیٹی بجا کر سنائی پھر کہا کہ جب یہ سیٹی بجے تو کشتیاں جو جہاز کے دونوں طرف لٹک رہی ہیں۔ آپ لوگوں کے لئے ہیں۔ پھر اس نے نام بنام کشتیوں کے نمبر بتائے اور سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ایسے موقعہ پر اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھ جائیں۔ پھر یہ کشتیاں جہاں کہیں آپ لوگوں کو لے جائیں آپ کی قسمت۔ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

کپتان کے اس لیکچر کو سننے کے بعد میں اپنے کمرے میں آیا۔ اور اس خطرے سے بچنے کے لئے اللہ کریم سے گڑ گڑاکر دعا کی۔ اسی رات میں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے کمرے میں کھڑا ہوا ہے اور مجھے انگریزی میں کہتا ہے۔

’’صادق یقین کرو یہ جہاز سلامت پہنچے گا‘‘

اس خوشخبری کو پا کر میں نے تمام مسافروں کو اور کپتان کو اطلاع دی اور ایسا ہی ہوا۔ہمارا جہاز ساحل انگلستان پر سلامتی سے پہنچ گیا۔ کئی جہاز ہمارے سامنے آگے پیچھے دائیں بائیں ڈوبے ان جہازوں کی لکڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی دیکھیں۔ مگر خداوند تعالیٰ نے ہمارا جہاز سلامت پہنچا دیا۔

(لطائف صادق صفحہ 130،131)

حضرت چوہدری محمد ظفرا للہ خان ؓ

آپ کی دعائیں کسی خاص فرد یا مقصد تک محدود نہیں تھیں بلکہ سارا عالم آپ کی دعاؤں سے مستفید ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جب امریکہ خلا باز گئے تو فرمایا کہ جس دن انہوں نے اترنا تھا اس دن میں سارا دن ان کی بخیریت زمین پر واپسی کے لئے دعا کرتا رہا ور اگرچہ میں اپنے کام میں لگا ہوا تھا لیکن دل کی کیفیت ان کے لئے مجسم دعا تھی اور جب ان کے اترنے کی اطلاع ملی تو دل حمد الٰہی سے بھر گیا۔

(محمد ظفراللہ خان چندیادیں ص 51،50)

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ

مکرم برکات احمد راجیکی ؓ تحریر کرتے ہیں کہ 1942ء کا ذکر ہے کہ میں لاہور میں ملازم تھا۔ میرے بائیں کان میں پھوڑا نکلا اور شدید ورم اور درد پیدا ہوئی۔ جس کی وجہ سے میں بیمار ہو کر رخصت پر قادیان آگیا۔ چار ماہ کی رخصت دفتر والوں نے جناب ڈاکٹر حشمت اللہ انچارج شفاخانہ نور کے سرٹیفیکیٹ پر منظور کر لی۔ جب میری رخصت ختم ہونے میں چند دن باقی تھے اور میری طبیعت بھی بہت حد تک سنبھل چکی تھی دفتر کی طرف سے سول سرجن صاحب گورداسپور کو لکھا کہ ہم انچارج شفاخانہ نور کے سرٹیفیکیٹ کو کافی نہیں سمجھتے۔ آپ معائنہ کرکے رپورٹ کریں اور مجھے بھی اس کی نقل بھجوا کر جلد معائنہ کروانے کی ہدایت کی گئی۔ میری طبیعت پر یہ بوجھ تھا کہ اب رخصت کے آخری دن ہیں اور صحت کافی اچھی ہو چکی ہے۔ اگر سول سرجن نے لکھا کہ میں ڈیوٹی دینے کے قابل ہوں۔ تو دفتر والے الزام دیں گے کہ پہلا سرٹیفیکیٹ غلط تھا۔ جس میں اتنے عرصہ کی رخصت کی سفارش تھی اور اگر اس نے کام کے ناقابل بتایا تو افسران بالا جن میں سے ایک میرا سخت مخالف تھا۔ لمبی بیماری کی وجہ سے ملازمت سے برخواست کرنے کے لئے قدم اٹھا سکتا تھا۔

میں نے اپنی اس الجھن کو حضرت والد بزرگوار مولانا غلام رسول راجیکیؓ کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ نے فرمایا۔میں دعا کروں گا تم کوئی فکر نہ کرو اور گورداسپور جا کر معائنہ کروا لو چنانچہ میں سائیکل پر نہر کے راستہ گورداسپور روانہ ہوا۔ برسات کا موسم تھا اور آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے منڈ لا رہے تھے۔ لیکن میں محفوظ اور بآرام گورداسپور پہنچ گیا۔ جب میں معائنہ کرکے واپس لوٹا تو رستہ میں نہر کی پٹڑی پر بارش کے آثار تھےاور بعض نشیبی جگہوں پر پانی بھی کھڑا تھا۔ لیکن جہاں سے میں گزر رہا تھا وہاں مطلع صاف تھا اور اس طرح خاکسار بسہولت اور بغیر بھیگنے کے واپس لوٹا واپسی پر حضرت والد صاحب نے بتایا کہ جب تم سائیکل پر روانہ ہوئے تو کچھ دیربعد ایک گھنا بادل چھا گیا اور بارش شروع ہو گئی۔میں نے تمہاری تکلیف اور بے سروسامانی کا خیال کرکے خداتعالیٰ کے حضور التجا کی کہ بارش سے برکات احمد بچ جائے اور اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور تم آرام و سہولت سے واپس آ گئے۔ فالحمدللہ بعد میں دفتر کی الجھن بھی خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے دور فرما دی۔

(حیات قدسی حصہ پنجم ص 174،175)

حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوریؓ

25۔اگست 1957ءکو مکرم چوہدری محمد شریف وکیل کا تار آیا کہ 1955ء کے سیلاب کی طرح ہمارے گاؤں میں اب بھی سیلاب آنے والاہے۔ دعائے خاص کی ضرورت ہے میں نے ایک دو دن دعا کی تو الہام ہوا۔ “اَلآنَ کَمَا کَانَ” یعنی پہلے کی طرح ان کا گاؤں انشاء اللہ بچایا جائے گا۔

الحمدللہ! کہ آج 10 ستمبر 1957ء کو ان کا خط موصول ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے گاؤں کو محفوظ رکھا۔

(حیات بقا پوری حصہ سوئم ص 135،134 )

حضرت سیٹھ شیخ حسنؓ

سیٹھ صاحب نے قبول احمدیت کے بعد مولانا میر محمد سعید سے دریافت کیا کہ اب ہم کیا کریں۔ میر صاحب نے فرمایا کہ پانچ وقت نماز باجماعت ادا کریں۔ قرآن مجید پڑھیں اور تہجدادا کیا کریں اور خداتعالیٰ کی مخلوق سے بھلائی کریں۔ سیٹھ صاحب بیان کرتے تھے کہ پہلے مجھے نماز کی عادت نہ تھی اور نہ ہی تہجد اور قرآن مجید سے شناسا تھا۔ کوشش سے تہجد بھی باقاعدہ ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز میں ایک ذوق اور شوق حاصل ہوا۔کئی دن بعد ایک روز تہجد سے فارغ ہوا تو میری زبان پر بار بار (اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا) کے الفاظ جاری ہوئے اور زبان انہیں بار بار دہرانے لگی اور خود بخود ہی گریہ و بکاشروع ہو گیا۔ میری اہلیہ پیرساں بی بی نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ میں نے یہ بات کہہ سنائی۔لیکن عربی نہ انہیں آتی تھی نہ مجھے۔

بعد میں سیٹھ صاحب پر مصائب کی تیز آندھیاں چلیں اور مخالفین مخالفت میں سرگرم رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام شر و رو آفات سے اپنی حفظ و امان میں رکھا اور آپ کو الہامات وکشوف سے نوازا۔ایک دفعہ رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت دودھ پلایا۔ جس کا مزہ منہ میں بیدار ہونے پر بھی موجود تھا۔ سو اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایمان و عرفان سے وافر حصہ عطا ہوا۔

(اصحاب احمد جلد2ص 212)

حضرت حافظ محمد حسین ؓ

حافظ محمد حسینؓ تحریر کرتے ہیں کہ حکیم عبدالرحیم کی وفات کے بعد ٹرپئی میں چپکے چپکے مخالفین صلاح مشورے کرنے لگے۔ ایک دفعہ ٹرپئی کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ مرزائی چپکے سے کچی مسجد میں جمعہ پڑھ لیتے ہیں نہ ان کو کوئی پوچھتا ہے اور نہ کوئی مؤاخذہ کرتا ہے۔ آئندہ جمعہ سارا گاؤں کچی مسجدمیں اد اکرے اور مسجد پختہ میں ان کو آنے نہ دیں اور آخری دفعہ کچھ باتیں ان سے پوچھ کر ان کا پورا پورا بندوبست کریں چنانچہ اس مشورہ کی اطلاع مجھے بھی کئی دوستوں نے دی اور کہا کہ مناسب ہے تم چند یوم کے لئے کہیں چلے جاؤ۔میں نے کہا اگر اب کی دفعہ چلے گئے تو دوسرے جمعہ کو وہ ایسے ہی کریں گے کیوں نہ ان کو اپنے ارمان نکال لینے دیں۔ جو ں جوں جمعہ کا دن قریب آتا جاتا تھا۔ شور زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ جمعرات کی رات جس کے بعد صبح جمعہ کا دن تھا رات اکیلا دیر تک نماز پڑھتا اور دعا کرتا رہا۔ ابھی وتر باقی تھے اور سنتوں کے سلام کے لئے التحیات میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک نور کا شعلہ ایک انگلی کے برابر موٹا اور ڈیڑھ دو گز لمبا دور سے آتا ہوا دکھائی دیا اور پہلو کی طرف دل پر آ کر لگا۔ جس سے بلند آواز سنائی دی جو یہ تھی أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں۔ فضل اور رحمت کی آواز اس قدر اس وقت بلند تھی کہ اگر بیسیوں شخص میرے پاس ہوتے تو سب کو سنائی دیتی۔ اس کے بعد وہی حرف درود شریف کے زبان پر تھے۔ جمعہ تو انہوں نے کچی مسجد میں پڑھا۔ مگر ہم کو کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ صرف جمعہ کے بعد ایک دوسرے سے یہ باتیں کرتے ہوئے کہ یہ (یعنی اس کمترین کی طرف اشارہ کرکے کہ) اب تو یہ مرزائی ہو گیا ہے امام کس کو بنائیں۔ ایک نے کسی کا نام لیا اور دوسرے نے اس پر چوری کا الزام لگایا۔ دوسرے نے کسی اور کا نام لیا تیسرے نے اس پر کوئی اور الزام لگایا۔ اس طرح کرتے ہوئے چلے گئے۔

(حافظ محمدحسین صفحہ 23،24)

٭جس روز چوہدری رستم علی کا جنازہ آیا تھا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ جنازہ دفنانے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف فرما ہوئے۔ اکثر دوست حضور کے ہمراہ تھے۔ حضور دعا فرما رہے تھے کہ خاکسار کو حضور کا چہرہ مبارک دکھائی دیا اور فرمانے لگے محمود کے آج کل بہت دشمن ہیں۔ مگر خدا کے فرشتے ہر وقت ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ ضرورت کے وقت تو بے شمار ہوتے ہیں مگر پانچ فرشتے ہر وقت ہمراہ ہوتے ہیں۔ اتنے میں حضور دعا سے فارغ ہو گئے اور مجھ سے بھی وہ حالت جاتی رہی۔

(حافظ محمد حسین ص 54)

حضرت حکیم عبدالصمد ؓ

حضرت حکیم صاحب ہجرت 1947ء کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں کہ جس ٹرک میں ہم سوار تھے اس میں حضرت پیر منظور احمد صاحب قاعدہ یسرنا القرآن والے بھی ہمارے ساتھ تھے۔جیسے ہی کانوائے حرکت میں آیا حضرت پیر صاحب نے بہ یک زبان بسم اللّٰہ مجرھا پڑھنا شروع کیااور تمام راستے یہ الفاظ ان کے ورد زبان رہے۔ ساتھ کبھی کبھی ہم پڑھتے رہے۔کئی مقامات خطرے کے آئے مگر اللہ تعالیٰ نے تمام خطرات ٹالے۔ کانوائے نہر کی پٹڑی پر چل رہا تھا۔ دوسری طرف سکھوں کے فوجی مورچہ جمائے ہوتے۔ ایک جیپ میں تیزی سے فوجی لوگوں کو کہتا جاتا ٹرک میں گر جاؤلیٹ جاؤ خطرہ ہے مگر جب خطرہ ٹل جاتا تو پھر وہ کہتا اب بے شک بیٹھ جاؤٹرک خراب ہو جاتا تو وہ تمام کانوائے کو روک دیتا۔ جب ٹرک ٹھیک ہو جاتا تو ساتھ لے کر چلتا۔ بعض لوگوں نے اس سے کہا بھی کہ اس کو یہیں چھوڑ دو جب ٹھیک ہو جائے گا تو پیچھے سے آ جائے گا۔ مگر اس نے یہ بات نہیں مانی اور کانوائے آہستہ آہستہ چلتا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ کسی نے اطلاع دی کہ ہم لاہور کی سرحد میں آ گئے ہیں۔ خوشی سے نعرہ تکبیر بلند ہوئے۔جودھامل بلڈنگ پہنچتے پہنچتے ہم کو رات ہو گئی ہم نے دیکھا وہاں نواب محمد جلیل القدر ’’میرے بڑے ماموں‘‘ بھی موجود تھے۔ صبح کو حضور کو اطلاع دی گئی کہ حکیم صاحب بھی معہ بچوں کے اس کانوائے میں آ گئے ہیں۔ حضور خوش ہوئے۔ لڑکیاں حضرت اماں جان اور خاندان کی دوسری خواتین سے ملیں۔ سب بہت خوش ہوئے۔ حضرت اماں جان نے تو مسکرا کر فرمایا کہ لڑکیوں زندہ سلامت آ گئیں؟ انہوں نے جواب دیا آپ ہمارے لئے دعائیں جو بہت کر رہی تھیں۔

(رفیق نکتہ داں ص 52،53)

٭ جب قادیان کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جایا گیا اور حضرت میاں بشیر احمدؓ کی ہدایت پر ابا جان کو دارالمسیح میں ٹھہرایا گیا مجھے یہ منظر خوب یاد ہے جب ہمارے ابا جان دعائیں پڑھتے ہوئے گھرسے نکلے ہیں تو چاروں طرف سکھ تھے۔ ابا جان دعائیں پڑھتے آگے چل رہے تھے اور ان کے پیچھے ہم سب یعنی ہم پانچ بہنیں بھابھی اور دو ہماری ماموں زاد بہنیں تھیں۔ اس طرح سکھوں کے درمیان سے نکلنا معجزے سے کم نہ تھا۔

(رفیق نکتہ داں صفحہ 110)

حضرت مولانا شیر علی ؓ

مکرم ڈاکٹر لعل محمد بارہ بنگوی حضرت مولانا شیر علی کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ:
غالبا ً 1929ء کے جلسہ سالانہ کی بات ہے کہ میں جلسے کے بعد 10جنوری 1930ء تک قادیان میں مقیم رہنے کے بعد لکھنؤ واپس جانے کے لئے دارالامان سے روانہ ہوا۔میں قادیان کے اسٹیشن پر ریل میں بیٹھا گاڑی کے چلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں کیاد یکھتا ہوں کہ حضرت مولانا شیر علی گھی کا ایک مٹکا ہاتھوں میں اٹھائے گاڑی کے ڈبے میں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ جب آپ اس ڈبے کے سامنے آئے جس میں میں تھا تو آپ نے فرمایا کوئی لکھنؤ جانے والے صاحب بھی ہیں۔ میں نے فوراً عرض کیا فرمائیے میں جا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایایہ گھی میرے لڑکے عبدالرحمن کو دے دینا وہ لکھنؤ میں اے۔ ایس۔سی میں پڑھتا ہے۔ میں نے مٹکا لے لیا۔حضرت مولوی صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے فرمایا میں آپ کے بخیر و عافیت پہنچنے کے بارے میں دعا کرتا ہوں۔ مولوی صاحب نے دعا کرائی جس میں میں بھی شریک ہوا۔ چلتے وقت آپ نے کہا آپ سفر پر جا رہے ہیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔

اسی روز چار بجے سہ پہر کے قریب امرتسر سے میں دوسری گاڑی میں سوار ہوا۔جو لکھنؤ سے ہوتی ہوئی سیدھی کلکتہ جاتی تھی۔ دوسرے روز رات کے بارہ بجے کے قریب کلٹربک گنج اسٹیشن پہنچنے ہی والی تھی کہ یکایک ایک دھماکہ محسوس ہوا اور آن کی آن میں یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا دریا کا کوئی پل ٹوٹ گیا ہے اور گاڑی بڑی تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف اس طرح جا رہی ہے جس طرح کوئی چیز کنوئیں میں گرتی ہے۔ سارے مسافر گھبرا گئے۔ میں نے درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ چند ہی سیکنڈ میں وہ کیفیت دور ہو گئی اور یوں محسوس ہوا کہ گویا گاڑی رکی ہوئی ہے بتیاں گل ہو چکی تھیں اور گاڑیاں رکنے سے چند سیکنڈ کے لئے خاموشی سی چھا گئی۔ میں اطمینان میں تھا کہ اتنے میں ایک سکھ مسافر نے کہا کہ میاں کس خیال میں ہو فوراً نیچے اترو اتنے میں گارڈ آ گیا اور وہ چیخ چیخ کر مسافروں کو نیچے اترنے کی ہدایت کر رہا تھا۔ اس پر میرے بھی کان کھڑے ہوئے جلدی میں کھڑکی کے راستہ سے نیچے اترا نیچے اتر کر معلوم ہوا کہ گاڑی کی ایک مال گاڑی سے ٹکر ہو گئی ہے اور چیخ پکار پڑی ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے کا ڈبہ اپنے سے اگلے ڈبہ میں گھسا ہوا ہے اور پٹڑی سے اس طرح اٹھا ہوا تھا کہ جیسے تازیہ ہوتا ہے۔ دونوں ڈبوں کے تختے ایک دوسرے میں گھسے ہوئے تھے اور ایک مسافر ان میں پھنسا ہوا تڑپ رہا تھا۔ سکھ مسافر بولا بواجی قیامت آ گئی۔ میں نے کہا جس دن آنی ہو گی ایسے ہی آ جائے گی۔ اس کے بعد مجھے اپنے سامان اور حضرت مولوی صاحب کے مٹکے کا خیال آیا۔دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ گاڑی سے گاڑی ٹکرانے اور دنیا الٹ پٹ ہو جانے کے باوجود گھی کا مٹکا جس میں8،7سیر کے قریب گھی تھا جوں کا توں اپنی جگہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے خدا کا شکر کیا اور دل میں سوچا کہ یہ حضرت مولوی صاحب کی دعا کا کرشمہ تھا کہ گھی کا یہ مٹکا اور اس مٹکے کے طفیل میں زندہ بچ رہا۔ پانچ چھ گھنٹے بعد میں دوسری گاڑی ملی اور ہم اس میں سوار ہو کر بخیریت لکھنؤ پہنچ گئے۔میں نے گھی کا مٹکا حضرت مولوی صاحب کے صاحبزادے عبدالرحمن صاحب کو پہنچا دیا۔

(سیرت حضرت مولانا شیر علیؓ ص 285تا 288)

حضرت مولانا محمد حسین ؓ

ایک دن ہم جہاز میں کام کر رہے تھے کہ حکم آیا کہ یہ جہاز مع کام کرنے والوں کے بغداد بھیج دیا جائے گا۔اس لئے سب کام کرنے والے اپنا سامان جہاز ہی میں لے آئیں کیونکہ اس وقت بڑی سخت جنگ ہو رہی تھی۔ میرے دس ساتھیوں نے یہ سنتے ہی رونا شروع کر دیا۔مگر میں نے نفل پڑھنے شروع کر دئیے۔جہاز کی روانگی کا دو مرتبہ وسل (Whistle) ہو چکا تھا۔ جہاز کی روانگی میں صرف دو منٹ باقی تھے کہ جنرل صاحب کی طرف سے فون آیا کہ میرے معائنہ کے بغیر جہاز روانہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ جنرل صاحب وہاں پہنچے اور بعد معائنہ جہاز کی روانگی کا حکم دیا۔ پھر جب اچانک ہم لوگوں پر نظرپڑی تو جہاز کے کپتان سے دریافت کیا کہ یہ فٹر کنارہ کے ہیں یا پانی کے؟ اس نے جواب دیا کہ حضور کنارہ کے۔ جنرل صاحب نے کہا نہیں نہیں یہ نہیں جائیں گے۔صرف پانی کے فٹر ہمراہ لے جاؤاور ہمیں جنرل صاحب نے جہاز سے باہر آنے کا حکم دیا۔ بعدہ پانی کے فٹر آگئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ رات دو بجے کے قریب اطلاع آئی کہ دشمن نے جہاز غرق کر دیا ہے اور ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔ ہم نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہماری ابھی زندگی باقی تھی۔

(میری یادیں صفحہ 44 تا 45)

(عطاء الوحید باجوہ)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2020