• 19 اپریل, 2024

ربط ہے جانِ محمد ؐسے مری جاں کو مدام (قسط 6)

ربط ہے جانِ محمد ؐسے مری جاں کو مدام
دعا سے بارانِ رحمت
قسط 6

(یہ مضمون قریب الاختتام ہے۔ جب تمام اقساط کا جائزہ لیا گیا تو قسط 6 بوجوہ طبع نہیں ہوسکی۔ سو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ایڈیٹر)

حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے بابرکت وجود کے ساتھ آسمان سے روحانی پانی کی موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ اسی طرح آپؐ کی برکت سے زمین کو بھی پانی ملنے لگا۔ اللہ تعالیٰ سے عشق تھا۔ جو بھی خیر اس کی طرف سے آتی خوشی سے خیر مقدم فرماتے۔ بارش کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیتے۔ موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے۔ ’’میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے‘‘

(مسند احمد جلد6 صفحہ129)

ایک دوسری روایت ہے ’’جب سال کی پہلی بارش ہوتی تو رسول اللہﷺ اسے ننگے سر پر لیتے اور فرماتے ہمارے رب سے یہ تازہ نعمت آئی ہے اور سب سے زیادہ برکت والی ہے۔‘‘

(کنزالعمال حدیث نمبر4939)

بارش جہاں اللہ کی رحمت یاد دلاتی وہاں اس کا خوف بھی پیدا کرتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپؐ کا چہرہ متغیر ہوجاتا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی۔ مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپؐ بادل دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا پتہ اس آندھی میں کوئی ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہوگئی تھی اور ایک قوم (عاد) ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو بادل ہے۔ برس کر چھٹ جائے گا۔ مگر وہی بادل اُن پردردناک عذاب بن کربرسا۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف باب قولہ فلما رأوہ عارضا مستقبل اودیتھم)

مشرکین مکہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے آپؐ نے مولا کریم سے دعا کی:

’’اے میرے مولا! ان مشرکین مکہ کے مقابلہ پر میری مدد کسی ایسے قحط سے فرماجس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی مدد تو نے قحط سالی کے ذریعہ فرمائی تھی۔‘‘

اس دعا میں رحمت وشفقت کا یہ عجیب رنگ غالب تھاکہ ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا بلکہ جس طرح یوسف کے بھائی قحط سالی سے مجبور ہو کر اس نشان کے بعد بالآخراُن پر ایمان لے آئے تھے اس طرح میری قوم کو بھی میرے پاس لے آ۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آ گھیرا۔ یہاں تک کہ ان کو ہڈیاں اور مردار کھانے کی نوبت آئی۔ تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ’’اے محمدﷺ ! آپؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دور فرمائے) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی‘‘

رسول کریم ﷺ نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو۔ مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپؐ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولا سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی۔ اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے۔ مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم والدخان)

آپؐ کے چچا ابوطالب نے کیا خوب کہا تھا:

وَاَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الغَمَامُ بِوَجْھِہٖ
ثِمَالُ الیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِّلاَرَامِلِ

محمد (ﷺ) کے روشن چہرے کا واسطہ دے کر بارش مانگی جائے تو بادل برس پڑتے ہیں آپ (ﷺ) یتیموں کے والی اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔

صلح حدیبیہ سے پہلے کی بات ہے ابھی آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک جگہ ایک چشمہ کے پاس اونٹنی سے اتر آئے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک پارٹی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا کہ چشمہ کاپانی ختم ہوکر خشک ہوگیا ہے اوراب انسان اور جانور سخت تکلیف میں ہیں۔ اس کے لئے کیا کیا جائے؟ آپؐ نے ایک تیر لیا اورحکم دیا کہ اس تیر کو خشک شدہ چشمہ کی تہ میں نصب کر دیاجائے اورآپؐ خود چشمہ کے کنارے پرتشریف لاکر وہاں بیٹھ گئے اور تھوڑا ساپانی لے کر اسے اپنے منہ میں ڈالا اورپھر خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ پانی اپنے منہ سے چشمہ کے اندر انڈیل دیا اورصحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اب تھوڑی دیر انتظار کرو۔چنانچہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ چشمہ کے اندر اتنا پانی بھرآیا کہ سب نے اپنی اپنی ضرورت کے لئے استعمال کیا اورپانی کی تکلیف جاتی رہی۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ اسی رات یا اس کے قریب بارش بھی ہوگئی۔چنانچہ جب صبح کی نماز کے لئے آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ سے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’کیا تم جانتے ہو کہ اس بارش کے موقع پر تمہارے خدا نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حسب عادت عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے مگربعض کفر کی حالت میں پڑ کرڈگمگاگئے۔کیونکہ جس بندے نے تو یہ کہا کہ ہم پر خدا کے فضل ورحم سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان کی حقیقت پر قائم رہا مگر جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تووہ بیشک چاند سورج کاتو مومن ہوگیا،لیکن خدا کا اس نے کفر کیا۔‘‘ اس ارشاد سے جوتوحید کی دولت سے معمور ہے آنحضرتﷺ نے صحابہؓ کویہ سبق دیا کہ بے شک سلسلۂ اسباب وعلل کے ماتحت خدا نے اس کارخانۂ عالم کوچلانے کے لئے مختلف قسم کے اسباب مقرر فرما رکھے ہیں اوربارشوں وغیرہ کے معاملہ میں اجرام سماوی کے اثر سے انکار نہیں مگر حقیقی توحید یہ ہے کہ باوجود درمیانی اسباب کے انسان کی نظر اس وراء الوراء ہستی کی طرف سے غافل نہ ہو جوان سب اسباب کی پیدا کرنے والی اوراس کارخانۂ عالم کی علت العلل ہے اورجس کے بغیر یہ ظاہری اسباب ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

(سیرت خاتم النبیین صفحہ 844-845)

ایک دفعہ مدینہ اوراس کے گردنواح میں دیر تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہونے لگے جس پرصحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی تکلیف بیان کی اوردرخواست کی کہ ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی جائے اس پر آپؐ صحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر مصلّٰی یعنی عیدگاہ میں تشریف لے گئے اوروہاں قبلہ رخ ہو کر بارش کے لئے دعا فرمائی اوراس کے بعد خدا کے فضل سے بہت جلد بارش ہوگئی۔ اس کے بعد اسلام میں استسقاء کی نماز کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔اس نماز کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں عام نمازوں کی طرح امام مقتدیوں کے آگے توکھڑا ہوتا ہے مگر قولی دعا کے علاوہ جس میں انسانوں اورجانوروں کی تکلیف کا ذکر کرکے خدا سے بارش کی التجا کی جاتی ہے امام ایک چادر کے کونے پکڑ کر اسے اپنی پیٹھ پر ڈالتا ہے اور پھر اسے اس طرح الٹا دیتا ہے کہ چاروں کونے بدل جاتے ہیں۔ جوگویا زبان حال سے اس بات کی استدعا ہوتی ہے کہ خدایا !ہم پر یہ سختی کے دن پوری طرح بدل جائیں اورتیری وہ رحمت جوہر چیز کے پیچھے مخفی ہوتی ہے تکلیف کے ظاہری پہلوؤں کوکلی طورپر دبا کر باہر آجائے۔

بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اورموقع پرجبکہ آنحضرتﷺ جمعہ کے خطبہ کے لئے منبر پرچڑھے ہوئے تھے ایک صحابی نے موسم کی سختی کاذکر کرکے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ! جانور مررہے ہیں اور سفرکٹھن ہورہے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے۔‘‘ آپؐ نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے اوربارش کے لئے بلند آواز سے دعافرمائی۔انس بن مالک جو اس روایت کے راوی ہیں اورجو آنحضرتﷺ کے خاص خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آسمان بالکل صاف تھا،لیکن ابھی ہم مسجد میں ہی تھے اورجمعہ سے فراغت نہیں ہوئی تھی کہ ایک طرف سے بادل کاایک چھوٹا ساٹکڑا نمودار ہوا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ سارے آسمان پر چھاگیا۔اورپھر بارش برسنے لگی اوربرابر ایک ہفتہ تک برستی رہی اور اس عرصہ میں ہم نے سورج کی شکل تک نہیں دیکھی (حالانکہ اس ملک میں ایسی صورت بہت شاذ ہوتی ہے) پھر جب دوسرا جمعہ آیاتو ایک شخص نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ!بارش نے تو رستے روک دئیے اور چراگاہوں کے غرقاب ہوجانے سے مویشی بھوکے مررہے ہیں دعا فرمائیں کہ اب اللہ تعالیٰ اس بارش کے سلسلہ کوروک دے۔‘‘ آنحضرت ﷺ نے تبسم فرمایا۔ اور پھر آپؐ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ:

اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلاَ عَلَیْنَا…

یعنی خدایا! اب ہم پر اس بارش کے سلسلہ کوبند فرما اور دوسری جگہ جہاں ضرورت ہووہاں برسا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو دھوپ نکلی ہوئی تھی۔

(سیرت خاتم النبیین صفحہ817)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ جس سمت میں ہاتھ سے اشارہ فرماتے تھے بادل پھٹ کر اسی طرف چلا جاتا تھا، بالآخر چاروں طرف بارش ہوتی رہی اور مدینہ درمیان میں ٹکی کی طرح رہ گیا اور ایک ماہ تک قنات نامی نالہ بہتا رہا۔

سن 10 ہجری میں حجاز کے شمال میں آباد قبیلہ بنو خزاعہ کے ایک ذیلی قبیلہ بنو سلامان کا وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا دیگر گزارشات کے ساتھ انہوں نے اپنے علاقے میں بارش کی کمی کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے وہاں کے لیے بارش کی دعا کی:

اَللّٰھُمَّ اَسْقِھِم الغَیْثَ فِی دَارِھِمْ

اے اللہ! ان کے ہاں بارش برسادے۔

یہ دعا سن کر ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ! ہاتھ اُٹھا کر بھی دعا کریں۔‘‘

اس کی درخواست پر آپؐ نے تبسم فرمایا اور ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں اسی روز بارش ہوئی تھی۔

(ابن سعد ذکر وفادات العرب)

اللہ تبارک وتعالیٰ کے نور سے ممسوح، نور مجسم محمد رسول اللہﷺ، دنیا میں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دینے کے لیے بھیجے گئے اس فیض کے چشمہ سے سیرابی آپؐ سے عشق اور آپؐ کی اطاعت اورآپؐ کے رنگ میں رنگین ہوجانے کی نسبت سے ہے۔ یہ سعادت سب سے بڑھ کر آپؐ کے عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مہدیٔ معہود اور مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حصے میں آئی۔ حتٰی کہ فرشتوں نے آسمان سے نور برسایا۔ فرماتے ہیں:
’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لیے آتے ہیں اور ایک نے ان سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تونے محمد کی طرف بھیجی تھیں۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ598)

؎دگر استاد را نامے نہ دانم
کہ خواندم در دبستانِ محمد

روحانی سفر میں کسی استاد کا نام معلوم نہیں میں نے تو محمدﷺ کے دبستان سے تعلیم پائی ہے۔

حضرت اقدسؑ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ رسولِ پاکﷺ کے اسوۂ حسنہ کا عکس تھا۔ وہی ادائیں وہی طور طریق وہی عمل اور ردعمل نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عشق کے انداز ہو بہو وہی تھے ہر خیر اسی سے مانگتے اور شکر گزار ہوتے۔ باران رحمت کے لئے دعا کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔ صرف آگ ہی آپؑ کی غلام نہیں تھی بلکہ بادل، بارش، پانی سب آپؑ کے غلام تھے۔

اپنے ایک الہام کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّی رُوْحَ الصِّدْقِ … میں جو لفظ لَدُنْ کا ذکر ہے۔

اُ س کی شرح کشفی طور پر یوں معلوم ہوئی۔ کہ ایک فرشتہ خواب میں کہتا ہے کہ یہ مقام لَدُنْ جہاں تجھے پہنچایا گیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں ہمیشہ بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔ اور ایک دم بھی بارش نہیں تھمتی۔‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد12 صفحہ76)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک بار میرے جی میں آیا کہ اللہ نے جو انعام مجھ پر کئے ہیں اُن پر ایک کتاب لکھوں۔

فرمایا: اِس ارادے کی تکمیل کرنے لگا تو کشف میں دیکھا زور سے بارش ہورہی ہے اور اللہ مجھے فرماتا ہے کہ اگر یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے۔ تب مَیں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔‘‘

(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد7 صفحہ310)

حضرت اقدس کی دعا سے بارش کے واقعہ کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ بارش کے لئے نماز استسقاء ہوئی تھی۔ حضرت صاحب علیہ السلام بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن مرحوم امام ہوئے تھے لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے۔ مگر چونکہ حضرت صاحب میں کمال ضبط تھا اس لیے آپ علیہ ا لسلام کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہوگئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی۔

(سیرۃ المہدی جلد2 صفحہ105)

حضرت مرزا نذیر حسین صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک دفعہ جبکہ گرمی کا موسم تھا اور گرمی بہت تھی۔ بارش نہ ہوتی تھی لوگوں نے صلوٰۃ استسقاء کے لیے حضور علیہ السلام سے کہا۔ حضورؑنے مان لیا…حضورؑ نے صلوٰۃ استسقاء باہرمیدان میں پڑھائی۔ غالباََ کافی دیر لگی۔بالآخر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے پاس حضورؑ کا رقعہ آیا کہ بچوں کو لے کر فوراً شہر چلے جائیں امید ہے سخت بارش ہوگی چنانچہ ابھی ہم شہر پہنچے ہی تھے کہ سخت بارش شروع ہوگئی اور ہمارے کپڑے بھی بھیگ گئے۔

(ماہنامہ انصار اللہ اپریل 1974ء صفحہ38)

حضرت قاضی امیر حسین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ عجیب تھا قادیان میں دو دن گرمی نہیں پڑتی تھی کہ تیسرے دن بارش ہوجاتی تھی۔ جب گرمی پڑتی اور ہم حضرت صاحب سے کہتے کہ حضور بہت گرمی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ52 روایت نمبر70)

آپ علیہ السلام کے سلسلے کے تابناک مستقبل کی نوید بھی آپ کو بارش کے استعارہ سے دی گئی فرماتے ہیں:
’’آج رات مَیں نے 18؍ستمبر 1899ء کو بروز دوشنبہ خواب میں دیکھا کہ بارش ہورہی ہے۔ آہستہ آہستہ مینہ برس رہا ہے۔ مَیں نے شاید خواب میں یہ کہا۔ کہ ہم تو ابھی دُعا کرنے کو تھے کہ بارش ہو سو ہو ہی گئی۔ ’’مَیں نہیں جانتا کہ عنقریب بارش ہوجائے یا ہمارے الہام 13؍ستمبر 1899ء ایک عزت کا خطاب۔ ایک عزت کا خطاب۔ لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا۔‘‘ کے متعلق خدا کی رحمت اور فتح اور نصرت کی بارش ہماری جماعت پر ہوگی یا دونوں ہی ہوجائیں۔ ہماری خواب سچی ہے۔ اس کا ظہور ضرور ہوگا۔ دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بارانِ رحمت کا دروازہ آسمان سے کھُلے گا یا غیر معمولی کوئی نشان روحانی فتح اور نصرت کا ظاہر ہوگا مگر نشان ہوگا نہ معمولی بات۔‘‘

(الحکم جلد3 نمبر36 مؤرخہ 10؍اکتوبر 1899ء صفحہ7)

؎سر سے پا تک ہیں الٰہی تیرے احساں مجھ پر
مجھ پہ برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا

دعا ہے کہ ہم ان مبارک ہستیوں کی دعاؤں کے وارث بنیں اور سدا آسمانی نعماء کی بارش میں شرابور رہیں۔ آمین اللّٰھم آمین

(امة الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

جمائیکا میں جلسہ سالانہ کا بابرکت انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2023