• 25 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 13)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 13

وقف زندگی کی مدد کرو خدا برکت دے گا

ایک بچہ کو دین کے لئے وقف کرنے میں کوئی مشکل نہیں۔ دوسروں کو کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے تمہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی یا دوسرے اچھے کاموں پر لگایا اب یہ گویا ایک ٹیکس تمہارے ذمہ ہے کہ اپنے اس بھائی کو خرچ دیتے رہو اِس طرح اُن کے اپنے رزق میں بھی برکت ہوگی۔

حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم ﷺکی خدمت میں آئے اور دھرنا مار کر بیٹھ گئے حتٰی کہ مسجد سے نکلنا بھی بند کر دیا۔ اُن کا ایک اَور بھائی تھا جس کے کام میں یہ پہلے مدد دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ اُن کا بھائی رسول کریم ﷺکی خدمت میں آیا اور کہا کہ یارسول اللہ!میر ابھائی تو اب میرے لئے گویا ایک چٹّی ہے دو چار ماہ بعد آتا ہوں تو اُسے کچھ خرچ دے جاتا ہوں اور یہ پہلے کام میں جو مجھے مدد دیتا تھا اُس سے محروم ہوں۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا تمہیں کیا معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بھی رزق اس کے طفیل دیتا ہے۔

میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم کو جب حضرت خلیفہ اوّل نے دینی علوم کی تعلیم دینی شروع کی تو ایک دن حضرت نانا جان مرحوم نے کہا کہ میرے دل پر یہ بوجھ ہے کہ یہ کھائے گا کیا؟ اسے کوئی فن بھی سکھا دیا جائے۔

اِس پر حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا اِس کے بڑے بھائی کو اللہ تعالیٰ اِسی کے لئے تو رزق دے گا تا وہ اِس کی خدمت کرے اور دین کی خدمت کے ثواب میں شریک ہو۔

تو دین کے لئے بیٹوں کو وقف کرنا اہم ذمہ واری ہے….پس میں بار بار جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کو دین کے لئے وقف کرو۔ اگر کسی کے زیادہ بچے ہیں تو وہ ایک کو وقف کرے اور اُس کے بھائیوں کے ذمہ لگائے کہ اسے خرچ دیتے رہیں اور انہیں کہے کہ یہ دین کا کام کرتا ہے اِس لئے تمہارا فرض ہے کہ اپنی آمد کا اتنا حصّہ اِس کو دیتے رہو اور یا پھر وہ اپنی جائیداد کا کچھ حصّہ اُس کے لئے وقف کر سکتا ہے۔

وصیّت تو زیادہ سے زیادہ تیسرے حصّہ کی جائز ہے اور یہ اسی لئے ہے کہ تا انسان چاہے تو دوسرے کاموں کے لئے بھی وقف کر سکے۔پس چاہئے کہ جائیداد کا کچھ حصّہ اِس رنگ میں وقف کر دیا جائے کہ جو تبلیغ کرے گا یہ اُسے ملے گا۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ36-37)

اشاعت دین کے لئے قربانیاں

ہم سے پہلے جو قومیں دنیا میں گزر چکی ہیں انہوں نے دین کے لئے ایسی عظیم الشان قربانیاں کی ہیں کہ اُن کے واقعات پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ وہ واقعات ایسے ہیں کہ آج بھی ہمارے لئے اپنے اندر بیسیوں سبق پنہاں رکھتے ہیں اور ہمیں اِس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ خدا کے لئے قربانی کرنے والے دنیا میں کبھی ضائع نہیں کئے جاتے۔

حضرت بدھ علیہ السلام کے حالات جو بدھ مذہب کی کتابوں میں آج تک لکھے ہوئے نظر آتے ہیں ایسے پاکیزہ اور اتنے اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ اگر انسان کے دل میں تعصّب کا مادہ نہ ہو تو وہ اُن واقعات کو پڑھ کر بغیر کسی تردّد اور ہچکچاہٹ کے کہہ سکتا ہے کہ یہ شخص یقینا نبی تھا۔ حضرت بدھ علیہ السلام نے جب شہزادگی کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی عبادت اور مذہب کی تبلیغ میں اپنے تمام اوقات کو صَرف کرنا شروع کر دیا تو اُن کا معمول تھا کہ جب انہیں بھوک لگتی وہ لوگوں کے گھروں سے بھیک مانگ لیتے بلکہ اب تک بدھ مذہب کے بھکشو اِسی طریق پر کار بند ہیں۔

بدھ مذہب کے مبلّغین کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی روزی کمانے کے لئے کوئی ہُنر یا پیشہ اختیار کریں۔ اُنہیں یہی حکم ہوتا ہے کہ دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو اور جب تمہیں بھوک لگے تو لوگوں سے بھیک مانگ لو۔ اگر وہ تمہیں کھانا دیں تو کھا لو اور اگر نہ دیں تو اُن کو چھوڑ کر دوسرے گاؤں میں چلے جاؤ اور وہاں کے رہنے والوں سے کھانا مانگو۔

خود حضرت بدھ علیہ السلام بھی لوگوں سے بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے جس کا اُن کے باپ کو سخت قلق تھا۔ ایک دفعہ وہ اِسی طرح تبلیغ کرتے کرتے اپنے علاقہ میں آئے تو اُن کا باپ اُن کے پاس آیا اور کہنے لگا بیٹا! تم نے تو میرا ناک کاٹ دیا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے حضور کا ناک کس طرح کاٹ دیا ہے؟ باپ نے کہا تم بھیک مانگتے ہو اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہو۔

حضرت بدھؑ نے کہا مہاراج! میں وہی کام کرتا ہوں جو میرے باپ دادا کیا کرتے تھے۔ باپ نے یہ بات سنی تو وہ کہنے لگا نہ میں نے کبھی لوگوں سے بھیک مانگی ہے نہ تمہارے دادا نے لوگوں سے کبھی مانگی تھی۔ بدھؑ نے کہا مہاراج! یہ بات سچ ہے مگر میرے باپ دادا وہ سابق انبیاءہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ اُنہیں خدا کے نام کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے بھیک مانگنے میں کوئی عار نہیں تھا اور یہی وہ کام ہے جو مَیں کر رہا ہوں۔

چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے حواریوں کو یہی نصیحت کی کہ:
’’نہ سونا اپنے کمر بند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے۔ راستہ کے لئے نہ جھولی لینا نہ دو دو کُرتے۔ نہ جوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار ہے۔ اور جس شہر یا گاؤں میں داخل ہو دریافت کرو کہ اس میں کون لائق ہے۔ اور جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو اُسی کے ہاں رہو۔ اور گھر میں داخل ہوتے وقت اُسے دعائے خیر دو۔ اور اگر وہ گھر لائق ہو تو تمہارا سلام اُسے پہنچے۔ اور اگر لائق نہ ہو تو تمہارا سلام تم پر پھر آئے۔ اور اگر کوئی تمہیں قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اُس گھر یا اُس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دو۔‘‘

اِس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ جب تم تبلیغ کے لئے جاؤ تو تمہیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ اپنی جیب میں پیسہ رکھو یا کھانے کا فکر کرو۔ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ تم یہ دعا کرتے رہو کہ:
’’اے خدا! ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔‘‘

چنانچہ جس شہر یا گاؤں میں جاؤ، وہاں کے رہنے والوں سے اپنے لئے روٹی مانگو۔ اگر وہ دے دیں تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھا لو اور اگر وہ انکار کریں تو اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ کر وہاں سے نکل جاؤ اور اپنی زبان پر شکوہ کا کوئی حرف مت لاؤ۔

اگر اس طرح کام کرنے والے ہمیں بھی میسر آ جائیں تو پھر پانچ ہزار مبلّغوں کا بھی سوال نہیں، دو لاکھ مبلّغ اِس وقت ہمیں اپنی جماعت میں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر وہی روح پیدا کریں جو پہلے لوگوں نے پیدا کی۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ52-54)

مخالفانہ لٹریچر مستقبل کے لئے محفوظ کر لو

میں متواتر بیس سال سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ مخالفوں کا لٹریچر غائب کیا جا رہا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو اکٹھا کر کے اپنی لائبریریوں میں محفوظ کر لیں۔ اگر ہم نے اس لٹریچر کو مہیّا نہ کیا تو کچھ دنوں کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتابوں میں لوگ ان کا ذکر پڑھیں گے اور انہیں دنیا میں وہ لٹریچر نظر نہیں آئے گا جو ہمارے خلاف شائع ہوا تو وہ سمجھیں گے کہ نعوذ باللّٰہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے غلط لکھا ہے۔ اس بارہ میں مَیں نے مخالفوں کی ذہنیتیں یہاں تک گری ہوئی دیکھی ہیں کہ گزشتہ دنوں جب میں لاہور میں تھا ایک دن میڈیکل کالج کے کچھ طالب علم مجھے ملنے کے لئے آئے۔ اُن میں سوائے ایک لڑکے کے باقی سب لڑکیاں تھیں۔ لڑکا فورمن کرسچن کالج کا تھا اور لڑکیاں سب میڈیکل کالج میں پڑھتی تھیں۔ ان کے آنے سے پہلے جب میں نماز پڑھا رہا تھا، نماز کا آخری سجدہ تھا کہ یکدم مجھے الہام ہوا ’’عظمت کے بھوکے ہیں۔‘‘ اس سے پہلے بھی کوئی فقرہ تھا جو مجھےبھول گیا مگر وہ اسی قسم کا تھا۔ ؏

شہرت کے طالب ہیں۔ عظمت کے بھوکے ہیں۔

میں حیران ہوا کہ نہ معلوم کون شخص آج مجھ سے ملنے والا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میڈیکل کالج کے چند طالب علم آئے اور انہوں نے مجھ سے ملاقات کا وقت لیا۔ گفتگو کے دوران میں اُنہوں نے کہا کہ مرزا صاحب کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟

میں نے انہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ یہ اصلاحات فرمائی ہیں، ان اصلاحات کے بغیر اسلام کبھی زندہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مثال کے طور پر میں نے اُنہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مسیح ناصری ؑ کی وفات کا مسئلہ پیش کیا حالانکہ سب مسلمان یہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں۔

میری یہ بات سُن کر وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہنے لگیں آپ عجیب بات کہتے ہیں، دنیا میں کون مسلمان ہے جو حیاتِ مسیح کا قائل ہو۔ سب مانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ مر چکے ہیں۔ اب جو شخص تمام مسلّمات کے خلاف اِس طرح کہہ دے اُسے کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ میں نے اُن کو کہا کہ آپ اپنے والدین کو خط لکھیں اور دریافت کریں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟ آپ کے والدین تو ہمیشہ ہم سے اِسی بات پر جھگڑتے رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور تم اُنہیں وفات یافتہ تسلیم کرتی ہو۔ پرانی کتابیں موجود ہیں جن میں لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیحؑ زندہ ہیں۔

اِس پر وہ کہنے لگیں وہ کتابیں آپ کی اپنی لکھی ہوئی ہوں گی ہماری کتابوں میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

جس قوم میں اس قسم کی ڈھٹائی پیدا ہو جائے اُس کے لئے اپنا لٹریچربدل لینا کون سی بڑی بات ہے۔ گو وہ اس لٹریچر کے متعلق بھی جو ہم اکٹھا کریں غالباً یہی کہہ دیں گے کہ یہ تم نے خود چھپوا لیا ہو گا۔ مگر بہرحال سب سے مضبوط حجت تو وہ لٹریچر ہی ہو سکتا ہے۔

دوسری بات ناسخ و منسوخ کے متعلق میں نے پیش کی اورکہا کہ شیعہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے بعض پارے بالکل غائب ہیں۔ میری یہ بات سنتے ہی وہ کہنے لگے آپ تو شیعوں پر اتّہام لگاتے ہیں، وہ قرآن کریم کو بالکل مکمل مانتے ہیں۔ میں نے اُن کو پھر وضاحت سے سمجھایا تواُن میں سے بعض نے اِتنی دلیری سے جھوٹ بولا کہ میں حیران ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا ہمارے بعض رشتہ دار خود شیعہ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ شیعوں کا یہی عقیدہ ہے کہ قرآن بالکل محفوظ ہے۔ اِس سے بڑھ کر ڈھٹائی اور کیا ہو سکتی ہے۔

پھر عیسائیوں کے متعلق میں نے کہا کہ وہ حضرت مسیح ناصری ؑ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے عیسائیت کے اِس بنیادی مسئلہ کو بیخ وبُن سے اُکھیڑ دیا ہے۔ اِسے ُسنتے ہی وہ لڑکا جو فورمن کرسچن کالج میں پڑھتا تھا بولا کہ توبہ توبہ یہ عیسائیوں پر بڑا اتّہام ہے۔ میں عیسائی کالج میں پڑھتا ہوں ہمارے پروفیسر نے کبھی یہ نہیں کہا۔

جب اِس قسم کی ڈھیٹ قوم سے ہمارا مقابلہ ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن کے لٹریچر کو محفوظ رکھیں۔ اگر یہ لٹریچر محفوظ نہیں ہوگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر آنے والی نسلوں کو اعتراض کا موقع ملے گا اور وہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ باتیں کیوں لکھیں۔

مثلاً حضرت مسیح موعودؑ نے بظاہر نظر بعض سخت الفاظ لکھے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے گالیاں دی ہیں۔ اب جب تک ہمارے پاس وہ لٹریچر نہ ہو جس میں دشمنوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دی ہیں، وہ اشتہارات نہ ہوں جن میں انہوں نے گالیاں دی ہیں، وہ ٹریکٹ نہ ہوں جن میں انہوں نے گالیاں دی ہیں تو تھوڑے دنوں کے بعد یہی لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے نعوذ باﷲ سخت کلامی کی۔

پس ہمارے علماء اور مبلّغین کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کا لٹریچر جمع کریں اور اُسے لائبریریوں میں محفوظ کر دیں۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ61-63)

تفسیر کبیر کی تاثیر

تفسیر کبیر کی پچھلی جلد تین ہزار چھپی تھی جس میں سے 23 سَو کتاب جماعت نے خریدی اور سات سَو غیروں نے خریدی۔ اب یہ حالت ہے کہ وہی کتاب جو چھ چھ روپے کو فروخت کی گئی تھی قادیان میں اِس کی ایک ایک جلد پچیس پچیس روپے پر بھی فروخت ہوئی ہے ؛بلکہ پرسوں ہی میرے پاس عراق سے ایک خط آیا جسے پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ وہاں ایک احمدی ڈاکٹر ہیں انہوں نے کہا کہ مجھ سے تفسیر کبیر ایک غیر احمدی ڈاکٹر نے پڑھنے کے لئے لی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد اُن کا تبادلہ ہو گیا اور مَیں نے اپنی کتاب واپس لے لی۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ایک اَور احمدی کے پاس یہ کتاب ہے۔ چنانچہ وہ غیر احمدی ڈاکٹر اُس کے پا گئے اور ایک سَو روپیہ میں انہوں نے یہ کتاب اُس سے خرید لی۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ122)

کام اخلاص کے نقطۂ نگاہ سے ہی ہوتا ہے

مجھے حفاظت کے محکمہ کو دیکھ کر ہمیشہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا ایک لطیفہ یاد آیا کرتا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ
جموں میں ایک بڑا رئیس تھا جس نے پندرہ بیس ہزار روپیہ خرچ کر کے ولایت سے ایک ترکی گھوڑا منگوایا اور سائیس کو تاکید کر دی کہ اِس کا خیال رکھنا۔ اُس وقت جموں میں تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ سائیس کی تنخواہ صرف پانچ چھ روپے ہوا کرتی تھی اور گو وہ سستا سماں تھا مگر پھر بھی پانچ چھ روپے میں مشکل سے گزارہ ہوا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد رئیس نے دیکھا کہ گھوڑا دُبلا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ یہ دیکھ کر اسے سخت فکر ہوا اور اُس نے سمجھا یہ نالائق آدمی ہے گھوڑے کی نگرانی صحیح طور پر نہیں کرتا۔ چنانچہ اس نے پہلے سائیس کے اوپر ایک اَور نگران مقرر کر دیا۔ اس پر گھوڑا اور زیادہ دُبلا ہونے لگ گیا۔ رئیس نے یہ دیکھ کردوسرا نگران مقرر کر دیا مگر وہ موٹا ہونے کی بجائے پہلے سے بھی دُبلا ہو گیا۔

آخر اس نے سب پر ایک اور نگران مقرر کر دیا مگر گھوڑا موٹا نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر اُس نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس شکایت کی کہ مَیں نے اتنا قیمتی گھوڑا منگوایا تھا اور چارآدمی بھی مقرر کئے مگر گھوڑا ہے کہ دُبلا ہی ہوتا جا رہا ہے، معلوم نہیں کیا وجہ ہے؟

حضرت خلیفہ اوّل نے بڑے نگران کو بلایا اور کہا کہ بتاؤ گھوڑا کیوں دُبلا ہو رہا ہے؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ گھوڑے کے لئے پانچ سیر دانہ مقرر ہے اور چونکہ ہماری تنخواہ بہت تھوڑی ہے۔ اس لئے پہلے سائیس کو جب پانچ سیر دانہ گھوڑے کے لئے دیا جاتا تو وہ اُس میں سے سَوا سیر خود رکھ لیتا اور باقی دانہ گھوڑے کو ِکھلا دیتا۔ اِس پر لازماً گھوڑے نے دُبلا ہونا تھا کیونکہ اسے غذا کم ملتی تھی۔

اس پر دوسرا سائیس آیا تو اُس سے پوچھا کہ یہ دُبلا کیوں ہو رہا ہے؟ اُس نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ سَوا سیر دانہ میں فروخت کر لیا کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگا تو اچھا سَوا سیر پھر میرے لئے بھی رکھ لیا کرنا، اب اسے اَور زیادہ تھوڑی غذا ملنے لگ گئی اور وہ پہلے سے بھی دُبلا ہو گیا۔

رئیس نے ایک تیسرا سائیس مقرر کر دیا۔ وہ آیا تو اُس نے بھی وجہ دریافت کر کے کہا کہ سَوا سیر میرا حصّہ بھی رکھا لیا کرنا۔ اب صرف سَوا سیر دانہ گھوڑے کے لئے رہ گیا۔ اتنے میں مجھے مقرر کر دیا گیا مَیں نے پوچھا کہ کیا جھگڑا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قصّہ ہے۔ مَیں نے کہا کہ اب گو صرف سَوا سیر دانہ رہ گیا ہے مگر میں اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا، مَیں تو بہرحال اپنا حصّہ لے کر رہوں گا۔ گھوڑا خواہ مرے یا جئے۔

اِس طرح مَیں دیکھتا ہوں جب ایک محافظ تھا تو وہ میرے آگے پیچھے زیادہ رہا کرتا تھا، جب دو ہوئے تو اُن کا آگے پیچھے رہنا کم ہو گیا، چار ہوئے تو اُن میں سے اکثر غائب رہنے لگ گئے، اب آٹھ ہو جائیں گے تو غالباً کوئی بھی نہیں رہے گا۔

درحقیقت غلطی یہ ہے کہ کسی اصول کے ماتحت کام نہیں کیا جاتا۔ اگر ایک شخص زیادہ اخلاص کا اظہار کرتا تھا اور وہ چو بیس گھنٹے پہرے کے لئے تیار رہتا تھا تو بجائے اس کے کہ اِس کو ڈانٹا جاتا اور اس کو کام سے علیحدہ کیا جاتا اُس کی قدر کرنی چاہئے تھی مگر اخلاص کی قدر کرنے کی بجائے آدمیوں کی تعداد پر کام کا انحصار رکھ لیا گیا ہے حالانکہ خواہ تم آٹھ پہرے دار کرو یا سولہ، بیس کرو یا چالیس، کام ہمیشہ اخلاص کے نقطہ نگاہ سے ہی ہو گا۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ133-134)

قانون شکنی کی روح کچل دو

ایک دفعہ کسی بزرگ کا گھوڑا چلنے سے اَڑا۔ انہوں نے فرمایا مَیں نے ضرور خداتعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی کی ہو گی جس پر گھوڑے نے میری نافرمانی کی۔

جانے دو نیکی اور ایمان کو مگر کیا یہ درست نہیں کہ جو ماں باپ بچوں کے سامنے لڑتے ہیں، بچے اُن سے لڑتے رہتے ہیں؟

خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں نے قانون شکنی کی اور اُسے بُرا نہیں سمجھا گیا تو وہ بھی اس طریق کو اختیار کر کے نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ اِس وجہ سے قانون شکنی کی روح کو ہی کچل دینا چاہئے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ152)

حجت بازی کی کوئی قانونی حد بندی نہیں

جب انسان بحث میں پڑتا ہے تو ایسی ایسی باتیں نکال لیتا ہے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتیں۔

قصہ مشہور ہے کہ ایک سخت گیر آقا تھا اور وہ اپنے نوکروں سے ایسا سخت سلوک کرتا تھا کہ وہ تنگ آکر ملازمت ترک کر دیتے۔ جب وہ ملازمت چھوڑتے تو وہ ان کی تنخواہیں ضبط کر لیتا اور کہتا کہ چونکہ تم نے میری کامل اطاعت نہیں کی اس لئے گزشتہ تنخواہیں ادا نہیں کی جا سکتیں۔

ایک دفعہ اُس کے پاس ملازمت کے لئے ایک شخص آیا جو بہت ہوشیار تھا، اس نے آتے ہی کہا کہ مجھے آپ کی فرمانبرداری سے قطعاً انکار نہیں۔ میں ہر معاملہ میں آپ کی اطاعت کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن دیکھئے میری عقل ناقص ہے، مجھے کیا پتہ کہ کون ساکام مجھے کرنا چاہئے اور کون سا کام مجھے نہیں کرنا چاہئے۔آپ میرے فرائض کی ایک فہرست بنا دیجئے تاکہ مجھے اپنے کام یاد رہیں اور مجھ سے کسی قسم کی غفلت سرزد نہ ہو۔ اُس کے آقا نے ایک فہرست بنائی او ر تمام کام جو اس کے ذہن میں آسکتے تھے وہ اُس نے درج کر دئیے اور کہا کہ گھوڑوں کو دانہ ڈالنا، اُن کو پانی پلانا، اُن کو باہر پِھرانا یہ سب تمہارے کام ہیں۔ اِسی طرح تمہارا یہ بھی کام ہے کہ جب میں تھک کر آؤں تو تم مجھے دباؤ، جب میں سفر پر جاؤں تو تمہیں میرے ساتھ جانا ہو گا، کھانا پکانا بھی تمہارے ذمہ ہو گا۔ اس طرح ایک ایک کر کے اس نے مختلف کام گنائے اور کہا کہ یہ سب کام تمہارے فرائض میں شامل ہیں۔ نوکر نے کہا مجھے منظور ہیں۔ چنانچہ اُس نے کام شروع کر دیا۔

ایک دن وہ گھوڑے پر سوارہو کر کہیں باہر جا رہا تھا کہ نوکر نے گھوڑے کو چھیڑنا شروع کر دیا گھوڑا بھاگ پڑا اور چونکہ آقا گھوڑے کی سواری کا عادی نہ تھا جب گھوڑا بھاگا تو وہ گر گیا اور اُس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا اُس نے نوکر کو آوازیں دینا شروع کر دیں کہ جلدی آنا اور مجھے بچانا۔ نوکر نے یہ سنا تو اُس نے جَھٹ جیب میں سے شرائط کا کاغذ نکال لیا اور کہنے لگا حضور اِس میں تو یہ کام میرے ذمہ نہیں لگایا گیا۔ دیکھ لیں سرکار اِس میں شرط یہ لکھی نہیں۔

اب بھلا کون سا آقا ایسا ہو سکتا تھا جو یہ بھی لکھ دیتا کہ اگر میں گھوڑے سے گر جاؤں اور رکاب میں میرا پاؤں پھنس جائے تو تمہارا فرض ہو گا کہ میری مدد کے لئے آؤ۔ غرض توجیہات میں جب کوئی انسان پڑ جاتا ہے تو پھر اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔

حضرت خلیفہ اول یا میر ناصر نواب صاحب مرحوم (مجھے اچھی طرح یاد نہیں) سنایا کرتے تھے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے پاس ایک دفعہ کچھ آدمی ایک شخص کو مباحثہ کے لئے لائے اور کہا کہ ہم آپ سے تقلید اور عدمِ تقلید کے مسئلہ پر مباحثہ کرنا چاہتے ہیں۔

مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مباحث آدمی نہیں تھے ایک بزرگ انسان تھے جب اُن سے کہا گیا کہ آپ سے تبادلہ خیالات کے لئے فلاں مولوی صاحب آئے ہیں تو اُنہوں نے اپنا سر اُٹھایا اور کہا ہاں اگر نیت بخیر باشد اگر نیت صالح کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کر لیں۔

وہ مولوی صاحب بھی اپنے دل میں تقویٰ رکھتے تھے تھوڑی دیر اُنہوں نے غور کیا اور پھر کہا یہ بحث تو محض پارٹی بازی کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہہ کر خاموشی کے ساتھ اُٹھے اور چلے گئے۔

تو نیت بخیربا شد کے ساتھ تو سارے کام چل جاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ قواعد کی ضرورت کیا ہے لیکن جہاں حُجت بازی ہوتی ہے وہاں کوئی قانون حدبندی نہیں کر سکتا وہاں یہی سوال آجائے گا کہ ’’دیکھ لیں سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں‘‘۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ185-186)

ہمیشہ مشورہ لیتے رہا کرو

مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ مشورہ لے کر کام کرتا ہے صرف ذاتی غوروفکر پر ہی انحصار نہیں رکھتا۔اسی طرح رسول کریم ﷺکو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ جب کام کرو تو لوگوں سے مشورہ لے لیا کرو۔

دراصل فطرت انسانی اس قسم کی ہے کہ بعض دفعہ ایک بچہ کے منہ سے بھی ایسی بات نکل آتی ہے جو بڑے آدمی کو نہیں سوجھتی۔ اِسی وجہ سے اسلام نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ کوئی شخص اپنے دماغ پر ایسا بھروسہ نہ کرے کہ وہ دوسروں سے مشورہ لینے کی ضرورت ہی نہ سمجھے اُسے چاہئے کہ اپنے ہم جلیسوں اور ارد گرد بیٹھنے والوں سے ہمیشہ مشورہ لیتا رہا کرے۔

میں نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض دفعہ مجلس میں کوئی بات کرتے یا گھر میں کوئی بات کرتے تو ملازمہ یا ایک چھوٹا لڑکا بھی جو اُس وقت موجود ہوتا اپنی رائے دینے لگ جاتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اُسے روکنے کی بجائے یہی کہتے کہ رائے دے لو۔

یہ روح ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور جو شخص اِس کو دباتا ہے وہ اسلامی اصول کے خلاف چلتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ188)

جہاں محبت ہو وہاں لڑائی نہیں ہوتی

اگر صلح اور آشتی سے جس طرح میاں بیوی میں محبت ہوتی ہے کام ہوں تو کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسی صورت میں ’’من تُو شُدم تُومن شُدی من تن شُدم تُو جاں شُدی‘‘ والا معاملہ ہو جاتا ہے اور یہی روح ہر زندہ اور بڑھنے والی جماعت کے اندر کام کیا کرتی ہے۔

مجھے یاد ہے قادیان میں مولوی عبدالکریم صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب دونوں قریب قریب مکانات میں رہتے تھے مولوی عبدالکریم صاحب جوشیلی طبیعت رکھتے تھے اور پیر صاحب کی طبیعت بہت نرم تھی۔ پیر صاحب کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو اکثر ریں ریں کرتے رہتے اور پیر صاحب انہیں سارا دن تھپکاتے اور بہلاتے رہتے۔

اتفاق کی بات ہے کہ شہر میں تو پیر صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب ایک دوسرے کے ہمسائے تھے ہی، جب زلزلہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی یہ دونوں پاس پاس رہنے لگ گئے۔

ایک دن پیر صاحب مسجد میں آئے تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بڑے جوش سے کہنے لگے پیر صاحب! میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کس طرح کام کرتے ہیں۔ بچہ ریں ریں کر رہا ہوتا ہے آپ اُسے کندھے سے لگائے پھر رہے ہوتے ہیں اور پھر ساتھ ہی کام بھی کرتے چلے جاتے ہیں، میرا بچہ ہو تو اُسے دو تھپڑ رسید کر دوں۔

پیر صاحب سن کر بڑے اطمینان سے کہنے لگے مولوی صاحب! بچے میرے ریں ریں کرتے ہیں، انہیں تھپکاتا مَیں ہوں آپ کو خواہ مخواہ کیوں تکلیف ہوتی ہے، میری سمجھ میں بھی یہ بات کبھی نہیں آئی۔

اب دیکھو! دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ پیر افتخار احمد صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ مولوی عبدالکریم صاحب کو میرے بچوں کے رونے سے کیوں تکلیف ہوتی ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پیر صاحب کام کس طرح کرتے۔ ہیں میرے جیسا آدمی تو انہیں فوراً دو تھپڑ رسید کر دے۔

تو جب آپس میں اتحاد ہو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اختلاف کس طرح ہو سکتا ہے اور جب اختلاف واقع ہو جائے تو پھر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سب قانون موجود ہیں مگر اختلاف مٹتا کیوں نہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ194-195)

(ایم الف شہزاد)

پچھلا پڑھیں

جمائیکا میں جلسہ سالانہ کا بابرکت انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2023