• 19 اپریل, 2024

الفضل کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثُریا کی خواہش (بانی الفضل)

الفضل کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثُریا کی خواہش
(بانی الفضل)

بانی الفضل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مصلح موعود و خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے الفضل کے حوالہ سے بہت قیمتی اور اہم ارشادات فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک ارشاد یہ ہے کہ
’’یہ اخبار ثُریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثُریا کی خواہش۔ نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بیتابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت پیدا ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘

(انوار العلوم جلد8 صفحہ369)

اس ارشاد میں بیان مضمون کو آگے جا کر زیر بحث لایا جائے گا۔ آغاز پر ثُریا کے معانی بیان کرنا ضروری ہیں۔ ثاء پر پیش کے ساتھ لفظ ثُریا (Pleiades) چند ستاروں کے جھرمٹ کا نام ہے جو آسمان پر بہت دلکش اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ اس کا زمین سے فاصلہ باقی ستاروں سے بلند ہے۔ الغرض ثُریا کا لفظ بلند ترین مقام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَا لَنَا لَہٗ رِجَالٌ مِنْ ھٰوُلَٓاءِ

اگر ایمان ثُریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اس کو واپس لے آئیں گے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ893-892)

شعراء نے بھی ثُریا کے لفظ کو بلندی کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ جیسے علامہ اقبال کوہ ہمالیہ کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

؎چوٹیاں تیری ثُریا سے ہیں سرگرم سخن

اگر کسی کی بلندی کو ارفع مقام سے تعبیر کرنا ہو تو کہتے ہیں کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے یا کر رہا ہے۔ ہمالیہ کی چوٹیاں ثریا سے باتیں کر رہی ہیں۔

شیخ سعدی کا ایک فارسی شعر ہمارے لٹریچر میں کثرت سے ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔

؎خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

کہ اگر معمار عمارت بناتے وقت بنیادی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے گا تو اس کے اوپر جو دیواریں اٹھائے گا وہ ثُریا تک لے جائے وہ ٹیڑھی ہی رہیں گی۔

ثُریا کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اگر حضرت مصلح موعودؓ کے بین السطور میں بیان ارشاد کو ایک بار پھر پڑھا جائے تو اخبار (الفضل) کی اہمیت، افادیت اور اس کی برکات اور فوقیت پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آتی ہیں۔

’’یہ اخبار(اشارہ الفضل کی طرف ہے) ثُریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثُریا کی خواہش۔ نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بیتابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت پیدا ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘

(انوار العلوم جلد8 صفحہ369)

اب اس ارشاد میں سے ایک ایک فقرہ کو زیر بحث لاتے ہیں۔

• یہ اخبار ثُریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا
اس فقرہ سے الفضل کی اہمیت اور اس کے مقام کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ جس طرح ثُریا بلند ترین جگہ ہے اور ارفع و اعلیٰ مقام سے تعبیر کی جاتی ہے اسی طرح الفضل کا مقام ثُریا کی طرح اعلیٰ و ارفع ہے۔ بلکہ اس زیر بحث فقرہ پر غور کیا جائے تو اس اخبار کا تو ثُریا سے بھی بلند مقام ہے کیونکہ فرمایا ثُریا کے پاس ایک بلند مقام پر براجمان ہونے کا ذکر ہے۔

• اس کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثُریا کی خواہش
اس فقرہ سے حضرت مصلح موعودؓ کی الفضل سے محبت عیاں ہوتی ہے۔ ہر انسان کو روحانی اور مادی بلندیوں کا سفر کرنے اور بلندیاں پانے کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا مقام، میرا اقبال بلند ہو اور وہ ترقیات کے لیے جہاں دعائیں کرتا ہے وہاں کوشش بھی کرتا ہے۔ سو حضرت مصلح موعودؓ اس کو زمین پر لانے کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح انسان کی خواہش ثُریا پر جانے کی ہوتی ہے۔ میری بھی یہ خواہش تھی کہ میں ثُریا پر جا کر اس کو زمین پر لاؤں اور ساتھ ہی ’’نہ وہ ممکن تھی نہ یہ‘‘ کے الفاظ میں ان دونوں خواہشات کے ممکنات میں نہ ہونے کا ذکر فرمایا۔ لیکن مَنْ جَدَّ وَجَدَ کے اصول کے مطابق جو انسان کوشش کرتا ہے، تگ و دو کرتا ہے وہ آخر اپنے ہدف کو پالیتا ہے۔

• آخر دل کی بیتابی رنگ لائی
بالآخر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی دعائیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دن رات کی کوششیں و دعائیں رنگ لائیں۔ اس اخبار کے لیے دل بہت بے تاب تھا اور جب انسان کی خواہش میں دل بیتاب ہو تو اللہ تعالیٰ دعاؤں اور کوششوں کو قبول فرماتا ہے۔ چنانچہ 18؍جون 1913ء کا وہ مبارک دن تھا جب اس بے تاب دل نے پختہ ارادوں کے ساتھ اس کو اشاعت کا رنگ دے ہی دیا۔

• امید بر آنے کی صورت پیدا ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی
کیا پیاری تشبیہ دی ہے الفضل کو سورج کی روشنی بالخصوص چڑھتے سورج کی لالی سے۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے وہ بالآخر روشن سے روشن ہوتا رہتا ہے اور اس کی تمازت موسم سرما میں بھلی محسوس ہوتی ہے اور موسم گرما میں انسانی طبائع میں مزید گرمائش پیدا کرتی ہے۔ یہی کیفیت الفضل کی ہے۔ اس میں ایمانی، روحانی و دینی تعلیمات کی گرمائش انسان کی طبیعت میں خوشکن ماحول پیدا کرتی ہے۔ یہ مادی سورج طلوع کے بعد بسا اوقات بادلوں کے نرغے میں آجاتا ہے۔ الفضل پر بھی گاہے بگاہے بادلوں کے سائےرہے اور مخالفین کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایشین ممالک میں جیسے سورج مشرق سے طلوع ہو کر مغرب کی طرف کا سفر کرتا ہے بعینہٖ اخبار الفضل نے مشرق افق قادیان، لاہور اور ربوہ سے طلوع ہو کر مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اب گزشتہ تین سالوں سے مغرب میں اپنی روشنی اور گرمائش سے مومنوں کو متمتع کر رہا ہے اور اس کی کرنیں کیا بلاد عربیہ میں، کیا یورپ میں، کیا مغرب میں، کیا بلاد شرقیہ میں برابر علم و تقویٰ، نیکی کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے پاکستان میں بندش اور پابندیوں کی زنجیریں توڑ کر اس اخبار کو مغرب سے جاری فرمایا اور آج 5لاکھ سے زائد ستارے اس روحانی سورج سے روشنی لے کر اپنے اپنے علاقوں میں روشنی مہیا کر رہے ہیں۔ اس روشن سورج کے حق میں اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ وَ بَارِکْ لِلعَالَمِیْن کی دعا کرتے ہوئے اس آرٹیکل کا اختتام کرتے ہیں۔

؎نعمتیں چُن دی گئیں ہیں اس کے ہر قرطاس پر
میوہ ہائے دین کا الفضل، دستر خوان ہے

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جمائیکا میں جلسہ سالانہ کا بابرکت انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2023