• 20 مئی, 2024

کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے (قسط 1)

کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
روح پرور۔ایمان افروز واقعات
قسط 1

(قارئین کے لئے واقعات پر مشتمل نئے سلسلہ کا آغاز کیا جارہا ہے۔ مکرم چوہدری حمید اللہ مرحوم سابق وکیل اعلیٰ مربیان کرام کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنی تقاریر، خطبات اور درس و تدریس میں ایمان افروز واقعات کو بیان کیا کریں یہ دل پر براہ راست اثر کرتے ہیں۔ خاکسار نے الفضل آن لائن میں بھی اس رہنما اصول کو بہت موٴثر پایا ہے۔ اس سیریز میں بھی مکرمہ صوفیہ اکرم چٹھہ نے روح پرور اور ایمان افروز واقعات قارئین کے لئے جمع کئے ہیں۔ جن میں کچھ قندیلیں کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ فجزاھا اللّٰہ تعالیٰ۔ ایڈیٹر)

تقوی اللہ اور اطاعت ِرسول

گورداسپور میں جب کہ مولوی کرم دین جہلمی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ دائر تھا ایک گرمیوں کی رات میں جبکہ سخت گرمی تھی اور آپ اسی روز قادیان سے گورداسپور پہنچے تھے۔آپ کے لئے کھلی چھت پر پلنگ بچھایا گیا۔اتفاق سے اس مکان کی چھت پر معمولی منڈیر تھی اور کوئی پردہ کی دیوار نہ تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام بستر پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے ناراضگی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا:
’’میرا بسترا اس جگہ کیوں بچھایا ہے۔کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

اور چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے باوجود شدت گرمی کے کمرہ کے اندر سونا پسند کیا۔مگر اس کی کھلی چھت پر نہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 595)

موت ایک مرکب ہے
جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ بہت بیمار ہو گئے۔حضور علیہ السلام کے ہاتھ پائوں سرد پڑ گئے اور بظاہر حال آخری وقت معلوم ہوتا تھا۔مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم موجود تھے اور زار زار رو رہے تھے۔اتنے میں حضور علیہ السلام نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا:
’’موت کیا ہے؟ یہ ایک مرکب ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچا دیتا ہے۔اگر موت نہ ہوتی تو سالکوں کے تمام سلوک نا تمام رہ جاتے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد چہارم روایت ظفر صفحہ 163)

نذر قبول ہو گئی

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میاں جی نظام الدین احمدی ساکن کپورتھلہ نہایت ہی غریب آدمی تھے۔ پیدل چل کر وہ قادیان گئے اور دو آنے حضور علیہ السلام کو نذر کے طور پر پیش کئے۔ حضور نے جَزَاکُمُ اللّٰہُ کہہ کر دو آنے لئے۔چند دن بعد نظام الدین صاحب رخصت ہونے لگے۔ حضورؑ نے فرمایا۔ ٹھہرو! اندر سے جاکر سات یا آٹھ روپئے حضور لائے اور میاں جی کو عنایت فرمائے۔

(روایات ظفر اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 15)

مہمان نوازی

حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی ہی روایت ہے کہ حضرت صاحب اپنے بیٹھنے کی جگہ کبھی کھلے کواڑ نہ بیٹھتے تھے۔حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب تھوڑی تھوڑی دیر بعد آکر کہتے: ’’ابّا کنڈا کھول‘‘اور حضور علیہ السلام اٹھ کر کھول دیتے۔ میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا۔ حضور علیہ السلام بورئے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر آپ نے پلنگ اُٹھایا۔اندر اُٹھا کر لے گئے۔ میں نے کہا حضور میں اُٹھا لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا بھاری زیادہ ہے۔آپ سے نہیں اُٹھے گا اور فرمایا۔ آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں۔ مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے۔ پہلے میں نے انکار کیا لیکن آپ نے فرمایا بلا تکلف بیٹھ جائیں۔ پھر میں بیٹھ گیا۔

مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔میں نے گھڑوں کی طرف نظر ا ُٹھائی۔ وہاں کوئی برتن نہ تھا۔آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کیا آپ کو پیاس لگی ہے۔ میں پانی لاتا ہوں۔ نیچے زنانے سے جاکر گلاس لے آئے۔ پھر فرمایا ذرا ٹھہرئے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے۔ منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں۔ بہت لذیذ شربت تھا۔ فرمایا ان بوتلوں کو رکھے بہت دن ہو گئے۔ کیونکہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلاکر خود پئیں گے۔ آج مجھے یاد آ گیا۔ چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا۔ میں نے کہا حضور اس میں سے تھوڑا سا آپ پی لیں تو پھر میں پیوں گا۔ آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دیا اور میں نے پی لیا۔ میں نے شربت کی تعریف کی۔آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلا دیں۔ آپ نے ان دو بوتلوں میں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا۔ میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا گیا۔

(اصحاب احمد جلدچہارم روایات ظفر صفحہ165-166)

یہ نصیب۔ اَللّٰهُ أَ کْبَرُ

مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر تحریر فرماتے ہیں کہ گورداسپور کا مقام ہے۔ ضروری کاموں کی انجام دہی کے بعد بہت رات گئے والد صاحب (حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ) آتے ہیں۔حضور علیہ السلام ایک کمرہ میں معہ خدام فرد کش ہیں۔ سب سو رہے ہیں۔ کوئی خالی چارپائی نہیں۔حضور علیہ السلام والد صاحب کو دیکھ کر اپنی چارپائی کو تھپک کر ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں آ جاؤ اور اپنا لحاف والد صاحب پر ڈال دیتے ہیں۔

(اصحاب احمدجلد چہارم روایات ظفر صفحہ 27)

بابو غلام محمد صاحب فورمین لاہوری اور میاں عبد العزیز مغل کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہئے۔ چنانچہ ہم نے گاڑی والے سے کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کر لو۔ آج گاڑی ہم کھینچیں گے۔کوچوان نے ایسا ہی کیا۔ جب حضور باہر تشریف لائے تو فرمایا۔ گھوڑے کہاں ہیں۔ ہم نے کہا۔ دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان قوموں کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔آج حضور علیہ السلام کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے۔ فرمایا۔ فورًا گھوڑے جوتو !! ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے۔ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 546)

کبر کی عادت جو دیکھو! تم دکھاؤ انکسار

قادیان میں ایک صاحب محمد عبد اللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پُکارتے تھے۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے۔ مگر جوش اور غصہ میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی کی ہے اور حضور کو گالیاں دی ہیں۔ پروفیسر صاحب طیش میں بولے اگر میں ہوتا تو سر پھوڑ دیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیساختہ فرمایا نہیں نہیں ایسا نہیں چاہئے۔ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے۔ پروفیسر صاحب اس وقت غصہ سے آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ بولے واہ صاحب ! واہ !یہ کیا بات ہے۔ آپ کے پیر یعنی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی برا بھلا کہے تو آپ مباہلہ کے ذریعہ اس کو جہنم تک پہنچانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالیاں دے تو ہم صبر کریں۔

پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کس نے صبر کرنا ہے مگر اس چھوٹے سے واقعہ سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور غیرت و ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی۔

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 590)

عہدِ دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے

’’میرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ہاں اگر وہ قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گِرا ہواہو اور لوگوں کا ہجوم اس سے ارد گرد ہو تو بلا خوف لومۃ لائم کے اسے اُٹھا کر لے آئیں گے۔عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے۔اس کو آسانی سے ضائع نہ کر دینا چاہئے اور دوستوں سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 8)

مہمانوں کے کھانے کا خیال

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور آپ دریافت فرما لیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس چیز کی اس کو عادت ہے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا تھا تب تک آپ کو ان کی دلداری کا اس قدر خیال تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ، چائے، بسکٹ مٹھائی انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی فرما لیا کرتے تھے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا۔ یا کسی کی طرف سے ملازمین لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا۔ بعض مواقع پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کے لئے سالن نہیں بچا۔یا وقت پر ان کے لئے کھانا رکھنا بھول گئے تو اپنا سالن یا سب کھانا اُٹھوا کر اس کے لئے بھجوا دیا۔

(حیات طیبہ صفحہ 377)

حضرت مسیح موعودؑکی آخری نصیحت

حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب فرماتے ہیں:
’’ایک روز غالباً وفات سے دو دن پہلے حضور علیہ السلام خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے ہال کمرہ میں نماز ظہر و عصر ادا فرما کر تشریف فرما ہوئے اس وقت حضور علیہ السلام کے سامنے پندرہ بیس احباب تھے اور میں بھی حاضر تھا۔ اس وقت حضور علیہ السلام نے کچھ باتیں اور نصیحتیں فرمائیں۔ ان میں سے حضور علیہ السلام کے یہ الفاظ مجھے آج تک خود یاد ہیں کہ:
’’جماعت احمدیہ کے لئے بہت فکر کا مقام ہے کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی انہیں کافر کافر کہتے ہیں۔دوسری طرف اگر یہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مومن نہ بنے تو ان کے لئے دوہرا گھاٹا ہے۔‘‘

حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
’’جہاں تک مجھے یاد ہے یہ حضور کی آخری نصیحت تھی جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔‘‘

(الفضل 12؍نومبر 1959ء)

مہمان کا اکرام کرنا چاہئے

ایک موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس وقت دو تین باہر سے آئے ہوئے احمدی بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے۔کسی شخص نے دروازہ پر دستک دی۔ اس پر حاضر الوقت احباب میں سے ایک شخص نے اُٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ دیکھا تو گھبرا کر اُٹھے اور فرمایا:
’’ٹھہریں ٹھہریں میں خود کھولوں گا۔ آپ دونوں مہمان ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 595)

مستعمل لباس پہننے میں عار نہیں

ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنے ایک عزیز کو جو غریب تھا جسے کوٹ کی ضرورت تھی اپنا ایک استعمال شدہ کوٹ بھجوایا۔ میر صاحب کے اس عزیز نے بُرا منایا کہ مستعمل کوٹ بھیجا گیا ہے اور ناراضگی میں کوٹ واپس کر دیا۔ جب خادم اس کوٹ کو واپس لا رہا تھا تو اتفاق سے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر پڑ گئی۔ آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ کوٹ میر صاحب کو واپس جا رہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خادم سے کوٹ لے لیا اورفرمایا واپس کرنے سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی تم مجھے دے جاؤ۔ میں خود یہ کوٹ پہن لوں گا اور میر صاحب کو کہہ دینا کہ کوٹ ہم نے اپنے لئے رکھ لیا ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 597)

جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا

ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے۔ اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام الدین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پُرانے تھے، حضور علیہ السلام سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور علیہ السلام کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑاحتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے۔ اتنے میں کھانا آیا تو حضور علیہ السلام نے جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اُٹھا لیں اور میاں نظام الدین سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’آؤ! میاں نظام الدین ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھائیں۔‘‘

یہ فرما کر حضورؑ مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور علیہ السلام نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر بیٹھ کر ایک پیالہ میں کھانا کھایا۔ اس وقت میاں نظام الدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام الدین کو عملاً پرے دھکیل کر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 604)

سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا اخلاق ہے

ایک بہت ہی شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھ غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی دکان کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش ہو رہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا۔ رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزر گئی اور تقریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازہ پر دستک دی۔میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میں حضور علیہ السلام کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ مگر حضور علیہ السلام نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں۔ آپ یہ دودھ پی لیں۔آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی۔

سیٹھ صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا اخلاق ہے۔ یہ خدا کا برگذیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا اور تکلیف اُٹھاتا ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ603-604)

میں پہرہ دے رہا تھا

حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بہت ممتاز صحابہ میں سےتھے۔ انہیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قربت و صحبت کا بہت لمبا زمانہ یا موقعہ میسر آیا۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ میں حضور علیہ السلام کو ملنے اندرون خانہ گیا۔ کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا۔میں ایک چارپائی پر لیٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی۔ حضور علیہ السلام اس وقت تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ میں چونک کر جاگا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی محبت سے پوچھا۔ مولوی صاحب آپ کیوں اُٹھ بیٹھے۔ میں نے عرض کیا۔ حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں،میں کیسے اوپر سو سکتا ہوں۔ مسکرا کر فرمایا:
’’آپ بےتکلفی سے لیٹے رہیں۔ میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صفحہ 36)

دید کی تڑپ

محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ صاحب بیمار ہوئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدید تکلیف سے نیم بے ہوشی کی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو۔ میں حضرت اقدس علیہ السلام سے ملنے کے لئے جائوں گا۔ گویا وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں باہر ہوں اور حضرت اقدس علیہ السلام قادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زار و قطار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصے سے حضرت اقدس علیہ السلام کا چہرہ نہیں دیکھا۔تم مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے۔ابھی سواری منگوائو اور لے چلو۔ایک دن جب ہوش تھی تو کہنے لگے جاؤ۔حضرت اقدس علیہ السلام سے جاکر کہو میں مر چلا ہوں۔مجھے بس دور سے کھڑے ہوکر زیارت کرا دیں اور بڑے رونے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جاؤ۔‘‘

(الفضل 16؍اگست 1994ء)

کون پیا ہے کون پریمی

حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات پر جو 11؍اکتوبر 1905ء کو واقع ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر صدمہ ہوا کہ چند دن گزرنے کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے شام کے بعد دوستوں میں بیٹھنا چھوڑ دیا اور خدام کے عرض کرنے پر فرمایا کہ جب میں باہر دوستوں میں بیٹھا کرتا تھا تو مولوی عبد الکریم صاحب میرے دائیں طرف بیٹھے ہوتے تھے۔اب میں بیٹھتا ہوں تو مولوی صاحب نظر نہیں آتے تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔اس لئے مجبورًا میں نے یہ طریق چھوڑ دیا ہے۔

(الفضل 16؍اگست 1994ء)

(صوفیہ اکرم چٹھہ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

لجنہ اماءاللہ پریری ریجن کے تحت سالانہ تعلیم و تربیت کیمپ2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 فروری 2023