• 4 مئی, 2024

ممکنہ تیسری عالمی جنگ (قسط 7)

ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط 7

نومبر 2015ء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جاپان کے شہراودے با (Odaiba)میں ہلٹن ہوٹل میں ایک تقریب سے خطاب فرمایا:

The Keys to Peace in a Time of Global Disorder

اس خطاب کی ایک جھلک ذیل میں ہے:
اردو مفہوم:مشرقی یورپ میں روس اور یوکرین اور بعض دوسرے یورپی ممالک کے درمیان رنجشیں بڑھ رہی ہیں۔ مزید برآں حال ہی میں چین اور امریکہ کے درمیان امریکن جنگی جہاز کے جنوبی ایشیا کے سمندروں میں ہونے پر باہمی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ چین اور جاپان کے درمیان ایک لمبے عرصہ سے متنازعہ جزیروں کی ملکیت پر دونوں کے درمیان قضیہ چل رہا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مستقل وجہ ہے باہمی چپقلش کی اور اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تناؤ نے علاقہ کے امن کو تباہ کر رکھا ہے۔ افریقہ میں دہشت گرد تنظیموں نے بعض علاقوں میں طاقت حاصل کرلی ہے اور وہاں کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی ہے اور اس طرح سے ایک وسیع پیمانے پر تباہی اور بد امنی پھیل چکی ہے۔ میں نے محض چند مشکلات کا ذکر کیا ہے ان میں سے جو آج دنیا کو درپیش ہیں اور یقینا ابھی اس کے علاوہ اور بھی بے چینی اور بد امنی کی مثالیں موجود ہیں۔ پس ایک نتیجہ جو ان باتوں سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا آج تشدد اور بدامنی کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں جنگ کی نوعیت پرانے زمانے سے بہت مختلف اور وسیع ہے۔ کسی بھی ایک علاقہ کے تنازعات اسی علاقہ تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کے اثرات دیگر علاقوں تک آ پہنچتے ہیں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 190)

آپ نے مزید فرمایا:
آپ سب خوب آگاہ ہیں کہ ان مہلک ہتھیاروں کے اثرات ایک نسل تک محدود نہیں رہتے بلکہ آنے والی نسلوں تک جائیں گے۔ لہٰذا شائد دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ بہتر جاپان کے لوگ امن اور تحفظ کے معانی سے آگاہ ہیں۔ یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ جاپان نے نہ صرف اس تباہی پر قابو پایا بلکہ وہ آج ترقی یافتہ قوم ہے اس لئے آپ کی تاریخ کے مد نظرجاپان کو لازماََ دنیا میں قیام امن کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 192)

آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
جب ایٹمی ہتھیار جاپان کے خلاف استعمال ہوئے تو اس وقت کے جماعت احمدیہ کے سربراہ نے جو دوسرے خلیفۃ المسیح تھے، بہت سخت الفاظ میں اس حملہ کی مذمت کی، انہوں نے فرمایا، ہماری مذہبی اور اخلاقی تعلیم تقاضا کرتی ہے کہ ہم ساری دنیا کے سامنے اس بات کو لے کر آئیں کہ ہم اس ہولناک فعل اس خون کی ہولی کو کسی بھی صورت میں درست قرار نہیں دے سکتے۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بعض حکومتیں جو بات میں کہہ رہا ہوں اس کو پسند نہیں کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں وہ نہیں دیکھ رہے کہ جنگ و جدال میں کوئی کمی آئے گی۔ بلکہ اور جنگی جنون میں اضافہ ہوا ہے ان کے الفاظ آج بالکل درست ثابت ہو رہے ہیں۔اگرچہ تیسری جنگ عظیم کا اعلان نہیں ہوا مگر عملی طور پر تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں مرد عورتیں اور بچے قتل کئے جا رہے ہیں ان پر تشدد کیا جا رہا ہے اور وہ دلخراش مظالم سے دوچار ہیں۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے جماعت احمدیہ نے ہمیشہ ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کے خلاف آوازاُٹھائی ہےخواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں وقوع پذیر ہو۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 193)

حضور کے خطابات میں سے مندرجہ بالا اقتباسات کے انتخاب میں کوشش کی گئی ہے کہ ایک جھلک اُس بے لوث، پرخلوص دردمندانہ اور بیباک صدائے حق آشنا کی دکھائی جائے جسے نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پرواہ۔ وگرنہ جہاں تک تقریر کی لذت اور نفس مضمون کی گہرائی اور گیرائی کا تعلق ہے تو وہ پوری اور باربار پڑھنے کی قاری تمنا کرے گا۔ اسی طرح اب ذیل میں ایک جھلک اُن خطوط کی پیش کی جا رہی ہے جو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزنے سربراہان مملکت اور مقتدر ہستیوں کو عالمی امن کو قائم کرنے اور ایٹمی ہتھیاروں کے ہولناک نقصانات سے خلق خدا کو محفوظ کرنے کی خاطر اپنے فرض کو ادا کرتے ہوئے محض انسانی ہمدردی میں ارشاد فرمائے۔

ایک پہلو جو دنیا امن کو تباہ کرنے کے لیے کام کررہا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ذہین ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور آزاد ہیں اور اُن کو حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی رہنماؤں کی توہین کریں اور اُن کا تمسخر اُڑانے کی اُنہیں آزادی حاصل ہے۔ معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے دل و دماغ سے وہ جذبات اور ناپسندیدہ خیالات کو نکال پھینکا جائے جو دوسروں کو تکلیف دیں اور اس کی جگہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے انبیاء اور بزرگانِ مذاہب کی تکریم کے دفاع کے لئے سب کھڑے ہو جائیں۔ دنیا اس وقت بے چینی اور گھبراہٹ کے ماحول میں سے گزر رہی ہے اور ضرورت ہے اس امر کی کہ باہمی محبت اور ہمدردی کا ماحول پیدا کیا جائے اور ہم سیکھیں کہ کیسے ہم پہلے سے زیادہ بہتر باہمی رواداری کو حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کہ ہم انسانی اقدار کی حرمت کو تسلیم کریں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 204)

وزیر اعظم اسرائیل جناب نیتن یاہو کو خط موٴرخہ 26؍فروری 2012ء کو ارسال کیا گیا۔

آج کل ہم خبروں میں سن رہے ہیں کہ آپ تیاری کر رہے ہیں ایران پر حملہ آور ہونے کی۔ جبکہ ایک عالمی جنگ کے تباہ کن نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ گزشتہ عالمی جنگ میں جہاں لکھوکھا جانیں ضائع ہوئیں وہاں ہزار ہا یہودی باشندوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بحیثیت وزیر اعظم یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنی قوم کی زندگیوں کی حفاظت کریں۔ موجودہ حالات اس بات پر گواہ ہیں کہ اب کے عالمی جنگ ایسا نہیں کہ بس دو ملکوں کے درمیان لڑی جائے گی بلکہ ایسا ہو گا کہ دنیا مختلف بلاک میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس وقت ایک عالمی جنگ کے چھڑ جانے کا خطرہ بہت بڑی حقیقت ہے اور اس جنگ کے ہاتھوں بہت سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی زندگیوں کو خطرہ لا حق ہے۔ اگر ایسی جنگ وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک انسانی تباہی کا تسلسل شروع ہو جائے گا اور اس بربادی کو کئی نسلیں بھول نہ سکیں گی، جو اپاہج پیدا ہوں گے یا مفلوج۔ یہ سب اس لئے ہے کہ بلا شبہ یہ جنگ ایٹمی جنگ ہو گی۔ لہٰذا یہ میری استدعا ہے کہ بجائے اس دنیا کو ایک عالمی جنگ میں دھکیل دینے کے آپ بھرپور انداز میں کوشش کریں کہ اس دنیا کو ایک عالمگیر تباہی سے بچائیں۔ لہٰذا بجائے مسائل کو طاقت کے ساتھ حل کرنے کے آپ کو ان کو مذاکرات کے ذریعہ سے حل کرنا چاہئے۔ تا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو تحفہ میں ایک روشن مستقبل دے سکیں بجائے اس کے کہ اُنہیں ہم معذوری اور انحطاط کی سوغات دیں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE Page 209- 210)

ایک خط جناب صدر اسلامی جمہوریہ ایران، کی خدمت میں موٴرخہ 7؍مارچ 2012ء کو بھجوایا گیا۔

آپ کو کسی دوسری قوم یا ملک کی مخالفت محض دشمنی یا نفرت کی بنیاد پر نہیں کرنی چاہئے۔ میں مانتاہوں کہ اسرائیل اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے، اور وہ ایران کو نظر بد سے دیکھ رہا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ اگر کوئی ملک آپ کے ملک کے خلاف جارحیت کرتا ہے تو سیدھی سی بات ہے آپ اپنے ملک کے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن بہر طور جہاں تک ہو سکے اختلافات کو سفارتی تعلقات اور مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہئے۔ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ بجائے طاقت کے استعمال کے کوشش کریں کہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ اس درخواست کی وجہ یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کا ماننے والا ہوں جو اس زمانہ میں حضرت محمد رسول اللہﷺ کے غلام صادق ہیں اور خدا تعالیٰ نے اُن کو مسیح موعود اور المہدی المعہود مبعوث فرمایا ہے۔ آپ کا مشن ہے کہ انسانوں کو خداتعالیٰ کے قریب لایا جائے اور لوگوں کو ان کے حقوق جو ہمارے آقا و مولیٰ رحمۃ اللعالمینﷺ نے قائم کر کے دکھائے ہیں، لوگوں کو دلوائے جائیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلم اُمہ کو ان خوبصورت تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 214)

موٴرخہ 8؍مارچ 2012ء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کو جو خط تحریر فرمایا اس کا اختتامی پیرا ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔

ترجمہ: میری درخواست آپ کی خدمت میں اور دیگر سربراہان سے ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم طاقت کے استعمال سے دوسری اقوام کو دبا لیں، ہمیں سفارتی تعلقات، گفت و شنید اور عقل و دانش سے کام لینا چاہئے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکہ، ان کو اپنا کردار امن عالم کے قیام کےلئے ادا کرنا چاہئے۔ ان کو چھوٹے ممالک کے بعض اعمال کو جواز بنا کر امن عالم کو خراب نہیں کرنا چاہئے۔ اس وقت ایٹمی ہتھیار نہ صرف امریکہ اور دوسری طاقتوں کے پاس موجود ہیں بلکہ چھوٹے بعض ممالک کے پاس بھی موجود ہیں اور وہاں کسی بٹن دبانے کے شوقین کو ادراک ہی نہ ہوگا اس وسیع پیمانے پر آنے والی دوررس تباہی کا جوایٹمی ہتھیاروں سے وابسطہ ہے۔ پس یہ میری نہایت عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اپنی بھرپور کوشش کرکے بڑے اور چھوٹے تمام ممالک کو روکیں کہ کہیں کوئی وہ تیسری عالمی جنگ کا باعث نہ بن جائیں۔ ہمارے ذہن میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئےکہ اگر ہم اس جنگ کی روک تھام میں ناکام ہو گئے تو جو تباہی اس دنیا کا مقدر بنے گی وہ صرف ایشیا، یورپ اور امریکہ کے غریب ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کے خوفناک اثرات جائیں گے اور دنیا کے ہر خطہ میں پیدا ہونے والے بچے مفلوج اور اپاہج ہوں گے۔ وہ کبھی اپنے آباؤاجداد کو معاف نہ کریں گے جو عالمی تباہی اور بربادی کا موجب بنے۔ ہمیں اپنی ہی دلچسپیوں تک نہیں سوچنا چاہئے بلکہ آنے والی نسلوں اور ان کے روشن مستقبل کے لیے سوچنا آج کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عزو جل دنیا کے تمام سربراہان کو اس پیغام کا ادراک عطا فرمائے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 218)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موٴرخہ 8؍مارچ 2012ء کو اسی تسلسل میں قیامِ امن ِ عالم کے لئے وزیراعظم کینیڈا کو ایک خط تحریر فرمایا اس خط کا اردو مفہوم ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:

کینیڈا کو دنیا کا سب سے زیادہ انصاف پسند ملک شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کی قوم عموماََدوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتی۔ مزید برآں ہم افرادِ جماعت احمدیہ کے کینیڈا کے عوام کے ساتھ بہت دوستانہ روابط ہیں۔ پس میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چھوٹی اور بڑی طاقتوں کو روکیں تا ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں تیسری عالمی جنگ کی تباہیوں سے ہمکنار کر دیں۔ میری درخواست آپ سے اور دوسرے ممالک کے سربراہان سے ہے کہ بجائے اس کے کہ طاقت کے استعمال سے دوسرے ممالک کو دبانے کے سفارتی تعلقات، گفت و شنید اور عقل و دانش سے کام لیا جائے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کو اور جیسے آپ کا ملک کینیڈا ہے امن عالم کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 222)

موٴرخہ 28؍مارچ 2012ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خادمِ حرمین شریفین سعودی عرب کے فرمانروا عزت مآب شاہ عبداللہ کو اپنی امنِ عالم کی کوششوں میں شامل کرنے کے لئے جو خط تحریر فرمایا اس میں سے ایک اقتباس کا اردو مفہوم ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

پس یہ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس ضمن میں حتی المقدور مساعی فرمائیں، اگر تیسری عالمی جنگ ہماری قسمت میں ہے تو ہمیں کم از کم یہ کوشش کرنی چاہئےکہ یہ کسی مسلم ملک سے شروع نہ ہو۔ کوئی مسلم ملک یا مسلمان دنیا کے کسی دوسرے ملک میں، آج یا آئندہ اس بارود کو چنگاری دکھانے کا الزام اُس کے اوپر نہ آئے۔ یہ ایک ایسی تباہی کا آغاز ہو گا جس کے دوررس نتائج ہوں گے اور یہ آنے والی نسلوں کو پیدائشی مفلوج اور اپاہج کر دے گا۔ کیونکہ اگر عالمی جنگ شروع ہو گئی تو بلا مبالغہ اس میں ایٹمی ہتھیار استعمال کئے جائیں گے۔ دنیا اس سے قبل مشاہدہ کر چکی ہے اس جھلک کا جو جاپان کے دو شہروں کا انجام ہوا دوسری جنگ عظیم میں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 226)

اپریل 2012ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وزیر اعظم چین عزت مآب وان جیا باؤ، کو خط تحریر فرمایا اور ممکنہ عالمی جنگ سے بچنے اور دنیا میں امن کے قیام کی خاطر حتی المقدور سعی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس خط سے ایک حصہ کا اردو مفہوم نقل کیا جاتا ہے:

میں آپ کی خدمت میں ایک پیغام پہچانا چاہتاہوں دنیا اس وقت بہت ہی خوفناک خطرات میں سے گزر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم تیزی سے ایک عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آپ کا ملک ایک عظیم عالمی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آپ کے زیر نگیں ہے۔آپ کے ملک کو اقوام متحدہ میں ویٹو حق بھی حاصل ہے۔ پس اس تناظر میں میں آپ سے ملتمس ہوں کہ دنیا کے اوپر منڈلاتے ہوئے تباہی کے خطرات سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، قطع نظر قوم، مذہب، ذات یا نسل کے، ہمیں بہرطور انسانیت کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔۔۔ کسی طور ایٹمی جنگ کی تباہ کاریاں صرف وقتی یا علاقائی نہ ہوں گی بلکہ وہ دوررس نقصانات کی حامل ہوں گی اور آئندہ آنے والی نسلیں اپاہج پیدا ہوں گی یا بعض جسمانی نقائص ان کا مقدر ہوں گے۔ پس آپ اپنی تمام طاقتیں، صلاحیتیں، اور ذرائع نسل انسانی کو اس خوفناک تباہی سے بچانے پر صرف کر دیں اور یہ سب کچھ آخر کار آپ کے ملک کے مفاد میں بھی ہو گا۔ میری یہ دعا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک بڑے بھی چھوٹے بھی اس پیغام کو سمجھ جائیں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 230, 231)

اپریل 2012ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وزیراعظم برطانیہ کو اپنی ان امن عالم کی کوششوں کے سلسلہ میں ایک خط تحریر فرمایا، آپ کے خط سے ایک اقتباس ذیل میں پیش خدمت ہے۔

ترجمہ: جو بات زیادہ تشویش کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ بعض چھوٹے ممالک کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں اور اندیشہ ہے کہ وہ کہیں بٹن دبانے کے شوق میں نتائج سے نا بلد ہونے کی وجہ سے کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں۔ اگر بڑی طاقتیں انصاف سے کام نہیں لیتیں اور چھوٹے ملکوں کے مسائل کو حل نہیں کرتیں اور وہ اعلیٰ اور عقلمندانہ پالیسیاں مرتب نہیں کرتیں تو ایسے میں حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور جو تباہی اس کے بعدآئے گی وہ ہمارے اندازوں اور تصورات سے بہت زیادہ ہو گی۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ جو امن کا خواہاں ہے وہ بھی اس بربادی سے بچ نہ سکے گا۔ لہٰذا یہ میری دلی خواہش اور دعا ہے کہ آپ اور دنیا کے تمام بڑے ممالک کے سربراہان اس خوفناک حقیقت کو سمجھیں اور بجائے اس کے کہ جارحانہ رویے اپنائے جائیں اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے طاقت کا استعمال کیا جائے ضروری ہے کہ ایسے اقدام کئے جائیں جس سے انصاف کو تحفظ اور ترقی ملے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 235, 236)

موٴرخہ 15؍اپریل 2012ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمن چانسلر انجیلا مرکِل کو ایک خط میں امن عالم پر منڈلاتے ہوئے ایٹمی خطرات کی بابت آگاہ فرمایا اور اس سلسلہ میں سنجیدگی سے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ خط میں سے ایک حصہ کا اردو مفہوم ذیل میں نقل کیا جارہا ہے۔

یہ میرا یقین ہے کہ عالمی امن کے قیام کے لئے حقیقی انصاف کا قیام ضروری ہے اسی طرح تمام مذاہب کی عبادت کے طریق کو عزت کی نظر سے دیکھا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ بہت سے مغربی ممالک نے بہت فراخ دلی کے ساتھ غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگوں کو اپنے ملک میں بس جانے کی اجازت دی ہوئی ہے اور ان لوگوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ بلاشبہ نام نہاد مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد اپنے رویوں سے مغربی ممالک کے باشندوں کے دلوں میں بے اعتمادی پیدا کر رہی ہے۔ بہر حال یہ بات طے ہے کہ ان کے رویوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ انتہا پسند لوگ دراصل محمدﷺ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے جو امن، باہمی رواداری اور محبت کا پیغام لے کر آئے تھے اس طرح سے مٹھی بھر لوگ جو خود گمراہ ہیں ان کو بنیاد بنا کر مخلص اور معصوم مسلمانوں کے مذہب اور جذبات کوٹھیس نہ پہنچائی جائے۔معاشرہ میں امن دو طرفہ عمل ہے اور اس کا نفاذ باہمی رواداری سے ہی ہو سکتا ہے۔ مغرب کے لوگوں کے دلوں میں جو بھروسہ کا فقدان ہے اس کے باعث تعلقات بہتر ہونے کی بجائے روزبروز خراب ہو رہے ہیں اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE Page 239- 240)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امن عالم پر منڈلاتے ہوئے ایٹمی جنگ کے خطرات کے سدِ باب کی خاطر سربراہانِ مملکت کے سا تھ جاری اپنے سلسلہٴ خط و کتابت میں موٴرخہ 16؍مئی 2012ء کو جمہوریہ فرانس کے صدر مملکت کو ایک خط تحریر فرمایا۔ اس خط کےایک حصہ کا اردو مفہوم ذیل میں پیش خدمت ہے:

یہ میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو ایک دشمنی کا ماحول اور اعتماد کا فقدان ہے اس کو دور کرنے کے لئے ہر وہ کوشش کریں جو آپ اپنے اس منصب اور حیثیت کی وساطت سے کر سکتے ہیں۔ کچھ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعلیمات اور رسم و رواج سے متعلق بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں اور ان ممالک نے بہت سی قدغنیں اسی سلسلہ میں لگائی ہیں اور بعض دوسرے ممالک اُن کی تقلید کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔بعض انتہا پسند نام نہاد مسلمان جو پہلے ہی سے مغرب کے بارہ میں مخاصمت کا شکار ہیں وہ یورپی ممالک کے رویے کے رد عمل کے طور پر کوئی بھی نا پسندیدہ قدم اُٹھا سکتے ہیں اور اس طرح سے باہمی رواداری اور دوستانہ ماحول کو نقصان پہنچے گا۔ امر واقع یہ ہے کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے جو بالکل یہ تعلیم نہیں دیتا کہ برائی کو برائی سے روکا جائے ہم افراد جماعت مسلمہ احمدیہ اس اصول پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارے مطابق ہر ایک معاملہ کا پر امن حل تلاش کیا جانا چاہئے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 243, 244)

اپریل 2012ء کو حضور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ملکہ برطانیہ کو ان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع کی مناسبت سے ایک مراسلہ رقم فرمایا جس میں دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے اوپر منڈلانے والے ایٹمی جنگ کے خطرات سے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کیا اور ان کی حتی الوسع روک تھام کی خاطر اُن کو اپنی موجودہ حیثیت میں اعلیٰ سے اعلیٰ تر اقدام کرنے اور اس خطرہ سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ذیل میں اُس تحریر کے بعض حصوں کا اردو مفہوم درج ذیل ہے:

دعا ہے کہ اس پر امن ماحول کی بدولت اس عظیم مملکت کے تمام شہری خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے بن جائیں اور باہمی محبت اور ہمدردی کے ماحول میں زندگی گزاریں۔ قطع نظر رنگ، نسل، قومیت یا مذہب ایسا ہو کہ برطانیہ کے تمام شہری ایک دوسرے کے لئے عزت اور تکریم کا مظاہرہ اس حد تک کریں کہ اس کے مثبت اثرات ان سرحدوں سے باہر نکل کر دنیا کے دوسرے ممالک کے عوام تک بھی پھیل جائیں۔ دعا ہے کہ دنیا جس کا ایک بڑا حصہ اس وقت جنگی حالات، پریشانیوں اور باہمی چپقلش سے دوچار ہے امن،محبت، بھائی چارہ اور دوستانہ ماحول کی جنت بن جائے۔ مجھے بخوبی یقین ہے کہ ملکہ معظمہ کی بصیرت اور کوششوں سے یہ ہمہ جہت مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں جن میں لکھوکھا جانیں ضائع ہوئیں۔ آج بھی اگر مختلف قوموں کے ما بین اختلافات اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو ایک تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک ممکنہ خطرہ کہ اس جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوں گے دنیا کی ایک ناقابل بیان اور ہولناک تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پرہیبت تباہی سے بچائے اور اللہ کرے کہ دنیا کے باسی احساس ذمہ داری اور عقل سے کام لیں۔ یہ میری ملکہ معظمہ سے عرض ہے کہ اس ڈائیمنڈ جوبلی کی تقریبات سے دنیا کے چھوٹے بڑےممالک کو پیغام جانا چاہئے کہ ہم سب کو باہمی اتفاق، امن اور محبت سے رہنا چاہئے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 249, 250)

مئی 2012ء کو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک مراسلہ جناب رہبرِ معظم ایران کی خدمت میں ارسال فرمایا اور امن عالم کے استحکام اور ممکنہ ایٹمی جنگ کو روکنے کے لئے ہر ایک ممکنہ کوشش جو اس سلسلہ میں کی جا سکتی ہے اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ذیل میں اس تحریر سے چند سطورکا اردو مفہوم پیش ہے:

یہ خط میں آپ کو تحریر کر رہا ہوں اپنی اس حیثیت میں کہ میں (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی) مسیح موعودؑ اور مہدی موعودؑ کو ماننے والا ہوں اور اس وقت میں ان کا جانشین اور خلیفہ ہوں جن کی تشریف آوری کی بابت حضرت محمد رسول اللہﷺ نے خبر دی تھی۔ جس جماعت کی انہوں نے بنیاد رکھی، جماعت احمدیہ مسلمہ کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس وقت دنیا کے 200 (دو صد) ممالک میں پھیل چکی ہے اور پوری دنیا میں کئی ملین پیروکار موجود ہیں۔ ہماری یہ اولین خواہش ہے کہ دنیا میں امن اور محبت قائم ہو جائے۔ اس مقصد کی تکمیل میں میں دنیا کے ہر طبقۂ فکر کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا رہتا ہوں۔ حال ہی میں میں نے وزیر اعظم اسرائیل، امریکن صدر اور دیگر سربراہان کو خطوط ارسال کئے اسی طرح سولھویں پوپ کو بھی اس ضمن میں خط تحریر کیا۔

آپ ایک عظیم اسلامی مملکت کے مذہبی رہنما ہیں، میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مسلم اُمہ متحد ہو جائے اور دنیا میں امن قائم کیا جا سکے۔ ہمیں معمولی رنجشوں، جھگڑوں اور دشمنیوں کو چھوڑ کر امن قائم کرنے کے لئے مواقع تلاش کرنے چاہئیں اور یہ کہ کوئی دشمنی یا مخالفت اس کا باعث نہ بنے کہ ہم انصاف کا دامن چھوڑ دیں یہی تعلیم ہے جو سورۃ المائدہ آیت 9 میں ارشاد فرمائی گئی۔ (ترجمہ) اے ایمان والو تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لئے استادہ ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کرو۔وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقینا اس سے آگاہ ہے۔ دعا ہے کہ تمام مسلم امہ اور تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں کو میرے پیغام کو سمجھنے اور اپنی اپنی حیثیت میں عالمی امن قائم کرنے کے لئے کوششیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 255, 256)

جان ایف کینیڈی نے کہا تھا انسانوں کو جنگ کو لازما ًختم کرنا ہو گا اس سے قبل کہ جنگ انسانوں کو ختم کردے برانون سردا ایک فٹبالر تھا جنگ عظیم اول میں اسے کو فٹ بال کو خیر باد کہہ کر جنگ میں عملی طور پر شامل ہونا پڑا اس کے باپ دانیال کا تعلق بارباڈوس سے تھا اور اس کی والدہ ایلس کا تعلق فوکسٹون سے تھا۔ وہ واحد سیاہ فام افریقی آفیسر تھا جو سفید فام سپاہیوں کو کمان کر رہا تھا جنگ کے بارے میں جو آئندہ ہو سکتی ہے۔ اس کا قول ہے کہ:

The next war undoubtedly will bring about an unprecedented number of deaths. Let history be a teacher so that we can avoid committing the same mistakes, and put an end to conflict once for all.

جنرل کولن پاؤل نے 1993ء میں کہا تھا:

The one that scares me to death, perhaps even more so than tactical weapons, and the one we have the least capability against is biological weapons.

امریکی صدر کلنٹن نے 1993ء میں کہا تھا:

If we do not stem the proliferation of world’s deadliest weapon, no democracy can feel secure…. one of our most urgent priorities must be attacking the proliferation of weapons of mass destruction, whether they are nuclear, chemical, or biological.

(بشکریہ: Bio Terrorism)

جنوری 1958ء کو نو ہزار دو سو پینتیس(9235) سائنسدانوں نے جن میں سے سینتیس نوبل انعام یافتہ تھے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو ایک پٹیشن پیش کی جس میں کہا گیا کہ دنیا کے تمام ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق تجربات نہیں کریں گے۔ مزید اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ پابندی تمام ممالک پر یکساں ہو گی کوئی استثناء کسی کو حاصل نہ ہو گا۔

(No More Wars page 165)

جنوری 1958ء کو ایک معروف سائنسدان اور اس کتاب کے مصنف نے بڑے درد دل سے اپیل کی کہ اس وقت بہت مناسب وقت ہے کہ تین ممالک امریکہ روس اور برطانیہ کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور اگر یہ اپنے ہتھیار تلف کردیں اور آئندہ نہ خود نہ کسی دوسرے کو ان ایٹمی تجربات کی اجازت دیں تو یہ اس دنیا کے لئے بہت بڑا تحفہ ہو گا۔

(No More Wars page 179)

(سید انور احمد شاہ۔بُرکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

لجنہ اماءاللہ پریری ریجن کے تحت سالانہ تعلیم و تربیت کیمپ2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 فروری 2023