بہت ڈالر کو پوجا جا رہا ہے
ضمیروں کو خریدا جا رہا ہے
جو جتنی گالیاں دے گا زیادہ
اُنہیں اتنا نوازا جا رہا ہے
ترے قدموں کی خوشبو ہے یقیناً
ترے گاؤں کو رستہ جا رہا ہے
ابھی تو پھول گاتے پھر رہے تھے
جہاں تابوت رکھا جا رہا ہے
علامت امن کی دُنیا میں ہیں جو
اُنہیں چُن چُن کے مارا جا رہا ہے
یہاں فاقہ کشی سے تنگ آ کر
جگر گوشوں کو بیچا جا رہا ہے
ہنر عیبوں میں ڈھلتے جا رہے ہیں
غلط کو ٹھیک سمجھا جا رہا ہے
جو پاکستان کی ’’پ‘‘ کے تھے دُشمن
انہیں ہیرو بنایا جا رہا ہے
جلائیں امن کو یا دفن کر دیں
یہ ملاّؤں سے پوچھا جا رہا ہے
جو کافر کو بناتے ہیں مسلماں
انہیں کافر بنایا جا رہا ہے
(عبد الکریم قدسی۔ امریکہ)