• 19 مئی, 2024

رمضان میں روحانی تولید

اسلام میں بہت سے امور میں مادی اور روحانی نظام کی مثالیں دے کر مذہبی امور کی وضاحت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ جیسے پانی مادی روئیدگی کا موجب بنتا ہے۔ اسی طرح روحانی پانی مومنوں کی روحانی، اخلاقی روئیدگی اور سرسبزی کے لئے اللہ تعالیٰ مومنوں پر اُتارتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت رمضان کے مہینہ کی ہے۔

جس طرح اللہ نے دنیا میں پیدائش انسانی کے لئے ایک مکمل نظام وضع کر رکھا ہے۔ مادہ تولید کے بعد مختلف مراحل میں سے گزرتا ہوا ایک بچہ مکمل ہو کر نوماہ میں پیدا ہوتا ہے جو دنیا کی تمام آلائشوں، گندگیوں اور برائیوں سے پاک و صاف ہوتا ہے. اسی لئے آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ بچہ فطرت انسانی پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی، صابی،نصرانی یا مسلمان بناتے ہیں۔

بعینہٖ رمضان، اسلامی کیلنڈر ہجری قمری کا نواں مہینہ ہے جس میں ایک مومن اپنی روحانی تکمیل کرتا ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں ایسے نیک اعمال بجالاؤ کہ تم اس کے اختتام پر نومولود بچے کی طرح پاک صاف ہو کر نکلو جو تمام آلائشوں، گندگیوں سے پاک ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ 19۔اکتوبر 1906ء میں اس اعلیٰ نکتہ کو یوں بیان فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:۔

’’اس میں ایک عجیب سرّ یہ ہے کہ یہ مہینہ آغاز سن ہجری سے نواں مہینہ ہے یعنی 1۔محرم 2۔ صفر 3۔ربیع الاول 4۔ ربیع الثانی 5۔جمادی الاول 6۔جمادی الثانی 7۔ رجب 8۔ شعبان 9۔رمضان اور یہ ظاہر ہے کہ انسان کی تکمیل جسمانی شکم مادر میں نو ماہ میں ہی ہوتی ہے اور عدد نو کا ، فی نفسہٖ بھی ایک ایسا کامل عدد ہے کہ باقی اعداد اس کے احادسے مرکب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لاغیر ۔ اس میں اشارہ اس امر کی طرف ہوا کہ انسان کی روحانی تکمیل بھی اسی نویں مہینے رمضان ہی میں ہونی چاہئے اور وہ بھی اس تدریج کے ساتھ کہ آغاز شہود ہجری سے ہر ایک ماہ میں ایام بیض وغیرہ کے روزے رکھنے سے بتدر یج تصفیہ قلب حاصل ہوتارہا‘‘

(خطبات نور ص232،231)

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی برائیاں ہیں جن کو ترک کر کے ہم نومولود بچے کی طرح اپنی پیدائش کرسکتے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد ؓنے ایک دفعہ روزنامہ الفضل کے ایک مضمون کے ذریعہ 56 بدیوں کا ذکر کیا تھا۔ جن میں سے چند ایک برائیوں اور بدیوں کی نشاندہی اس ارادہ سے کی جارہی ہے کہ رمضان میں ہم انہیں ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔

  • فرض نماز میں سستی۔
  • نماز باجماعت میں سستی۔
  • تہجد کی نماز میں سستی۔
  • روزہ رکھنے میں سستی، بغیر واجبی عذر کے یونہی کسی بہانے پر روزہ ترک کر دینا۔ جوروزےکسی عذر پر چھوڑے جائیں بعد میں ان کو پورا کرنے یا فدیہ دینے میں سستی۔
  • صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوۃ ادا کرنے میں سستی۔
  • جماعت کے چندوں کو باقاعدہ برقت ادا کرنے میں سستی۔
  • اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے اور اپنے ساتھ مسجد میں لانے کی سستی۔
  • جھوٹ بولنا۔
  • دوسروں پر جھوٹے افتراء باندھنا۔
  • بدنظری۔
  • دینی پردہ کی حدود کو توڑنا۔
  • ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری میں سستی۔
  • بیوی کے ساتھ بدسلوکی اور سختی سے پیش آنا یا عورت کی صورت میں خاوند کے ساتھ بدسلوکی اور تمرد سے پیش آنا اور خاوند کی خدمت میں سستی کرنا۔
  • حقہ یا سگریٹ نوشی کا استعمال۔
  • یتامیٰ کے مال میں خیانت یا بےجا تصرف کرنا۔
  • یتیموں کی پرورش میں سستی یا بے احتیاطی کرنا۔
  • کھانے پینے میں اسراف۔
  • بدظنی کی عادت یعنی دوسرے کے ہر فعل کی تہہ میں کسی خاص خراب نیت کی جستجو رکھنا۔
  • ان (چند کمزوریوں) میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد کمزوری مدنظر رکھ کر ان کے متعلق اس رمضان کے مہینہ میں اپنے دل میں عہد کیا جائے کہ آئندہ خواہ کچھ ہو ہر حال میں ان سے کلی اجتناب کیا جائے گا اور پھر اس عہد پر دوست اسی پختگی اور ایسے عزم کے ساتھ قائم ہوں کہ خدا کے فضل سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس عزم سے ہلانہ سکے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

افریقہ کورونا وائرس ڈائری نمبر 5، 21 ۔اپریل 2020