خداتعالیٰ کے فضل سے الفضل کو جاری ہوئے ایک سوسال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ الفضل کس طرح جاری ہوا۔ اس کےلئے کس نے کیا قربانی کی۔ اس کے مالی وسائل کن مشکل حالات میں حاصل ہوئے۔ الفضل کی کہاں کہاں اور کس کس طرح مخالفت ہوئی۔ یہ سب امور جماعت کی تاریخ کا حصہ ہیں اور ان پر بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے۔
اخبار الفضل صرف اسی وجہ سے منفرد نہیں ہے کہ اس کی اشاعت کو ایک لمبا عرصہ گزر رہا ہے اور یہ اس سارے عرصہ میں مخالفتوں کے باوجود ترقی حاصل کرتا چلا گیا بلکہ اس کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ باقی تمام اخبار اپنی اشاعت سے اگلے روز ہی ردّی میں شامل ہو جاتے ہیں مگر یہ اخبار ایک روحانی اور تاریخی دستاویز کے طور پر زیادہ قیمتی اور قابل قدر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں الفضل اخبار کی بعض جلدیں محفوظ تھیں اور مجھے یوں لگتاہے کہ اردو کی شُدبُد کے ساتھ ہی میں اس اخبار کا قاری بن چکا تھا بلکہ بعض دفعہ تو یہ بھی اشتباہ ہو جاتا ہے کہ میں نے اردو زبان درسی کتب سے سیکھی تھی یا الفضل سے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ الفضل ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی سرپرستی اور ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ اور اس وجہ سے اس اخبار کو شروع سے ہی ایک خاص مقام حاصل ہو گیا تھا۔ آپؓ کے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اس اخبار کی ادارت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم۔اے ؓ نے سنبھالی اور اس طرح اس اخبار کو یہ قابل رشک مقام حاصل ہوا کہ اس کی نگرانی و ادارت یکے بعد دیگرے حضرت مسیح موعود ؑ کی مبشر اولاد کے ہاتھوں میں رہی۔
الفضل کی خدمت کرنے والوں میں حضرت قاضی ظہور الدین اکمل ؓ اور بعض اور بزرگوں کا نام بھی آتا ہے۔ خاکسار نے جب اخبار الفضل دیکھنا شروع کیا تو اس وقت اس کے مدیر جناب خواجہ غلام نبی تھے۔
احمدی صحافیوں میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ،حضرت مفتی محمد صادقؓ،حضرت قاضی اکمل، حضرت بھائی عبد الرحمان قادیانیؓ، حضرت میر قاسم علیؓ زیادہ معروف تھے۔ ان بزرگوں نے احمدیت کے ابتدائی دور میں خدمت کے مواقع حاصل کئے اور جماعت کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے علم ِ کلام سے لوگوں کو متعارف کروایا اور مخالفوں کے اعتراضوں کے جواب بھی دئیے۔
خواجہ غلام نبی نے اپنی کتاب اور بعض مضامین میں اس امر پر بجا طور پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ میری تربیت حضرت مصلح موعودؓ کی نگرانی میں ہوئی۔حضوربعض ضروری مضامین کے نوٹ لکھواتے تھے،مضمون تیار ہونے پر ا س کی اصلاح فرماتے تھے۔ اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ابتدائی تقاریر جو بنیادی اسلامی تعلیم اور اہم مسائل پر مشتمل ہیں ان کی حفاظت خواجہ صاحب نے کی۔ ابتدائی زمانہ کی تمام کتب اور تقاریرمحترم خواجہ صاحب کی لکھی ہوئی ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس زمانہ میں شعبہ زود نویسی الگ سے موجود نہیں تھا اس طرح خواجہ صاحب اخبار کے ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ حضور کی تقاریر کو لکھنے اور ان کو محفوظ کرنے کا کام بڑی محنت اور عقیدت سے کرتے رہے۔خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کی تقریر لکھنے میں سٹیج پر جگہ کم ہونے کی وجہ سے دقت پیش آرہی تھی ۔ حضور کی خدمت میں عرض کرنے پر حضور نے فرمایا کہ تم میز پر بیٹھ جاؤ۔ گویاخواجہ صاحب نے ایک تقریر اس طرح تحریر کی کہ وہ میز پر حضور کے پہلو میں بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے۔
اسی زمانہ میں الفضل کی خدمت کرنے والے ایک اور بزرگ جناب رحمت اللہ شاکر تھے۔ آپ خوش وضع ، خوش لباس اور دراز قد بزرگ تھے۔ ان کے مضامین اور نظمیں الفضل میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی ایک بہت عمدہ اور مفید کتاب’’مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے‘‘بہت مشہور ہوئی تھی۔ آج کل وہ نظر نہیں آ رہی حالانکہ بہت اچھی تربیتی کتاب تھی۔ شاکر صاحب کا نام کشمیر کمیٹی کی خدمت کرنے والوں میں بھی نمایاں تھا۔
خواجہ صاحب کے زمانہ میں اہل پیغام اور احرار کی مخالفت کا بہت زور تھا۔ اسی طرح آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ آپ کو ان کے متعلق لکھنے کے مواقع میسر آئے اور انہوں نے قلمی خدمت کا خوب حق ادا کیا۔ الفضل اس زمانہ میں مسلم پریس کی عملاً رہنمائی کر رہا تھا۔
جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیشِ نظر حضرت مصلح موعود نے شعبہ زود نویسی قائم فرمایا ۔ اس کے پہلے انچارج مولانا محمد یعقوب طاہرتھے۔ ان کےساتھ کام کرنے والوں میں مکرم سلطان احمد طاہراور مکرم فیض احمد کے نام بھی آتے ہیں۔ فیض صاحب کوبعد میں درویشی کی سعادت حاصل ہوئی۔ بہت سی نمایاں جماعتی خدمات کی توفیق ملی۔ اخبار بدر کے ایڈیٹر رہے۔ وہ بہت اچھا لکھتے تھے۔ ان کی دو کتابیں خوب مشہور ہوئیں۔احمدیہ بُستانِ اردو ۔وہ پھول جو مُرجھا گئے۔یہ دونوں کتابیں فیض صاحب نے خاکسار کو جب خاکسار قادیان کی زیارت اور اپنے والد محترم عبد الرحیم درویش کی ملاقات و عیادت کیلئے وہاں گیا ہوا تھا خود اپنے ہاتھ سے اپنے مخصوص انداز میں یہ کہتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے دی تھیں کہ ایک ان پڑھ کی کتابیں بھی دیکھ لیں۔
شعبہ زود نویسی کے متعلق یہ امر بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ شعبہ بطور خاص حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر و خطبات کو لکھنے کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ تقریر لکھنےوالوں کو مناسب جگہ مہیا کی جاتی تھی۔ وہ اپنےساتھ سفید کاغذ اور بہت سی پنسلیں لے کر آتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت روانی سے بولنے کی استعداد عطا فرمائی تھی۔ تقریر کو ساتھ ساتھ لکھتے جانا بہت ہی مشکل کام تھا۔( مولانا صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اس کے لئے بعض اصول بھی وضع کئے تھے۔)
پھر اس تقریر کو صاف کرکے لکھنا۔ پھر اصلاح کے بعد دوبارہ لکھنا بہت زیادہ محنت اور توجہ ہی نہیں علمی صلاحیت کا بھی تقاضا کرتا تھا۔ آج کل یہ کام ایک معمولی سے فون سے لیا جاتا ہے جو تقریر کو ریکارڈ کرتا اور انگلی کی ایک حرکت سے دنیا بھر میں پھیل جاتاہے۔ محترم خواجہ غلام نبی کے بعد الفضل کی ادارت کی سعادت جناب شیخ روشن دین تنویرکو حاصل ہوئی۔ آپ تعلیم اور پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک تقریر (غالباً انقلاب حقیقی) سن کر احمدی ہوگئے۔ احمدی ہونے سے قبل آپ ایک قادر الکلام شاعر کی شہرت حاصل کر چکےتھے۔ آپ کے زمانہ ادارت میں احمدیت کے مخالف کم و بیش سو سالہ مخالفت کی ناکامی کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے مذہبی مخالفت کے عام طریق کو چھوڑتے ہوئے مذہب کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے لگے۔برصغیر ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی احمدی برابر اپنی تبلیغی و تربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور ان کی وجہ سے کبھی بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ پاکستان کے قیام میں ہر طرح ممد و معاون رہے۔ قائد اعظم ان کی خدمات کے معترف تھے۔
معروف احمدی حضرت چوہدری ظفراللہ خاں کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ اس وزیر خارجہ کی کوششوں سے کئی اسلامک ممالک کو آزادی حاصل ہوئی۔ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر اچھی شہرت ملی۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ میں آپ کی تقاریر آج بھی بنیادی تقاریر سمجھی جاتی ہیں اور تو اور پاکستا ن کے سیاسی رہنما مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آج بھی ان اقوام متحدہ کی قراردادوں کو یاد کرتے اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل چاہتے ہیں جوچوہدری صاحب کی کوششوں سے پاس ہوئی تھیں۔
تنویر صاحب کو سیاست کے غلاف میں لپٹی ہوئی اس مذہبی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ضد اور تعصب کی تباہ کن گہرائیوں کی وجہ سے مہذب دنیا اور آئین پاکستان کی مخالفت میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا۔ آج تو اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں بھی کبھی انصاف کا بول بالا ہوگالیکن آئندہ زمانہ میں جب تاریخ مرتب ہوگی تو یقیناًہر منصف مزاج اس دہشت گردی اورضدوتعصب پرلعنت بھیجے گا۔ اس وقت تنویر صاحب کی تحریروں کی حقیقت منکشف ہوگی اورپتہ چلے گاکہ سچائی اور حقیقت وہی تھی جس کا تنویر صاحب پرچار کر رہے تھے۔ آپ کے ساتھ مکرم مسعود احمد دہلوی اور مکرم شیخ خورشید احمدبطور اسسٹنٹ ایڈیٹر خدمات بجا لاتے رہے۔ محترم مسعود احمدکو بعد میں ایک لمبا عرصہ بطور ایڈیٹر خدمات بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ الفضل کے خادموں میں مکرم مولانا نسیم سیفی کا نام بھی شامل ہے۔ سیفی صاحب کو مغربی افریقہ میں بطور مبلغ انچارج لمبا عرصہ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ نے وہاں سے TRUTH نام کا ایک اخبار جاری کیا۔ آ پ کی اس خدمت کا حضرت مصلح موعودؓ نے کئی مواقع پر بہت اچھے رنگ میں ذکر فرمایا۔
یہ آندھی مخالفت کا ایسا زمانہ تھا جسے32 دانتوں کے درمیان زبان کے محاورہ سے کسی قدر سمجھا جا سکتا ہے۔
سیفی صاحب اور ان کے بعض ساتھیوں کو اسیرانِ راہِ مولیٰ رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ محترم نسیم سیفی کے بعد جناب عبد السمیع خان کو بھی اس عظیم الشان اخبار کی ادارت کی سعادت حاصل ہوئی۔
پاکستان میں الفضل کو بند کردیا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اخبار الفضل کو احمدیت کے باغ کو سر سبز رکھنے والی نہر قرار دیا تھا۔ مخالفوں نے احمدیت کے باغ کی سر سبز ی کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اور کئی مظالم کے ساتھ ساتھ الفضل کو بھی بند کر دیا مگر۔
شریروں پر پڑے ان کے شرارے
لندن سے الفضل انٹرنیشنل اس کمی کو باحسن پورا کرنے کی مساعی میں مصروف ہے اور اب روزنامہ الفضل موجودہ زمانہ کی اشاعت کی مؤثر ایجادات سے فائدہ اٹھا کر پاکستان سمیت ساری دنیا کو لندن سے آن لائن ایڈیشن کے ذریعہ اپنے فوائد سے بہرہ ور کر رہا ہے۔
تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ خاکسار کو بھی ربوہ میں محترم نسیم سیفی کے ساتھ اور یہاں الفضل انٹرنیشنل میں بھی کچھ عرصہ خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سب خدام کی خدمت قبول فرمائے۔ آمین
(عبدالباسط شاہد ۔لندن)